روشنیوں کا شہر کراچی ، مختلف مسائل کی آجامگاہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کراچی مسائل کے حوالے سے ایک ایسا گنجان آباد شہر بن چکا ہے، جہاں ہر طبقہ حیات کے لئے حقیقی معنوں میں درد سر کا موجب بنتا جارہاہے۔ گونگوں مسائل اور دیرینہ مشکلات کے حل کے لئے جتنی بھی کوششیں کی جا تی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ اس میں اسی قدر اضافہ ہورہا ہو۔ شہری علاقے جہاں کنکریٹ کے جنگل بن رہے ہیں تو مضافات میں بسنے والی کچی آبادیاں اور گوٹھ آباد اسکیم تک تحت انسانی بہاؤ میں غیر قانونی اضافہ سوہان روح بنا ہوا ہے۔ شہری نقل و حمل کے مربوط نیٹ ورک سے جڑنے کے بجائے دشواریوں اور نا مساعد حالات کا شکار ہیں۔ صحت عامہ، بلدیات اور متنوع مسائل کی آجامگاہ بنے شہر قائد کو ماحولیاتی بے احتیاطی نے بھی اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ کراچی ہمیشہ دو اہم مسائل کی وجہ سے دیگر مشکلات کا شکار رہا ہے، جس میں ایک ٹریفک کا مسئلہ اور ناقص رہائش گاہوں کے بے ترتیبی سے بڑھنا شامل ہے،جس نے شہر پر کئی سماجی مسائل کو بڑھایا۔ ٹریفک کی روانی اور شہر کو ایک جگہ سے دوسری جانب براہ راست ملانے کے لئے لیاری ایکسپریس وے جیسے منصوبے تخلیق کئے گئے، لیکن کچی آبادیاں اب قدر بڑھ چکی ہیں کہ انہیں کسی صورت انہدام کی جانب نہیں لے جایا جاسکتا۔ حکومتی مداخلت نے نالوں کے کنارے آباد گھروں کو مہندم تو کیا، جس کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، لیکن انہیں پھر بھی کراچی میں ہی رہنا تھا، لہذا ایک جگہ سے دوسرے جگہ منتقلی کی وجہ سے انسانی آبادی کا دباؤ کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گیا۔ ناجائز قابضین میں جھونپڑیوں میں رہنے والوں کی ایک بڑی تعداد ایسے علاقوں میں کثیر تعداد میں رہتی ہے جنہیں متعدد بار آگ لگنے کے باعث اپنے کل متاع سے محروم بھی ہونا پڑا، ان خانہ بدوشوں کی حالت زار حقیقی معنوں میں بدترین رہی ہے تاہم جانی نقصان کے ناقابل تلافی ہونے کے باوجود ان خانہ بدوشوں کا سفر شہر کے ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں جاری رہتا ہے جس سے کئی معاشرتی مسائل جنم لیتے رہتے ہیں۔

کراچی مملکت کی اہم معاشی شہ رگ ہونے کے ناطے معیشت کی عالمگیریت کو جرائم پیشہ عناصر کے رحم و کرم پر رہنے پر مجبور بھی رہا ہے۔ عام جرائم کے ساتھ ساتھ غیر قانونی پرتشدد سرگرمیاں جن کا مقصد روزمرہ زندگی کے لئے پیسے کا حصول ہے، سیاست کو جرائم کے ساتھ بھی جوڑتا نظر آتا ہے۔ کراچی پاکستان کا معاشی اور مالیاتی دارالحکومت ہے، یہ جانتے ہوئے کہ اس میں ملک کی کل آبادی کا 10فیصد شامل ہے، جی ڈی پی میں کراچی28 فیصد حصہ دیتا ہے، وفاق میں 60فیصد ریونیو اور صوبہ سندھ میں 70 فیصد حصہ شامل کرتا ہے، شہر قائد کے معاشی اور مالیاتی کردار میں کئی دہائیوں سے کوئی تبدیلی نہیں آئی، گو کہ یہاں فرقہ وارنہ تشدد سے لے کرنسلی و لسانی پرتشدد سیاست کا ایک بڑا اہم کردار رہا ہے۔کراچی بلکہ پاکستان کی عالمی دہشت گردی کی پناہ گاہ کے طور پر امیج کے خراب ہونے سے رک جانے والی سرمایہ کاری ابھی تک بحال نہیں ہوسکی۔ گو کہ پاکستان اہم سمندری بندرگاہ اور پورٹ بن قاسم کا وجود کھنے کے باوجود ان ثمرات سے حقیقی معنوں میں وہ فائدہ نہیں اٹھا سکا، جو کراچی اور پاکستان کا حق تھا۔

