امریکی صدر جوبائیڈن سے حال ہی میں پوچھا گیا کہ کیا
انہیں افغانستان سے تمام امریکی فوجیوں کے انخلا کے اپنے فیصلے پر کوئی
پچھتاوا ہے۔ اس نے جواب دیا کہ نہیں۔ عیدین کے موقع پر افغان طالبان اور
کابل انتظامییہ کی جانب سے غیر اعلانیہ جنگ بندی یہ مطالبہ بھی سامنے آیا
تھا کہ غیر ملکی افواج اافغانستان سے نکل جانے کے بعد اب کابل انتظامیہ و
افغان طالبان کو مملکت کے نظام و انصرام پر اتفاق رائے پیدا کرلینا چاہیے،
لیکن اس کا اس وقت کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا تاہم امن موقع کو سبوتاژ
کرنے کے لئے عید کے موقع پر دوران نماز صدارتی محل کے اطراف داعش نے راکٹ
فائر کئے، گئے، افغانستان سے امریکی انخلا کی منصوبہ بندی پر تیزی کے ساتھ
عمل درآمد کیا جارہا تھا، امریکی فوجی اور خفیہ ادارے اپنے اداروں کو آگاہ
کرچکے تھے کہ افغانستان میں ان کا مزید کنٹرول کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ 31
اگست کا باقاعدہ اعلان بھی سامنے آچکا تھا، تاہم جس سبک رفتاری سے افغان
طالبان افغانستان کے اضلاع کا کنٹرول حاصل کررہے تھے یہ بہت حیران کن تھا
اور عالمی قوتیں ششدر تھیں کہ افغان طالبان کو کس طرح پیش رفت سے روکا
جاسکے، امریکی کٹھ پتلی حکومت انہیں جھوٹی یقن دہانیاں کرا رہی تھی کہ وہ
افغان طالبان کو کابل میں داخل نہیں ہونے دیں گے، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ تاہم
اس امر ے خطرات موجود تھے کہ اگر ان کے درمیان درمیان غیر ملکی افواج نہیں
رہیں گی، لیکن مبینہ طور پر وہ ایک ایسا ناسور چھوڑ کر جا چکے ہیں جس کا
مقابلہ کرنے لئے انہیں پہلے سے زیادہ قوت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اس امر سے
عالمی برداری کو آگاہ کردیا گیا تھا کہ امریکہ 31 اگست سے قبل ہی اپنا باقی
ماندہ بوریا بستر سمیٹ کرچلا تو جائے گا، لیکن جو جڑیں وہ افغانستان میں بو
گیا ہے، وہ اس قدر آسانی سے کٹے گی نہیں، اب بھی افغان سرزمین پر انتہا
پسندی اور شدت پسندوں کے سائے منڈلاتے رہیں گے۔
امریکی حکام آئے روز اپنے سرکاری بیانات میں افغانستان کے حوالے سے ایسی بے
یقینی کی فضا بنانے میں مصروف عمل رہا جس سے افغان عوام میں شدید خوف و
ہراس پھیلا۔ یہ امر تو طے ہوچکا کہ امریکہ و نیٹو ممالک افغان سرزمین سے
شکست خوردگی کے عالم میں جا ئیں گے لیکن امریکی تاریخ بتاتی ہے کہ جس ملک
گیا وہاں سے مکمل واپسی و اپنی موجودگی کے مضر اثرات کو ضرور چھوڑا۔ امریکی
وزیر دفاع جنرل لائڈ آسٹن اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے ایک
بریفنگ میں کہا تھا کہ ممکن ہے(افغان) طالبان افغانستان پر قبضہ کر لیں۔ان
کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ مذاکرات سے سیاسی حل نکل آئے، انہوں نے بتایا
کہ افغانستان کی فضائی نگرانی جاری رہے گی، جس کا مقصد یہی ہے کہ افغانستان
سے شدت پسندی اور تشدد نہ پھیلے۔جنرل لائڈ آسٹن اور جنرل مارک ملی نے مزید
کہا کہ امریکا کے پاس فضائی حملے کرنے کی صلاحیت موجود رہے گی۔انہوں نے کہا
کہ کابل سے باہر افغانستان میں موجود تمام امریکی اڈوں کو افغان محکمہ دفاع
