چولستان، خشک سالی اور TDCP !!

 چالیس پنتالیس روز اُدھر صحرائے چولستان میں سورج سوا نیزے پر آگیا تھا، جلتے بَلتے تپتے صحرا میں جہاں اوپر سے آگ برس رہی تھی ، وہاں ریت کے ذرّے بھی کوئلہ بن کے دہک رہے تھے۔ پرندے ہجرت پر مجبور ہو گئے تھے، بھیڑ بکریاں مرنے لگی تھیں، خشک سالی نے ڈیرے ڈال دیئے تھے۔ فلاحی تنظیمیں متحرک ہو گئی تھیں، مقامی حکومت اور اس کے متعلقہ ادارے بھی حرکت میں آگئے تھے، سب اپنے اپنے حصے کا کام کر رہے تھے۔ میڈیا میں سٹوریاں چل رہی تھیں، ٹوبے خشک ہو گئے تھے، سبزہ نام کو نہ تھا۔ حالات تشویش ناک تھے ، ہر ذی روح کی نگاہیں افلاک پر جمی تھیں کہ رحمتِ خداوندی جوش میں آئی، بادل گھوم گھوم کر آئے، جھوم جھوم کر برسے۔ اتنے برسے کہ روہی میں جل تھل ایک ہوگیا۔ ٹوبے تارمتار ہو گئے، نشیبی علاقوں میں بھی پانی جمع ہو گیا،زندگی کی لہر دوڑ گئی۔ جہاں چولستان میں خشک سالی ایک آفتِ سماوی ہے وہاں انسانی کوتاہی اور نااہلی کا بھی اس میں بہت ہاتھ ہے۔ سارا سال چولستانی اس بات کو روتے رہتے ہیں کہ ٹوبوں کی صفائی کی جائے، جن علاقوں میں انسانی آبادیاں زیادہ ہیں وہاں مزید ٹوبے بنائے جائیں، مگر سرکاری طور پر ’’گونگلوؤں سے مٹی ‘‘ اتار کر اپنا فرض پورا کر لیا جاتا ہے،مگر حقیقی بہتری کا کسی کو خیال نہیں آتا۔

چولستان میں جہاں ٹوبہ ہے، فطری طور پر آبادی بھی اس کے کنارے پر ہی ہے، جیسا کہ دریائے ہاکڑہ کے زمانہ میں قلعہ جات دریا کے کنارے پر ہی آباد تھے، دریا اپنا وجود کھوتا گیا، آبادی کا وجود مِٹتا گیا۔ ٹوبہ تو ایک سادہ تالاب ہے، جہاں کچھ جگہ عام زمین سے گہری کر دی جاتی ہے اور بارش کا پانی اس میں جمع ہو جاتا ہے ، وہاں سے جانوراور انسان اپنی ضرورت پوری کرتے رہتے ہیں۔ ایسے ہی مقامات پر حکومت نے کسی حد تک بہتر بندوبست کر رکھا ہے، کہ کچھ ٹوبے کنویں کی صورت میں پختہ بنا دیئے جاتے ہیں، جہاں پانی تادیر محفوظ رہ سکتا ہے، اس نسبتاً وسیع کنویں کو اوپر سے بھی کنکریٹ کی چھت سے ڈھانپ دیا جاتا ہے، اِس کو مقامی زبان میں ’’کُنڈ‘‘ کہتے ہیں۔ مگر افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ ہر سال جب خشک سالی آتی ہے تو چولستانی بہت ہی بُرے حالات سے دو چار ہوتے ہیں، مگر ٹوبوں اور کُنڈ کی صفائی کا مناسب اہتمام نہیں کیا جاتا۔بد قسمتی سے پاکستان بھر میں اوپر سے نیچے تک کار مختار لوگوں کی نگاہ اپنے پیٹ سے زیادہ آگے تک جاتی ہی نہیں، ہر منصوبے کو صرف اِس نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کہ اس سے بچت کتنی ہو گی۔ اگر کوئی ذمہ دار افسر بروقت اقدام کر لے تو ہر سال مقامی لوگ ایک بڑے جانی اور معاشی صدمے سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

