صوبوں کا پنڈورا بکس

ہماری حکومت جب کسی مسئلے کوحل کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے یااپنے مفادکے تحت اسے حل کرناہی نہیں چاہتی تولومڑی کی طرح مکارانہ اندازمیںقوم کوغچّہ دے جاتی ہے۔ اصل مسئلے سے توجہ ہٹانے کیلئے کوئی نیامسئلہ کھڑاکردیاجاتاہے۔ جس سے اصل مسئلہ پیچھے چلاجاتاہے۔ یوںتوملک اس وقت بے شمارمسائل میں گھراہواہے۔لیکن سرفہرست خود حکومت کی کرپشن پر عدلیہ کی گرفت والا معاملہ اس کے لیے سر کا پھوڑا بنا ہوا ہے۔قوم بے تا بی سے نتیجے کی منتظر تھی کہ توجہ ہٹانے کےلئے نئے صوبوں کا مسئلہ چھیڑ دیا۔جو دراصل بے وقت کی راگنی ہے۔یہ حکومت جو خود اتنی کمزور ہے کہ ہواکے ایک تھپیڑے کو برداشت کرنے کی سکت تو رکھتی نہیں،نئے صوبوں کی تشکیل کا بھاری پتھر کیسے اٹھائے گی؟ سب ’ڈنگ ٹپاﺅ‘بہانہ سازیاں ہیں۔

چونسٹھ برس بیت گئے۔ پاکستانی قوم نااہل اور غیرفطری قیادت کے ہاتھوں میں کھلونابنی ہوئی ہے۔قیام پاکستان کے فوراًبعد ہی حضرت قائداعظمؒنے قوم کومتنبہ کردیا تھاکہ ”اگرہم خودکوبنگالی‘پنجابی‘بلوچی اورسندھی وغیرہ پہلے اورمسلمان اورپاکستانی بعد میں سمجھنے لگیں گے توپاکستان لازماًپارہ پارہ ہوجائے گا“۔

جس وقت ضروری تھاکہ نئے صوبے بنائے جائیں اسوقت تونہ بنائے گئے اورون یونٹ بنادیاحالانکہ اگرمشرقی پاکستان کے بھی کئی صوبے بنادیئے جاتے توشایدمتحدہ پاکستان ٹوٹنے سے بچ جاتا۔اوراب جبکہ نسلی اورلسانی زہریلے ناگ پھن اٹھائے کھڑے ہیں۔نسلی اورلسانی بنیادوںپرہی اورنئے صوبے بنانے چلے ہیں۔پختونخواہ صوبہ کیا بنا۔ ملّی وحدت کاپنڈورابکس ہی کھل گیا۔ملک کے ہرکونے کھدرے سے طرح طرح کی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔پختونخواہ بنا ہے تو جنوبی پختونخوابھی بننا چاہیے۔ سرائیکی صوبہ بنتا ہے توصوبہ تھل بھی بنے۔صوبہ پوٹھوہار۔پھرجنوبی پنجاب تو وسطی پنجاب بھی اورمغربی پنجاب بھی۔گیلانی صوبہ اور پھر چودھری صوبہ اورصوبہ شریف وغیرہ۔ اوراسی طرح سندھ میں کئی صوبے بنیں گے۔ مہاجر صوبہ۔ غیر مہاجر صوبہ۔ پگاڑاصوبہ۔ خالص بھٹو صوبہ۔ زرداری بھٹو صوبہ۔اور بلوچستان میں صوبہ مکران ۔خالص بلوچی صوبہ۔ ملاجلا سندھی بلوچی ۔بگٹی اورمینگل صوبہ وغیرہ۔پختونخواہ کے علاوہ سابق صوبہ سرحدمیں کئی اور صوبے بھی بن سکتے ہیں۔مثلاًصوبہ ہزارہ ۔ہندکوصوبہ ۔محسودی صوبہ۔ ڈرون صوبہ شمالی۔ ڈرون صوبہ جنوبی۔ سوات نفاذ شریعت صوبہ اورڈیرہ اسماعیل خان کا صوبہ فضل الرّحمان۔