کے حوالے کر دیا گیا۔افغان طالبان اور کابل انتظامیہ اور کابل انتظامیہ کے
درمیان کسی بڑی پیش رفت کی امید نظر نہیں آرہی تھی اور اس وقت، اشرف غنی
اقتدار سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھے لیکن کابل دروازے پر افغان
طالبان کے پہنچتے ہی جس سراسمیگی کے عالم میں فرار ہوئے، اس پر دنیا ٓج تک
ششدر ہے۔جب کہ افغان طالبان اپنے موقف پر قائم اور تیزی سے پیش قدمی کرتے
رہے اور اولاََ کابل پر بزور طاقت قابض ہونے کے لئے جنگی حکمت عملی کے تحت
انتظار کی پالیسی اختیار کئے ہوئے تھے لیکن تیزی تبدیل ہوتی صورت حال نے
کابل ان کی گود میں گرادیا۔
لڑی والی جنگیں بشمول دوسری جنگ عظیم ہو یا 1990-91 کی یا پھر2003 اور
ویتنام، عراق جنگیں طاقت کے استعمال نے ہمیشہ ناکامی پائی اور مذاکرات کو
امن کی میز پر ہی حل کیا گیا۔ امریکہ پہلی بار 20 برس قبل 11ستمبر2001
واقعے کو بنیاد بنا کر القاعدہ کے خلاف لڑنے افغانستان میں حملہ آور ہوا۔
انہیں اپنے3000 افراد کی ہلاکت کا بدلہ لینا تھا اور انہیں اس کا زعم تھا
کہ وہ اپنی حکمت عملی سے چند ہفتوں میں افغانستان کو سرنگوں کرکے اپنی
کالونی بنا لیں گے، لیکن ایسا نہ ہوسکا، حملے کے بعد افغان طالبان نے فضائی
حملوں کا مقابلہ نہ کرنے کی وجہ سے پسپائی اختیار کی لیکن گوریلا جنگ میں
نیٹو ممالک کی افواج کو سکون سے افغانستان میں ٹھہرنے نہیں دیا۔ امریکہ
اپنی افواج میں اضافہ کرتا رہا، بارک اوباما کے دور میں ایک موقع پر ایک
لاکھ دس ہزار فوجی افغانستان میں تعینات ہوئے۔ ایک اندازے کے مطابق دو
ٹریلین ڈالر کا نقصان اور قریباََ2500 امریکی ہلاک ہوئے، امریکی اتحادیوں
کی 1100جانیں گئیں۔ 70ہزار افغان فوجی ہلاک ہوئے اور قریباََ50ہزار شہری
جنگ کی ایندھن کا حصہ بن گئے۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ اور اس کے اتحادیوں
کے ہاتھ کچھ نہ آسکا۔ انخلا کے معاملات جب سامنے آنا شروع ہوئے تو ایک
مہنگی جنگ کے نتائج کو بدلنے کے لئے امریکی فوجیوں نے اپنی تعداد کم کرنا
شروع کی، یہاں تک ان کی تعداد3ہزار تک پہنچی۔ ان کا کردار افغان فورسز کی
تربیت، مشورے تک محدود رہا۔ دوحہ معاہدے کے بعد افغان طالبان نے غیر ملکی
فوجیوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ ختم کردیا تھا اور ان کی توجہ شہروں اور
دیہاتوں کی جانب مبذول رہی اور ان کی یہ حکمت عملی اتنی کامیاب رہی کہ سابق
افغان طالبان حکومت میں جو علاقے ان کے قبضے میں نہیں آئے تھے اس بار وہ
بھی مزاحمت کے بغیر اور کہیں معمولی ٹکراؤ پر حاصل کرلئے گئے۔
سن 2020کے بعد سے افغانستان میں امریکی فوجیوں کی ہلاکتیں نہیں ہوئیں،
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے تعداد قریبا 8500 فوجی کی صورت میں موجود تھے
جو سابق غنی حکومت کے لئے کمک اور نفسیاتی بیک فراہم کرنے کے لئے موجود
رہی۔ امریکہ میں 2020 کے انتخابات میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی
بھی ایک اہم معاملے طور پر ٹرمپ اور بائیڈن کے سامنے تھے۔امریکی عوام اس
جنگ کا خاتمہ چاہتے تھے اور وہ اپنے وسائل مزید افغانستان کی لاحاصل جنگ پر
خرچ کرنے کے مخالف بن چکے تھے۔بائیڈن انتظامیہ، سابق ٹرمپ انتظامیہ کی جانب
