اقتدار کے بھسماسور کا ننگا ناچ

آزادی کے جشن کا خمار اترا تو پھر ایک بار عوام کے سامنے ہوشربا حقائق منہ پھاڑ کر کھڑے ہوگئے۔ ذرائع ابلاغ کے اندر آئے دن ایسی خبریں سامنے آتی ہیں جن کو پڑھ کر حساس لوگوں کی نیند اڑ جاتی ہے۔ بی جے پی کی ڈبل انجن سرکار کے باوجود مدھیہ پردیش کے دل دہلا دینے والا واقعہ کی ویڈیو دیکھ کر انسان خون کے آنسو رونے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ ایم پی میں شہڈول کے قریبی ضلع انوپ پور کے گونڈارو گاؤں کی رہنے والی جئے منتری یادو کو سینے میں درد ہوا تو گھر والے اسے شہڈول لے گئے۔ وہاں ضلع اسپتال میں علاج کے دوران حالت بگڑی تو میڈیکل کالج میں منتقل کر دیا گیا۔ دونوں مقامات پر خاطر خواہ علاج نہیں ہونے کے سبب اس بیچاری کی موت ہو گئی۔ اس کے بعد لاش کو گاؤں لے جانے کے لیے میڈیکل کالج میں ایمبولنس نہیں مل سکی اور پرائیویٹ گاڑی والے نے جو رقم طلب کی اس کی ادائیگی پس ماندگان کے بس میں نہیں تھی۔ مجبوراً بیٹا اپنی ماں کی لاش کو موٹر سائیکل پر باندھ کر 80 کلومیٹر دور اپنے گاؤں لےجانے پر مجبور ہو گیا۔ذرائع ابلاغ میں چلنے والی ویڈیو میں صاف نظر آتا ہے کہ غریب بیٹالکڑی کے پٹیا پر لاش کو باندھ کر گاؤں کی طرف جارہا ہے۔

اسپتال کی انتظامیہ نے اعتراف کیا کہ میڈیکل کالج میں ایمبولنس یا لاشوں کو لے جانے کے لیے کوئی گاڑی نہیں ہے۔ اس ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے ریاستی کانگریس صدر کمل ناتھ نے لکھا کہ ’’یہ ہے مدھیہ پردیش کی بی جے پی حکومت کے 18 سالہ ترقی کی شرمناک تصویر۔ یہ ہے ریاست کا نظامِ صحت۔ شہڈول میں ایک خاتون کی موت کے بعد گاڑی نہ ملنے پر بیٹا اپنی ماں کی لاش کو 80 کلومیٹر دور پٹیے پر باندھ کر بائک سے لے کر گیا۔‘‘ سیاستدانوں کی اقتدار پرستی کے سبب اس طرح کے سانحات ہوتے ہیں اور ایسی خبریں تو اب ایک عام بات بن چکی ہیں ۔ گزشتہ دنوں ساگر ضلع میں تقریباً 40 بچوں کو ایک ہی سیرینج سے کورونا ویکسین لگا نے واقعہ سامنے آیا ۔ اس خبر پر خوب ہنگامہ ہوا ۔ آگے چل کر اس غلطی کا ارتکاب کرنے والے زیر تربیت طبی طالبعلم جیتندر نے بتایا کہ اسے پتہ تھا یہ غلط ہےلیکن افسران کی ہدایت پرا یسا کرنا پڑا۔ اس طرح کے شرمناک واقعات کے پس پشت ان خود غرض سیاستدانوں کا بھی ہاتھ جن کو وزیر اعظم کے ویکسین سے متعلق پوسٹر لگا کر اپنی سیاسی دوکان چمکانے سے فرصت نہیں ہے۔

