وزیر اعظم نریندر مودی نے نویں مرتبہ لال قلعہ کی فصیل سے قوم کو خطاب کیا
اور خوب بولے یعنی پورے 84منٹ تک سمع خراشی کرتے رہے مگر ان بنیادی مسائل
پر وزیر اعظم کی زبان سے ایک لفظ نہیں نکلا جن سے عام لوگ پریشان ہیں ۔ فی
الحال ملک کے سب سے اہم مسائل میں سے ایک بیروزگاری ہے اور دوسرا مہنگائی
ہے۔ یہ دونوں چکی کے پاٹ کی مانند عوام کو پیس رہے ہیں ۔ ان کے درمیان چولی
دامن کا ساتھ ہے لیکن وزیر اعظم کی کی تقریر میں نہ چولی تھی اور نہ دامن
تھا یعنی نہ بیروزگار جوانوں کا ذکر تھا اور نہ پریشان حال کسانوں کے لیے
امید کی کوئی کرن تھی۔ وزیر اعظم آئے تو تھے پانچ سالوں کا وعدہ کر کے کہ
اس دوران اچھے دن آجائیں گے مگر اب آٹھ سال بعد پیر پسار کر اگلے پچیس
سالوں کے خواب دکھا رہے ہیں اور خواب بھی ایسے بے ترتیب کے جن کا نہ سر ہے
اور نہ پیر ہے۔ وزیر اعظم کی تقریر کا واحد مقصد اپنی ناکامیوں کی پردہ
پوشی تھا اور وہ اس میں کامیاب رہے لیکن جب تقریر کی لذت کا خمار ٹوٹا تو
پتہ چلا کہ وزیر اعظم جن کو وشو گرو بننے کا خواب بیچ رہے ہیں ان کا یہ حال
ہے؎
چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا
رہنے کو گھر نہیں ہے سارا جہاں ہمارا
ایسے لوگوں کو بھی جن کے پاس رہنے کو گھر نہیں ہے وزیر اعظم نے ’ہر گھر
ترنگا ‘لہرانے کے کام میں لگا دیا ۔ اس کا منہ توڑ جواب تو محمد جاوید کے
بلڈور سے مسمار شدہ گھر پر قومی پرچم لہرا کر دیا گیا جن پر بلا قصور یو اے
پی اے لگا کر ان کی آزادی چھین لی گئی ہے۔ اس بار یوم آزادی کے موقع پر
ملک بھر میں خوب زور و شور سے ہر گھر ترنگا لہرایا گیا مگر8؍ سال قبل مودی
جی نے اس لیے اقتدار نہیں سنبھالا تھا بلکہ وہ جو’ اچھے دن‘ کا نعرہ
لگاکرآئے تھے اس میں ’بہت ہوئی مہنگائی کی مار اب کی بار مودی سرکار‘ سب
سے اہم تھا ۔ اس کے علاوہ ہر سال دو کروڈ نوکری اور کسانوں کی کمائی میں
دوگنا اضافہ ، خواتین کا تحفظ وغیرہ نہ جانے کتنے وعدے تھے لیکن وہ سب
انتخابی جملہ ثابت ہوئے ۔ یہی وجہ ہے کہ عام لوگوں کو قومی جھنڈے سے بہلایا
جارہا ہے اور جولوگ بنیادی مسائل پر سوال کرتے ہیں ان کو ای ڈی کے ڈنڈے
دھمکایا جارہا ہے۔ جھنڈے اور ڈنڈے کا یہ کھیل گاجر اور چابک کی طرح ہے ۔
پہلے تو عوام کو گاجر دکھا کر دوڑایا جاتا ہے اور جو اس کے دامِ سحر میں
نہیں آتے ان پرچابک برسایا جاتا ہے۔
مودی سرکار نے جب دو ماہ قبل اپنے آٹھ سال مکمل کیے تو مختلف محاذ پر ان
کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا اور چونکانے والے حقائق سامنے آئے۔ مہنگائی
کی بات کریں تو پچھلے 8سالوں میں پٹرول کی قیمت 30 روپئے بڑھی اور ڈیزل
40روپیہ مہنگا ہوا ۔ کھانا پکانے والا جو سیلنڈر 414روپیہ میں ملتا تھا وہ
اب ایک ہزار روپیہ تک پہنچ گیا۔ آٹے کی قیمت 48فیصد اور چاول کی قیمت
میں31 فیصد کا اضافہ ہوا ۔ یہاں تک کہ نمک کی قیمت بھی 35 فیصد بڑھ گئی۔ اس
طرح گویا مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ۔سوال یہ ہے کہ ہر گھر میں ترنگا
لہرانے سے کیا اس گھر کے باورچی خانے کی حالت سدھرے گی اور لوگ عام آدمی
