جب سے لاہور میں اورینج لائن ٹرین (Orange Line Train)کا
افتتاح ہوا ہے ، خواہش تھی کہ اس میں سفر کیا جائے اگرچہ اس کے روٹ میں نہ
ہمار ا گھر اور نہ دفتر آتا ہے۔ تجسس اس لیے بھی زیادہ تھا کہ آیا یہ ٹرین
ملائیشیامیں چلنے والی کی ٹرینوں جیسی ہے جیسا ہم نے اپنے سفر ملائیشیا کے
دوران دیکھی تھیں۔ ملائیشیا میں صر ف ایک شام ہی ہم نے اُس میں سفر کیا تھا
۔ وہاں مکڑی کے جالے کی طرح کا ریل کا نیٹ ورک تھا۔ بیسیوں اطراف ٹرینیں
آاورجارہی تھیں۔ دوسرا تجسس یہ بھی تھا کہ آیا یہ ٹرین جاپان کی میں چلنے
والی ٹرینوں کی طرح کی ہے۔بالآخر وہ دن آہی گیا۔ ہم منصورہ کے اسٹیشن سے
اور یونیورسٹی آف انجینئر نگ کے اسٹیشن تک سفر کرنے کا ارادہ کیا۔منصورہ کے
اسٹیشن جسے وحدت روڈ کا اسٹیشن کہتے ہیں کے انتخاب کی وجہ یہ تھی کہ اورینج
لائین ٹرین کے تمام اسٹیشنوں پر سواری کھڑی کرنے کی جگہ نہیں رکھی گئی ہے۔
کار تو دور کی بات موٹر سائیکل بھی کھڑا کرنے کی جگہ نہیں رکھی گئی ہے۔ اس
لیے ہم نے فیصلہ کیا کہ منصورہ میں اپنی سواری پارک کرکے اس سفر سے محظوظ
ہوا جائے۔ جاپان میں ہر اسٹیشن پر بہت بڑی پارکنگ ہوتی ہے۔ اسی طرح
ملائیشیا میں یہ سہولت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔خیر منصورہ اسٹیشن پہنچ کر
ہم نے برقی سیڑھیوں کے ذریعے اور پہلی منزل پر جانے کے لیے پرقدم رکھے تاکہ
وہاں سے ریل کا ٹوکن لیں۔ ہم نے جیسے ہی برقی سیٹرھیوں پر قدم رکھیے ، تو
برقی سیڑھیاں بول پڑی : "برقی سیڑھیاں اوپر جارہی ہیں"۔ہمیں اس پروٹوکول پر
بڑی حیرت ہوئی ،ایسا محسوس ہوا جیسے ہم کوئی خاص شخصیت ہیں۔ ، جب ہم پہلی
منزل پر پہنچ گئےاور قدم فرش پر رکھنے لگے ، تو برقی سیڑھیاں ایک مرتبہ پھر
بول پڑیں۔ " پہلی منزل آگئی ہے۔" لیکن میرے تخیل نے مجھے کچھ اس طرح سنوایا
کہ " بادشاہ سلامت پہلی منزل پر اُترنے والے ہیں۔" مشین کا یہ اعلان سننا
تھا کہ ایک آفسر میری طرف بڑھا اور مجھے کاؤنٹر کی طر ف لے گیا۔ میں حیران
تھا کہ یہ پروٹوکو ل مجھے کیوں دیا جارہا ہے ۔ایسا تو میں نے نہ ایران میں
دیکھا ، نہ ملائشیا میں اور نہی جاپان میں۔ یہ اورینج لائین کا پہلا امتیاز
تھا۔ پہلی منزل ایک کشادہ منزل تھی ، ٹوکن کاؤنٹر عین درمیان میں تھا۔ اسکے
دونوں اطراف برقی سیڑھیاں دونوں اطراف کے پلیٹ فارم کی طرف مسافروں کو لے
جا رہی تھیں۔ فرق یہ ہے کہ ملائیشیا میں اس فلور پر کھانے پینے کی دکانیں ،
کتاب فروشی (book store)، اور ایک لمبی گلی (corridor)بھی ہوتی تھی ،جس پر
تصاویر اور پورٹریٹ بنے ہوتے تھے۔ بازاروں اور پلازاؤں میں سے گزر کر
اسٹیشن کو راستہ جاتا تھا۔ اور اکثر اسٹیشن زیر زمین ہوتے تھے۔
اورینج لائین کے اسٹیشن کی پہلی منزل پر دونوں اطراف ٹوکن حاصل کرنے کے لیے