کراچی میں اقتصادی طور گروہوں کے ڈھانچے میں تبدیلی واقع پذیر ہوتی رہتی ہے۔ خاص کر جب 1947میں مقامی معیشت پر دو برداری حاوی تھی جن میں زیادہ تر ہندو بھارت ہجرت کرگئے تھے تو 1970تک بڑے پارسی خاندان (من والا، کٹرک، ڈنشا) نے بھی ملک چھوڑ دیا، یہ بندرگاہ اور سمندری شعبے کے زیادہ تر حصوں کو کنٹرول کرتے تھے۔ 2002میں آغا خان فنڈ فار اکنامک ڈوہلپمنٹ 51فیصد سرمایہ حاصل کرکے حبیب بنک کا اکثیریتی شئیر ہولڈر بنا ۔بھٹو حکومت کی جانب سے نجی اداروں کو قومیانے کی پالیسی کامیاب نہ ہوسکی،جس کے ازالے کے لئے نجکاری کا سلسلہ شروع ہوا، ضیاالحق نے1977سے1988اور نواز شریف نے1990-1993اور1997-1999 اور بے نظیر بھٹو نے 1988-1990 اور1993-1996کے دور میں نجکاری پالیسی جاری رہی۔ نجکاری سے پنجابی سرمایہ کار بالخصوص چینوٹیز کو صنعتی اور مالیاتی شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے سے فوائد حاصل ہوئے۔شہری سرمایہ دارنہ تقسیم میں اس وقت جرائم پیشہ عناصر غالب آتے گئے جب سیاسی جماعتوں اور کالعدم تنظیموں نے کراچی کو سونے کی چڑیا سمجھ کر نوچنا شروع کردیا۔ لیاری گینگ وار سے لے کر لسانی و نسلی گروہوں کے بھتہ خوروں اور جرائم پیشہ عناصر نے کراچی میں سرمایہ کاری کو شدید نقصان پہنچایا اور اس وقت سرمایہ داروں نے کراچی سے اپنا سرمایہ نکال کر بنگلہ دیش جیسے ملکوں میں بھیجنا شروع کردیا۔ امن گو کہ مستحکم بنیادوں پر نہیں کیونکہ ابھی تک قانون نافذ کرنے والے اداروں میں رینجرز کو واپس نہیں بھیجا گیا اور پولیس کے سیاسی کردار پر بھی اہل کراچی و سرمایہ داروں کو اعتماد نہیں، اس لئے ایک سکوت کی فضا میں کراچی مسلسل مسائل کا گڑھ بنتا چلا گیا، جس کا حل کسی بھی دور حکومت میں مستقل بنیادوں پر نہیں نکالا گیا۔

کراچی میں لسانی فسادات کی آڑ میں طالبائزیشن کا منظم پروپیگنڈا کیا گیا، اس امر سے انکار نہیں کہ طالبان کے کئی اہم قائدین کراچی سے بھی گرفتار ہوئے لیکن افغان طالبان تھے کہ پاکستانی، ان کے منصوبے کیا تھے، اور کاروبار سمیت کالعدم تنظیموں کے درمیان پیچیدہ روابط کو محققین اور دیگر مبصرین کی جانب سے مناسب توجہ نہیں مل سکی۔ اس لئے یہ سوال شائد اب بھی جواب طلب ہے کہ کیا کراچی کو طالبان اپنا گڑھ بنا نا چاہتے تھے یا پھر صرف مالی مقاصد کے لئے استعمال کرتے تھے، اور دوسری طرف طالبان کی موجودگی نے شہر پر کیا اثر چھوڑا۔ کیا یہ لسانی اور نسل پرستوں کی آڑ میں چھپے تھے یا پھر بعض سیاسی جماعتوں کے ایجنڈے میں ان کا بھی کوئی کردار تھا۔ کراچی میں روزمرہ کی زندگی تمام تر مشکل حالات دیکھنے کے باوجود بدستور قائم ہے، مبصر واقعی ہمیشہ اس امر سے متاثر ہوتا ہے جو اخباری مضامین اور کراچی کی خطرناک صورتحال سمیت بلدیاتی مسائل پر رپورٹس کرتا ہے، یہ حقیقت ہے کہ لاکھوں لوگ روزانہ کی بنیاد پر وہاں رہتے ہیں، یہاں یہ بات سمجھنا بھی مشکل نہیں کہ شہر ی منظر نامے پر تشدد کس طرح پھوٹتا ہیبلکہ یہ بھی ہے کہ پر امن تعلقات پیدا کرنے کے لئے کس طرح کے طریقے منظم کئے جاتے ہیں۔ایک مرکزی سوال ہمیشہ جواب طلب رہے گا کہ مسابقت اور رقابتیں، چاہے وہ سیاسی ہوں، مذہبی ہوں یا نسلی، تشدد سے کیوں طے ہوتی رہتی ہیں؟ اس کا جواب واضح طور پر پیچیدہ ہے۔ زیر گردش مہلک غیر قانونی و قانونی ہتھیارہو یا پڑوسی تینوں ممالک کی پراکسی وارکے باوجود کراچی کامیابی اور معاشی طور متحرک رہتا ہے۔ نتیجاََ اس شہر کی کشش ملک کے دوسرے صوبوں کے تمام شہروں پر اثر انداز ہوتی ہے۔اس لئے کراچی ”تارکین وطن کی ماں‘ کے طور پر اپنے تاریخی ورثے کی وفادار ہے۔ مون سون کی غیر متوقع بارشیں ہوں یا ماحولیاتی تبدیلی سے شہر کا موسم ہو، یہ طے ہے کہ شہر قائد اپنی گود میں بلا امتیاز رنگ و نسل سب کو اکھٹا کرلیتا ہے اور تقاضا کرتا ہے کہ جو ملک کی اقتصادی ریڑھ کی ہڈی کو مضبوط بناتا ہے اسے اس کا پورا حق دو تاکہ ملک کو ترقی یافتہ و مستحکم بناسکے۔

 

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 657107 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.