اترپردیش میں صوبائی انتخاب سے قبل یوگی اور شاہ کے بیچ
ایک زور آزمائی ہوئی۔ اسی زمانے میں کانگریس سے نکل کر سابق مرکزی وزیر
جتن پرساد امیت شاہ اور جے پی نڈا کی موجودگی میں بی جے پی کے اندر آگئے۔
یہ کام لکھنو کے بجائے دہلی کے میں ہوا اور یوگی کو اس سے دور رکھا گیا ۔
اس کے فوراً بعد ان کو قانون ساز کونسل کا رکن منتخب کرکے تکنیکی تعلیم کی
وزارت بھی سونپی گئی ۔ اس طرح کا نگریس کا ایک نو وارد یوگی کی کابینہ کا
وزیر بن گیا۔ انتخاب سے قریب اکھلیش یادو کےچیلنج نےیوگی اور شاہ کو
مجبوراًمتحد کردیا ۔یوگی کی دوسری مدت کار میں جتن پرشاد کی ترقی ہوگئی اور
انہیں پی ڈبلیوڈی کا اہم قلمدان سونپ دیا گیا لیکن چار ماہ کے اندر ان کی
وزیر اعلیٰ سے ٹھن گئی اور وہ ناراض ہوگئے۔ دنیش ٹھاکر کے برعکس برہمن
کابینی وزیر جتن پرساد نے اپنے محکمہ پی ڈبلیو ڈی میں کیے گئے تبادلوں سے
ناراضی کا اظہار نہایت مکاری کے ساتھ کیا۔ جتن پرساد نے یوپی کے وزیر اعلیٰ
کی قیادت میں لوگوں کی امنگوں کو پورا کرنے کے عزم کا اظہار کیا ۔ ٹرانسفر
سے متعلق وہ بولے، اگر کوئی اختلاف ہے تو تبدیلیاں کی جاتی ہیں۔ زیرو
ٹالرنس (صفر برداشت )کی پالیسی کے تحت بدعنوانی کے خلاف کارروائی جاری رہے
گی لیکن اسی کے ساتھ یوگی کے خلاف دہلی جاکر امیت شاہ سے ملنے کی تیاری میں
جٹ گئے۔
بدعنوانی کے حوالے سے جس عدم برداشت کا دعویٰ جتن پرساد نے کیا اس کی حقیقت
یہ ہے کہ خود ان کے محکمہ تعمیرات عامہ کے اندر تبادلوں میں کئی بڑی بے
ضابطگیاں سامنے آئی ہیں ۔ یہ معاملہ جب حد سے بڑھ کر ناقابلِ برداشت ہوگیا
تو مجبوراً وزیر اعلیٰ کو ایک کمیٹی بنا کر اس کی جانچ شروع کروانی پڑی ۔
جتن پرساد کے منظورِ نظر آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی (او ایس ڈی) انل کمار
پانڈے کا تبادلہ کر کے انہیں واپس دہلی بھیج دیا گیا حالانکہ یہ لیپا پوتی
کی کارروائی ہےکیونکہ ایک جانچ میں او ایس ڈی انل کمار پانڈے کو محکمہ میں
تبادلوں میں بے ضابطگی کے لیے سیدھے طور پر ذمہ دار پایا گیا ہے۔ یوگی
سرکار اگر حقیقت میں بدعنوانی کے خلاف ہوتی تو جتن پرساد اور انل پانڈے کو
برخواست کرکے جیل میں بھیجا جا تا لیکن ان دو نوں کو بچا کر پانچ افسران
کوبے ضابطگی اور بدعنوانی کا الزام میں معطل کرنا مگر مچھ کو چھوڑ کر چھوٹی
مچھلیوں پر نزلہ اتارنے جیسا ہے۔ یوگی کی اس نرم کارروائی سے بھی جتن پرساد
افسردہ ہو گئے ہیں ۔ جتن پرساد کی ناراضی بجا ہے ۔ وہ پچھلے سال کانگریس
چھوڑ کر بی جے پی میں آئے تو سنگھ کی شاکھا سے آنے والے دلت کووزیر مملکت
اور کانگریس کے در آمد شدہ برہمن کو کابینی وزیر بنایا گیا ۔ یہ ہے بی جے
پی کو موقع پرستی اور اس پر سنگھ کے اثرات۔
جتن پرساد کانگریس چھوڑ کر ہندوتوا کا بھجن کرنے کے لیے بی جے پی میں نہیں
آئے بلکہ ان کا مقصد پیسے کماناتھا ۔ اسی لیے ان کودوسری مرتبہ تکنیکی
تعلیم کی وزارت کے بجائے پی ڈبلیو ڈی جیسا محکمہ دیا گیا جہاں روپیوں کی