خود کار مشینیں بھی لگیں ہوئی تھیں۔ ٹوکن مشین سے بھی حاصل کیا جاسکتا ہے
اور کاؤنٹر جاکر کارندے سے بھی طلب کیا جاسکتا ہے۔ اس مشچین میں سب سے بڑا
نوٹ سو روپے تک کا ڈالا جاسکتا ہے۔ اورینج لائن کےایک ٹوکن کی قیمت مبلغ
چالیس روپے ہے۔ ملائشیا میں اسی طرح کا ٹوکن لینا ہوتا تھا، لیکن جاپان میں
ٹوکن کے بجائے کاغذ کا ٹکٹ مشین سے نکلتا تھااورینج لائین کا یہ ٹکٹ تمام
اسٹیشنوں کے لیے چالیس روپے ہے۔ اگر اگلے اسٹیشن اترناہو، تب بھی چالیس
روپے کا ٹوکن لینا ہوگا یا آخری اسٹیشن تک جانا ہو تب بھی چالیس روپے کا
ٹکٹ لینا ہوگا۔ ملائیشیا اور جاپان میں یہ مقدار مسافت کے اعتبار سے بدلتی
رہتی تھی۔ قریب کے اسٹیشن کا کم کرایہ اور دور کے اسٹیشن کا زیادہ کرایہ
ہوتا تھا۔
ٹوکن لینے کے بعد ،دوسرا مرحلہ برقی دروازےسے گزر کر دوسری منزل پر واقع
پلیٹ فارم تک جانے کا ہوتا ہے۔ جو لوگ لاہور یا اسلام آباد میں میٹر و بس
کا سفر کر چکے ہیں ، اُن کے لیے ان دروازوں سے اپناٹوکن دکھا کر گزر نا
معمول کی بات ہے۔ ہم نے بھی ٹوکن لیا اور برقی دروازے پر آکر کھڑا ہوگئے۔
ہم دل ہی دِل میں کہہ رہے تھے، "کھُل جا سِم سِم، کھُل جا سِم سِم" لیکن
دروازہ کھُل نہیں رہا تھا۔ وہاں کھڑے افسر نے برقی دروازے کی مخصوص جگہ کی
طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: کہاں کھوگئے ہیں جناب، اپنا ٹوکن برقی دروازے پر
یہاں پر رکھیں، دروازہ کھُل جائے گا۔" ہم نے ٹوکن برقی دروازے پر چھوا تو
دروازہ کھل گیا۔ تو ہمیں سمجھ آیا کہ ہے یہ وہی کھُل جا سم سم والا دروازہ
ہے ۔ فرق یہ ہے کہ اب کھُل جا سِم سم کے بول بولنے کے بجائے ٹوکن کو برقی
دروازے کے مخصوص مقام پر چھونے سے یہ دروازہ کھل جاتا ہے۔
اس فلور پر صرف دو سہولیات تھیں ایک بیت الخلاء اور دوسری ٹوکن حاصل کرنے
کی کی سہولت ۔ جاپان میں ایک سہولت اور بھی تھی ۔ وہاں ہر اسٹیشن پر lost
and found کا ایک کاؤنٹر بھی ہوتا ہے۔ مسافروں کی اگر کوئی چیز ٹرین میں رہ
جاتی ہے تو وہ شے یا تو مسافر اس کاؤنٹر پر جمع کروادیتے ہیں یا صفائی کرنے
والا عملہ ایسی اشیاء مطلوبہ کاؤنٹر پر جمع کر وادیتا ہے۔
ہمارے سامنے سیڑھیا ں دو نوں اطراف کے پلیٹ فارموں کی طرف جارہی تھیں۔ ہم
جیسے نئے مسافر کو یہ معلوم کرنا قدرے دشوار تھا کہ کونسی سیڑھیاں کونسے
پلیٹ فارم کی طر ف جا ئیں گی۔ اس لیے وہاں مو جود اسٹیشن کا عملہ لوگوں کی
رہنمائی کرتا رہتا ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے ، پہلے اور آخری اسٹیشن کا
نام غیر معروف ہے۔
اب ہم اورینج لائین میٹرو ٹرین کے پلیٹ فار م پربولتی ہوئی برقی سیڑھیوں کے
ذریعے پہنچ چکے تھے۔ پلیٹ فارم کے اوپر مالٹائی رنگ کی کمان کی شکل کی چادر