سے فروری2020میں افغان طالبان کے ساتھ دوحہ معاہدے پر عمل درآمد کئے جانے
کی پابند تھی، جس میں انخلا کی تاریخ مئی2021 مقرر کی گئی ، اس معاہدے میں
افغان طالبان کو غیر مسلح یا جنگ بندی پر پابند نہیں کیا گیا تھا بلکہ
افغان سر زمین کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ بننے سے روکنے کے لئے معاہدہ کیا
گیا تھا، غیر رسمی طور پر افغان طالبان کی حکومت اسی دن تسلیم ہوچکی تھی جس
دن دوحہ معاہدہ طے پایا تھا۔ بائیڈن انتظامیہ نے انخلا کی تاریخ میں تین
مہینے کا اضافہ کیا اورمغرب و یورپ کے لئے ایک غیر مقبول فیصلہ کرتے ہوئے
تمام فوجی بلانے کا اعلان کردیا۔جس سے تمام صورت حال افغان طالبان کے حق
میں ہموارہوگئی اور افغانستان ان کے کنٹرول میں آتا چلا گیا۔
پاکستان کا افغان امن عمل میں ایک کلیدی کردار رہا ہے۔ اس کی جو بھی وجوہ
سمجھی جائے لیکن اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ افغانستان میں قیام امن
کے لئے امریکہ سمیت پوری دنیا کی کسی بھی قوت سے زیادہ،پاکستان نے اپنی
سیاسی و سفارتی کوششوں کے ذریعے افغانستان کا مستقبل ان کے اپنے ہاتھ میں
دیا، اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا جاسکتا تھا، اس امر کا خطرہ بڑھ چکا تھا کہ
دہشت گرد پاکستا ن کے خلاف افغان سرزمین کو دوسرے طریقے سے استعمال کریں گے
اور آنے والے وقت میں یہ ثابت بھی ہوا کہ منفی کاروائیوں نے پاکستا ن کے
تحفظات کو بڑھا دیا۔ افغان مسئلے پر فریقین کسی متفقہ لائحہ عمل پر راضی
نہیں ہوئے تو دنیا کے کسی بھی ملک کو یہ حق نہیں پہنچتا تھا کہ وہ پاکستان
کے خلاف ہرزہ سرائی کرے۔ کابل انتظامیہ نے مایوسی کے عالم میں ایسی اوچھی
حرکتیں شروع کردی ہیں جس سے پاکستان کے سفارتی کردار کو مشکوک کیا جاسکے،
لیکن را کی گود میں بیٹھ کر مملکت کے خلاف سازشیں کرنے والوں کے عزائم کو
جس طرح ریاستی اداروں نے بے نقاب کیا وہ اب خود بھارت کے لئے شرمندگی کا
باعث بنا ہوا ہے۔ بھارت قندھار سفارت خانے میں افغان طالبان کے قبضے سے قبل
اپنے سفارتی عملے کو واپس بلا چکا تھا، سیکورٹی حالات کا جواز بتانے کے
علاوہ پاکستان پر دشنام طرازی کی عادت نے مودی سرکار کو شدید خفت کا سامنا
اٹھانا پڑی۔
پاکستان میں موجود افغان سفیر کی بیٹی کے خود ساختہ مبینہ لاپتا ہونے کے
ڈرامے کے ذریعے بھارت پاکستان کوبدنام کرنے کی مذموم سازش جلد بازی میں
اٹھا بیٹھا، کابل نے بھی تحقیقات مکمل ہونے سے قبل اپنا سفیر واپس بلا کر
قندھار ہزہمیت کی خفت مٹانے کی ناکام کوشش کی، ریاستی اداروں نے دن رات ایک
کرکے افغان سفیر کی بیٹی کی سیر و تفریح کے بہانے اغوا کے جھوٹے ڈرامے کو
دنیا کے سامنے رکھ دیا کہ بھارت اور کابل انتظامیہ چاہتے ہی نہیں کہ
افغانستان میں امن قائم ہو۔ کابل انتظامیہ نے پاکستان میں ہونے والی افغان
امن کانفرنس کی راہ میں رخنہ ڈال کر یہ بھی ثابت کردیا کہ اگر افغان امن
کانفرنس میں عوام کی خواہشات کا یہ مطالبہ سامنے آگیا کہ غنی کو انتظامی
امور سے الگ ہونا چاہیے تو انہیں اپنی پرتعیش زندگی کو چھوڑنا ہوگا اور
فیصلہ افغان عوام کے ہاتھ میں دینا ہوگا۔
افغانستان میں زیادہ تر مسائل، جھڑپوں و خانہ جنگیوں کا اختتام جرگوں کے
