پنجاب کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا خوبصورت ڈرامہ چل رہا
ہے مسلم لیگ ن نے ایک بار پھر خط پیش کرکے بیوقوف بنانے کی کوشش کی ہے اس
سے قبل بھی ن لیگ کو ہمیشہ خط ہی بچاتے رہے ہیں خواہ وہ قطری خط ہو،امریکی
ہو یا گجراتی خط مگر اس بار چکر دینا مشکل ہوگا کیونکہ عوام باشعور ہے
عدلیہ دیکھ رہی ہے اور اب دھاندلی کی کوئی گنجائش نہیں ہے آنے والے دنوں
میں بہت کچھ ہونے جارہا ہے آصف علی زرداری کی سربراہی میں پیپلز پارٹی
پنجاب سے ختم ہو چکی ہے ن لیگ کا بھی برا حال کردیا ہے اور زرداری کے
ہاتھوں ہی چوہدری شجاعت نے ق لیگ کو بھی دفن کریا اب وہ دور تو گذر گیا جب
لوگوں کو تقریروں کے زریعے بیوقوف بنایا جاتا تھا اب سوشل میڈیا کا دور ہے
اخبارات اور ٹی وی بھی لوگ پڑھتے ہیں اور نہ ہی دیکھتے ہیں میاں نواز شریف
اور زرداری پیسے کے زور پر اراکین کو خرید سکتے ہیں سیاسی منڈیاں سجا سکتے
ہیں مگر لوگوں کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتے اب پوری قوم سمجھ چکی ہے
کہ لوٹوں اور نوٹوں سے بننے والی حکومتیں عوام اور ملک کیلئے کوئی بہتری
نہیں لا سکتیں، سیاستدان اور ادارے تاریخ سے سبق سیکھیں، عوام سے اب کچھ
چھپا نہیں سکتے، تین ماہ کی نورا کشتی نے سیاسی نظام کے بدنما چہرے کو بے
نقاب کر دیا ہے، سینٹ الیکشن سمیت پورا نظام انتخاب دولت، دھونس اور
دھاندلی پر چل رہا ہے اس سے کسی جمہوریت اور حکومت میں بہتری نہیں آ سکتی
حقیقی جمہوریت اور قانون اور اخلاقیات کی پاسداری کیلئے وکلاء، میڈیا اور
نوجوان آگے آئیں جمہوریت کے باقی ستون اگر غیر قانونی ہتھکنڈوں میں مصروف
ہیں تو یہ وکلاء اور میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ جمہوریت کیلئے میدان میں
نکلیں، نوجوان حب الوطنی کے جذبے سے تحریک کی صورت آگے بڑھیں تاکہ ان کا
محاسبہ کیا جا سکے میوزیکل چیئر کا کھیل ختم کرکے ایک دوسرے کو برداشت کریں
اس رسہ کشی نے چاروں صوبوں میں عوام کیلئے مشکلات میں اضافہ کیا ہے دنیا
معاشی بہتری کیلئے صف بندی کر رہی ہے اور ہم آپس کے جھگڑوں میں الجھے ہوئے
ہیں یہ دانش مندی نہیں بلکہ تباہی کا راستہ ہے جبکہ لوٹے نوٹوں کے زور پر
اپنی وفاداریاں بیچ کر سمجھتے ہیں کہ انہوں نے عوام کو بیوقوف بنا دیا تو
یہ انکی خام خیالی ہے بولیاں لگنا سیاستدانوں کیلئے باعث شرمندگی ہے مگر وہ
سمجھتے نہیں ضمنی الیکشن میں جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہیں 16اپریل اور
25مئی کو جو کچھ ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہیں اور اب 22جولائی کو جو ہوا وہ
بھی سب کے سامنے ہے اس وقت پنجاب کے مستقبل کا فیصلہ معاملہ سپریم کورٹ میں
ہے اور معزز جج صاحبان سب کچھ دیکھ رہے ہیں ضمنی الیکشن میں جو رزلٹ آیا وہ
بھی اسٹیبلشمنٹ کے لیے نوشتہ دیوار ہے ایک بات اب ثابت ہو چکی ہے کہ جو بھی
اسٹیبلشمنٹ کے لیے بیساکھی بنے گا وہ عوام کے دل سے اتر جائیگاغور طلب بات
یہ ہے کہ پی ٹی آئی جب تک اقتدار میں تھی نہایت برے طریقے سے تقریباً سارے