کی ایک دیو ہیکل (gigantic)چھت تنی ہوئی تھی۔ ایسی چھت میں نے ملائیشیا میں
ٹرین کے اسٹیشنوں پر دیکھی تھی۔ البتہ جاپان میں قدرے شائستہ انداز کی
چھتیں تھیں۔ پلیٹ فارم کا فرش بہت اعلی قسم کی ٹائلوں سے مزین تھا۔ لیکن
صفائی کا محتاج تھا۔ اسٹیشن میں داخل ہونے والے مسافر اپنے جوتوں کے ساتھ
جو مٹی اسٹیشن کے باہرسے لیکر داخل ہوتے ہیں وہ پلیٹ فارم کے فرش کو گندہ
کرنے کا باعث بنتی ہے۔اسٹیشن کا پلیٹ فارم اُس وقت تک صاف نہیں ہوسکتا ہے
جب تک ہم پاکستانی صفائی کے نظام کو اپنے گھر ، اپنی گلی ، اپنے محلے ،
اپنے گاؤں اور شہر میں قائم نہیں کرتے ۔
اس دیوہیکل مالٹائی رنگ کی چھت کے نیچے دونوں پلیٹ فارموں پر ٹرین آ اور
جارہی تھیں۔ لیکن ان ٹرینوں کا رنگ اپنے نام کے مطابق مالٹائی نہیں تھا
بلکہ لال اور سفید تھا۔ درمیان میں کھڑکیوں تک کے علاقے میں سرخ رنگ کی پٹی
تھی اور اِس کے نیچے اور اوپر سفید رنگ غالب تھا۔ جب ٹرین تیزی سے پلیٹ
فارم میں داخل ہوئی تو سفید اور لال رنگ کی دھاریاں تیزی سے گزرتی ہوئی
دکھا ئی دے رہی تھیں۔ ٹرین کا انجن عام ٹرینوں کی طرح بقیہ بوگیوں سے جد ا
نہیں تھا۔ اورینج لائین کی رفتا ر 80 کلو میڑ فی گھنٹہ ہے۔ البتہ اس ٹرین
کی آواز بہت ہلکی ہوتی ہے۔ یہ پلیٹ فارم میں پرشکوہ انداز میں تیز رفتاری
سے داخل ہوتی ہے اور اچانک اس کی رفتار میں کمی آتی ہے اور وہ رک جاتی ہے۔
پلیٹ فارم پر تین چار سیکورٹی گارڈ اورایک کالا ہیٹ پہنے ہوئے افسر مسافروں
کی مدد اور رہنمائی کے لیے مستعد کھڑے تھے۔ بلٹ ٹرین (Bullet Train) سے
مشابہ ٹرین ہمارے پلیٹ پر آتی ہوئی نظر آئی ، اُسی لمحے بالمقابل پلیٹ فارم
پر بھی ٹرین آگئی۔ اس کے سامنے کا حصہ باہر کو ابھرا ہوا تھا لیکن بلٹ ٹرین
کی طرح لمبا نہیں تھا۔ ٹرین میں انجن والی جگہ میں دو کالے ہیٹ والے ڈرائیو
ر بیٹھے ہوئے نظر آئے۔ اُن میں سے ایک پاکستانی اور دوسرا چینی استاد
ڈرائیور تھا جو پاکستانی ڈرائیور کی تربیت پر مامور تھا۔
ہر ٹرین میں پاکستانی ڈرائیور کے ساتھ ایک چینی ڈرائیور بھی بیٹھا ہوا تھا،
وہ پاکستان ڈرائیور کو ٹریننگ دے رہا ہے۔ جب ٹرین رُکتی تھی تو وہ انجن سے
باہر نکل کر پلیٹ فارم پر آکر کھڑا ہوتا اور جائزہ لیتا کہ سب سواریا ں
سوار ہوگئی ہیں اور دروازے بند ہوگئے ہیں۔ وہ یہ عمل دو تین مرتبہ تیزی
تیزی سے دہراتا ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ چینی ڈرائیور مسافروں کی جان کی
حفاظت کے حوالے سے کتنا محتاط ہے۔ اور وہ یہ کام انتہائی ذمہ داری سے ادا
کرتے ہیں۔ ڈرائیور کے علاوہ پلیٹ فارم پر کھڑے ہیٹ والے پاکستانی افسر اس
بات کو یقینی بناتے ہیں کہ سب مسافر اتر گئے ہیں یا چڑھ گئے ہیں اور دروازے
بند ہوگئے ہیں۔
پلیٹ فارم اور ٹرین کے درمیان ایک شیشے کی دیوار بنی ہوئی تھی، اور اس
