تاریخ پاکستان 1857 سے 1947 تک

دنیا کے بیشتر انقلاب کسی اہم حادثہ یا سانحہ سے شروع نہیں ہوئے ۔عموماً یہ ہوا کہ خاموش سطح کے نیچے جبر و استبداد کے خلاف نفرت آمیزآتشیں مادہ جمع ہوتا رہا ہے پھر کسی معمولی سے واقعے نے سطح آب پر طوفان برپا کردیا ۔ فرانس اور امریکہ کے انقلابات کی ابتدا ء معمولی معمولی واقعات سے ہوئی لیکن مختصر سے عرے میں تمام بیتاب عناصر اوپر آگئے۔ ایسا ہی کچھ 1857میں ہوا ۔ کارتوسوں کا تو صرف بہانہ بن گیا جس نے سو سال کی بے چینی کو متحرک کردیا اور جہاں جہاں بھی اس کی خبر پھیلی وہاں آگ لگتی چلی گئی ۔1857کی تحریک غیر ملکی اقتدار کے خلاف جنگ کی ابتدا تھی یہ سمجھ لینا صحیح نہ ہوگا کہ اس سے قبل انگریزوں کے خلاف نفرت کے جذبات کا اظہار نہیں ہوا تھا ۔ ہندوستانیوں کا ذہن غیر ملکی تسلط کے خلاف مکمل طور پر تیار ہو چکا تھا ۔ یہ سیاسی شعور شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ نے1742 میں ان کا اور انکے گھرانے کاپیدا کردہ تھا بر صغیر میں جمہوریت کا شعو ر شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ ہی نے سب سے پہلے دیا جسے اُن کے جا نشینوں نے فروغ دیا ۔ شاہ صاحبؒ نے اپنی تصانیف میں ملوکیت اور شہنشاہیت کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی ۔ ان کی تحریک کا سب سے زیادہ ترقی پسند پہلو یہ تھا کہ وہ سیاسی نظام میں طاقت کا سر چشمہ عوام کو قرار دیتے تھے ۔ 1857کی تحریک میں سکھوں اور پارسیوں سمیتہر مذہب و ملت کے لوگوں نے حصہ لیاتحریک کی عالگیریت کا عالم یہ تھا کہ تین ہفتوں کے اندر اندر سارے ملک میں ہنگامے شروع ہو گئے کی تحریک مختلف منزلوں سے گزری مختلف طبقات نے اس میں حصہ لیا مسلمان علماء و مشائخ میں مولانا احمد شاہؒ ، حاجی امداد اللہؒ ، مولانا محمد قاسم نانوتویؒ ، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ ، مولانا فیض احمد بدایونیؒ ، مولانا لیاقت علیؒ ، مولانا فضل حق خیر آبادی ؒ ، مولانا عبدالقادر لدھیانوی ؒ جیسے جید علما سرگرم عمل تھے تو رؤسا میں رانی لکشمی بائی (رانی جھانسی) ، نانا صاحب ، ناہر سنگھ ، حضرت محل ، نواب علی بہادر ، نواب تضفل حسین ، خان بہادر خان ، نواب محمود احمد خان جیسی شخصیات تھیں جن کے عزم ، مقصد کی سچائی اور مسلسل جدوجہد سے تحریک میں جان پیدا ہوئی۔

