اتحاد ائیر لائین کی پرواز EY 242ساڑھے تین گھنٹے بعد
ابوظبی کے ائیر پورٹ پر اتر گیا۔جہاز ابھی مکمل طورپر رُکا نہیں تھا کہ
مسافروں میں بے صبری کی لہر دوڑ گئی ۔ مسافر اپنی نشستوں سے کھڑے ہوگئے اور
اپنا سامان بالائی خانوں (cabin baggage compartment) سے اتارنے لگے
حالانکہ انہیں اس حرکت سے منع بھی کیا گیا تھا ۔ کیونکہ اکثریت پاکستانیوں
کی تھی اور موجودہ دور کے پاکستانی قواعد و ضوابط کو توڑنے میں لذت محسوس
کرتے ہیں۔ لیکن جہاز کے دروازے تقریبا دس منٹ بعد کھلے ۔میں اپنی سیٹ پر
بیٹھا باہر ہوئی اڈے کا مشاہدہ کرتا رہا۔
ابو ظبی میں صبح کے سات بج رہے تھے اور پاکستان میں صبح کے آٹھ بج رہے
تھے۔میری اگلی فلائیٹ 15 گھنٹے بعد ابوظبی سے ٹوکیو (جاپان)کے لیے تھی۔موسم
گرم تھا۔ کیونکہ مئی کا مہینہ شروع ہو چکا تھا۔ اس مرتبہ جہاز سے ائیر پورٹ
کی عمارت میں منتقل ہونے کے لیے پتلا سا گلی نما Jet bridge منسلک نہیں کیا
گیا۔ بلکہ مسافروں کے لیےسیڑھی لگائی گئی اور مسافر وں کو ائیرپورٹ کی بسوں
میں سوار کیا گیا۔ یہ بسیں عام بسیں نہیں ہوتی ہیں۔ ان بسوں کو airside
transfer bus یا apron bus کہتے ہیں۔ apron سے مراد وہ جگہ ہے جہاں جہاز
لینڈ کرنے کے بعد پارک کیا جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے ان بسوں کو ایپرن بس
کہتے ہیں۔یہ بسیں عموما اُن ائیرپورٹس پر استعمال کی جاتی ہیں جہاں
ائیرپورٹ کی عمارت (terminal) اور جہاز کے درمیان فاصلہ بہت زیادہ ہو۔ 2011
میں، سوڈان جاتے ہوئے جب میں نے قطر کے ائیرپورٹ پر ایپرن بس میں سفر کیا
تو ایسا محسوس ہوا کہ میں جہاز ہی سوار ہوں۔ اس کی چال جہاز سے بہت مشابہ
ہوتی ہے۔ یہ بس زمین کو چھوتی ہوئی چلتی ہے۔ خاص بات یہ کہ بس کے چلنے کی
آواز بالکل سنائی نہیں دیتی اور نہی بس کا ڈرائیور دکھائی دیتا ہے۔ ڈرائیور
کے کیبن اور مسافروں کے درمیان ایک پردہ حائل ہوتا ہے۔ جرمنی کی کوبس
انڈسٹریز (Cobus industries) نامی ایک کمپنی Cobus 3000 ماڈل کی بسیں بناتی
ہے۔
اگرچہ ابوظبی کی ائیر پورٹ کی عمارت قریب تھی ۔ لیکن بس کافی ہیر پھر کھاکر
ائیر پورٹ کی عمارت تک پہنچی۔ اس بس میں صرف 14 سیٹیں ہوتی ہیں اور 110 یا
77یا 51مسافروں کو جہاز سے ٹرمنل تک لیجانے کی گنجائش ہوتی ہے۔ زیادہ مسافر
لٹکے ہوئے کنڈوں (standing Pax) کو پکڑ کر کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ محدود نشستیں
بچے ، خواتین یا بزرگ مسافروں کے لیے مختص ہوتی ہیں۔اس بس میں جھٹکے بالکل
محسوس نہیں ہوتے ۔ ان بسوں کی باڈی ایلومینیم کی بنی ہوئی ہوتی ہے، ان کی
عمر 25 سال ہوتی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ زمین سے اس بس کی اونچائی (pneumatic
”kneeling system”) ہر عمر کے مسافر کو سامنے رکھ کر رکھی گئی ہے۔
ابو ظبی ائیرپورٹ کی سیکیوٹی چیکنگ
الغرض اس آرام دہ بس نے مسافروں کو ٹرمنل پر اتاردیا۔ ہم اکیلے نہیں تھے ،
جہاں تو ایک حجوم تھا۔ دنیا کی مختلف ممالک کے مسافر یہاں قطاروں میں کھڑے
تھے۔ یہ قطار سیدھی نہیں تھی بلکہ سانپ کی طرح بل کھاتی ہوئی آگے بڑھ رہی
تھی۔سیکورٹی کاؤنٹر سامنے نظر آرہا تھا۔ اماراتی سیکورٹی کے عرب 'لونڈے' ہر
مسافر کے جوتے ، بیلٹ اور جیکٹ اتراوا رتھے۔ دستی سامان بھی اسکین مشین سے
گزارا جارہا تھا۔ اس عمل میں وہ خواتین کو بھی نہیں بخش رہے ۔ ایک دوشیزہ
جو غالبا کسی یورپی ملک سے تھی ، اسے تو تین مرتبہ اسکینر سے گزارا گیا۔
