کاغان بلاتا ہے

میں تقریباً ایک ہفتہ کاغان کی خوبصورت وادی میں گزار کر آیا ہوں۔شاید یہ پاکستان کی خوبصورت ترین وادی ہے۔میں پہلی دفعہ 1966 میں اس وادی میں اپنے والدین کے ساتھ گیا تھا۔اس وقت میں شاید نویں یا دسویں جماعت کا طالب علم تھا۔ہمارا پہلا پڑاؤ بالا کوٹ تھا۔ اس وقت بالا کوٹ سے کیوائی تک ڈبل روڈ تھی مگر وہ ڈبل ایسی تھی کہ مخصوص جیپیں ہی چل سکتی تھیں۔ گاڑی کا اس سڑک پر چلنا ممکن ہی نہیں تھا۔ پتلی سی سڑک نما پگڈنڈی تھی۔ جیپیں بھی یوں چلتی تھیں جیسے موت کے کنوئیں میں گاڑی چلتی ہے۔کیوائی سے آگے جو سڑک تھی وہ اس قدر پتلی تھی کہ بمشکل ایک جیپ چل سکتی تھی۔ چنانچہ ٹریفک یک طرفہ چلتی تھی۔ چار گھنٹے کیوائی سے ناران اور چار گھنٹے ناران سے کیوائی اور درمیان میں کچھ وقت وقفہ تاکہ ایک طرف والی گاڑیاں اپنی منزل تک پہنچ جائیں اور پھر دوسری طرف والی اپنی منزل کو گامزن ہوں۔بالا کوٹ سے ناران تک بہت سے قصبے آتے ہیں مگر کہیں بھی کوئی ہوٹل نہیں تھا۔ کہیں اکا دکا کوئی گندہ سا کھوکھا نظر آتا جہاں ہم چائے اور دال اور روٹی کھا سکتے تھے۔ ناران میں البتہ چند ہوٹل تھے۔ پی ٹی سی ڈی موٹل تھا۔ جس میں کمرے کم اور خیمے بہت تھے۔غیر ملکی سیاح آتے اور ان کے لئے دریا کے کنارے خیمہ ڈال دیا جاتا۔ وہ لوگ ان خیموں میں خوش ہو کر رہتے۔ دریا کے کنارے ایک فطری ماحول میں خیموں کے اندر انہیں ایک خاص آسودگی محسوس ہوتی۔ناران سے کچھ پہلے یوتھ ہوسٹل تھا اور نوجوانوں کی رہائش کی ضروریات پورا کرتا تھا۔میرے والد ان دنوں گورنمنٹ روڈ ٹرانسپورٹ میں کام کرتے تھے۔ ہمارے آنے کا سن کر وہاں گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کے لوگوں نے زیر تعمیر دو کمروں کے ریسٹ ہاؤس کو جلدی سے مکمل کرایا اور ہم کوئی پانچ دن اس میں مقیم رہے۔ ناران میں ایک ہی میں بازار تھا ۔ چند دکانیں وہ بھی سر شام بند ہو جاتی تھیں شام کے بعد دریا کی خوفناک آواز کے علاوہ کچھ سنائی نہیں دیتا تھا۔1966 کے بعد 1980 تک میں سات آٹھ دفعہ ناران گیا مگر چند نئے ہوٹلوں کے سوا کوئی بڑی تبدیلی نظر نہیں آئی۔

