وزیر اعظم نریندر مودی نے بھارتیہ جنتا پارٹی پارلیمانی
بورڈ اور مرکزی الیکشن کمیٹی کی تشکیل کرکے ایک تیر سے دو شکار کیے۔ اول تو
پارٹی کے اندر جتنے لوگ اپنی جڑیں مضبوط کررہے تھے ان کو اکھاڑ پھینکا اور
دوسرے آر ایس ایس کو اس کی اوقات بتا دی۔ وزیر اعظم نے ان لوگوں کی غلط
فہمی دور کردی کہ جو سمجھتے تھے اس سرکار کا سوتر دھار( باگ ڈور چلانے
والا) ناگپور میں بیٹھا ہوا ہے۔ ایسے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ مودی جی ایک کٹھ
پتلی کی مانند سنگھی ایجنڈےکو بروئے کار لانے پر مامور ہیں۔ فی الحال
ناگپور تو دور نہ ایوان پارلیمان کی کوئی اہمیت باقی ہے اور نہ وزراء کو
کوئی پوچھتا ہے۔ پی ایم او یعنی وزیر اعظم کے دفتر سے سرکار چلتی ہے اور
باقی سب لوگ وہاں سے آنے والے فیصلوں کو بے چوں و چرا تسلیم کرکے اس پر
دستخط ثبت فرما دیتے ہیں۔ اس کی بھی ایک ضرورت ہے کہ اگر کوئی معاملہ بگڑ
جائے تو بلی کا ایسا بکرا موجود ہو جس کو بھینٹ چڑھا کر اپنا دامن چھڑایا
جاسکے۔
مودی یگ میں پارلیمانی بورڈ اپنی اہمیت کھوچکاہے۔ پارٹی یا حکومت کے روز
مرہ کی سرگرمیوں میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں رہ گیا ہے ۔ اس تشکیل جدید کے
بعد بھی وہی ہوگا جو پہلے ہوتا تھا یعنی مودی جی فیصلے فرمائیں گے ، شاہ جی
تائید کریں گے اور جے پی نڈا اعلان کرکے عوام و خواص کو ان فیصلوں سے
روشناس کرائیں گے۔ اس تری مورتی کی مثال قوالوں کی ٹیم جیسی ہے ۔ اس میں
ایک شاعر کلام لکھتا تو ہےلیکن نظر نہیں آتا ۔ دوسرا طبلچی جھوم جھوم کر
سُر ملاتا ہے اور قوال ہارمونیم کی لے پر گا کر سنا دیتا ہے۔ فی الحال قومی
سیاست میں ان تینوں کرداروں سے بچہ بچہ واقف ہے ۔ بی جے پی کی پارلیمانی
بورڈ کا پچھلا اجلاس کب ہوا یہ کوئی نہیں جانتا ۔ اس نے کون کون سے فیصلے
کیے اس سے بھی کسی کو واقفیت نہیں ہے اس لیے کہ فی الحال سارے فیصلے وزیر
اعظم کی ذاتِ والا صفات منسوب ہوتےہیں ۔ مثلاً ایوان پارلیمان میں کسان بل
لانے سے لے کر اس پر تنقید کرنے والوں کی مخالفت اور پھر پالہ بدل کر اس کو
مسترد کرنے کی ذمہ داری بھی خودو ہی ادا کردیتے ہیں۔ کسی اور کے لیے کوئی
اہم کام نہیں چھوڑتے۔ ایسے میں یہ سوال پیداہوتا ہے کہ اس تشکیل نو کی حاجت
کیوں پیش آئی؟
پارلیمانی بورڈ کے قیام کا اعلان اگر نہیں کیا جاتا تو اس پر اعتراض کرنے
کی کسی میں جرأت نہیں تھی ۔ ویسے بھی آئی ٹی سیل کے طفیل پارٹی کا ہر کس
وناکس مودی جی کی تعریف و توصیف میں مصروفِ کار ہی تھا ایسے میں آخر اس
مشق ِ لاحاصل کرنے کی ضرورت کیا تھی ؟ اس کا اصل مقصد ان اداروں میں شامل
افراد سے استفادہ کرنا نہیں بلکہ پارٹی کے لوگوں کو ہوشیار خبردارکرنا ہے
کیونکہ سمجھدار کے لیے اشارہ کافی ہوتا ہے۔ سبرامنیم سوامی نے اس بابت ٹویٹ
کیا کہ 'ابتدائی دنوں میں ہمارے پاس ایک پارٹی تھی، پارلیمانی پارٹی کے
انتخابات ہوتے تھے، جس کے ذریعے عہدیداروں کا انتخاب کیا گیا۔ پارٹی کے
آئین کے مطابق ایسا کرنا ضروری تھا۔ لیکن آج بی جے پی میں کہیں بھی الیکشن
نہیں ہے۔ ہر عہدے کے لیے انتخاب نامزدگی کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اور اس کے