1857کی تحریک آزادی کا ایک خاص پہلو یہ تھا کہ ہندو اور مسلمان دوش بدوش آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے جس سے انگریزوں کو بہت تشویش تھی ۔فتح دہلی کے بعد انگریزوں نے سارے ملک کو انتقامی آگ میں ڈال دیا قتل و غارت ، ظلم و ستم کا وہ ہنگامہ برپا کیا جس کی مثال اُنیسویں صدی میں نہیں ملتی ہزاروں معصوم اور بے گناہ انسان اس ظلم اور بربریت کا شکار ہوگئے ۔شمالی ہندوستان میں بے شمار گاؤں ایسے تھے جہاں درختوں سے لٹکی ہوئی لعشوں کے گرد کوّے اور چیلیں منڈلاتی ہوئی نظر آتی تھیں۔ انگریز مصنف Kaye نے History of the Sepoy War III میں تفصیلاً ذکر کیا ہے اور Mrs Coopland نے A Lady escaped from Gualior میں انگریز سپاہیوں کی بربریت کے چند روح فرسا مناظر کا نقشہ پیش کیا ہے ۔ سپاہی لوگوں کوتختہ دار پر لٹکاتے اور باجے بجاتے تھے جب کسی شخص کی جان نکلنے میں دیر لگتی تو سپاہی خوشی کے مارے پھولے نہ سماتے ۔ یوں تو ہندوستان میں کوئی بھی انگریز کی چیرہ دستی سے نہ بچ سکا لیکن مسلمانوں پر خاص طور سے عتاب نازل ہوا کیونکہ انگریز اس ساری تحریک کا سبب مسلمانوں کو سمجھتے تھے ۔چنانچہ ہزاروں مسلمان معمولی معمولی شبہات پر تہہ تیغ کردئیے گئے ۔ ہزاروں مسلمان گھرانے نان شبینہ کے محتاج ہوگئے اور سینکڑوں شریف خاندان بے کسی اور مفلسی کے عالم میں در بدر پھرنے لگے ۔1857میں علماء کرام کی ایک جماعت تیار ہوئی ان میں مدراس( چنائے) کے مولانااحمد اللہؒ ، مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ ، مولانا فضل حق خیر آبادیؒ ، مولانا سرفراز ؒ ، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ ، مولانا قاسم نانوتویؒمولانا منیر احمد نانوتویؒ ، حافظ ضامن شہیدؒ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ ، کی زیر قیادت اُٹھ کھڑی ہوئی ۔ آزادی انہی علما ء کی گراں قدر قربانیوں کا ثمر ہے علماء کرام نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور دہلی کی جامع مسجد سے پشاور تک ان کی گردنیں پیڑوں پر لٹکی رہیں علمائے کرام نے پھانسی کے پھندوں کو چوم کر فخر محسوس کیا ۔ بلا شبہ بعض ریاستیں تحریک سے علیحدہ رہیں یا انہوں نے انگریزوں کا ساتھ دیا ۔یہاں ایک سوال پیداہوتا ہے کہ 1857کی تحریک آزادی ناکام کیوں ہوئی اس سلسلے میں تاریخ کا یہ سبق ذہن میں رہے کہ انقلابی جذبات کے بیدار ہونے کے لئے جہاں یہ ضروری ہے کہ عوام کے دل میں کسی بھی جبری نظام کے خلاف شدید نفرت اور بے چینی ہو وہاں اس کی کامیابی کے لئے یہ بھی اہم ہے کہ مستقبل کی تعمیر کا ایک واضح خاکہ ذہن میں ہو 1857 میں انگریزوں کے خلاف نفرت اور تاج برطانیہ کے نظام ظلم کے خلاف بے چینی موجود تھی لیکن کسی ایک شخص کے ذہن میں بھی مستقبل کا خاکہ واضح طور پر موجود نہ تھا یہی نہیں اُس دور میں جتنی طاقتیں بھی سرگرم عمل تھیں اُن میں سے کوئی بھی پورے ہندوستان کے نظام کی ذمہ داری سنبھالنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھی یہ ایسی محرومی تھی جس نے تحریک کو کمزور کردیا تھا

اگست 1858میں برطانوی پارلیمنٹ نے ایسٹ انڈیا کا خاتمہ کرکے ہندوستان کو تاج برطانیہ کے سپرد کردیا ۔ اگرچہ اس جنگ آزادی میں ہندو اور مسلمان مل کر ہندوستان کی آزادی کے لئے لڑے لیکن جنگ کے بعد مسلمان خصوصاً زیر عتاب آئے جب کہ ہندووں نے مکمل طور پر انگریز سے مفاہمت کرلی یوں مسلمانوں پر تعلیم ، ملازمت اور معاشی ترقی کے دروازے بند ہوگئے۔ ایسے میں سر سید نے قوم کو نئی راہ دکھلائی ۔

