کیا غریب انسان نہیں۔؟

آدھاملک سیلاب میں ڈوب چکا،پنجاب،سندھ،بلوچستان کے اکثر اورخیبرپختونخواکے کچھ علاقوں میں سیلاب نے وہ تباہی مچادی ہے کہ جس کے مناظردیکھ کر دل پھٹنے لگتاہے۔سیلاب سے ان متاثرہ علاقوں میں اب بھی ہرطرف قیامت ہی قیامت ہے۔درجنوں نہیں سینکڑوں جیتے جاگتے انسان سیلابی ریلوں کی نذرہوچکے ہیں جوزندہ بچ گئے ہیں اب وہ بھی زندہ لاشیں بن کے کھڑے ہیں کیونکہ ان کی مائیں،بہنیں،بھائی،باپ ،بیوی بچے اوردیگرعزیزواقارب ،گھربار،مال دولت اورمویشیوں سمیت سب کچھ پانی میں فناہوچکاہے۔بڑے بڑے شہر،گاؤں،قصبے اوردیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں۔سیلاب کے بے رحم موجوں کی زدمیں آنے والے علاقوں میں اب کوئی شہرہے نہ کوئی گاؤں،نہ قصبہ اورنہ کوئی دیہات۔ہرطرف تباہی فقط صرف تباہی کے مناظرہیں۔بعض علاقوں کی تویہ حالت ہے کہ وہاں اب تباہی پرتباہی کو دیکھ کر یہ گمان بھی نہیں ہوتاکہ یہاں بھی کوئی آبادی تھی یاان علاقوں کوبھی کسی نے کبھی آبادکیاتھا۔ان علاقوں میں آبادی کے اکثرنشانات بلبلے بن کرسیلاب میں اڑچکے ہیں ۔اب ان علاقوں میں صرف آہیں ہیں اورسسکیاں۔ہزاروں نہیں لاکھوں اورکروڑوں لوگوں پرقیامت گزرگئی اورگزررہی ہے لیکن افسوس کہ امیرجماعت اسلامی سراج الحق کے سواکسی کوان غریبوں کی کوئی پرواہ اورفکرنہیں۔جن کے لئے یہی غریب سب کچھ چھوڑچھاڑکرتونسہ،فاضل پور،روجھان،سوات اورکوہستان سے ایک منٹ میں اسلام آباد،لاہور،پشاوراورکراچی پہنچاکرتے تھے وہ خان،نواب اورچوہدری دن کیا۔؟دنوں میں بھی ان کے پاس نہ پہنچ سکے۔دنیانے یہ دن بھی دیکھناتھاکہ جوغریب حکمرانوں اورسیاستدانوں کے لئے ساری زندگی زندہ باداورمردہ بادکے نعرے لگاتے رہے،جوحکمرانوں وسیاستدانوں کی ایک آوازاورکال پرلاکھوں کے حساب سے ڈی چوک اورسی چوک پہنچاکرتے تھے ،سیاسی مظاہروں،احتجاج،جلسے ،جلوس اوردھرنوں میں پولیس کی لاٹھی چارج،شیلنگ اورفائرنگ کے دوران جو ڈھال بن کران حکمرانوں اورسیاستدانوں کی حفاظت کیاکرتے تھے۔وہ غریب جنہوں نے من اوردھن کے ساتھ تن بھی ان حکمرانوں وسیاستدانوں کے لئے ہمیشہ ہتھیلی پررکھا ۔ان غریبوں کی جان پرجب آئی،وہ غریب جب مشکل میں پھنسے توپھران کے لئے ڈھال اورتال بننے والاکوئی نہیں تھا۔پنجاب،سندھ،بلوچستان اورخیبرپختونخوامیں اس ملک کے غریب ڈوب رہے تھے اورحکمران وسیاستدان اسلام آبادمیں بیٹھ کرسیاست سیاست کھیل رہے تھے۔ملک میں سیلاب سے ہونے والی تباہی پرحکمرانوں وسیاستدانوں کی خاموشی اوربے حسی کودیکھ کریوں محسوس ہورہاہے کہ ان سنگدل حکمرانوں اورسیاستدانوں کاکہیں واقعی اس ملک کے عوام کے ساتھ کوئی رشتہ اورتعلق نہیں۔کیونکہ رشتے اورتعلق والے اپنوں کے ڈوبنے پرپھراس طرح آرام اورسکون سے نہیں بیٹھتے۔شہروں کے شہرڈوب گئے ،بستیوں کی بستیاں تباہ وبربادہوگئیں،آدھاچمن اجڑگیا مگرچھوٹے چھوٹے چمچوں کو کیا۔۔؟بڑے بڑے لیڈروں کوبھی اس کی کوئی خبر نہ ہوئی۔کیاحکمران اورسیاستدان ایسے ہوتے ہیں۔؟ملک میں قیامت کاسماں ہے،ہرطرف آہ وبکااورچیخ وپکارہے مگرسیاست اورمنافقت کے کھیل میں گم سیاستدانوں وحکمرانوں کوغریبوں کی یہ چیخیں سنائی نہیں دے رہی ۔ایک ہی سراج الحق غریبوں کے آنسوپونجھتے رہے ،باقی ملک،قوم اورغریبوں کاکوئی غمخوارمتاثرین سیلاب کو کندھادیتے ہوئے نظرنہیں آیا۔وہ عمران خان جواٹھتے بیٹھتے کہتے پھرتے ہیں کہ عوام میرے ساتھ ہیں انہیں بھی بنی گالہ سے نکل کرغریبوں کے زخموں پرمرہم رکھنے کی توفیق نصیب نہ ہوسکی حالانکہ پنجاب اورخیبرپختونخوامیں ان کی حکومت ہے۔