گنجی نچوڑے گی کیا اور نہائے گی کیا ، غل خور اور بیوہ


پشتو زبان میں زبان زد عام ایک بات کہی جاتی ہے " چی پہ کونڈے ہر سڑے کنڈہ اچوی " یعنی بیوہ عورت کو ہر مرد دائرہ اختیار میں لانا چاہتا ہے ، بیوہ کیساتھ کوئی حقیقی نکاح نہیں کرنا چاہتا لیکن فلرٹ کرنا اپنا بنیادی حق سمجھتا ہے. اپنے پاکستان کی مثال بھی بیوہ کی سی ہے ، کیا پرائے کیا اپنے ، ہر کوئی اس سے مستفید ہونا چاہتا ہے لیکن کوئی اس ملک کیساتھ مخلص نہیں ، بس لوٹنے کے چکر میں ہیں.اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں ، اپنے معاشرے میں پائی جانیوالی خرابیوں کو دیکھ لیں ، آپ کو یہ بات سمجھ آئے گی .سیلاب کے بعد قیمتیں کہاں سے کہاں تک پہنچ گئی ہیں.ہر کوئی اپنے حصے کی غل خوری کرکے کمانے کے چکر میں ہیں.

بات کہیں اور نکل رہی ہیں لیکن حالیہ سیلابی ریلوں نے ہمارے چہروں پر پڑے منافقت کے چادر کو سرکا دیا ہے سیلاب مس مینجمنٹ سے آئی یا قدرتی آفت ، یہ چیزیں اب ضمنی رہ گئی ہیں کیونکہ کروڑوں لوگ گھروں سے بے گھر ہوگئے ہیں ، روزگار سے بھی رہ گئے ہیں ، کھانے پینے کی اشیاء سمیت کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا ہے لیکن مجال ہے کہ کسی کے دل میں درد اٹھا ہو کہ سڑک کنارے ، گھروں کے چھتوں سے لیکر سرکاری خیموں میں پڑے ان غریب لوگوں کا آسرا کون بنے گا . ٹھیک ہے کہ ذمہ داری ریاست کی بھی ہے لیکن ایسی ریاست جن کے حکمران ، ایلیٹ کلاس صرف اپنے آپ کو دیکھنا پسند کرتے ہوں ، خواہ وہ مراعات ہوں ، یا میڈیا پر آنیوالے خبروں پر ایسے میں یہ توقع رکھنا کہ مسلمان ہونے کے دعویدار " فیس بکی "مسلمان بغیر کسی تصویر یا ویڈیو کی کسی امداد کرینگے. سیلاب نے ہر ایک کو موقع فراہم کردیا ہے کہ وہ اپنے لئے الگ دکان کھول لے اور اس دکان میںکوئی اللہ کے نام پر ، کوئی سیاسی پارٹی کے نام پر اور کوئی برادری کے نام پر" پیدا گیری "کررہا ہے . جولوگ کام کررہے ہیں انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ان کی تصاویر چھپ رہی ہیں یا نہیں انہیں کوئی سراہ رہا ہے یا نہیں وہ امدادی سرگرمیوں میں مصروف عمل ہیں.لیکن مانگے تانگے کی اوقات رکھنے والی سیاسی پارٹیاں جن کی کوئی اوقات نہیں بشمول بڑی سیاسی پارٹیاں جو اتنی جمہوریت پسند ہے کہ خاندانوں تک محدود ہیں.ان کے خانوادے ، رئیس اور اربوں کی جائیداد رکھنے والے سیاسی لیڈران بھی بھوکی ننگی عوام سے اپیل کررہے ہیں کہ لوگوں کی امداد کریں لیکن خود امداد میں پہل نہیں کررہے.

منافقت کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی بعض بڑے برانڈ کے نام رکھنے والے خطیب بھی بھوکی ننگی عوام کو اللہ کا عذاب کہہ کر لوگوں کو ڈراتے ہیںکہ توبہ استغفار کریں ، توبہ استغفار اچھی بات ہے لیکن کیا ان "برانڈڈ" افراد نے اپنے اربوں کے اثاثوں میں کوئی رقم مختص کی ہیں یاسیلاب زدگان کیلئے کوئی کام کیا ہو جو بتانے اور دکھانے کے قابل ہو تو بات بنتی لیکن اس مملکت پاکستان جسے بیوہ کی حیثیت حاصل ہے یہی خطیب بھی حکمرانوں ، ایلیٹ کلاس کیساتھ ملکر معاشرے کا ہر گند کا ذمہ دار بھوکے ننگے عوام کو سمجھتے ہوئے توبہ استغفار کرانے پر زور دیتے ہیں .اور خود ان حکمرانوں کے گود میں بیٹھ کر مفادات مفادات کے کھیل میں یکساں پارٹنر کے طور پر مراعات لیتے ہیں.