لیے وزیر اعظم نریندر مودی کی اجازت لینی پڑتی ہے۔اس ٹویٹ پر ایک صارف نے
یہ دلچسپ سوال کیا کہ 'جس پارٹی کے اندر جمہوریت نہیں ہے تو وہ ملک میں
جمہوریت کو کیسے بچائےگی؟ لیکن وزیر اعظم کو اس طرح کے اعتراضات کی پروا
نہیں ہے۔
مذکورہ تشکیل نو سے قبل اگر پارٹی میں انتخاب ہوتا تو یوگی ادیتیہ ناتھ کا
نام سب سے زیادہ ابھر کر سامنے آتا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ اترپردیش میں
بی جے پی کا سب سے وفادار ووٹر راجپوت ہے جو کہیں نہیں جاتا ۔ برہمن کبھی
بہوجن سماج کی جانب تو پسماندہ طبقات سماجوادی میں چلے جاتے ہیں ۔ بی جے پی
کے اندر سب معروف ٹھاکر رہنماراجناتھ سنگھ تھے ۔ ان کے اثرات کو زائل کرنے
کی خاطر مودی جی نے متبادل کے طور پر یوگی ادیتیہ ناتھ کو ایسے وقت میں
آگے بڑھایا جبکہ وہ ریاستی اسمبلی کے رکن بھی نہیں تھے۔ اس کے بعد اسٹار
پرچارک بناکر ان کو مہاراشٹر وگجرات سے لے کر بنگال اور کیرالہ تک لے جایا
گیا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ امیت شاہ سے زیادہ مقبول ہوگئے اور انہیں
مودی کا جانشین کہا جانے لگا ۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے سال انتخاب سے قبل ان
کو دہلی بلا کر رسوا کیا گیا لیکن انتخاب میں اکھلیش کے حق ہوا بنی تو
مجبوراً ہٹانے سے گریز کرنا پڑا۔
اتر پردیش میں یوگی دوبارہ کامیاب ہوگئے تو اس بار برجیش پاٹھک جیسے طاقتور
نائب وزیر اعلیٰ کو نامزد کیا گیا ۔ پا ٹھک نے بدعنوانی کے خلاف ذرائع
ابلاغ میں خط لکھ کر بغاوت کا اشارہ کردیا ۔ اس کےبعد دوسرے برہمن کابینی
وزیر جتن پرشاد نے بھی ناراضی کا اظہار کیا اور دلت وزیر مملکت دنیش کھٹک
نے تو استعفیٰ تک دے دیا جسے بعد میں واپس لیا گیا۔ برہمن اور دلت کے بعد
پسماندہ طبقات سے آنے والے اترپردیش کے بی جے پی صدر سوتنتر دیو سنگھ کا
وزارت سے استعفیٰ سامنے آیا اور قبول کرلیا گیا ۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ
یہ کھیل تماشا دہلی کے اشارے پر یوگی کو خوار کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔ اس
بیچ یوگی نے اپنی دوسرے میعاد کے100؍ دن پورے کیے اس موقع پر انہیں اپنے
سارے وزراء کے ساتھ گورنر آنندی بین کے گھر جا کر اپنی کارکردگی پیش کرنے
اور آئندہ کا منصوبہ بتانے کے لیے کہا گیا ۔ اس ملاقات کو تعارف کا نام
دیا گیا جبکہ تین ماہ کے بعد اس کا نہ جواز تھا نہ ضرورت تھی ۔ یہ ایک منفر
د واقعہ ہے کیونکہ مغربی بنگال اور مہاراشٹر میں تو وزیر اعلیٰ اور گورنر
کے درمیان ٹھنی رہتی ہے۔
وزراء اور ارکان اسمبلی عوام کی نمائندگی کرتے ہیں جبکہ گورنر مرکزی سرکار
کا نمائندہ ہوتا ہے۔ اس لیے گورنر کی خدمت میں وزراء کا حاضری عوام کی
توہین ہے لیکن چونکہ آنندی بین وزیر اعظم کی معتمد ہیں اس لیے یوگی کو
خوار کر نے کی خاطر اس کے لیے مجبور کیا گیا۔ اس طرح گویا گورنر کو سُپر سی
ایم کی حیثیت حاصل ہوگئی ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یوگی اس سے انکار نہیں
کرسکے اور اب نہ صرف پارلیمانی بورڈ بلکہ مرکزی انتخابی کمیٹی سے یوگی کو
باہر رکھ کر انہیں ان کی حیثیت کا احساس دلا دیا گیا ہے بلکہ گرمی نکال دی