دیوار میں کھِسکنے والا دروازہ (sliding door)لگا ہوا تھا۔ کمال یہ تھا کہ
ٹرین کا دروازہ اور اس شیشے کی دیوار کا دروازہ دونوں ایک ساتھ کھلتے تھے
اور دونوں دروازوں کے پٹ بالکل ایک دوسرے کے متوازی کھُلتے تھے۔ ہم بھی
دیگر مسافروں ساتھ اِس جدید طر ز کی ٹرین میں سوار ہوگئے۔ ٹرین مسافروں سے
کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ ہر طبقے کے مسافر اس میں موجود تھے ۔ٹرین میں
مزدور بھی تھے جن کے بدن سے پسینے کی بُو آرہی تھی، مہذب شہری بھی تھے۔ بعض
مزدور اپنے ساتھ سامان کی بوری بھی اٹھائے ہوئے تھے۔لیکن سوار ہونے والوں
میں مسافروں (commuters) کم اور سیر و سیاحت کرنے والے (fun fare)زیادہ
تھے۔ایسے ماحول میں کرونا کے پھیلنے کے بہت امکانات پیدا ہوجاتے ہیں، جبکہ
کچھ مسافر ماسک نہیں پہنے ہوئے تھے۔
ٹرین کے اندر دونوں جانب لمبی لمبی نشتیں تھی۔ان نشستوں کے اوپرشفاف شیشے
کی کشادہ کھڑکیاں تھیں جن کے شیشوں سے باہر کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ درمیان
میں کھڑے ہونے والے مسافروں کے لیے لال رنگ کے کنڈے لٹکائے گئے ہیں۔ یہ
نشستیں ایک ہی رنگ کی تھیں۔ اسٹیل کی ان نشتوں پر بائیں طرف بوڑھوں اور
بچوں کے لیے کے بیٹھنے کے حوالے سے ایک نوٹس لگا ہوا تھا کہ " For old
people and children" لیکن اس تفریق کا لحاظ نہیں رکھا جارہا تھا۔ ملائیشیا
میں نیلے اور لال رنگ کی سیٹیں تھیں۔ نیلے رنگ کی سیٹیں عام مسافروں کے لیے
اور لال رنگ کی نشستیں بچوں اور بوڑھوں کے لیے تھیں۔
ملائیشیا میں اکثر مسافر خاموشی سے اپنے موبائل کی طرف گردن جھکا کر صفحات
پلٹ (surfing) رہے ہوتے تھے۔ جبکہ جاپان میں کچھ مسافر کتا بیں پڑھ رہے تھے
اور زیادہ تر مسافر موبائل میں مصروف تھے۔ بہت کم مسافر باتیں کر رہے تھے۔
لیکن پاکستان میں اکثر مسافر باتیں کر رہے تھے ، بلکہ شور مچا رہے تھے،
جیسے بکر منڈی میں شور ہوتا ہے۔ اس پر مستزاد حبس اور گرمی تھی۔ ریل اپنی
گنجائیش سے زائد مسافروں کو اٹھائے ہوئے تھی۔
جاپان میں میں کھڑکی سے بہت خوبصورت مناظر دیکھنے کو ملتے تھے ، کبھی ٹرین
کسی دریا کو عبور کر رہی ہوتی تھی۔ کبھی کھیتوں میں سے گزر رہی ہوتی تھی
اور کبھی جاپانی طرز کے مکانات میں یا شہر ی علاقوں کی اونچی انچی عمارتوں
میں سے گزر رہی ہوتی تھی۔ یہ سب مناظر ٹرین کی بڑی بڑی اور کشادہ کھڑکیوں
سے دکھائی دیتے تھے۔ اسی طرح ملائیشیا میں ٹرین کوالمپور کی اونچی پُرشکوہ
عمارتوں کے درمیان سے گزرتی تھی۔
لاہور شہر کا انفراسٹرچکر ان دونوں ممالک سے یکسر مختلف ہے۔ یہاں اورنج
لائین کے روٹ میں اونچی عمارتیں خال خال ہی آتی۔ اکثر ایک منزلہ یا دومنزلہ
عمارتیں آتی ہیں، جو ٹرین کے ٹریک کی اونچائی کے مقابلے بہت پست قامت نظر
