جمہوریت کا مطلب ہے،
“By the people, for the people and of the people.”
(عوام کے ذریعے حکومت، عوام کے لیے اور عوام سے۔) مگر پطرس بخاری فرمایا
کرتے تھے کہ جمہوریت سے مراد ہے،
“Buy the people, far the people end of the people.”
(عوام کو خریدو، عوام سے دور رکھو اور عوام کا اختتام کرو۔) بہر حال کم از
کم کہا یہی جاتا ہے کہ جمہوریت وہ حکومت ہے جو عوام کی ہے، عوام کے لیے ہے
اور عوام ہی کے ذریعے ہے۔ یعنی اس کا قیام اور دوام سب عام عوام ہی کے دم
سے ہے، اس کی بقا اور روحِ رواں سب عوام الناس ہی سے ہے۔ یہ ایک الگ بحث ہے
کہ اس مفروضے کی سچائی کس حد تک ہے اور یہ کہاں تک عوام کی نمائندگی کرتا
نظر آتا ہے۔ فی الوقت جو طوفان پاکستان اور بالخصوص بلوچستان میں برپا ہے
وہ زیادہ توجہ طلب اور افسوس ناک ہے۔
پورا ملک سیاست کا میدان بنا ہوا ہے۔ کرسی کرسی کی رٹ نے حکمران طبقے کو
ارد گرد کی پکار سے بہرا اور حقیقت سے اندھا کر دیا ہے۔ آج بلوچستان میں جو
دلوں کو غم سے شَق کر دینے والی صورتِ حال ہے، اس کا کوئی پرسانِ حال ہی
نہیں۔ ہر شخص کی توجہ کا محور و مرکز صرف سیاست ہے۔ اپنی کرسی، اپنا راج۔
اپنی شاہی، اپنا تاج۔ حکمران طبقے اور ہر سیاسی پارٹی کو یہی عزیز ہے اور
سیلاب سے لڑنے والے مصیبت زدہ لوگوں کی پکار سننے والا کوئی نہیں۔ بلوچستان
وہ صوبہ ہے جس نے پاکستان کو گیس دی۔ اسے واحد اسلامی ایٹمی ملک بنانے کے
لیے زمین دی۔ اسے بے انتہا ذخائر دیے۔ مگر بلوچستان کا ستان تو یاد رہا اور
اس کے افراد محروم ہو گئے۔ ستان فارسی زبان میں زمین کے ٹکڑے کو کہتے ہیں۔
آج بلوچستان کے ساتھ حالات یہی ہیں کہ اس کے لوگوں کو پسِ پشت ڈال کر صرف
اس کی زمین کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ کبھی بَرّی ذخائر کے لیے تو کبھی
بحری ذخائر کے لیے اور کبھی سی پیک کے لیے۔ اسے ایک بہترین تجارتی روٹ
بنانے کے منصوبے تو زبان زد عام ہیں لیکن اس میں بستے ہوئے انسانوں کے
بنیادی حقوق کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ موجودہ سیلاب میں ہزاروں لوگ بے گھر
ہو گئے ہیں، جنازوں کے ڈھیر لگ گئے ہیں، لوگ سڑکوں پہ آ گئے ہیں اور خاندان
کے خاندان اس تباہ حالی کی وجہ سے محصور ہو کر رہ گئے ہیں مگر ان صداؤں کو
سننے کے لیے جو کان چاہیئیں وہ انتظامیہ کے پاس موجود نہیں ہیں۔
وہ تخت و تاج کس کام کا جو مصیبت زدہ عوام کی مصیبت میں کام نہ آ سکے؟ جو
بھوکے کو روٹی نہ دے سکے اور انصاف کے متلاشیوں کو انصاف فراہم نہ کر سکے؟