گئی۔ راجناتھ سنگھ چونکہ اب بے ضرر ہوچکے ہیں اس لیے ان کو نہیں چھیڑا گیا۔
بی جے پی کے اندر یوگی ادیتیہ ناتھ کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ آج کل
شیوراج سنگھ ، ہیمنت کمار بسوا اور بسوراج بومئی بھی مودی ماڈل کے بجائے
یوگی ماڈل کی بات کرنے لگے ہیں اس لیے یوگی کے ساتھ وہ بھی معتوب ہوئے۔ ان
تینوں کو نظر انداز کرکے مدھیہ پردیش سے جاٹیہ، آسام سے سربا نند سونوال
اور کرناٹک سے یدویورپاّ کو آگے بڑھایا گیا تاکہ آئندہ کوئی یوگی کی
ستائش کرنے کی غلطی نہ کرے ۔ اس سے پارٹی کے اندر جاری اقتدار کی کشمکش کا
اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور جو لوگ دن رات اس اٹھا پٹخ میں مصروف ہوں ان سے
قومی فلاح و بہبود کی توقع فضول ہے۔
جمہوریت اور آمریت دوباطل سیاسی نظریات تو ہیں مگر ان میں ایک مہین سا فرق
ہے۔ جمہوریت کا مشہور دعویٰ ہے’ عوام کے لیے عوام کے ذریعہ عوام کی حکومت‘
جبکہ آمریت میں یہ تبدیلی ہوجاتی ہے کہ ’ رہنما کے لیے ، رہنما کے ذریعہ
رہنما کی حکومت‘۔ ویسے جمہوریت میں بھی ایک بار منتخب ہوجانے کے بعد سارے
اختیارات عملاً رہنما کے پاس آجاتے ہیں اور خوب جی بھرکے من مانی کرتا ہے
لیکن اس کے ساتھ عوام کے پاس لالی پاپ موجود ہوتا ہے کہ سارا کچھ اس کی
مرضی کے مطابق ہورہا ہے۔ آمریت میں عوام کو اس طرح کی خوش فہمی کا شکار
نہیں کیا جاتا ۔ اس فرق کے علاوہ باقی سب مشترک ہے۔ جہاں تک انتخاب کا سوال
ہے عصرِ حاضر میں فوجی آمر بھی الیکشن کا اہتمام کرنے لگے ہیں اور جمہوری
رہنما بھی منتخبہ نمائندوں ڈرانے دھمکانے بلکہ خریدو فروخت بھی کرنے لگے
ہیں۔ فی الحال ای ڈی اور سی بی آئی کے ذریعہ ہندوستان میں یہی ننگا ناچ
ہورہا ہے۔ مغربی بنگال میں حزب اختلاف کے رہنما نے ببانگِ دہل یہ پیشنگوئی
کردی ہے کہ آئندہ 6؍ ماہ میں ترنمول کانگریس کو ای ڈی کی مدد سے نیست و
نابود کردیا جائے گا ۔
وطن عزیز میں کو ایمرجنسی کے دوران جمہوریت کو علی الاعلان آمریت میں بدل
دیا گیا لیکن اندرا گاندھی کی شکست کے بعد جمہوریت لوٹ آئی۔ وزیر اعظم
نریندر مودی نے ابتداء میں جمہوریت کا نقاب اوڑھ کر عوام کو فریب دینے کی
کوشش کی لیکن اب وہ اس کی چنداں ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ
حکمراں طبقہ نے ازخود جمہوری مکھوٹے کو نوچ کر پھینک دیا ہے اور ملک کے
اندر ایک غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔ یہ صورتحال اعلانیہ
ایمرجنسی سے بھی زیادہ خطرناک ہے کیونکہ پہلے تو یہ طے ہوتا تھا کہ کون سے
حقوق پامال ہوں گے اور کس پر ہاتھ نہیں ڈالا جائے گا لیکن اب تو سب کچھ غیر
محفوظ ہوگیا ۔ حکومت کا بلڈوزر کب کسے روند دے گا اس کی پیشنگوئی کو ئی
نہیں کرسکتا ۔ اس طرح حکومت چلانے والوں کے اندر ایک زبردست عدم تحفظ کا
احساس ہوتا ہے اور اس پر قابو پانے کی خاطر وہ دوسروں کو خاص طور پر
اپنےناقدین ، معترضین یا مخالفین کو ڈرانے دھمکانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایسے
لوگ پارٹی کے باہر تو ہوتے ہی ہیں مگر ان بھی پائے جاتے ہیں۔ پارلیمانی
بورڈ اور مرکزی الیکشن کمیٹی کی تشکیل نو داخلی خطرات سے نمٹنے کی ایک سعی
ہے ۔
|