گودی میڈیا عوامی جائزہ لے کر ہر تین ماہ بعد وزیر اعظم نریندر مودی کو ملک کے مقبول ترین رہنما کا محضر نامہ عطا کردیتا ہے لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ خود ان کا بھائی پرہلاد مودی دہلی کے جنترمنتر پر مرکزی حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرنے پر مجبور ہے۔ یہ احتجاج آل انڈیا فیئر پرائس شاپ ڈیلرس فیڈریشن (یعنی راشن کی دوکان والوں کی تنظیم) کی طرف سے کیا گیا۔ پرہلاد مودی اے آئی ایف پی ایس ڈی ایف کے نائب سربراہ ہیں ۔ انہوں نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے تنظیم کے دیگر اراکین کے ساتھ دہلی کے جنترمنتر پر اکٹھا ہو کر نعرہ بازی کی۔ وہ تو خیر وزیر اعظم کے بھائی ہیں اس لیے پولیس نے ان پر کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی ورنہ بعید نہیں کہ ان پر حکومت کا تختہ پلٹنے کی سازش کا الزام لگا کر گرفتار کرلیا جاتا اور سرکار کی بدنام کرنے کی سزا سنا دی جاتی۔ پرہلاد مودی کا کہنا ہے کہ اے آئی ایف پی ایس ڈی ایف کا نمائندہ وفد جلد ہی وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک عرضداشت پیش کرکےاپنے مطالبات پیش کرے گا لیکن سوال یہ ہے کہ آخر اس احتجاج کی نو بت کیوں آئی؟ جو وزیر اعظم اپنے بھائی کی نہیں سنتا وہ دوسروں کی جانب کیا توجہ کرتا ہوگا ؟

اے آئی ایف پی ایس ڈی ایف کے جملہ 9 مطالبات ہیں جن میں مناسب شرح کی دکانوں سے فروخت کیے جانے والے چاول، گیہوں اور چینی کے ساتھ ہی خوردنی تیل اور دالوں پر ہونے والے نقصان کے لیے معاوضے کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ وہ مفت تقسیم کے مغربی بنگال راشن ماڈل کو پورے ملک میں نافذ کروانا چاہتے ہیں۔ مغربی بنگال کی مثال تو گویا مرکزی حکومت کے زخموں پر نمک پاشی ہے کیونکہ ساری دنیا میں گودی میڈیا آدرش گجرات کے ماڈل کا ڈنکا بجاتا ہے ۔ ایسے میں گجرات کے پرہلاد مودی کی زبان پر بنگال ماڈل کی تعریف کرنا اور اسے گجرات سمیت سارے ملک میں نافذ کرنے کا مطالبہ مودی سرکار کے لیے باعثِ شرم ہے۔ اس موقع پر یہ خیال بھی جنم لیتا ہے کہ ملک کی بیشتر ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے تو آخر وہاں بنگال کی طرح مثالی فلاح و بہبود کا کام کیوں نہیں ہوتا ؟ وہاں پر بی جے پی کے رہنما کیا کرتے ہیں ؟

تو اس کی دلچسپ مثالیں آئے دن سامنے آتی رہتی ہیں ۔ مثلاً ایودھیا میں ڈیولپمنٹ اتھارٹی جب غیر قانونی کالونائزر کی فہرست جاری کر تی ہے تو اس میں میونسپل کارپوریشن کے اندر ایودھیا کے بی جے پی میئر رشی کیش اپادھیائے ، رکن اسمبلی وید پرکاش گپتا اور سابق بی جے پی رکن اسمبلی گورکھ ناتھ بابا سمیت کئی دیگر نام سامنے آجاتے ہیں۔ یہ یوگی سرکار کے انتظامیہ کی جاری کردی فہرست ہے اور چونکہ انہیں معلوم ہے بال بیکا نہیں ہوگا اس لیے رام نام کی لوٹ میں شامل ہوگئے ہیں ۔ ایسے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کسے فرصت ہے ؟اقتدار نے ان لوگوں کا دماغ کس قدر خراب کردیا اس کی ایک اورمثال بھی اترپردیش میں ہی سامنے آئی جہاں آرمس ایکٹ کے تحت یوگی حکومت میں کابینی وزیر راکیش سچان کو مجرم قرار دیا گیا اور عدالت نے ایک سال کی سزا کے ساتھ 1500 روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا ۔اس کے بعد اے سی ایم ایم آلوک یادو کی عدالت سے جیل جانے کے بجائے وزیرموصوف مبینہ طور پر مقدمہ سے متعلق فائل کو لے کر فرار ہو گئے۔ان پر یہ بھی الزام عائد کیا گیا کہ ان کے وکیل نے آرڈر کی کاپی چھیننے کی کوشش کی۔یہی جرائم پر عدم برداشت کی پالیسی ہے جس ڈھنڈورا دن رات پیٹا جاتا ہے۔