مسلمان اور ہندو الگ الگ قوموں کی صورت میں بٹ گئے اور دو قومی نظرئیے کا احیا ہوا 1865 میں مولانا احمد اللہ عظیم آبادی ؒ، مولانا یحییٰ علیؒ ، مولانا عبدالرحیم صادقپوریؒ ، مولانا جعفر تھانیسری ،مولانا فضل حق خیر آبادی ؒ ، مفتی احمد کاکوروی ؒ ، اور مفتی مظہر کریم دریا آبادی ؒکو دیگر کئی مسلمانوں کے ہمراہ جزائر انڈیمان جو اُس دور کا گانتا مو بے تھا بھیج دیا ۔مولانا جعفر تھانیسریؒ اٹھارہ سال کی قید با مشقت کاٹ کر 1883میں واپس آئے اپنی کتاب ‘‘ کالا پانی’’ میں لکھتے ہیں ‘‘ ہمارے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ، پیروں میں بیڑیاں ، جسم پر جیل کا لباس ، کمر پر لوہے کی سلاخیں تھیں انگریزوں نے ہم تین علما کے لئے خاص لوہے کے پنجرے بنائے تھے اس پنجرے میں لوہے کی چونچ دار سلاخیں لگی ہوئی تھیں جس کی وجہ سے ہم نہ سہارا لے سکتے تھے اور نہ ہی بیٹھ سکتے تھے ۔ ہماری آنکھوں سے آنسو اور پیروں سے خون رواں رہتا۔ جنگ آزادی میں مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ ،مولانا محمود حسینـؒ ، مولانا حسین احمد مدنیؒ ، مولانا فضل ربیؒ ، مولانا محمد اکبرؒ ، مولانا عزیز گل پشاور ی ؒ ، مولانا احمد چکوالیؒ ، مولانا عبیداللہ سندھی ؒ کی گراں قدر خدمات اور قربانیوں کو کسی طور فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ غالباً قدرت ابھی ہندوستانیوں کو مستقبل کی ذمہ داریوں کے لئے ابھی تیار کر رہی تھی۔قوم کو مذہب کی بنیاد پر یک جا کرنے کے بعد فطرت کو اب اس قوم کو عصری تقاضوں کے لیئے تیار کرنا مقصود تھا ۔ جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے سر سید احمد خان ، الطاف حسین حالی اور سید سلیمان ندویؒ کا انتخاب کیا

1857کی اس جنگ آزادی نے سر سید احمد خان کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے ۔ اگرچہ اس واقعے کا اولین نتیجہ یا رد عمل تو مایوسی اور پژمردگی اور نا امیدی تھا تا ہم اس واقعے نے اُن کے اندر چھُپے ہوئے مصلح کو بیدار کردیا تھا چنانچہ سر سید احمد خان نے قومی خدمت کو اپنا شعار بنا لیا آغاز میں وہ بلا تمیز مذہب خدمات سر انجام دیتے رہے مگر ورنیکلر یونیورسٹی کی تجویز پر ہندووں کے متعصبانہ رویہ نے سر سید کی فکری جہت کو تبدیل کردیا اب وہ سمجھ گئے تھے کہ ہندو مسلمانوں کو کبھی اپنے برابر کا شہری نہیں سمجھیں گے وہ تعلیمی اور معاشی سطح پر مسلمانوں سے بر تر رہنا چاہتے ہیں اب سر سیدصرف مسلمانوں کے لئے کام کرتے اسی مقصد کے لئے علی گڑھ کالج اور رسالہ تہذیب الاخلاق کا آغاز کیا ۔ ان دونوں کا تحریک پاکستان میں نہایت اہم کردار ہے ۔ علی گڑھ کالج جہاں مسلمانان ہند میں تعلیمی شعور دیا وہیں یہاں کے فارغ التحصیل طلبا نے تحریک آزادی میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا بقول قائد اعظم محمد علی جناحؒ اسلحہ خانے کا کام دیا ۔ اپنے رسالے تہذیب الاخلاق سے نہ صرف سائنسی علوم کی اردو زبان میں اشاعت میں مدد ملی بلکہ اردو کے فروغ میں بھی ایک اہم کردار ادا کیا ۔ رسالہ" اسباب بغاوت ہند" لکھ کر مسلمانوں کا موقف برطانوی پارلیمنٹ تک نہایت احسن طریقے سے پہنچایا ۔ مسلمانوں میں تعلیم کے فروغ کے لئے انہوں نے ‘‘ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس ’’ کی داغ بیل ڈالی اور اُس کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں کو عصری تعلیم کے حصول کی ترغیب دیتے رہے ۔

تحریک آزادی میں صرف علماء ااور اصحاب فکر و نظر ہی سرگرم عمل نہیں تھے بلکہ شعرا ء ، ادباء اور اصحاب قلم کا بھی اہم کردار رہا ہے 1857 کی تحریک آزادی کی ذمہ داری انگریزوں نے اردو اخبارات پر بھی ڈالی اس سلسلے میں ‘‘ دہلی اردو اخبار ’’ کے بانی مولوی محمد باقر کو سولی پر چڑھایا گیا ۔ اُن کے بیٹے محمد حسین آزاد کے نام بھی وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے لیکن وہ بچ نکلے ۔ اسی دور کے اخبار ‘‘ صادق اخبار’’ کے ایڈیٹر جمیل ہجر پر بغاوت کا مقدمہ چلا اور تین سال قید ہوئی ۔ اسی طرح بہادر شاہ ظفر کے نواسے مرزا بیدار بخت کے تحریری حکم سے اردو اور ہندی میں شائع ہونے والے اخبار‘‘ پیام آزادی ’’پر پابندی لگائی اخبار کے ایڈیٹر پرنٹر پبلشر اور ایڈیٹر بیدار بخت کو موت کی سزا دی گئی یہاں تک کہ اس کے قاریوں پر بھی جبر کیا گیا