کپتان کی ان دوصوبائی حکومتوں نے مشکل کی اس گھڑی میں عوام کوجس طرح سیلاب کے بے رحم موجوں کے رحم وکرم پرچھوڑاوہ افسوسناک ہی نہیں بلکہ انتہائی افسوسناک ہے۔کپتان کے زیرانتظام صوبہ خیبرپختونخواکے ضلع کوہستان میں سیلاب میں پھنسنے والے پانچ افرادکئی گھنٹوں تک کپتان اورکپتان کے کھلاڑیوں کی راہ دیکھتے دیکھتے جس طرح سیلاب میں بہہ گئے وہ نہ صرف وقت کے حکمرانوں بلکہ ہم سب کے منہ پرزوردارطمانچہ ہے ۔جوحکمران پانچ افرادکوسیلاب سے نہ بچاسکیں وہ پورے ملک اورقوم کوکیابچائیں گے۔؟انصاف کی نظرسے دیکھیں توکوہستان میں پانچ افرادسیلاب میں نہیں بہے بلکہ ان پانچ افرادکے ساتھ کپتان کی پوری صوبائی حکومت ،کپتان کے بلندوبانگ دعوے،وعدے اورسب سے بڑھ کرقوم کی غمخواری والاکپتانی چورن بھی سیلاب میں بہہ گیاہے۔ جن حکمرانوں اورحکومتوں کی کپتان ہمیں مثالیں دیتے ہیں وہ حکمران عوام ورعایاکواس طرح سیلاب کے رحم وکرم پرنہیں چھوڑتے۔ باہرکی دنیامیں توایک پرندے کوبچانے کے لئے بھی پوری حکومت حرکت میں آتی ہے۔یہاں پانچ زندہ وسلامت انسان کئی گھنٹوں تک زندگی کی بھیک مانگتے رہے،حکمرانوں کودہائیاں دیتے رہے مگرافسوس ظالم ایک ہیلی کاپٹربھی ان کوبچانے کے لئے نہ بھیج سکے۔کیاغریبوں کی جانیں اتنی سستی ہیں کہ سیاسی جلسوں ،جلوسوں ،مظاہروں اوردھرنوں میں ماربھی یہ کھائیں،مہنگائی کابوجھ بھی یہ اٹھائیں،غربت کوگلے سے بھی یہ لگائیں،بیروزگاری کاہاربھی یہ پہنیں اورجب کوئی سیلاب آئے توپھراس میں تنکوں کی طرح بہے بھی یہ۔؟کیایہ ملک ،اس کاخزانہ اوراس کے وسائل صرف عمران خان،شہبازشریف،آصف زرداری اورمولانافضل الرحمن کے لئے ہیں۔۔؟کیاغریبوں کااتنابھی حق نہیں کہ وہ زندگی اورموت کی جنگ میں پندرہ بیس منٹ کے لئے ایک ہیلی کاپٹربھی استعمال کرسکیں۔۔؟سیاسی جلسوں اورجلوسوں کے لئے اگرسرکاری ہیلی کاپٹراستعمال ہوسکتے ہیں توپھرغریبوں کی جان بچانے کے لئے کیوں نہیں۔؟پی ٹی آئی،ن لیگ،پیپلزپارٹی،جے یوآئی اوردیگرسیاسی جماعتوں وپارٹیوں کے غیرت مندوانصاف پسندکارکن ایک ۔۔صرف ایک منٹ کے لئے دل پرہاتھ رکھ کربتائیں کہ کوہستان کے ان پانچ غریب افرادکی طرح اگرعمران خان،شہبازشریف،آصف زرداری یامولانافضل الرحمن کاکوئی سگانہیں دورکاکوئی رشتہ داربھی سیلاب میں اس طرح پھنساہوتاتوکیااس وقت بھی پھراس کے ساتھ بھی ایساہی ہوتا۔؟نہیں ہرگزنہیں۔کیونکہ ہم نے ایک نہیں ہزارباردیکھاہے کہ اس ملک میں ان حکمرانوں وسیاستدانوں کے دورپاررشتہ دارکیا۔؟ان کے توکتوں،بلیوں اورگھوڑوں کے لئے بھی ہیلی کاپٹرہی نہیں بلکہ پوراآسمان سرپراٹھایاجاتاہے۔سیلاب میں بہہ جانے والوں کی نعشوں،لاشوں اورمیتوں کے سرہانے بیٹھ کراب عمران خان اورمولانافضل الرحمن مگرمچھ کے آنسوبہائیں یاشہبازشریف اورآصف علی زرداری سینہ کوبی کریں لیکن یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اس ملک میں عوام توسب کے ہیں پرعوام کاکوئی نہیں۔غریبوں کااس ملک میں نہ پہلے کوئی تھااورنہ اب کوئی ہے۔ اس ملک کے حکمران اورسیاستدان اگرعوام کے ہوتے توپھرغریب اس طرح سیلاب میں تنکوں کی طرح کبھی نہ بہتے۔
 

Umar Khan Jozovi
About the Author: Umar Khan Jozovi Read More Articles by Umar Khan Jozovi: 223 Articles with 161055 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.