دو سال پہلے میں کاغان ناران کو عازم سفر ہوا۔ راستے میں شدید بارش کے بعد بالا کوٹ رکنا پڑا۔ اگلی صبح پتہ چلا کہ لینڈ سلائڈنگ کے سبب راستہ بند ہو چکا۔کچھ افسوسناک واقعات بھی ہوئے اور راستہ ایک ہفتے تک کھلنے کی امید نہیں تھی۔ چنانچہ وہیں سے واپس آ گیا۔مجھے افسوس بھی ہوا کیونکہ اپنے بے پایاں حسن کے سبب وادی آپ کو بلاتی ہے مگر مجبوری تھی۔اس سال میں اپنے سارے بچوں کے ہمراہ اپنی خوابوں کی وادی میں موجود تھا۔2005 کے زلزلے میں اس وادی کے بہت سے حصے مکمل تباہ ہو گئے تھے۔ تعمیر نو نے وادی کی شکل ہی بدل دی ہے۔راستے بہت بہتر ہو گئے ہیں۔ درمیان میں ایک ڈیم بھی زیر تعمیر ہے جس کی وجہ سے سڑک دریا کے دائیں بائیں ہوتی ہے مگر اس کی چوڑائی اور روانی میں کوئی فرق نہیں آتا۔کاغان نام کا بھی ایک قصبہ راستے میں آتا ہے مگر وہاں بہت کم لوگ ٹھہرتے ہیں۔ناران کاغان ویلی کا مرکزی مقام ہے ،سیاح یہیں رکتے ہیں مگر ناران اب وہ پرانا اور سادہ سا ناران نہیں رہا۔ اب یہ ہوٹلوں سے بھر پور ایک گنجان آباد شہر ہے۔ہر معیار اور ہر قیمت میں آپ کو کمرا مل جائے گا۔ وہ فطری سادگی جو اس وادی کا اصل حسن تھا اس شہر کے چھوٹے سے حصے سے رخصت ہو چکی۔وہ کچے پکے ہوٹلوں کا شہر اب کنکریٹ سے بنے قد آور ہوٹلوں کا شہر ہے۔فطری ماحول کی تلاش میں ہم نے ناران سے تھوڑا آگے دریا کے کنارے ایک خوبصورت ہوٹل میں فطری ماحول میں بڑے اچھے انداز میں دو تین دن گزارے۔وادی کے پورے راستے میں بہت سے جھرنے اور بے شمار آبشاریں ہیں۔ مقامی لوگوں نے آبشاروں کے راستے ہموار کرکے ان کے ارد گرد چھوٹے چھوٹے ہوٹل بنا لئے ہیں اور آبشاروں کے راستوں میں ہموار جگہوں پر کرسیاں اور چارپائیاں رکھی ہیں۔ سیاحوں کے لئے وہ جگہ اور ماحول انتہائی پر کشش ہو تا ہے۔ وہ ٹھنڈے پانی میں پیر رکھے پکوڑوں اور چائے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔کاغان تک آنے اور جانے کے دوران یہ منظر جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔

وادی کاغان بالا کوٹ سے شروع ہو کر اونچے اونچے پہاڑوں اور گھنے جنگلوں کے درمیان دریائے گنہار کے ساتھ ساتھ تقریباً155 کلو میٹر ، بابو سر ٹاپ تک جاتی ہے جو وادی کا بلند ترین 13690 فٹ اونچا مقام ہے۔اس سے آگے گلگت کی حد شروع ہو جاتی ہے۔کاغان کی موجودہ مقامی آبادی گوجروں پر مشتمل ہے۔جو گوجری اور ہندکو بولتے ہیں مگر اردو پوری طرح سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ سردیوں میں شدید برفباری کے سبب وادی چھوڑ کر نیچے بالا کوٹ منتقل ہو جاتے ہیں۔ گرمیوں کی آمد کے سات ہی وادی کی رونقیں لوٹ آتی ہیں۔ وادی میں اتنے زیادہ سیاحتی مقام ہیں کہ مہینوں وہاں رہنے کے باوجود آپ سارے مقام نہیں دیکھ سکتے۔ دریا کے ساتھ ساتھ تمام مقامات پر گاڑیاں چلی جاتی ہیں ۔ وہاں ہر شخص آسانی سے پہنچ جاتا ہے لیکن اوپر پہاڑوں میں موجود وادیوں اور جھیلوں تک جانے کے لئے بہت سی جگہ جیپ استعمال ہو سکتی ہے مگر بہت سے مقامات تک جانے کے لئے آپ کو پیدل چلنا ہوتا ہے اور بہت بڑی تعداد میں لوگ ایک ایک اور دو دو دن چل کر وہاں پہنچتے ہیں۔ 1993 میں پاکستان ائیر فورس کے ایک طیارے نے جھیل سیف الملوک سے کچھ آگے ایک جھیل دیکھی جس کی شکل آنکھ کی طرح تھی۔ انہوں نے اس جھیل کی نشاندہی کی اور آج لوگ اس جھیل تک جاتے ہیں۔ وہ جھیل آنسو جھیل کہلاتی ہے۔بالا کوٹ سے بابوسر تک دائیں ،بائیں ، اوپر، نیچے بے حساب مقامات ہیں۔ جن میں کیوائی، شوگران، سری پایا، مانا میڈوز(گھاس کا ہرا بھرا میدان)، شاران، شینو، جرید،ملکہ پربت، مہاندری، خانیان، ماکنڈی فورسٹ، کاغان، ناران، باٹا کنڈی، جھیل سیف الملوک، لالہ زار، بورا وائی ، نوری ٹاپ جھیل، بسال،مکرا پیک، لالو سر لیک ، سپت ویلی،دودی پٹ سر جھیل،پیالہ جھیل،سرل جھیل، ست سر مالا جھیل، بابوسر پاس نمایاں ہیں مگر یہاں کا چپہ چپہ اپنے حسن میں بے مثال ہے اور دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500793 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More