ہمارے پشتو زبان میں ایک کہانی بہت مشہور ہے کہ ایک علاقے میں نیا سرکاری بندہ آیا ، علاقے کے ایک شخص اس سے ملے جسے وہ علاقے میں گھمانے لے گئے تاکہ اس سرکاری افسر پر اس کا رعب بن جائے .بجائے اس کے سرکاری افسر سے تعارف کرتے اس سے معلومات لیتے علاقے کے رہائشی نے سرکاری افسر کو مختلف جگہیں دکھا دیں اور ساتھ میں یہ بھی کہتے رہے کہ فلاں پلازہ میرا ہے ، فلاں جائیداد میری ہے ، فلاں ٹرانسپورٹ کا بڑا کام میرا ہے اور وہ سرکاری افسر رہائشی کی باتیں سنتا رہا. جب رہائشی خاموش ہوگیا اور اس کے پاس بات کرنے کیلئے کچھ نہیں رہا تو سرکاری افسر نے رہائشی شہری کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آپ کا بہت شکریہ ، آپ نے میرے لئے کام بہت آسان کردیا کیونکہ میں اس علاقے میں تعینات ہونے والا نیا ٹیکس کا آفیسر ہوں اور مجھے اب آسانی ہوگی کہ میں ٹیکس وصولی کیلئے کام کروں . شہری نے جب یہ صورتحال دیکھی تواس نے سرکاری افسر کو مخاطب ہو کر کہا کہ صبر کریں ابھی تو آپ نے میری پوری بات سنی نہیں ، شہری نے سرکاری افسر کو جواب دیا کہ آپ کو پتہ ہے کہ مجھے اس علاقے میں سب سے بڑا" غل خور " یعنی انتہائی جھوٹا آدمی بھی کہتے ہیں باقی آپ کی مرضی ہے.

تقریبا یہی صورتحال سیلاب نے بھی پیدا کردی ہے کہ اب ایک سے ایک "غل خور"پیدا ہوگیا ہے کیا بڑے سے بڑا سیاستدان اور کیا محلے کی سطح پربارشوں کے بعد پیدا ہونیوالے کھمبی کی طرح اگنے والے چھوٹے چھوٹے محلوں کے مختلف سیاسی پارٹیوں کے ورکر، جنکی اپنے گھر میں بھی کوئی نہیں سنتا ، بلکہ انہیں گھر میں پیالی کا دوسرا کپ بھی نہیں دیتا وہ بھی "غل خوری" میں اپنے پارٹی کے لیڈر سے دو ہاتھ آگے جانے کیلئے کوشاں ہے.دو دن قبل ٹیلی تھون کے نام پر ڈرامہ اس قوم کیساتھ کیا گیا جس میں "غل خوری"کی انتہا کرتے ہوئے کہا گیا کہ اربوں روپے لوگوں نے جمع کروائے جسے اب بڑے غل خور سے لیکر چھوٹے غل خور تک پھیلا رہے ہیں کہ بڑا کارنامہ انجام دیا گیا ہے حالانکہ جن بینکوں نے اپنی سٹیٹمنٹ جاری کی ہیں ان کے مطابق انہیں کچھ لاکھ وپے امداد ملی ہیں.باقی کچھ بھی نہیں.

ایک انتہائی درجے کے خود سر، بدتمیز غل غور کی جانب سے جاری کئے جانیوالے " غل خوری" کے بعد اب ہر سیاسی پارٹی کا بڑا اس مرض میں مبتلا ہے کہ زیادہ سے زیادہ جھوٹ بول کر عوام کو بے وقوف بنائے. اگر اربوں روپے آئے ہیں تو پھر ہمارے ایک صحافی دوست کے بقول کم از کم دو لاکھ روپے توفی خاندن ملنے چاہئیں ، ویسے بھی اگر اتنے ہی بھوکے ننگے عوام سے مخلص ہیں توحکمرانوں سمیت سیاستدان اپنے اثاثوں سے زکوا ة نکال کر عوام کو کیوں نہیں دیتے.اپنے مراعات ختم کرنے کا اعلان کیوں نہیں کرتے. صرف فوٹو سیشنز سے کچھ نہیں ہوتا.لیکن چونکہ وہ اس مملکت پاکستان پاکستان کو بیوہ سمجھتے ہیں اور اس میں رہنے والے عوام کو بیوہ کی سہلیاں ،تو ہر کوئی بیوہ سے فلرٹ اور بیوہ کی سہلیوں سے مستی کے چکر میں ہیںلیکن ان کے مسائل ، انہیں شرعی حق دینا نہیں چاہتا. سو صورتحال ویسے ہی بن رہی ہیں .ویسے بھی اس بھوکے ننگے عوام کے پاس رہ گیا ہے جو اب ان حکمرانوں کو دیں کیونکہ بات تو وہی ہے کہ گنجی نچوڑے گی کیا اور نہائے گی کیا.جو لوگ ٹی وی اور فیس بک دیکھتے ہیں ان کی اوقات دینے کی نہیں اور جن لوگوں کے پاس پیسہ ہیں انہیں "اللہ "تعالی نے قربانی اور دینے کی ہمت نہیں دی.

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 422536 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More