بنائیں بنائیں ہر قوم اورخاندان اپنے اپنے نام پرصوبہ بنا لے۔ملتان کے گیلانی اپنا صوبہ بنائیں گے تو کیا یہ ایسی وراثتی جاگیر ہو جائیگا؟جو عبدالقادر گیلانی کے نام منتقل ہو سکے ۔ اور پھر چودھری کیا پیچھے رہیں گے۔چودھری صوبے میں آگے مونس الٰہی کی چودھراہٹ چلے گی؟شریف صوبے میں آئندہ بھی شریفوں کے ڈنکے بجیں گے؟زرداری سمجھتے ہیں کہ زرداری بھٹو نام رکھنے سے بھٹو کی وراثت بلاول کو منتقل ہو جائے گی؟ مہاجر صوبہ میں غیر مہاجر۔پختون میں غیرپختون۔اسی طرح بلوچ صوبہ میں غیربلوچ وغیرہ کس طرح سکون سے رہیں گے؟ چودھری اپنے صوبے میں کسی اور کی چودھراہٹ برداشت کریں گے؟اور شریف اپنے صوبہ میں کسی اور کی حد سے بڑھتی شرافت سہار لیں گے؟اور صوبہ فضل الرّحمان میں کوئی اور مائی کا لال دم مار سکے گا؟پختونخواہ نام رکھنے سے پختونستان کا خواب پورا ہو جائے گا؟ یہ سب خام خیالیاں ہیں ۔

بناﺅبناﺅ اور صوبے بناﺅ ۔اتنے صوبے بناﺅ کہ صوبے بنانا بے معنی ہو کر رہ جائے ۔ کیا ان صوبوں کی اپنی اپنی اسمبلیاں بھی ہوں گی؟ہر ایک کی الگ الگ کابینہ بھی ہوگی؟ گورنری اوروزارت عالیہ بھی ؟کیا ان سارے اخراجات کا ملک متحمل ہو سکے گا؟

کسی کو نوکری ملی۔ٹیلی فون بوتھوںسے سکّے اکٹھّے کرنے کی ۔وہ یہ کام کرتا رہا۔ مہینہ سے اوپر ہو گیا۔ اس کے ایک ساتھی نے پوچھا یار تم تنخواہ لینے دفتر نہیں آئے ۔حیران ہو کر کہا تو اس کام کی تنخواہ بھی ملتی ہے؟

ہاں تو اگراسی طرح لوٹ ما رکرنی ہے تو بنالوپندرہ بیس صوبے اور شروع ہوجاﺅ۔ لیکن اگرواقعی ارباب اقتدارملک وملّت کا بھلا چاہتے ہیں۔ تو حقیقی حل یہ ہے کہ موجود ہ صوبے بھی ختم کردئیے جائیں اورسارے ملک کوکمشنری لیول کے انتظامی یونٹوں میں تقسیم کر کے مرکزمیں ایک اسمبلی اور ایک کا بینہ رکھ لی جائے۔ بے حدکفایت ہو گی۔علاوہ ازیں تمام نسلی اور لسانی سانپوں اور بچھوﺅں کا خاتمہ بالخیر ۔

اور آخر میں محسن انسانیت رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے آخری خطبہ سے اقتباس :۔
”لوگوں! جو کچھ میں کہوں غور سے سنو۔جو موجود ہیں وہ انہیں بتا دیں جو موجود نہیں۔ تم سب ایک آدم کی اولاد ہو۔ کسی کو کسی پر فضیلت نہیں۔تم میں سب سے بہتر وہ ہے جسے اللہ کا خوف ہے ۔ رنگ نسل اور قبیلے کا کوئی امتیاز نہیں ۔تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔

لوگوں!غور سے سنو۔ جو چیز میں تمھارے درمیان چھوڑے جارہاہوں۔وہ نہایت واضح اورروشن ہے۔اوروہ ہے اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت ۔اگر اسے مضبوطی سے پکڑے رہوگے تو کبھی ٹھوکر نہ کھاﺅ گے“۔
Rao Muhammad Jamil
About the Author: Rao Muhammad Jamil Read More Articles by Rao Muhammad Jamil: 16 Articles with 11229 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.