مہاراشٹر : ڈیڑھ متوالوں کی گرتی پڑتی سرکار

مہاراشٹر میں فی الحال ’ڈیڑھ متوالوں ‘ کی سرکار برسرِ اقتدارہے ۔ اس حکومت میں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کون پورا اور کون آدھا متوالہ ہے؟ جو عہدے کے لحاظ سے پورا ہے اس کو کبھی تقریر کے دوران ٹوک کر کہہ دیا جاتا ہے کہ سارے راز افشاء نہ کرو۔ کبھی درمیان میں پر چی پکڑا کر خاموش کیا جاتا ہے تو کبھی بھری محفل میں سامنے سے مائیک چھین لیا جاتا ہے لیکن اقتدار کی خاطروہ بیچارہ اپنے نصف کی ساری رسوائی کو چپ چاپ سہہ لیتا ہے۔ ان ڈیڑھ متوالوں کی حکومت پچھلے ڈیڑھ ماہ سے ریاست پر مسلط ہے۔ اردو دنیا کے اندر ’ڈیڑھ متوالے ‘1962 میں شائع ہونے والے ابن صفی کے شہرۂ آفاق تصنیف کا نام تھا۔ عمران سیریز کے اس ناول کی یہ خصوصیت تھی کہ اسے ابن صفی نے تین سال توقف کے بعد لکھا اورسابق وزیر اعظم لال بہادر شاستری کے دست ِ مبارک سے اس کا جراء ہوا۔ اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ایک ہفتے کے اندر اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کرنا پڑا۔ ابن صفی کے اس ناول کو پھر سے اٹھارہ سال بعد 1980میں شائع کیا گیا ۔ اس بات کا امکان کم ہے کہ اگر اٹھارہ سال بعد بی جے پی اقتدار میں آ جائے تب بھی دیویندر فرد نویس کو وزیر اعلیٰ بنایا جائے ۔مہاراشٹر میں تیس ماہ وقفہ کے بعد بی جے پی نے اقتدار پر چور دروازے سے قبضہ تو کرلیا لیکن اب سانپ کے منہ میں یہ چھچھوندر نہ اگلتے بنے اور نہ نگلتے ہی بنے۔

یہ ڈیڑھ متوالے آئے دن کابینہ کی نشست کرکے گزشتہ حکومت کے فیصلوں کو تبدیل کرنے کا اہم کارنامہ انجام دیتے رہتے ہیں۔ گودی میڈیا ان خبروں کو شائع کرکے دادِ تحسین وصول کرتا ہے۔ ان متوالوں میں سے ایک ریاست کے مختلف شہروں کا دورہ کرکے خراج ِ عقیدت وصول کرتا ہے اور دوسرا آئے دن دہلی کے چکر کاٹتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے پونے شہر میں خود اپنے ہی نام پر ایک باغ کے افتتاح کا ارادہ کرلیا ۔ ان کو غالباً سپریم کورٹ کے رویہ سے احساس ہوگیا ہے کہ اس چار دن کی چاندنی کے بعد پھر اندھیری رات ہے اس لیے سوچا کیوں نہ اندھیرا چھانے سے قبل جس قدر ممکن ہو اپنا نام روشن کرلو۔ پونے میں محمد واڑی کے سابق کاونسلر نانا بھنگارے نے ابھی حال میں شندے کیمپ کے اندر شمولیت اختیار کی اورانہیں شہر کی اکائی کا صدر بنا دیا گیا۔ اس نوازش سے خوش ہوکر اپنے آقا کی خوشنودی کے لیے انہوں نے سرکاری خرچ سے تیار کردہ ایک باغ کو ان کے نام سے منسوب کرنے کا اعلان کردیا ۔

نانا بھنگارے اس بات کو بھول گئے کہ جس وقت باغوں میں پھول کھلے ان کی میعاد ختم ہوچکی تھی اس کے ساتھ نام رکھنے کےاختیار کا بھی خاتمہ ہوچکا تھا۔ ان کی اس من مانی کے خلاف شہر کے سماجی جہد کار احتجاج کرنے لگے۔ ان کا اعتراض یہ تھا کہ نام رکھنے کے سلسلے میں میونسپل کارپوریشن کے ضابطوں کا پاس ولحاظ نہیں ر کھا گیا۔ اس طرح وزیر اعلیٰ کے پہلے ہی دورے میں نحوست آن پڑی ۔ وزیر اعلیٰ اس مخالفت سے بچنے کی خاطر پروگرام منسوخ کرنے کا حکم دے دیا۔ تب جاکر بھنگارے کی عقل ٹھکانے آئی اور انہوں نے اعلان کیا کہ فی الحال افتتاح کی یہ تقریب نہیں ہوگی ۔ اب نام رکھائی کی تجویز پہلے پونے نگر نگم (بلدیہ) میں رکھی جائے گی اور اس کمیٹی میں نام سے متعلق فیصلہ کیا جائے گا ۔ اس بابت ونیتا دیشمکھ نامی سماجی کارکن نے کہا کہ پونے شہر میں کئی مسائل ہیں ۔ وزیر اعلیٰ کو اپنے دورے میں اس جانب توجہ کرنی چاہیے تھی لیکن ان کی ترجیحات میں سرکاری باغ اپنے نام کرنے کو اہمیت حاصل ہوگئی۔