بیسویں صدی کا آغاز ہوتے ہی تحریک آزادی نے ایک نئی کروٹ لی ۔ حسرت موہانی کے اخبار اردوئے معلیٰ ، ظفر علی خاں کے اخبار زمیندار ، بنگال سے مولانا ابوالکلام آزاد کے الہلال اور اس کی ضبطی کے بعد البلاغ ،، دہلی سے محمد علی جوہرکے ہمدرد ، لکھنؤ سے جواہر لال نہرو کے قومی آواز ، پنجاب سے لالہ لالجپت رائے کے وندے ماترم ، بجنور سے مدینہ ، لاہور سے ملاپ ، پرتاب انقلاب اور پیام ، دہلی سے ریاست ، الجمیعۃ، بھوپال سے صداقت، صبح وطن آواز اور رہبر وطن نے جنگ آزادی میں نمایاں کردار ادا کیا اور آزادی کے لئے قید و بند سمیت ہر قسم کی تکلیفیں برداشت کیں۔ادیبوں شاعروں نے بھی اپنی تخلیقات کے ذریعے جہاںسماج میں وقوع پذیر حادثات و واقعات کو بیان کیا وہیں جابر قوتوں کے خلاف پوری شدت سے آواز بلند کی میر تقی میر ، ذوق، غالب ، واجد علی شاہ اختر ، ظہیر دہلوی نے اپنے اپنے عہد کی نوحہ خوانی کی ۔ منیر شکوہ آبادی اردو کے پہلے شاعرتھے جن کو قید کرکے اُ س دور کے گوانتا مو بے ، جزائر انڈیمان جسے کالا پانی بھی کہا جاتا تھا بھیج دیا ۔ غالب کے شاگرد میکش کو قید و بند کی آزمائش سے گزرنا پڑا ۔ امام بخش صہبائی کو توپ سے اُڑایا گیا بے شمار شعراء کے کلام کو ضبط کیا گیا
بیشتر شعرا کرام کا کلام انگریز حکومت نے ضبط کیا 1940 میں حلقہ ادب لکھنؤ کے زیر اہتمام ‘‘آزادی کی نظمیں ’’ شائع کی ۔ مگر جس مہینے یہ کتاب شائع ہوئی اسی مہینے اس پر پابندی لگادی گئی اور تمام نسخے انگریز سرکار نے ضبط کر لئے ۔ 1985میں اردو اکادمی لکھنؤ نے یہ کتاب دوبارہ شائع کی ۔ تحریک آزادی کے لحاظ سے یہ ایک اہم دستاویز کی حیثیت کی حامل ہے اس میں آٹھ دہائیوں پر مشتمل لگ بھگ اسّی 80 معروف اردو کے معروف شعرا کی وہ نظمیں ہیں جنہوں نے ملک کے عام باشندوں کے دلوں میں شعلۂ آزادی کو روشن کرنے اور اُن کے جذبہ حریت کو مہمیز کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔
مولاناالطاف حسین حالی کی تین نظمیں اس میں شامل ہیں ۔ نظم ‘‘ آزادی کی قدر میں کہتے ہیں :
ایک ہندی نے کہا آزادی ہے حاصل جنہیں
قدر داں اُن سے بڑھ کر ہیں آزادی کے ہم
ہم کہ غیروں کے سدا محکوم رہتے آئے ہیں
قدر آزادی کی جتنی ہم کو ہو اتنی ہے کم

مولانا شبلی تہذیب کے پردے کے پیچھے چھپے مغربی کے استعماری عزائم کو بے نقاب کرتے ہوئے کہتے ہیں

کوئی پوچھے کہ اے تہذیب انسانی کے استادو
یہ ظلم آرائیاں تا کے یہ حشر انگیزیاں کب تک
یہ مانا تم کو تلواروں کی تیزی آزمانی ہے
ہماری گردنوں پہ ہوگا اس کا امتحاں کب تک
اسی طرح جوش کی نو نظمیں شامل ہیں کہتے ہیں