چولستان میں ٹورازم والوں نے بھی اپنے پنجے گاڑنے کا کام شروع کر رکھا ہے، کیونکہ یہاں ہر سال فروری میں عالمی سطح کی جیپ ریلی منعقد ہوتی ہے ، اس کا کریڈٹ ٹی ڈی سی پی نے ہی لے رکھا ہے۔ اب قلعہ ڈیراور سے تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ٹی ڈی سی پی والوں نے وسیع پیمانے پر تعمیرات کا منصوبہ بنا رکھا ہے، جو امید ہے جلد ہی فعال کر دیا جائے گا، جس میں کلچر کے مطابق رہائش گاہیں اور مقامی ثقافت کے فروغ کا یقینا بندوبست ہوگا۔ مگر ستم یہ ہے کہ یہاں کروڑوں روپے تو لگا ئے جارہے ہیں، جبکہ یہ جگہ صرف ریلی کے چند ایام میں استعمال ہوگی، یا کوئی اِکّا دُکّا افسر یا بھُولا بسرا سیاحت کا شوقین آن ٹھہرے گا۔ مقامِ شکر ہے کہ قلعہ ڈیراور کے چہرے کے نقوش بھی سنوارے جارہے ہیں، جبکہ قلعہ کے اندر کی حالت بہت زیادہ خرا ب ہے، صرف صفائی اور ضروری مرمت ہی کروا دی جائے تو بہت بہتری ہو سکتی ہے۔

ٹی ڈی سی پی کے حکّام دکھاوے کی حد تک تو واقعی سرگرم ہیں، مگر مجال ہے جو سال بھر میں جیپ ریلی کے علاوہ اس علاقے میں کوئی ایک سرگرمی بھی ظاہر کریں، چولستان میں بیسیوں قلعے کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے ہیں، یہاں کا ہینڈی کرافٹ نہایت دلکش ہے، مقامی، روایتی کھانوں کو فروغ دیا جاسکتا ہے، کیمل سواری کا اہتمام ہو سکتا ہے۔ جیسے سیاحوں کی اکثریت گرمیوں میں شمالی علاقہ جات کا رُخ کرتی ہے، ایسے ہی اکتوبر سے مارچ تک سیر کا شوق رکھنے والے لوگوں کو چولستان کی طرف متوجہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ ثقافت کا بہترین مرکز بن سکتا ہے، بشرطیکہ یہاں بہتر سہولتیں دی جائیں۔ سیاحوں کے یہاں آنے سے مقامی لوگوں کی معاشی حالت بہتر ہو سکتی ہے،لوگوں کو روز گار کے مواقع میسر آسکتے ہیں۔ مگر کیا کیجئے کہ ٹی ڈی سی پی ہو یا مقامی حکومت یا پھر چولستان کے دیگر متعلقہ ادارے ، سیاحت کے فروغ میں کسی کی دلچسپی نہیں۔ اگر ٹورازم ڈیپارٹمنٹ یہاں سیاحت پر توجہ دے تو چولستان سے لائیوسٹاک کو بھی بہت زیادہ ترقی مل سکتی ہے۔ دنیا میں کتنے ہی ایسے ممالک ہیں جن کی ترقی اور معیشت کا دارومدار صرف سیاحت پر ہے، مگر بدقسمتی سے پاکستان میں ایسے بے شمار مقامات ہونے اور ایسے محکمے ہونے کے باوجود ایک قدم آگے نہیں بڑھا سکے۔ چولستان میں داخلے سے قبل بہاول پور شہر کو ہی دیکھ لیں، خوبصورت محلّات کے اس شہر میں صفائی کا مثالی بندوبست موجود ہے، اس کے محلّات خود سیاحت کو بڑھاوا دینے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں،مگر جب تک متعلقہ ادارے اپنی بے حِسی اور نااہلی ختم کرکے کوئی عملی کام نہیں کرتے ہمارے جیسے عوام کے چاہنے اور نا چاہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، سیاحت کو فروغ ملے یا نا ملے البتہ ٹورازم والوں کی ذاتی مالی حالت ضرور ترقی کی طرف گامزن ہے اور رہے گی۔
 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472648 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.