آتی ہیں ۔ جو مناظر میں نے اورنج لائیں کے سفر کے دوران دیکھے وہ کچھ یوں
تھے: ایک چھت پر ماں دھوپ میں بیٹھ کر، بیتی کے سر سے جوئیں نکال رہی
تھی۔،دوسری چھت پر ایک عورت مٹی کی انگیٹھی پر روٹیاں پکا رہی تھی، اور اس
کی بہو ساگ بنارہی تھی۔ایک چھت پر بکریاں بندی ہوئی تھیں، ایک چھت پر ایک
معمر شخص غسل آفتا بی(sunbathing) کر رہا تھا۔اسی طرح ایک چھت پر مرد و
خواتین مالٹے کھارہے تھے، ایک چھت ایک بابا جی حقے کے کش بھر رہے تھے،ایک
چھت پر بچے اور بچیاں اپنا اسکول کا کام رہے تھے۔ ایک چھت پر ایک خاتون
اپنے گملوں کو پانی دے رہی تھی۔ یہ تو رہائشی علاقوں کی چھتیں تھی۔
البتہ کمرشل اور تجارتی عمارتوں کی چھتیں کاٹھ کبار سے لدھی ہوئی تھیں۔
پرانے اور بوسیدہ حال فرنیچر کا چھت پر انبار لگا ہوا تھا۔ کچھ عمارتوں پر
بچی کچھی اینٹوں کے ڈھیر پڑے ہوئے تھے، یہ مناظر لاہور کی ایک بہت گندی
تصویر پیش کر رہے تھے ۔ البتہ کچھ خوبصورت مناظر بھی نظر آئے۔ جیسےاسکیم
موڑ اور کھاڑک نالے کی دو رویہ سڑکیں اور ان کے درمیان میں لگائے گئے درخت،
سڑک کے حسن کو دوبالا کر رہے تھے۔ دیگر خوبصورت مناظر میں منصورہ کی مسجد
اور اس کا اونچا مینار نظر آئے،جس پر خوبصورت نقش ونگار بنے ہوئے تھےاور
مسجد کی دیوار پر خوبصورت اندازمیں قرآنی آیات کی خطاطی دور سے نظر آرہی
تھی۔ کچھ تاریخی عمارتیں بھی دکھائی دیں ۔ان تاریخی عمارتوں کو طائرانہ نظر
سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ان عمارتوں میں لکشمی چوک ، چوبرجی شامل ہیں
۔ کچھ ایسی فیکٹریاں بھی دیکھیں جو سڑک پر چلتے ہوئے کبھی نہیں دکھیں۔
ریلوے اسٹیشن اور اس پرریل گاڑیوں کی آمد و رفت بھی اوپر سے دیکھیں۔ ریلوے
اسٹیشن کا لنڈا بازار بارش کے باوجو د لوگوں سے بھر ہوا تھا۔ اوپر سے بہت
ساری چھتریاں اٹھائے ہوئے خریدار نظر آرہے تھے۔
کچھ مقامات پر جب ٹرین مڑتی تو ٹرین اندر سے بھی خم کھاتی تھی۔ ایسا محسوس
ہوتا تھا کہ ہم کسی بہت بڑے اژدھے کے پیٹ میں ہے اور وہ بل کھاتے ہوئے
جارہا ہے۔ٹرین میں ہر اسٹیشن کی آمد پر اعلان ہوتا تھا اور جب ٹرین روانہ
ہوتی تھی تو دوبارہ انگریزی اور اردو زبان میں ریکارڈ شدہ اعلان ہوتا ہے۔
اس اعلان کی آواز کافی تیز تھی۔ ہم نے بیس اسٹیشنوں کا سفر کیا اور بیس
مرتبہ یہ اعلانات سُن سُن کر کان پک گئے تھے۔جاپان اور ملائیشیا کی ٹرینوں
بھی اعلانات ہوتے تھے لیکن وہ بہت معقول آواز میں تھے۔ لیکن اورینج لائین
میں ان اعلانات کی آواز بہت ناگوار گزری۔ یہ اعلانات اسٹیشن کی آمد پر ہوتے
تھے اور جب ٹرین روانہ ہونے لگتی تو اس وقت بھی ہوتے تھے۔
اس ٹرین کی 5 ویگن یا بوگیاں ہیں جو ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں ۔ ایک ویگن