بی جے پی رہنماوں کی غنڈہ گردی میں ایک ایسی مثال بھی پچھلے دنوں سامنے آئی کہ یوگی انتظامیہ کو اس پر کارروائی کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ شہر نوئیڈا میں خاتون کے ساتھ بدسلوکی کے الزام میں مفرور بی جے پی لیڈر شری کانت تیاگی کے خلاف اتھارٹی کے دو بلڈوزرنے اومیکس سوسائٹی میں کاروائی کی ۔ کسی بی جے پی رہنما کے خلاف غالباً یہ پہلی بار بلڈوزر چلا ہے۔ اس میں تھانہ انچارج کو بھی معطل کیا گیا اور آگے چل کر تیاگی بھی گرفتار ہوا۔ وہ مودی نگر سیٹ سے بی جے پی کا سب سے طاقتور امیدوار تھا اور اس کے پارٹی کے سبھی بڑے رہنماوں کے ساتھ تصاویر ذرائع ابلاغ میں بکھری پڑی ہیں ۔ اس معاملے میں ایس پی سربراہ اکھلیش یادو نے ٹوئٹ کے ساتھ بی جے کے ایم پی مہیش شرما کی ایک ویڈیو شیئر کی جس میں موصوف کسی سے بات کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں ’’ہمیں شرمندگی محسوس ہو رہی ہے یہ کہتے ہوئے کہ ہماری سرکار ہے۔‘‘ اس طرح کے واقعات کو پڑھ کر سارا ملک شرمندہ ہے اس لیے اکھلیش سوال کرتے ہیں ایسے بی جے پی والےآزادی کا امرت مہوتسو کس منہ سے منائیں گے؟

ملک کی موجودہ صورتحال سے مایوس ہوکر لوگ سوال کرنے پر مجبور ہیں کہ آخر حالات کیسے بدلیں گے کیونکہ موجودہ سرکار نے عدلیہ سے لے کر انتظامیہ تک اور میڈیا سمیت فوج پر بھی اپنا تسلط مکمل کرلیا ہے۔ ایسے میں سرکار کے سامنے سنگھ پریوار بھی بے بس نظر آرہا ہے ۔ اس صورتحال سے نکلنے کی خاطر اس کو دیومالائی کردار بھسما سور سے سبق لینا ہوگا ۔ یہ اس قدر دلچسپ کردار ہے کہ داداپھالکے نے1913ء میں اپنی اور پہلی فلم راجہ ہریش چندر کے بعد اسی موضوع پر موہنی بھسماسور نامی خاموش فلم بنائی تھی۔ اس کی اساطیری کہانی میں دیوتا شیوا بھسماسور نامی شیطان کو ایسی طاقت دے دیتا ہے کہ وہ جس کسی کے سرپر ہاتھ رکھے تو اسے راکھ کر دے۔ اس قوت کو پانے کے بعد بھسما سور خود شیوا پر اپنی طاقت آزمانے کا فیصلہ کرتا ہے۔ اس کے عتاب سے بچنے کی خاطر شیوا نہایت خوبصورت موہنی میں بدل جاتا ہے اور بھسماسور اس سے شادی کرناچاہتاہے۔ موہنی اس شرط پر راضی ہوجاتی ہے کہ بھسماسورا رقص میں اس کے قدموں کی پیروی کرے۔دورانِ رقص وہ اپنا ہاتھ سر پر رکھتی ہے۔ بھسماسور اس کی نقل کر کے خود اپنے آپ کو راکھ کر دیتا ہے۔ سنگھ پریوار کو اب موجودہ سرکاری آسیب سے چھٹکارہ پانے کے لیے ایسی ہی کوئی ترکیب کرنی پڑے گی ورنہ وہ بھسماسور سے خود کو بھی نہیں بچا پائے گا ۔ اس لڑائی کا انجام بلا شک و شبہ دادا پھالکے کی خاموش فلم سے زیادہ دلچسپ ہوگا کیونکہ ٹکنالوجی کی غیر معمولی ترقی نے شور شرابہ (ایکشن) کرنا بہت آسان کردیا ہے ۔

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450506 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.