یہاں اور وہاں کی اقلیت۔۔۔موازنہ

آج میں پاکستان اور بھارت کی اقلیت پرقلم اٹھا رہا ہوں اس کیلئے مجھے یاد رکھنا ہوگا کہ قوم مسلم جس نے کبھی آٹھ سو برس تک بھارت پر حکومت کی تھی، وہی مسلمان آزادی کے فقط 64 سال بعد اسی ملک میں صرف محکوم ہی نہیں بلکہ ذلت سے بدتر زندگی جی رہا ہے۔۔۔۔۔۔سچ تو یہ ہے کہ آج ہندوستانی مسلمان زندگی کے میدان میںملک کی تمام دوسری قوموں سے اس قدر بچھڑ چکا ہے کہ جس کا کوئی حساب نہیں۔وہ سیاست ہو یا معیشت، تعلیم ہو یا روزگار، صحت کا معاملہ ہو یا اس کا تحفظ، ہندوستانی مسلمان ہر میدان میں آخری سیڑھی پر کھڑا ہے۔اس کو نہ حکومت روزگار مہیا کرتی ہے اور نہ ہی غیر سرکاری ادارے روزی دینے کو تیار ہیں۔مسلم محلوں میں نہ تو صفائی ستھرائی کا کوئی معقول انتظام ہے اور نہ ہی حکومت کو یہ فکرکہ مسلم علاقوں میں اسکول کھولے جائیں۔اگر مسلمان کسی حد تک تجارت میں ہاتھ ڈالےاور کسی مسلم بستی میں رہ رہا ہو تو اس پر بینک اوردوسری تمام معاشی سہولتوں کے دروازے بھی بند کردیئے جاتے ہیں۔وہ پارلیمنٹ ہو، صوبائی اسمبلی یا کارپوریشن حلقہ، ہر سیاسی ادارے میں مسلمان اب نمک کے برابر بھی نہیں بچا ہے۔لب لباب یہ ہے کہ گندی بستیوں اور پیچدار گلیوں میں بند ہندوستانی مسلمان ایک سکڑی سمٹی زندگی جی رہا ہے۔ الغرض کس کے رویئے،کون سا المیہ بیان کیجئے، بس یوں جانئے بھارت کے مسلمانوں کیلئے 1947ءمیں آزادی نہیں آئی بلکہ قیامت کی ایک ایسی صبح کا آغاز ہوا جو چونسٹھ برس بعد بھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ہندوستانی آئین نے بھارت کو سیکولر کہا اور 1952ءمیں بھارت کے ہر باشندے کوبغیر تفریق مذہب و ملت و برابری کے حقوق ملے۔لیکن یہ سچ ہے کہ اس سیکور ملک میں مسلمانوں کو کچھ نہیں ملا۔اگر گزشتہ چونسٹھ سالوں میں ہندوستانی مسلمانوں کو کچھ ملا تو وہ صرف ایک شئے تھی جس کا نام تھا فساد۔جی ہاں، آزادی کے بعد کبھی جمشید پورسلگ اٹھا تو کبھی علی گڑھ فساد کی نذر ہواتو کبھی مراد آباد میں پی اے سی نے مسلمانوں پر قہر ڈھایا۔کبھی ملیانہ تو کبھی میرٹھ کا المیہ۔۔۔۔ آخر کون سا فساد یاد کیا جائے اور ان چونسٹھ برسوں میں کس فساد کو فہرست سے باہر کیا جائے۔الغرض آزادی صبح کے فوراً بعد فساد بھارت کے مسلمانوں کامقدر بن گئی اور ان تمام فسادات میں پولیس کے جامہ میں حکومت کا جو رول رہا اس سے یہ بات عیاں تھی کہ سیکولر آئین کے تحت چلنے والے ہندوستانی نظام کا مزاج فرقہ پرست،مسلم دشمن تھا اور آج بھی ہے۔۔۔۔۔۔