دراصل دیشمکھ کو معلوم ہونا چاہیے کہ موجودہ سرکار کو عوام کے مسائل حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔وہ تقریب میں تقریر کرنے ، تصویر کھنچواکر اس کی ویڈیو ذرائع ابلاغ میں پھیلانے کے لیے آرہے تھے لیکن ونیتا دیشمکھ جیسے لوگوں نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ اس سانحہ کے بعد وزیر اعلیٰ کے ریاست گیر دورے پر بریک لگ گئی اور انہوں نے اچانک اپنے سارے پروگرام منسوخ کردیئے۔ شندے کے قریبی لوگوں نے بتایا کہ اس کا سبب طبیعت کا اچانک ناساز ہوجاناہےلیکن اس کی وجہ سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ بھی ہوسکتا ہے جس میں الیکشن کمیشن پر روک لگادی گئی ہے۔بی جے پی اور شیوسینا یہ توقع کررہے تھے سپریم کورٹ پارٹی کی اصل قیادت اور انتخابی نشان سے متعلق معاملات الیکشن کمیشن کو سونپ دے گا اور وہاں ان کی مرضی کے مطابق فیصلہ کرکے ادھو ٹھاکرے کو دودھ سے مکھی کی مانند شیوسینا سے نکال پھینکے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔

اس سے پریشان ہوکر دیویندر فردنویس امیت شاہ اور جے پی نڈاسے ملنے کی خاطر دہلی کی جانب دوڑ پڑے اور ایکناتھ شندے اپنا ریاست گیر دورہ منسوخ کرکے گھر بیٹھ گئےیعنی ایک بیمار اور دوسرا فرار کی کیفیت ہوگئی۔ ویسے دورے کی تھکن کا عذرلنگ اس لیے بے معنی ہے کیونکہ ہیلی کاپٹر کے پر تعیش سفرمیں بھلا کون تھکتا ہے؟ اس کی اصل وجہ مایوسی کے وہ گھنے بادل ہیں جو ان کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہوگئے ہیں ۔ مہاراشٹر کی موجودہ سرکار کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ایکناتھ شندے کے ساتھ جو پچاس ارکان اسمبلی ہیں وہ سب وزیر بننا چاہتے ہیں۔ ویسے مہاراشٹر میں بیالیس سے زیادہ وزراء کی گنجائش نہیں ہے۔ان میں دو جگہ تو پہلے ہی پرُ کی جاچکی ہیں باقی چالیس میں سے اگر ارکان کے تناسب کی بنیاد پر فیصلہ ہواتو کم از کم پچیس وزارتیں بی جے پی کے حصے میں چلی جائیں گی اور شندے کوزیادہ سے زیادہ پندرہ پر گزارہ کرنا پڑے گا ۔ ان میں سے کم ازکم تین تو ان غیر شیوسینکوں کو دینی ہوں گی جو ان کے ساتھ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہوئے ہیں اور کسی بھی وقت ساتھ چھوڑنے کے لیے آزاد ہیں۔

اس طرح شندے کے پاس اپنے لوگوں میں بانٹنے کے لیے ایک درجن سے زیادہ ریوڑیاں نہیں ہوں گی ۔ اس مختصر سی تعداد کے ساتھ اپنے آرزو مند ساتھیوں کو مطمئن کرنا جو پہلے ہی وزارتوں پر عیش کرچکے ہیں ایک مشکل ترین کام ہے۔ سیاست کی بازار میں ہر ریوڑی یعنی وزارت یکساں اہمیت کی حامل نہیں ہوتی یعنی سبھی وزارتوں میں اوپر کی کمائی مختلف ہوتی ہے اس لیے ہر کوئی ایسا قلمدان چاہتا ہے جس میں کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ روپیہ کمانے کا موقع ملے کیونکہ نصف سے زیادہ مدت عمل گزر چکی ہے اس لیے تیزی کے ساتھ پیسے کمانا لازمی امر ہے ۔ ایسے میں جو لوگ وزارت سے محروم رہ جائیں گے یا غیر اہم قلمدان سے نوازے جائیں گے ان کا دل یہاں نہیں لگے گااور وہ پھر سے ادھو ٹھاکرے کے ساتھ جانے کی کوشش کریں گے یا این سی پی کی جانب کوچ کریں گے ۔