کیا ہند کا زنداں کانپ رہا ہے،گونج رہی ہیں تکبیریں
اکتائے ہیں شاید کچھ قیدی اور توڑ رہے ہیں زنجیریں
سنبھلو کہ وہ زنداں گونج اُٹھا،جھپٹو کہ وہ قیدی چھوٹ گئے
اُٹھو کہ وہ بیٹھیں دیواریں ،دوڑو کہ وہ ٹوٹی زنجیریں

اس مجموعے میں مولانا ظفر علی خاں ،پنڈت برج نرائن چکبست، حکیم محمد مصطفےٰ مداح( قلمی نام :احمق پھپھوندی)، حفیظ جالندھری اور متعدد نامی گرامی شعرا کا لہو گرم کردینے والی نظمیں شامل ہیں ۔ اگرچہ رومانیت پرستی اختر شیرانی کی پہچان ہے مگر وہ بھی انگریزوں کے ظلم کے آگے خاموش نہ رہ سکے اپنی نظم ‘لوری’ میں کہتے ہیں
وطن کے نام پہ اک روز تلوار یہ اُٹھائے گا
وطن کے دشمنوں کو کنج تربت میں سُلائے گا
اور اپنے ملک کو غیروں کے پنجے سے چھُڑائے گا
غرور خانداں ہوگا مرا ننھا جواں ہوگا
اسرار الحق مجاز نے تو اپنی نظم ‘بدیشی مہمان’ میں برملا اعلان کردیا :
مسافر بھاگ وقت بے کسی ہے ترے سر پر اجل منڈلا رہی ہے
تیری جیبوں میں ہیں سونے کے توڑے یہاں ہر جیب خالی ہو چکی ہے
یہ عالم ہوگیا ہے مفلسی کا
کہ رسم میزبانی اٹھ چکی ہے
نہ دے ظالم،فریب چارہ سازی
یہ بستی تجھ سے اب تنگ آچکی ہے
مناسب ہے کہ اپنا رستہ لے
وہ کشتی دیکھ ساحل سے لگی ہے

انگریزوں کے جوروستم نے مسلمانان ہند کی زندگی اجیرن کردی تھی برصغیر میں مسلمانوں کی حکومت ختم ہو چکی تھی 1857کی تحریک آزادی کی ناکامی کے بعد انگریزوں نے مسلمان حکمرانوں اور دانشوروں سے خوب انتقام لیا ۔ محلوں میں رہنے والے تنگ دستی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے تھے ۔ کاروبار تباہ ہو گیا تھا ۔ تعلیم کی کمی کے باعث ملازمتوں کے دروازے بھی مسلمانوں پر بند تھے اگر کسی مسلمان کو ملازمت مل جاتی تو اُسے اس کے علاقے سے بہت دور تبادلہ پر بھیج دیا جاتا اس کے بر عکس ہندو معاشی اور تعلیمی طور پر بہت بہتر تھے ۔ انگریز کے دربار میں رسائی کی وجہ سے چاپلوسی کے ذریعے ہر مراعات حاصل کر لیتے ۔ ہندو ذہنیت ہمیشہ تعصب سے پُر رہی ہندو مسلمانوں کو خود سے کم تر سمجھتے تھے وہ ہندوستان کو ہندووں کی جاگیر سمجھتے تھے انہیں مسلمانوں کا وجود برداشت نہیں تھا اُن کا دعویٰ تھا کہ یا تو مسلمان یہ ملک چھوڑ کر ادھرچلے جائیں جہاں سے وہ آئے تھے یا پھر ہندو مذہب قبول کرلیں بعد میں ہندووں نے شگبھٹن اور شدھی جیسی تحریکیں بھی چلائیں۔