ذریعے ہوتا رہا، پارلیمانی نظام سے زیادہ قبائلی نظام وہاں زیادہ مضبوط و
محفوظ خیال کیا جاتا ہے، جعلی ووٹ و دھاندلی زدہ الیکشن سے انہیں کوئی
سروکار نہیں، بلکہ جن جن ممالک میں بذریعہ ووٹ عوام کی نمائندگی کا دعویٰ
کیا جاتا ہے، وہ کبھی شفاف و عوام کے لئے قابل قبول نہیں رہے، لیکن اس وقت
اہم ترین معاملہ افغانستان میں افغان عوام کے مطابق نظام حکومت تھا اس لئے
ان سے پاکستان سمیت کسی دوسرے ملک سے مماثلت یا مطالبہ کرنا مضحکہ خیز
سمجھا گیا کہ اگر افغان طالبان، جو کچھ افغانستان میں چاہتے ہیں وہ پاکستان
یا دوسرے مسلم اکثیریتی ممالک بھی کریں۔واضح رہے کہ اس وقت چار دہائیوں سے
جہاد کے نام پر جارح پسندوں کے خلاف جو جنگ لڑی گئی، افغان عوام کے اتحادی
تبدیل ہوتے رہے ہیں اور اپنے فیصلے خود کرتے رہے ہیں، اس لئے پاکستان اب
بھی یہی چاہتا ہے کہ پڑوسی ممالک سے سفارتی تعلقات بہتر رہیں، پاکستان،
مسلکی جنگ و جدل سے دور رہنا چاہتا ہے کیونکہ دیگر مسلم اکثیریتی ممالک کی
با نسبت پاکستان میں فرقہ واریت اور مسلکی گروہ بندیاں زیادہ ہیں اور
جمہوریت کو بھی ابھی تک استحکام نہیں ملا۔ پاکستان کے خلاف جہاں ہائی برڈ
وار عروج پر ہے تو چار اطراف ملک دشمنوں و نادان دوستوں نے ایک ایسا سازشی
جال بنا ہوا ہے، جس کے تدارک کے لئے سیکورٹی فورسز کو قیمتی جانوں کی
قربانی دینا پڑ رہی ہے۔ سیاسی عدم استحکام کسی بھی ملک کے لئے زہر قاتل
ہوتا ہے،اس پر افغانستان جیسے ملک میں جہاں جمہوری نظام وینٹی لیٹر پر تھا
وہاں مغربی نظام کے جبری نفاذکے خطرناک نتائج مرتب ہونے کے تحفظات بھی
سامنے آتے رہے۔
امریکہ و مغرب کو افغانستان کے نظام و انصرام کی فکر چھوڑ کر اس کی تعمیر
نو کے لئے کردار ادا کرنا چاہیے، ان کی امداد اور دوحہ معاہدے کے مطابق عمل
درآمد کو یقینی بنانے کے لئے خول سے باہر آنا کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ
ہے۔ چاردہائیوں سے جاری امریکی مفادات کی جنگ نے افغانستان اور پاکستان کو
بدترین معاشی صورت حال کا شکار کردیا ہے۔ انفرا اسٹرکچر کے بدحالی سمیت
نامساعد حالات کے باعث مصائب و مشکلات کا ایسا پہاڑ کھڑا ہوا ہے جس کا
واحدذمے دار امریکہ اور اس کے اتحادی ہیں۔ امریکہ خود کو افغان جنگ کے مضمر
اثرات سے بری الزما نہیں کرسکتا۔ امریکہ افغانستان میں دہشت گردی کے افسوس
ناک کردار کو ختم کرنے کے لئے غیر جانبداری کی پالیسی اپنانا ہوگی،بصورت
دیگر خطرہ ہے کہ امریکہ مخالف قوتوں کو نیا میدان جنگ آج افغانستان نہیں بن
رہا تو کوئی دوسرا ملک بھی نہیں بن سکتا۔افغان طالبان ترجمان سہیل شاہین کا
کہنا تھا کہ افغان طالبان اس بات کی خواہش نہیں رکھتے کہ طاقت کے زور سے'
افغانستان کا اقتدار سنبھالیں، اور یہ کہ وہ اس بات کے خواہاں ہیں کہ
مذاکرات کے ذریعے متحارب افغان دھڑوں کے ساتھ امن سمجھوتے پر پہنچیں، تاکہ
لڑائی بند ہو۔اب جب کہ ایک برس بیت چکا اور افغانستان پر ان کی مکمل عمل
داری انہیں بھی دوحہ معاہدے کے مطابق عمل کرنا ہوگا، بدحال افغانستا ن کی
تعمیر نو، شہریوں کی واپسی سمیت نامساعد حالات سے مقابلہ کرنے کے لئے انہیں
پڑوسی ممالک سے تعلقات بہتر بنانا ہوں گے۔
|