ضمنی انتخاب ہارتی رہی اور ن لیگ جو کہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ کیساتھ تھی
وہ جیتتی رہی اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ نے جب ن لیگ و دیگر
جماعتوں کو راضی کرکے حلالہ کرلیا تو خان صاحب سڑکوں پر آ گئے اور عوام کو
بتایا کہ سب سے غلط اسٹیبلشمنٹ ہے اگر آپ ماضی میں جھانک کر دیکھیں تو
معلوم ہوگا کہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کے کیس میں بھی اسٹیبلشمنٹ کو نو کہا
گیا تھا اور عوام عدلیہ کے ساتھ کھڑی ہو گی ق لیگ اور ایم کیو ایم کے علاوہ
دیگر جماعتوں نے بشمول پی ٹی آئی کے مشرف کے خلاف کھڑی ہوگئی وہ موقع تھا
جب واضح طور پر عوام اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھڑے نظر آئے اسی طرح عوام اپنے
غصے کا اظہار کرتے رہے رہی بات حمزہ شہباز شریف کی وہ اتنا کچھ کرنے کے
باوجود بھی منتخب وزیر اعلی نہ بن سکے بلکہ عدالت نے انہیں عبوری وزیر اعلی
بنا دیا یہ پیسے کا کھیل ہے کہ ایسا شخص جو مقابلے کے امتحان میں پاس ہو کر
سرکاری افسر نہ بن سکتا ہو وہ پنجاب کا وزیر اعلی بن جائے اب ساری عمر انکے
نام کے ساتھ وزیر اعلی کا لفظ نتھی ہو گیا بے شک سابق ہی ہوں حمزہ شہبازنے
وزیر اعلی پنجاب بنتے ہی شریف خاندان نے کئی منفرد ریکارڈ بنا ڈالے جب کہ
یہ پہلا موقع ہے جب باپ وزیر اعظم اور بیٹا وزیر اعلی ہے حمزہ شہباز کے
وزیر اعلیٰ بننے کے بعد ایک ہی خاندان سے تین وزرائے اعلی منتخب ہونے کا
منفرد اعزازبھی حاصل ہو گیا حمزہ شہباز نے اپنے والد کے بعد وزیر اعلی
منتخب ہو کرمنفرد اعزاز حاصل کیا جبکہ ان کے تایا نواز شریف بھی پنجاب کے
وزیر اعلی رہ چکے ہیں حمزہ شہباز نے ایک ہی دور میں دو بار وزارت اعلی کا
حلف بھی اٹھایا حمزہ شہباز کا کالج کے زمانے سے ہی جیل یاترا کرچکے ہیں
1999میں باقاعدہ سیاست میں آئے حمزہ شہباز 6ستمبر 1974کو لاہور میں پیدا
ہوئے 1994میں جب مسلم لیگ کی حکومت ختم ہوئی تو وہ گورنمنٹ کالج میں بی اے
کے طالب علم تھے۔2008میں صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑا اور پھر قومی اسمبلی
کا ضمنی انتخاب جیتا، 2013میں دوبارہ قومی اسمبلی کا انتخاب لڑے اور ایوان
میں پہنچے۔2018میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے بیک وقت رکن منتخب ہوئے لیکن
صوبائی اسمبلی کی سیٹ رکھی اور اپوزیشن لیڈر نامزد ہوئے، 2019مئی میں پارٹی
کے مرکزی نائب صدر بنے اور پھرحمزہ شہباز پنجاب کے21ویں وزیر اعلی منتخب
ہوئے ہیں۔1947کے بعد پنجاب میں اب تک 19وزیر اعلی منتخب ہو چکے جبکہ5نگران
وزیر اعلیٰ بھی رہے منتخب ہونے والوں میں نواب افتخار ممدوٹ ، ممتاز
دولتانہ، فیروز خان نون، عبد الحمید دستی، ملک معراج خالد،غلام مصطفی
کھر،حنیف رامے،صادق حسین قریشی، نواز شریف، غلام حیدر وائیں، منظور وٹو،
عارف نکئی، شہباز شریف، پرویز الہی، دوست کھوسہ اور عثمان بزدار شامل ہیں
جبکہ نگران وزرائے اعلی میں نجم سیٹھی ،شیخ منظور الہی،میاں افضل حیات،شیخ
اعجاز نثار اورحسن عسکری رضوی شامل ہیں۔
|