اپنی خوابگاہ میں چین کی نیند سو سکے گا؟کانگریس نے مہنگائی کے خلاف مظاہرہ
کیا تو بی جے پی والوں نے اس کے وجود سے انکار کردیا حالانکہ ریزرو بنک کے
گورنر بھی سود کی شرح بڑھا کر اس کا اعتراف کرچکے ہیں ۔ وزیر داخلہ نے
کانگریس کے احتجاج کو رام مندر کے شیلا نیاس سے جوڑ کرفرقہ واریت کا رنگ
دینے کی مذموم کوشش کی ۔ سچ تو یہ کہ رام مندر کا شیلا نیاس مہنگائی کی
جانب سے توجہ ہٹانے کے لیے کیا گیا تھا ۔
وزیراعظم نے آٹھ سال قبل اپنی انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ کسانوں کی
ماہانہ آمدنی کو 6462 سے بڑھ کردوگنا یعنی 12852 ہوجائے گی مگر وہ 10248
ہوئی جبکہ مہنگائی کے سبب کاشتکار کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوسکا کیونکہ اس
کو کھاد سے لے کرضرورت کا ہر سامان مہنگا خریدنا پڑ رہا ہے۔ اس دوران ڈالر
کے مقابلے روپیہ کی قیمت تقریباً تیس فیصد گھٹ گئی۔ اس لیے کم قیمت والے
روپیہ میں حساب کیا جائے تو برآمد بڑھ گئی لیکن اب بھی برآمد کے مقابلے
درآمد کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ سٹارٹ اپ کے نام سے شروع کی جانے والی
بیشترکمپنیاں بند ہو گئی ہیں اور بیرون ملک سے آنے والے کئی سرمایہ دار
لوٹ چکے ہیں ۔ بیرونی قرض ڈیڑھ گنا بڑھ کر 409 ؍ارب ڈالر سے615 ؍ ڈالر پر
پہنچ گیا ہے ۔ جی ڈی پی بھی روپیہ میں ناپی جائے تو اس میں خاصہ اضا فہ نظر
آتا ہے لیکن ڈالر میں اس کی قیمت کم ہوجائے گی۔ ہندوستان میں آج بھی 80
کروڈ غربت کی لکیر سے نیچے ہیں جنہیں سرکار نے کورونا کے دوران اناج دیا۔
دنیا کے سب سے زیادہ غریب آبادی فی الحال وطن عزیز میں ہے ۔ عام آدمی کی
اوسط آمدنی آج بھی 12ہزار ہے جبکہ اڈانی اور امبانی کا شمار دنیا کے امیر
ترین لوگوں میں ہونے لگا ہے۔ کیا گھر گھر پرچم لہرانے سے غریبوں اور امیروں
کے درمیان کی یہ کھائی مٹ جائے گی ۔
مودی جی نے دوکروڈ سالانہ نئی نوکری دینے کا وعدہ کیا تھا مگر ان 8؍ سالوں
میں روزگار 43کروڈ سے گھٹ 40کروڈ پر آگیا ۔ اس شعبے میں مایوسی کا یہ عالم
ہے کہ ملک میں جملہ 90؍کروڈ لوگ قابلِ ملازمت ہیں لیکن ان میں 45؍ کروڈ نے
نوکری کی تلاش چھوڑ دی ہے۔ 2019 میں کیے جانے والے جائزے کے مطابق
بیروزگاری کی شرح 6.1فیصد تھی جو پچھلے 45؍ سالوں میں سب سے زیادہ تھی ۔ اس
کا اگر 2014 ست موازنہ کیا جائے تو وہ 3.4 فیصد سے بڑھ کر وہاں پہنچی تھی
اور اب یہ شرح 8.7پر پہنچ چکی ہے۔ کیا اسے اگنی ویروں کی بھرتی سے کم کیا
جاسکے گا جو چار سال بعد پھر سے بیروزگار ہوجائیں گے۔ بیرورگاری سے نمٹنے
کے لیے مودی سرکار کا خطرناک منصوبہ یہ ہے کہ بچوں کو تعلیم سے محروم
رکھاجائے ۔ ان آٹھ سالوں میں تعلیم کا بجٹ صرف20؍ ہزار کروڈ بڑھا جو بہت
کم ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 9؍ ہزار اسکول کم ہوگئے ۔ مودی سرکار سے
پہلے ملک میں پندر لاکھ اٹھارہ ہزار اسکول تھے اب پندرہ لاکھ نو ہزار ہیں ۔
بیٹی بچاو اور بیٹی پڑھاو کا نعرہ کھوکھلا ثابت کرنے کے لیے نیشنل فیملی
ہیلتھ سروے5 کا جائزہ کافی ہے۔ اس کے مطابق اب بھی ملک کی تقریباً 30؍ فیصد