وہ کرسی کس کام کی جو عوام کے ذریعے حاصل کی جائے اور اس کے ذریعے عوام ہی
کا استحصال کیا جائے؟ آج ملک کے ان حالات پہ جوں ہی نگاہ جاتی ہے، ذہن
سوچوں کے جالوں میں پھنستا چلا جاتا ہے، دل کرب کے سمندر میں ڈوبتا چلا
جاتا ہے۔ ایک وہ وقت تھا جب جمہوریت کا نام نہ تھا، خلیفہ ہوا کرتے تھے۔
خلیفہ اس حال میں ہوا کرتے تھے کہ گلی گلی چکر لگاتے، گشت کرتے پھرتے کہ
کہیں کوئی تکلیف میں تو نہیں؟ کہیں کوئی درد کی تصویر تو نہیں؟ اور آج یہ
عالم ہے کہ درد کی ہزاروں لاکھوں تصویریں پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ ہم
ڈوب رہے ہیں مگر کوئی انہیں کنارے تک لانے والا نہیں۔ سب اپنی سیاستیں
چمکانے میں اتنے مصروف ہیں کہ چند دکھ بھرے بیانات سے زیادہ اس مسئلے کو
اہمیت دینے کی فرصت ہی نہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے گویا سیاست کوئی کھیل ہے
اور پورا ملک تماشائی۔ ٹی وی ہو یا یوٹیوب، سیاسی گرما گرمی کا چرچا ہے۔
دوستوں کی محافل ہوں یا خاندانی تقریبات، سیاست کا بازار ہر جگہ گرم ہے اور
ہر شخص اپنے نظریات کا پرچار کرتا معلوم ہوتا ہے۔ باقی سارے جذبات ختم ہو
گئے ہیں، باقی رہ گیا ہے تو محض ایک ہی جذبہ، اپنے پسندیدہ سیاسی رہنما کی
حمایت کا جذبہ۔
مسلمان ایک جسدِ واحد کی مانند ہیں۔ ان کی مثال آپس میں ایسی ہے گویا ایک
جسم کے اعضاء ہوں جو ایک دوسرے سے مربوط ہوں۔ جب کسی ایک حصے کو تکلیف
پہنچتی ہے تو سارا جسم بخار میں پھُنکنے لگتا ہے۔ مگر آج ہمیں کیا ہو گیا؟
ہمارے لوگوں کے ذہن اتنے مفلوج کیوں ہو گئے کہ دنیا و مافیہا میں جو بھی
قیامت آ کر گزر جائے، کوئی پرواہ ہی نہیں؟ آج اس جسم کے کئی ٹکڑے تکلیف سہ
سہ کر ناکارہ ہو رہے ہیں مگر باقی ماندہ جسم اس درد کو محسوس کرنے کے قابل
ہی نہیں؟ خدارا اپنے آپ کو جگائیں۔ پھر اکٹھے ہو کر ان حکمرانوں اور اعلیٰ
عہدے داروں کو بیدار کریں۔ مل کر اپنے ارد گرد لوگوں کا غم بانٹیں ورنہ ہم
ایسے ہی اس جسدِ واحد کے بہت سے اعضاء سے محروم ہوتے جائیں گے۔ سیاسی
ٹرینڈز کے بجائے سوشل میڈیا کو لوگوں کی مدد کے لیے استعمال کریں۔ جس حد تک
کر سکتے ہیں اس حد تک اپنا کردار ادا کریں۔ ان سیاست دانوں کو احساس دلائیں
کہ جس مقصد کے لیے وہ منتخب ہو رہے ہیں وہ مقصد پورا نہیں ہو رہا۔ یہ
کرسیاں اور تخت و تاج عوام کے لیے مسیحا نہیں مصیبت ثابت ہو رہے ہیں۔ خود
بھی آگاہ ہوں انہیں بھی آگاہ کریں۔ سیاست چھوڑیں، بلوچستان جوڑیں۔ ایسا نہ
ہو کہ بہت دیر ہو جائے اور سوائے افسوس کے کچھ بھی ہاتھ نہ آئے۔
|