سوال یہ ہے کہ بھارت میں ہونے والے آئے روز مسلم مخالف فساد اور فرقہ پرستی کا مقصد کیا تھا اور ہے؟دراصل فرقہ پرستی اور فساد ہندوستانی حکمراں طبقہ کی وہ سیاسی حکمت عملی ہے کہ جس کا مقصد بھارت کے مسلمانوں کو نفسیاتی طور پر ڈرا کر اس کو محکوم بنانا ہے۔ وہ قوم جو آئے دن فسادات کا شکار ہے، رہے گی وہ بھلا اپنے کسی اور حق کے بارے میں کیا سوچ سکے گی؟ چنانچہ فساد اعلیٰ ذات ہندو حاکم طبقے کی مسلمانوں کے خلاف ایک منظم سیاسی حکمت عملی تھی جس کا مقصد مسلمانوں میں احساس عدم تحفط پیدا کرکے ان کو نفسیاتی طور پرغلام بنائے رکھنا تھااور یہی وجہ ہے کہ بھارت کا ہر وہ شہرجہاں مسلمانوں کی آبادی دس فیصد بھی ہے وہ آئے دن فساد وں کے نشانے پر رکھتا ہے لیکن مسلمان کوئی نفسیاتی طور پرذلت ہے نہیں اس لیئے آزاد ہندوستان کے فرقہ پرست نظام کی تمام تر منفی کاوشوں کے باوجود بھی 1970 ءکی دہائی سے بھارت کے مسلمانوں میں ایک چھوٹا موٹا مڈل کلاس طبقہ پیدا ہونے لگا۔ کچھ عرب ممالک میں تیل کی ریل پیل نے ہندوستانی مسلمانوں کیلئے وہاں روزگار پیدا کردیئے اور کچھ ملک کی جمہوری نظام کی مجبوریوں کی وجہ سے کبھی ہندوستان کے مسلمانوں کو اپنے ووٹوں کی قیمت میں کچھ راحت مل گئی۔اس لیئے آزادی کے بعد مسلم نسل کا ایک چھوٹا حصہ کبھی علی گڑھ یونیورسٹی تو کسی اور یونیورسٹی سے پڑھ لکھ کر اپنے پیروں پر کھڑا ہونے لگابلکہ وہ کچھ قوم کے بارے میں سوچنے بھی لگ گیا۔دوسری جانب وہ اعلیٰ ذات جو اقتدار میں آکر1970ءکی دہائی تک تیز رفتاری سے ترقی کرنے لگی تھی اس کو 1989ءکی دہائی میں یہ خواب دکھائی دینے لگاکہ اب ہندوستانی آئین پر سے سیکولر ازم کا پردہ ہٹا کر اس کو باقاعدہ ایک ہندو نظام بنانے کا وقت آگیا ہے۔الغرض 1947ءمیں ملک کے بٹوارے کے بعد ملک میں نظام بنا ،اس نظام نے ہندوستانی مسلمانوں کو سیاسی، سماجی، معاشی اور تعلیمی اعتبار سے محکوم بنائے رکھنے کی ایک منظم حکمت عملی تیار کی۔مسلمانوں میں فساد اور فرقہ پرستی کے ذریعے احساس عدم تحفظ پیدا کرکے ان کو نفسیاتی طور پر ایک خائف ذہنیت کا شکاربنانا اس حکمت عملی کا ایک اہم جز تھا۔ادھر معاشی طور پر مسلمانوں کی کمر توڑنے کیلئے بھارت میں 1952ءمیں زمینداری نظام ختم کردیا گیا۔ یوں تو زمینداری کا خاتمہ ایک انقلابی قدم ہے مگر ہندوستانی نظام نے زمینداری خاتمے کو مسلمانوں کی کمر توڑنے کیلئے استعمال کیا۔کیونکہ آزادی کے وقت تک بھارت کی معیشت زمیندارانہ تھی اور مسلمان ایک عرصہ درازتک بھارت کے حاکم رہے تھے اس لیئے وہ معاشی طور پر بہت حد تک زمیندارانہ معیشت میں زیادہ تھے جیسے ہی زمینداری کا خاتمہ ہوا ویسے ہی مسلم نواب رجواڑے تو خاک میں مل گئے لیکن ہندو راجے رجواڑےآج بھی پھل پھول رہے ہیں۔ گھبرا کر مسلمان زمینداروں نے عدالت کا رخ کیا تو ان کی املاک اور زیورات وکیلوں کی فیس کے نام پر بنیوں کے بہی کھاتوں کی نذر ہوگئے اور کل کا مسلمان نواب راتوں رات دو روٹی کا محتاج ہوگیا۔ اس طرح پرانی زمیندارانہ معیشت تو مسلمانوں کے ہاتھ سے گئی اور آزادی کے بعد بھارتی سرکار نے ملازمت کے ذریعے اور بنیوں نے فیکٹریوں کے ذریعے ملک میں نئی معیشت پیدا کی، اس میں مسلمانوں کو نمک کے برابر بھی حصہ نہیں دیا گیا ۔ ۔۔۔۔آزادی کے بٹوارے کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں اقلیتوں کو مذہبی اعتبار سے مکمل حق حاصل رہے ہیں ، ان کے تحفظ کا ہمیشہ خیال رکھا گیا انہیں تمام معاملے میں شامل کیا گیا چاہے نمائندگی کی نشست ہوں یا روزگار کا عمل، تعلیم و صحت کی سہولتیں ہوں یا مذہبی آزادی گو کہ پاکستان میں اقلیت کبھی بھی اپنی آپ کو اقلیت نہیں سمجھتا ۔۔۔پاکستان میں اقلیتوں کوکاروبار ہو یا زمینداری، صنعت ہو یا تجارت میں ہر طرح معاشی، اخلاقی سطح پر حکومتی اور پرائیویٹ سطح پر بھرپور تعاون کیا جاتا ہے۔روزگار میں کسی طور پر نہ رکاوٹ ہوتی ہے اور نہ کمی۔بھارت اپنے اقلیتوں کے ساتھ انتہائی برے سلوک کا عادی ہے اس لیئے وہ نہیں چاہتا کہ پاکستان میں کسی طور پر امن قائم ہوسکے ، اس لیئے اپنے تمام تر قوت پاکستان اور پاکستان کو تحفظات پہنچانی والی ایجنسیوں کے خلاف آئے روز جھوٹے پروپیگنڈے پھیلانے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر اقوام متحدہ سچائی، حقیقی بنیادوں پر تحقیق کرے تو اسے معلوم ہوگا کہ بھارت کے سیاسی لیڈران اور حکمران جرائم اور منفی سوچ رکھتے ہیں اور وہ خود اپنے ملک بھارت میں کس قدر دہشت گردی، فرقہ پرستی، تعصب، اقربہ پروری میں ملوث پائے جائیں گے۔ بھارتی ایجنسی را مسلسل پاکستان کے اندرونی و خارجی معاملات میں دخل اندازی کرتے رہتے ہیں ۔ امریکا کو بھارت کے شر و فساد نظر نہیں آتے جو پاکستان اور پاکستان کے مخلص ایجنسیوں کو دباﺅ کے تحت انہیں کمزور کرنے پر تلے ہوئے ہیں ، اور ہمارے غیور، بہادر ایجنسیوں کے سربراہ انہیں ناگوار گزر رہے ہیں ۔۔۔ پہلے بھارت اپنے اقلیتوں کو حق دے پھر پڑوسی ملکوں کی بات کرے ، اپنے فرائض سے بھاگنے کا یہ کیا طریقہ ہے۔۔۔۔۔؟؟
Jawed Siddiqui
About the Author: Jawed Siddiqui Read More Articles by Jawed Siddiqui: 310 Articles with 247641 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.