دسمبر 1885میں انگریز ایلن اوکٹیوین ہیوم ، ولیم ویڈربرن ،دادابھائی نوروجی ، ڈنشا واچا ، ومیش چندر بونرجی ، سریندر ناتھ، بیزجی ، من موہن گھوش نے انڈین نیشنل کانگریس کی بنیاد رکھی جسکا بظاہراً مقصد ہندوستان کی رعایا کو معاشی سماجی تبدیلیوں سے آگاہ کرتے ہوے سول سروسز کی ترغیب دینا تھی لیکن اصل مقصد صرف ہندوؤں کے مفادات کی حفاظت کرنا تھا اور خود کو انگریزوں کا جانشین سمجھتی تھی اور مسلمانان ہند کو اپنا غلام سمجھتے تھے ان حالات کو دیکھتے ہوئے مئی 1906 میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے سالانہ اجلاس کے اختتام پر برصغیر کے مختلف صوبوں سے آئے ہوئے مسلم عمائدین نے ڈھاکہ کے نواب سلیم اللہ خاں کی دعوت پر ایک خصوصی اجلاس میں شرکت کی ۔ ڈھاکہ اجلاس کی صدارت نواب وقارالملک نے کی نواب محسن الملک ، مولانا محمد علی جوہر ،حکیم اجمل خان اورنواب سلیم اللہ خان سمیت بہت سے اہم مسلم اکابرین نے شرکت کی اور آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا ۔ پہلا صدر سر آغا خٰان کو چنا گیا ۔ مرکزی دفتر علی گڑھ میں قائم ہوا تمام صوبوں میں شاخیں بنائی گئیں برطانیہ میں لندن برانچ کا صدر سید امیر علی کو بنایا گیا ۔

یہ وہ قت تھا جب خالق کائنات نے اس پگھلے ہوئے سونے میں انمو ل ہیرے جوڑنے تھے ۔ یہ دونوں ہیرے علامہ محمد اقبالؒ اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ تھے ۔ دونوں دلیل کی زبان سمجھنے اور بولنے والے قانون دان، دونوں کے مثالی رہنما آقائے دو جہاں حضرت محمد ﷺ ، اور دونوں خود کو ایک دوسرے کا ادنیٰ سپاہی ہونے پر فخرکا اظہار کرتے ۔ شاعر مشرق نے اپنے کلام کے ذریعے امت مسلمہ میں حریت کی روح پھونکی تو جناحؒ نے مسلمانان ہند کو منز ل کی راہ دکھائی ۔ علامہ اقبالؒ نے آزاد اسلامی مملکت پاکستان کا تصور پیش کیا تو قائد اعظمؒ نے اسے عملی جامہ پہنا کر دکھایا ۔ ‘‘ جناح آف پاکستان ’’کے مصنف ، امریکہ کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے نامور محقق پروفیسر اسٹینلے ، لکھتے ہیں ‘‘بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جو تاریخ کا دھارا بدل دیتے ہیں ، اور ایسے لوگ تو اور بھی کم ہوتے ہیں جو دنیا کا نقشہ بدل دیتے ہیں اور ایسا تو کوئی کوئی ہوتا ہے جو ایک نئی مملکت قائم کردے ۔ محمد علی جناح ایک ایسی ہی شخصیت تھے جنہوں نے بیک وقت تینوں کارنامے کر دکھائے ’’

23مارچ 1940 کو اُس زمانے کے بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے قرارداد پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ اُس وقت کوئی آئینی پلان نہ تو قابل عمل ہوگا اور نہ مسلمانِ ہند کو قبول ہوگا جب تک ایک دوسرے سے ملے ہوئے جغرفیائی یونٹوں کی جداگانہ علاقوں میں حدبندی نہ ہو قرار داد میں کہا گیا تھا کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے جیسا کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے انہیں یک جا کر کے اُن میں آزاد مملکتیں قائم کی جائیں جن میں شامل یونٹوں کو خودمختاری اور حاکمیت حاصل ہو ۔ اس قرار داد کی تائید یو پی کے مسلم لیگی رہنما، چودھری خلیق الزماں ، پنجاب کے مولانا ظفر علی خاں ، خیبر پختون خوا سے سردار اورنگ زیب سندھ سے سر عبداللہ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسیٰ نے کی ۔

1941 میں جن دنوں تحریک پاکستان شروع ہو چکی تھی کانگریس کے لیڈر پنڈت سنڈے لا ل بمبئی میں ہفتہ وار اجلاس سے خطاب کر تے ہوے کہا
‘‘دونوں قوموں کا اختلاف آزادی ہند میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔یہ حقیقت آپ سبکو تلخ لگے گی لیکن آپ کو یہ تسلیم کرنا ہوگاکہ پاکستان کے نعرے کے ذ مہ دار ہندو خود ہیں۔یہ ہندو ہیں جنہوں نے قیام پاکستان کی راہ ہموار کی۔آپ سب کے گھر میں پاکستان پل رہا ہے اگر آپکے گھر میں کوئی مسلمان پانی کی طلب کرتا تو آپ کے گھر میں اسے پانی دینے کیلئے کوئی برتن نہ ہوتایہی وجہ ہے جسکے باعث پاکستان کا مطالبہ ہوا’’

