یہ سب ن لیگ کا اپنا ہی کیا دھرا ہے

چیف جسٹس آف پاکستان، عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کی جانب سے جو فیصلہ سنایا، اس فیصلے میں کہا گیا کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کا کوئی قانونی جواز نہیں ، پنجاب کابینہ بھی کالعدم ، صوبائی وزراء اپنے دفتر چھوڑ دیں اور وزارت اعلی پنجاب کی مسند پر چوھدری پرویز الہی بیٹھیں گے ۔اس فیصلے کی روشنی میں چوھدری پرویز الہی وزیر اعلی کا حلف اٹھا چکے ہیں ,لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ ن لیگ اور پی ڈی ایم کے ہاں صف ماتم بچھ چکی ہے۔نواز شریف کے مطابق پاکستان کو تماشا بنا دیا گیا ہے ، مریم نواز کا کہنا ہے کہ" جوڈیشنل کو" انصاف کا قتل نا منظور ۔مریم نواز کے مطابق عمران خان کا خط حلال اور چودھری شجاعت کا خط حرام قرار پایا ۔پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اﷲ بابر نے ججز تقرریوں اور پروموشنز کے حوالے سے سپریم کورٹ کے اختیارات محدود کرنے کی تجویز دے دی۔میں سمجھتا ہوں کہ ہرشخص کی وفاداری کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے ضرور ہے لیکن ایسا کسی بھی مہذب معاشرے میں نہیں ہوتا کہ اپنے حق میں فیصلے پر سپریم کورٹ زندہ باد اور جب فیصلہ خلاف آئے تو سپریم کورٹ کے اختیارات محدود کر نے کے بار ے میں سوچنے لگیں ۔حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کا فرمان عالی شان ہے کہ کوئی ملک کفر کی حالت میں تو زندہ رہ سکتا ہے لیکن نہ انصافی کسی بھی ملک اور معاشرے کے لیے موت کا باعث بنتی ہے ۔پی ڈی ایم اور ن لیگ کے سرکردہ لوگ اپنے خلاف فیصلہ آنے پر مرنے مارنے پر اتر آئے ہیں۔ وہ شاید بھول رہے ہیں کہ ان کی اتحادی حکومت کا وجود میں آنا بھی عدالت عظمی کے ایک فیصلے کی وجہ سے ہے۔اگر عدالت عظمی کے جج صاحبان 9 اپریل کو رات بارہ بجے سپریم کورٹ میں نہ بیٹھتے تو تحریک انصاف کے لوگ عد م اعتماد کو کبھی کامیاب نہ ہونے دیتے ۔ اس فیصلے پر عمران خان اپنے جلسوں میں کھلے عام تنقید کرتے رہے ہیں کہ میں نے کونسا جرم کیا تھا کہ رات بارہ بجے عدالتیں لگ گئیں ۔بلکہ 9 اپریل 2022ء کے تفصیلی فیصلے میں صدر پاکستان ، وزیر اعظم عمران خان ، سپیکر قومی اسمبلی اور ڈپٹی سپیکر قو می اسمبلی کو آئین شکن قرار دیا گیا ہے ،ہونا تو چاہیئے تھا کہ موجودہ حکومت سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے پر عمل کرتے ہوئے مذکورہ بالا چاروں افراد کے لیے آئین کی دفعہ چھ کا نفاذ کرتے ہوئے گرفتار کرتی اور ان کے خلاف اس وقت سپریم کورٹ میں مقدمات چل رہے ہوتے ۔ لیکن شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہ کراسکی ۔جبکہ 2014ء کے دھرنے کے دوران پارلیمنٹ ، ریڈیو پاکستان اور وزیراعظم سیکرٹریٹ پر عمران خان کی قیادت میں جس ہجوم نے سرکاری املاک پر حملہ کرکے نقصان پہنچا یا تھا ، ن لیگ اس مقدمے کی پیروی بھی نہ کرسکی اور عمران خاں، ڈاکٹر عارف علوی سمیت تحریک انصاف کے تمام سرکردہ رہنما عدم پیروی کی وجہ سے بری ہوگئے ۔25 مئی 2022ء کو پشاور سے شروع ہونے والے لانگ مارچ کے دوران ریڈ زون میں جو توڑ پھوڑ ہوئی اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے برعکس عمران خاں اپنے ساتھیوں سمیت ریڈ زون میں پہنچ کر جذباتی تقریریں کرتے رہے ، اس حوالے سے بھی سپریم کورٹ کا واضح فیصلہ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے خلاف جاتا تھا ۔ چند دنوں کی بازگشت کے بعد وہ مقدمہ بھی اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے اور ن لیگ کی قیادت میں اتحادی حکومت، عمران خان اور ان کے ساتھیوں کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکی ۔وہ آج بھی دندناتے ہوئے پورے ملک میں جلسے کرتے نظر آتے ہیں۔ عدالتوں، ایسٹیبلشمنٹ اور موجودہ حکومت پر سنگ باری کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔فوج ، عدلیہ اور حکومت ان کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکی ۔اب ہم آتے ہیں ضمنی الیکشن کی طرف ۔ جب ن لیگ اور پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں کو علم تھا اگر پنجاب میں حمزہ شہباز کی حکومت کو قائم رکھنا ہے تو ضمنی الیکشن میں دس سے پندرہ سیٹیں جیتنا بہت ضروری ہے ۔ پھر سوائے مریم نواز کے ن لیگ کے باقی رہنماء وزارتوں کا مزہ کیوں لیتے رہے یا وہ اپنے اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھ کر یہ انتظار کرتے رہے کہ لوگ پولنگ اسٹیشنوں کے باہر قطاروں میں کھڑے ہوکر خود بخود ان لوٹوں کو ووٹ دیں گے جنہوں نے تحریک انصاف سے بغاوت کی تھی ۔میری رائے میں ن لیگ کے قائدین کی یہ سب سے بڑی غلطی اور تکبر کا اظہار تھا جو ان کی گردنوں کو عوام کے سامنے جھکنے سے روکتا رہا ۔شنید ہے اب پنجاب میں گورنر راج اور عدالتی اصلاحات کے بارے میں بھی سوچا جارہاہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ نواز شریف کے بعد ن لیگ یتیم ہوچکی ہے اس کا کوئی والی وارث نہیں۔نہ چاروں صوبوں میں ن لیگ کی کوئی تنظیم ہے نہ کارکن۔ ن لیگ کے کسی بھی رہنما ء نے عوام اور کارکنوں سے رابطہ رکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی اور اگر کوئی بھول کر ن لیگ کے قائدین کے پاس اپنے کسی جائز کام کروانے کے لیے پہنچنے کی غلطی بھی کرگیا تو ن لیگ کے قائدین نے وہ جائز کام کرنے کی بجائے اپنی گردنوں میں خم پیدا نہیں ہونے دیا۔ اس لیے ووٹ کو عزت دو کی بجائے لوٹوں کو عزت دینے والا بیانیہ پٹ گیا۔سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین کے مطابق ہے اس پر تنقید کرنے اور آنسو بہانے کی بجائے مستقبل میں ن لیگ اور پی ڈی ایم کو عوام سے اپنے رابطوں کو مضبوط کرنا ہوگا۔

 

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 665752 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.