خوب ریل پیل ہوتی ہے۔ اس محکمہ میں ٹھیکیداروں اور بلڈروں سے رشوت لینے کے
علاوہ ٹرانسفر کے ذریعہ بھی خوب چاندی کاٹی جاتی ہے۔ جتن پرساد کانگریس کی
مرکزی حکومت میں تیل اور گیس جیسے اہم قلمدانوں کے ساتھ وزیر تھے ۔ اس وقت
سے ان کے دفتر میں انل کمار پانڈے افسر ہوا کرتے تھے یعنی ان کے لین دین کا
کام سنبھالتے تھے ۔ جتن پرساد جب اترپردیش میں وزیر بنے تو انل کمار پانڈے
نے بھی دور اندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے یوپی میں تبادلہ طلب کیا ۔ مرکزی
حکومت کو اس پر کیا اعتراض ہوسکتا تھا اس لیے وہ لکھنو بھیج دیئے گئے ۔ پی
ڈبلیو ڈی کا قلمدان سنبھالنے کے بعد جتن پرساد نے اپنے وفادار سپاہی کا
تبادلہ کروا کر اپنی وزارت میں بلوا لیا اور پھر کیا تھا چار مہینوں نے
اندر 200 سے زیادہ تبادلے کیے گئے خوب روپیہ بٹورا گیا ۔ اس پر جب ہنگامہ
ہوا تو نہ کھاوں گا نہ کھانے دوں گا کا نعرہ لگانے والوں نے ان دونوں میں
سے کسی کو گرفتار کرکے جیل بھیجنے کی جرأت کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ پانچ نچلے
درجہ کے افسران کو معطل کیا گیا جو بیچارے اپنے اعلیٰ افسر کے احکامات بجا
لانے کے لیے مجبورِ محض تھے ۔ ان کے آقا انل کمار پانڈے کا صرف تبادلہ کیا
گیا اور جتن پرساد کا تو بال بھی بیکا نہیں ہوا۔ جتن پرساد اگر کانگریس میں
رہتے ہوئے یہ حرکت کرتے تو سی بی آئی سے لے کر ای ڈی تک سب ان کے پیچھے پڑ
کر انہیں انل دیشمکھ یا نواب ملک کی طرح جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچا
دیتے۔ اسے کہتے ہیں اپنوں کا ساتھ اپنوں کا وکاس اور دوسروں کا وناش ۔
جتن پرساد سے قبل نائب وزیر اعلیٰ برجیش پاٹھک نے اپنے محکمہ صحت و طبی
تعلیم میں تبادلوں پراز خود سوال اٹھا کر یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کی
شرمندگی کا سامان کیا۔ برجیش پاٹھک کو اگر اپنے محکمہ کے اعلیٰ افسران سے
شکایت تھی تو وہ انہیں دفتر میں بلا کر ڈانٹ ڈپٹ کرسکتے تھے اور وضاحت طلب
کرنے کے بعد یاتو معافی تلافی ہوجاتی یا کوئی تادیبی کارروائی کی جاتی لیکن
انہوں اس مہذب طریقہ کو اپنانے کے بجائے خط لکھ کر جواب مانگا اور اسے
ذرائع ابلاغ تک پہنچا دیا ۔ برجیش پاٹھک کی اس حرکت سےان کے اور محکمہ صحت
میں اے سی ایس امت موہن پرساد کے درمیان تلخی پیدا ہوگئی۔ یہ تنازع منظر
عام پر ا ٓیا تو وزیر اعلیٰ یوگی نے اس پر جانچ کا حکم دے دیا ۔ یوگی جیسے
حکمراں کو جب کوئی ٹھوس اقدام کرنا ہوتو وہ بلڈوزر بھیجتا ہے اور جب ٹال
مٹول کرنا ہو تو تفتیش کی کمیٹی بنا ئی جاتی ہے ۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے یہی
کیا ساتھ ہی اپنے سبھی وزراء کو فائلوں پر دستخط کرنے سے پہلے ٹھیک سے
پڑھنے کی ہدایت دے ڈالی ۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ وزراء آنکھ موند کر دستخط
کرتے ہیں۔ یہ بات باعثِ شرم ہے۔
یوگی ادیتیہ ناتھ کی پہلی مدت کار میں سرکار کی شبیہ ٹھاکر راج کی بن گئی
تھی ۔ اس میں دلت اور برہمن دونوں ناراض تھے اس لیے دوسری مرتبہ اسے