لاہور کی قرار داد پاس ہوتے ہی ہندو رہنما لنگر لنگوٹ کس کر میدان عمل میں اتر آئے۔برطانیہ کو جرمن اور جاپان کے ہاتھوں شکست ہو رہی تھی۔ہارتے ہوے انگریز کے ساتھ بایئکا ٹ اور جیتے ہوے انگریز کے ساتھ تعاون ،گاندھی کی چالبازی تھی۔مگر جیسے ہی لیبر پارٹی جو کانگریس کے بہت قریب تھی بر سر اقتدار آئی تو گاندھی نے برملا یہ رٹ لگانی شروع کردی کہ ہندوستان میں اقتدار کی وارث کانگریس ہے۔ہندوستان کو تقسیم کرنا گؤ ماتا کا جسم کاٹنے کے مترادف ہے۔بر صغیر میں پہلی مرتبہ دو قومی نظریہ بساط سیاست سے نکل کر میدان کارزار میں اتر آیا 16 ۱گست 1946 ڈائریکٹ ایکشن ڈے مقرر ہوا اس دن مسلمانوں نے برٹش گورنمنٹ کے دئیے گئے اعزازت واپس کئے۔مکمل ہندوستان میں امن رہا مگر کلکتہ میں زبردست فساد ہوا۔گلی کوچوں میں ہزاروں مسلمان شہید کئے گئے۔کلکتہ کے بعد نواکھلی فسادات کی زد میں آیا۔ہندوؤں کے مسلح جتھے ہاتھیوں،گھوڑوں ،بیل گاڑیوں پر آتے اور گاؤں کے گاؤں تہس نہس کر دیتے ،درجنوں مساجد کو کھود کر ہل چلادیا سینکڑوں عورتوں نے اپنی عزت بچاتے ہوے کنوؤں میں چھلانگ لگا دی۔معصوم بچوں کو درختوں کے ساتھ میخوں سے مصلوب کردیا۔ مسلمان جو تعداد میں تھوڑے تھے مگر انہوں نے لا الٰہ الا اللہ کو مضبوطی سے تھاما۔ بر صغیر کے تمام مسلمان اس ایک کلمہ کی بنیاد پر متحد ہو گئے اور مکمل یک جہتی اور ہم آہنگی سے حضرت علامہ اقبال ?کے خواب کو پورا کرنے کے لیے اْٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ ایک ایسا ملک بنانا چاہتے تھے جہاں بلا تمیز رنگ و نسل و مذہب ہر ایک کی عزت ، جان و مال محفوظ ہوں۔ جہاں اسلام کے زریں اصولوں کے تحت کسی مسلمان تو کجا کسی غیر مسلم پر بھی ظلم نہ ہو۔ بالاخر شدید مخالفت کے باوجود 14 اگست1947کو بر صغیر کے مسلمانوں نے رب ذولجلا ل کی عنایت سے انگریزوں اور ہندوؤں سے آزادی حاصل کرلی۔یہ اس تحریک کا انجام تھا جسکا آغاز بنگال کے نواب سراج الدو لہ کی شہادت سے ہوا تھااعلان آزادی کے بعد مغربی بنگال کے مسلمانوں نے مشرقی پاکستان جبکہ وسطی ہند اور مشرقی پنجاب سے مسلمان مغربی پاکستان پہنچنے لگے۔اس دوران ہندوؤں اور سکھوں کے مظالم لکھتے ہوے قلم تھرا جاتا ہے مجبور اور بے بس مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کرکے کنوئیں بھر دئیے،ہزاروں خواتین کی عصمت دری کی گئی ،معصوم اور شیر خوار بچوں کو وحشیانہ طریقے سے نیزوں پر اچھالا گیا اور زندہ میخوں سے درختوں پر ٹھونک دیا گیا۔یہ سارے واقعات آج بھی بھارت کی تاریخ پر ایک دھبہ ہے۔مسلمانوں کے یہ لٹے پٹے قافلے ایک روشن اور محفوظ مستقبل کی امید میں اور پاکستان کا مطلب کیا لا الہٰ الاللہ کی آس میں پاکستان پہنچے۔یہاں کے لوگوں نے دامے درمے سخنے انکی مدد کی ،انکا سہارا بنے،دلاسے دئیے۔پاکستان کی عوام جذبہ تعمیر سے سرشار تھی۔