سے چل کر، ٹرین میں سوار ہونے کے بعد، دوسری ویگن تک جا یا جاسکتا ہے۔ہر
ویگن میں 200 مسافروں کے سوار ہونے کی گنجائیش رکھی گئی ہے۔ 20 فی صد مسافر
وں کے لیے بیٹھنے کے لیے نشستیں ہیں ، جبکہ 80 فی صد مسافر ایک مربع میٹر
کے فاصلے سے کھڑے ہوسکتے ہیں ۔ لیکن اژدحام کے اوقات میں اس گنجائش سےتجاوز
کرتے ہوئے مسافر بہت قریب قریب کھڑے ہوجاتے ہیں۔ فی الحال 27 ٹرینیں 26
اسٹیشنوں کے مابین چلتی ہیں ۔ 2025 تک ان ٹرینوں کی تعداد بڑھا کر 54
ٹرینوں تک کر دیا جائے گا۔
اس کے دو اسٹیشن (انار کلی اور جی پی او اسٹیشن ) زیر زمین ہیں جبکہ 24
اسٹیشن بالائے زمین (elevated) ہیں۔ سب سے مصروف اسٹینشن انار کلی کا
اسٹیشن ہے۔ توقع ہے کہ لکشمی چوک کا اسٹیشن دوسرا مصروف ترین اسٹیشن بن
جائے گا۔ انارکلی کے اسٹیشن کی دیواروں پر مغلیہ طرز کے نقش و نگار
(ornaments)بنائے گئے ہیں۔جب زیر زمیں اسٹیشن آنے لگتا ہے تو ٹرین کا سطح
زمین سے تیزی زیرِ زمین جانے کا منظر بہت خوبصورت ہوتا ہے۔ لیکن زیرزمین
ٹیوب لائٹو ں کا انتظام کیا گیا ہے۔ جاپان اور ملائیشیا میں زیر زمین ٹریک
کے ساتھ دیواروں پر رنگ برنگے اشتہارات کے بورڈز نظر آتے تھے۔
یہ ٹرین بجلی سے چلتی ہے جسے 750 وولٹ کرنٹ پٹری ذریعے سے دی جاتی ہے۔ ٹرین
کی دو پٹریاں متوازی ہوتی ہیں اور تیسری پٹری ،دائیں طرف کی پٹر ی کے ساتھ
بجلی مہیا کرنے کے لیے لگائی جاتی ہے۔ اورنج لائن ٹرین کو چلانے کے لیے اور
اس کے 26 اسٹیشنوں فنکشنل رکھنے کے لیے 20 میگا واٹ بجلی درکار ہوتی ہے۔ اس
غرض کے لیے لیسکو (Lahore Electric Supply Company) نے 80 میگا واٹ بجلی
مہیا کرنے کا انتظام کیا ہے۔
پاکستان کی نوریکو (Norinco) اور چائنہ ریلوے (China Railways) کے درمیان 5
سال کا معاہدہ طے پایا گیا ہے۔ 5 سال تک یہ پراجیکٹ چین اور پاکستان مل کر
چلائیں گے۔ اس ٹرین کے انتظام و انصرام (Operation and Maintenance) کے
نظام کو چلانے کے لیے Punjab provincial transport authority اور تین
کمپنیوں کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط کیے گئے ہیں۔یہ تین کمپنیاں نورنکو
انٹرنیشنل (Norinco International)، گونزو میٹرو(Guangzhou Metro) اور ڈیوو
ایکسپرس (Daewoo Express)ہیں۔ یہ ڈھائی سو ارب روپے کا پراجیکٹ ہے ، جس میں
سے 47 ارب روپے وفاقی حکومت نے دیے ہیں جبکہ بقیہ رقم چین سے قرض حاصل کیا
گیا ہے۔ پنجاب حکومت یہ قرض 20 سال کے دوران میں اقساط میں ادا کرے گی۔
ہمارا سفر 20 یہ کلومیٹر سے زائد کا تھا جو محض 11 منٹ میں مکمل ہوگیا۔ اگر
ہم یہی سفر سڑک کے ذریعے کرتے تو 40 منٹ سے زائد وقت لگتا ہے اور اگرسڑکوں
پر اژدحام ہو ہو تو ایک گھنٹہ کہیں نہیں گیا۔ اگر آپ نے اورنج لائن کا سفر
ابھی تک نہیں کیا تو جلد یہ سفر کریں اور لطف اندوز ہوں۔
|