سدھارنے کی خاطر کابینہ میں 6؍ٹھاکروں کے مقابلے برہمن سماج کے 8 ؍ارکان
اسمبلی کو وزیر بنایا گیا۔ان میں سب اہم عہدے برجیش پاٹھک اور جتن پرساد کو
دئیے گئے ۔ ان کے علاوہ یوگیندر اپادھیائے، دیاشنکر مشرا دیالو، پرتیبھا
شکلا، رجنی تیواری، اروند کمار شرمااور ستیش شرما (بھومی ہار برہمن) کو
معمولی وزارتیں دے کر ٹرخا دیا گیا ۔یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ جتن پرساد
صرف ایک سال قبل کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں داخل ہوئے لیکن ان کے علاوہ
برجیش پاٹھک بھی بی ایس پی سے بی جے پی میں آکر نائب وزیر اعلیٰ بن گئے ۔
اس سے سنگھ کی شاکھا میں اپنی زندگی برباد کرنے کے بعد بی جے پی میں کام
کرنے والے برہمن پریشان ہیں لیکن سچائی یہ ہے کہ آر ایس ایس کی تربیت
مقبول اور دبنگ رہنما پیدا کرنے میں مانع ہے۔
اس کی تازہ مثال اترپردیش کے سابق نائب وزیر اعلی ڈاکٹر دنیش شرما ہیں ۔ ان
کی نااہلی کا یہ عالم ہے کہ وہ پہلے تو الیکشن لڑے بغیر قانون ساز کونسل کے
راستے سے وزیر بنے اور پھرانتخاب کے وقت ان کا ٹکٹ کا ٹ دیا گیا کیونکہ بی
جے پی کو ان کی ہار کایقین تھا ۔ انہوں نے ایک عوامی خطاب میں کہا تھا کہ
زمانہ قدیم میں بھی ہندوستان کے اندر ٹیکنالوجی موجود تھی۔ سابق نائب وزیر
اعلی کے مطابق ہستناپور کے محل میں بیٹھ کرسنجے کا کروکشیتر میں لڑی جانے
والی مہابھارت کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرنا میڈیا کا لائیو ٹیلی کاسٹ
تھا ۔ رام جی کے وقت میں "پشپک طیارہ "ہوا کرتا تھا ، جس پر سوار ہو کر وہ
لنکا سے ایودھیا پہنچے تھے حالانکہ اس عقلمند کو یہ تک نہیں معلوم کہ راون
پشپک پر سوار ہوکر لنکا سے آیا تھا اور سیتا کو اغوا کرکے اپنے ساتھ لے
گیا۔
ڈاکٹر دنیش شرمانے سیتا جی کی پیدائش کا ذکرکرکے کہاتھا کہ راجہ جنک جی کے
ہل چلانے پر زمین سے ایک گھڑا نکلا اور اس میں سے سیتا جی نکلیں۔ وہ کہیں
نہ کہیں ٹیسٹ ٹیوب بے بی جیسی ٹیکنالوجی رہی ہوگی۔نائب وزیر اعلیٰ نے یہ
بھی نہیں سوچا کہ آج کل کی گاوں کا پردھان بھی ہل نہیں چلاتا تو راجہ جنک
یہ مشقت کیوں کرتے تھے ؟ دنیش شرما نے دعوی کیا تھا کہ موتیا بند کا
آپریشن ، پلاسٹک سرجری ، نیوکلیائی تجربہ اور انٹرنیٹ جیسی تمام جدید
تبدیلیاں زمانہ قدیم سے ہی شروع ہوگئی تھیں ۔ سنگھ پریوار میں تربیت پاکر
ایسے لوگ نائب وزیر بن جائیں تو وہ کیا قیادت فراہم کریں گے اس لیے لامحالہ
بی جے پی کو کانگریس اور بی ایس پی سے برہمنوں کو درآمد کرکے اہم عہدوں پر
فائز کرنا پڑتا ہے۔ یوگی ادیتیہ ناتھ کی تربیت بھی سنگھ کی شاکھا میں نہیں
بلکہ اویدیہ ناتھ کے گورکھ ناتھ مندر میں ہوئی ہے۔ یوگی کابینہ میں دلت
برادری کےدنیش کھٹک استعفیٰ دے کر واپس لے چکے ہیں ۔ دو اہم برہمن وزراء
ناراض ہیں ۔ایک راجپوت کے خلاف دلت اور برہمن کی ناراضی کا فائدہ دہلی میں
بیٹھا بنیا کیسے اٹھاتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا ؟
|