مگر لاکھوں مسلمانوں کی عزت و جان کی قربانی کے بعد جب مسلمانان برصغیر منزل پر پہنچ گئے تو ایک طرف مغربی استعمار کے ٹکڑوں پر پلنے والے گماشتے اپنے آقاوٗ ں کے مذموم مقاصداورذاتی منفعت کے لئیے مصروف عمل ہو گئے۔میکالے کے تراشیدہ یہ اعلیٰ عہدوں پر براجمان چوہوں کی طرح مملکت خداداد کی بنیادیں کھوکھلی کرنے میں لگے رہے۔ وہ مسلمان جو لا الٰہ الااللہ کی بنیاد پر یکجا ہوگئے تھے وہ مختلف لسانی ، نسلی ، مذہبی گروہوں ،فرقوں،جماعتوں ،طبقات ،میں تقسیم ہوگئے اس کے ساتھ ساتھ لالچ، ذاتی منفعت میں مبتلا ہوگئے جس سے رشوت ،ملاوٹ ، دھوکہ دہی، فریب جیسی بیماریاں لا حق ہوگئیں۔ اس مملکت خداداد کو اتنا نقصان نہ ہنود اور نہ یہود نے دیا جتنا ہم نے خود دیا۔ہم نے اپنے ہی بھائی کی عزت و جان کی حفاظت نہ کی جو کہ ہمارے لیے محترم قرار دی گئی تھی۔ ذاتی منفعت کے لیے ملاوٹ ، سود اور رشوت کواپنے لیے جائز قرار دے دیا۔ آج اس مملکت اسلامیہ میں جتنے سرکاری عہدیدار ، مقتدر طبقے کے افرادبد عنوان ہیں۔ اتنے ہی کاروباری بلا تمیز امیر و غریب ملاوٹ ، ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خواری مرتکب ہیں۔

کبھی کبھی نوجوان نسل مایوسی کا شکار ہوتی ہے اور یہ سمجھتی ہے کہ پاکستان نے خاطرخوا ہ ترقی نہیں کی ہے حالانکہ یہ درست نہیں پاکستان نے اپنے ساتھ آزاد ہونے والے ممالک چین و بھارت کی نسبت بہت ترقی کی ہے باوجودیکہ پاکستان کے قیام کے وقت مسائل بے پناہ تھے اور وسائل ناپید،نہ معیشیت تھی نہ بنیادی انتظامی ڈھانچہ حتیٰ کہ سرکاری دفاتر کے اخراجات کے لیے بھی وسا ئل نہ تھے اسپرستم یہ کہ سرکاری ملازمین اعلیٰ نے بدیشی حکمرانوں کا روپ دھار کرناجائز مراعا ت کے ذریعے ملکی وسائل کا بے دریغ ذاتی استعمال شروع کردیا جو تا ہنوزاپنی بھرپور توانائیوں اور چالبازیوں سے جاری ہے

مگر خالق کائنات نے اُس کے ہند کے مسلمانوں کو جہاں سے آقائے نامدار ، سرور کائنات حضرت محمد ﷺ کو ٹھنڈی ہوا آتی تھی ، 27 رمضان المبارک ، امت مسلمہ کو ہدائت والی کتاب عطا ہونے کی رات ، یہ آزادی کا انعام عطا کیا اور اُس کا نہایت خوبصورت نام پاکستان یعنی پاک لوگوں کی جگہ تجویز ہوا یہ سب کچھ اتفاقیہ نہیں ہوا یہ مشیت ایزوی تھی ۔ یقیناً یہاں پلنے والی آئند ہ نسل اسلام کے صحیح پیروکار اور خدمت گزار ہونگے۔ آج عدلیہ اور فوج اور پارلیمنٹ سمیت متعدد ادارے پہلے کی نسبت زیادہ بہتر نظر آرہے ہیں ۔ آج ایٹمی صلاحیتوں کے باعث نہ صرف اسکا دفاع مضبوط ہے بلکہ معیشیت بھی مستحکم ہے اور اقوام عالم میں اپنا ایک مخصوص مقام ہے اور رب کریم سے قوی امید ہے کہ انشاء اللہ وہ بہت جلداس وطن عزیز کو جسکا خواب مرد درویش ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے دیکھا تھا انہی کے تصورات کے مطابق وہ مقام عطا کریگا جب ؛
؂سمجھے گا زمانہ تیری آنکھوں کے اشارے
دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے
 

Syed Zubair Ashraf
About the Author: Syed Zubair Ashraf Read More Articles by Syed Zubair Ashraf: 2 Articles with 8789 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.