ایکناتھ شندے فی الحال انتالیس شیوسینکوں کے ساتھ ہیں ان سے دو بھی لوٹ گئے تو ان پر دل بدلی قانون لاگو ہوجائے گا اور رکنیت سے ہاتھ دھونا پڑے گا ۔ دو سال کے لیے انتخاب پر کروڈوں روپئے خرچ کرنا ان لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس لیے ایکناتھ شندے اور دیویندر فڈنویس کی عافیت اسی میں ہے کہ وزارت سازی ٹلتی رہے۔ مسئلہ صرف شندے کے گروہ کا نہیں بلکہ بی جے پی کا بھی ہے ۔ ریاستی صدر کے مطابق دل پر پتھر رکھ دیویندر فڈنویس نے تو نائب وزیر اعلیٰ کا اعہدہ سنبھال لیا لیکن بی جے پی کے جن ارکان اسمبلی کو وزارت نہیں ملے گی ان کو بھی اپنے دل پر پتھر رکھنا پڑے گا اور پتھروں کی سرکار بہت زیادہ دن نہیں چل پائے گی ۔ دیویندر فڈنویس نے این سی پی اور کانگریس سے جن لوگوں کو وزارت کا لالچ دے کر اپنی پارٹی میں شامل کیا تھا ان کو مایوس کیا گیا تو وہ بھی لازماً لوٹ جائیں گے۔

وزراء کے بغیر سرکار چلانا دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے حیرت کی بات ضرور ہے لیکن بی جے پی کے لیے نہیں ۔ سرکار چلانے کامودی ماڈل یہی ہے کہ سارا کام پی ایم او سے ہوتا ہے باقی سارے وزیر نندی بیل کی مانند سر ہلاتے ہیں۔ 2014میں جب مودی جی وزیر اعظم بنے تو یہ کہا جاتا تھا کہ یہ ڈھائی لوگوں کی سرکار ہے ۔ مودی ، جیٹلی کے ساتھ ہاف ٹکٹ امیت شاہ تھے۔ انہی لوگوں کی مرضی سے سارا کاروبار چلتا تھا۔ آگے چل کر ارون جیٹلی کا انتقال ہوگیا اور پھر 2019کے انتخابات ہوئے تو مودی جی نے امیت شاہ کو وزیر داخلہ بنالیا ۔ اس طرح مرکز میں بھی ڈیڑھ لوگوں کی سرکار بن گئی ۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر مرکز میں ڈیڑھ متوالے حکومت کرسکتے ہیں تو مہاراشٹر میں کیوں نہیں؟

اردو دنیا میں’ڈیڑھ متوالے‘ نامی ایک ڈرامہ بھی بہت مقبول ہوا ۔ طنزو مزاح سےپُر اس ڈرامہ کو سب سے پہلے حیدرآباد میں کھیلا گیا اور اس کے بعد 1975 سے 2015 کے درمیان چالیس سالوں تک یہ سلسلہ جاری رہا مگر مہاراشٹر کی ریاستی سرکار کے ستارے چالیس دنوں کے اندر گردش میں آگئے اور اس کا سورج کب ڈوب جائے گا یہ کوئی نہیں جانتا۔ ہندی سینما کے عظیم ہدایت کار راج کپور نے ایک دفعہ کہا تھا:"فلم بند مٹھی کا کھیل ہے جہاں آپ کو آخری لمحے تک پتہ نہیں چلتا مٹھی سے کیا برآمد ہو گا"۔ یہی بات سیاست کے بارے میں کہی جاسکتی ہے۔ سیاست کی دنیا میں ان ڈیڑھ متوالوں کے ذریعہ تفریح کا جو سامان کیا جارہا ہے وہ کب تک چل سکے گا یہ بھی کوئی نہیں جانتا لیکن اس وقت مفت کا منورنجن لے لینے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ موجودہ جمہوریت میں ووٹ کے بدلے عوام کو اس سے زیادہ کسی اور شئے کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1452487 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.