خواتین اور 15؍ فیصد مرد ناخواندہ ہیں۔ 60 فیصد لڑکیاں دسویں سے آگے نہیں
بڑھ پارہی ہیں۔ 50 فیصد مرد دسویں کے بعد تعلیم جاری نہیں رکھتے ۔ ان مسائل
پر توجہ دینے کے بجائے محض گھر گھر ترنگا لہرانے سے کیا حاصل ہوگا ؟
عوام کی بنیادی مسائل کی پردہ پوشی کرکے ان کو فروعی دلچسپیوں سے بہلانے کی
یہ ایک سازش معلوم ہوتی ہے،یعنی جن لوگوں روٹی دینے کا وعدہ کیا گیا تھا
انہیں لالی پاپ پکڑایا جارہا ہے۔ اس لیے گھر گھر ترنگا کے تناظر میں آج کل
ایک کارٹوں سوشیل میڈیا میں خوب گردش کررہا ہے ۔ اس میں ایک غریب شخص کے
بارے یہ بتایا جارہاہے کہ وہ گھر گھر ترنگا مہم میں شرکت کرنا چاہتا ہے ۔
اس کے پاس قومی پرچم بھی ہے لیکن گھر درکار ہے۔ یہ کارٹوں اس لیے بھی اہم
ہے کہ وزیر اعظم نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ پندرہ اگست 2022تک سارے
لوگوں کو گھر مہیا کردیں گے ۔ ان کے خیال میں ممکن ہے یہ خواب شرمندۂ
تعبیر ہوچکا اس لیے وہ ہر کسی اپنے گھر پر ترنگا لگانے کی تلقین فرما رہے
ہیں لیکن حقیقت ایسی نہیں ہے۔ ملک میں اب بھی کروڈوں لوگ ایسے ہیں جن کے
پاس رہنے کے لیے اپنا گھر نہیں ہے۔ جن گھروں کو سرکار نے بلڈوزر چلا کر گرا
دیا ۔ اب وہ بیچارے کہاں ترنگا لہرائیں ؟ کیا بلڈوزر پر ترنگا لہرا کر اپنے
ارمان پورے کریں ؟وزیر اعظم وطن عزیز کے بھولے بھالے لوگوں کو وعدوں سے اس
لیے بہلانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کا معاملہ چراغ حسن حسرت کے اس
شعر کی مصداق ہے ؎
امید تو بندھ جاتی تسکین تو ہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا
2014میں مودی جی وعدوں کا بہت بڑا پٹارہ لے کر وارد ہوئے اور ان میں کسی کو
نبھا نہیں سکے تھے تو 2019میں سرجیکل اسٹرائیک کا ہنگامہ کھڑا کرکے دوبارہ
الیکشن جیتنا پڑا ۔ اس کے بعد پھر نت نئے وعدے کیے اور کہا گیا کہ عوام کو
اس کے لیے پانچ سال تک انتظار نہیں کرنا پڑے گا بلکہ انہیں ڈھائی سال کے
اندر وفا کردیا جائے گا۔ ایک سال بعد کورونا کی وباء آگئی اور لوگ وہ سارے
قسمیں وعدے بھول بھال گئے۔ کورونا کے بعداب ایک سال کا عرصہ گزر گیا اور
حالات بد سے بدتر ہوتے چلےگئے ۔ اب یہ حال ہے کہ وزیر اعظم نئے عزائم اور
نیا عہدنامہ لے کر لال قلعہ کی فصیل سے عوام کو بہلا رہے ہیں۔ اس طرح پچھلے
آٹھ سالوں میں تو ملک کے عوام کو وعدوں کے سوا کچھ نہیں ملا لیکن آئندہ
کی میعاد پانچ سال سے بڑھا کر پچیس سال یعنی 2047 کردی گئی ہے ۔ اس طرح
گویا ’ کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک ‘ والی کیفیت بن گئی ہے۔ ایسے
میں سرکار موج منارہی ہے اور عوام فلم دشمن کی درج ذیل قوالی سے دل بہلا ر
ہے ہیں ؎
سچائی چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے ،
کہ خوشبو آنہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
میں انتظار کروں ، یہ دل نثار کروں ،
میں تجھ سے پیار کروں ، ہاں مگر کیسے اعتبار کروں
جھوٹا ہے تیرا وعدہ ، وعدہ تیرا وعدہ ،
وعدے پہ تیرے مارا گیا ، بندہ میں سیدھا سادہ وعدہ تیرا وعدہ
|