لباس کے لحاظ وہ خاصی فقیرن تھی، اس کا سب کچھ ظاہر ہورہا تھا، پھر بھی اس
کو باربار اسکینر سے گزارا جارہا تھا۔ پہلی مرتبہ جب وہ مشین سے گزری تو
مشین بول پڑی ، اسے اپنے جوتے اتارنے کو کہا گیا۔ وہ جوتے اتارتے ہوئے گرتے
گرتے بچی ۔اس دوران اس کا انگ انگ عیا ں ہورہا تھا۔وہ دوبارہ مشین سے گزری
اور ظالم مشین پھر بول اٹھی ، اسے اپنا گلے کا ہار اتارنے کو کہا گیا۔
تیسری مرتبہ جب وہ مشین سے گزری تو مشین نے ایک مرتبہ پھر چوں چوں شروع
کردیا۔ اس نے جانگیے پر بیلٹ پہنی ہوئی تھی ،وہ اتروائی گئی۔ بالآخر ان
سیکورٹی لونڈوں سے اُس فقیر اللباس یورپی دوشیزہ کی جان خلاصی ہوئی۔
یہ منظر دیکھ کر میرے دل نے کہا :' خیال یہاں تو پاکستان سے بھی زیادہ سختی
سے چیکنگ ہورہی تھی۔' پاکستان میں خواتین کی چیکنگ کے لیے الگ پردہ دارجگہ
بنی ہوتی ہے۔ یہاں تو عرب لونڈے یہ چیکنگ بلا تفریق مرد و زن کر رہے تھے۔
ان ظالموں کے پاس سے مجھے بھی گزرنا پڑا۔ میری بیلٹ اتراوائی گئی۔ میں نے
شرافت سے اتار تو دی لیکن پتلون ڈھیلی ہونے لگی۔ ڈر لگ رہا تھا کہ یہ عرب
سیکورٹی والے لونڈے میرے ساتھ بھی وہی حشر نہ کریں جو اس فقیر اللباس
دوشیزہ کے ساتھ تھوڑی دیر پہلے کر چکے تھے۔ جیسے ہی بیلٹ اتر جاتی ہے تو
شرٹ بھی ڈھیلی ہوکر باہر آجاتی ہے۔ ان خبیث لونڈوں نے ہر مرد کو خواتین کے
سامنے اپنے ڈھیلے ہوتے ستر کو درست کرنے پر مجبور کردیا۔ جو کام بیت الخلاء
میں کیا جانا چاہیے تھا وہ اب خواتین کے سامنے کر رہے تھے۔
اس آزمائش سے گزرنے کے بعد میں ٹرانسفر کے کاؤنٹر پر ائیر پورٹ ہوٹل کی
سہولت لینے کے لیے پہنچ گیا۔
ائیر پورٹ ہوٹل
ابوظبی ائیرپورٹ پر سیکیورٹی چیکنگ کے بعد اب میں اتحاد ائیرویز کے فلائٹ
ٹرانسفر کاؤنٹر کی طرف بڑھا۔ میرے ٹریویل ایجنٹ نے مطلع کیا تھا کہ میرے
لیے ائیر پورٹ کے ہوٹل میں ایک کمرہ بک کروادیا گیا ہے۔ مجھے کاؤنٹر پر صرف
اپنا بورڈنگ پاس دکھانے پر ائیرپورٹ کے ہوٹل میں کمرہ دے دیا جائے گا۔ میرا
ابوظبی ائیر پورٹ پر 14 گھنٹے کا پڑاؤ تھا۔ صبح سات بجے یہاں پہنچا اور رات
9 بجے ٹوکیو کے لیے روانگی تھی۔میں نے اس سے پہلے کبھی Transit میں اتنا
لمبا نہ قیام کیا تھا نہ کبھی ہوٹل کی سروس لی تھی۔ البتہ 2014 میں دبئی کے
ائیرپورٹ پر مدینہ منورہ سے آتے ہوئے، میں نے آٹھ گھنٹے قیام کیا تھا، اس
وقت مجھے کھانے کے دو کوپن تو دیے گئے تھے ۔ لیکن ہوٹل نہیں دیا گیا تھا۔
میں نے انٹرنیٹ پر ائیرپورٹ ہوٹل کی تصاویر دیکھ رکھی تھیں ۔ میرے تخیل نے
جو نقشہ اس ہوٹل کا کھینچا تھا وہ کچھ یوں تھا کہ کسی کار یا ٹیکسی میں
مجھے ائیرپورٹ کے ہوٹل میں لیجایا جائے گا۔ اور جب میری ٹوکیو کی پرواز کا
وقت ہوگا تو میرے کمرے میں مجھے شاہانہ انداز سے اطلاع دی جائے گی کہ" آپ
کی فلائیٹ کا وقت ہوگیا ہے اور گاڑی آپ کو ائیرپورٹ لیجانے کے لیے تیار
کھڑی ہے۔" لیکن یہا ں اس طرح کے کسی تکلف آثار نظرنہیں آرہے تھے۔ مجھے
بتایا گیا کہ" آپ کا ہوٹل ائیر پورٹ کی بلڈنگ کے اندر ہے۔ آپ سامنے کرسی پر
تشریف رکھیں ، ہم جلد آپ کو اپنے کے ہوٹل میں لے جائیں گے۔"میرے ساتھ دوسرے
مسافر بھی انتظار کر رہے تھے جن کو اس انڈین نسل کے اتحادائیر ویز کے افسر
نے انتظار گاہ میں بٹھارکھا تھا ۔ میں خوش قسمت نکلا مجھے پانچ منٹ بعد اس
انڈین افسر نے کاؤنٹر پر بلایا۔ اس نے مجھے تین کوپن دیے ، ایک میری رہائش
کا کوپن تھا ، اوردو کوپن میرے ناشتے ، دوپہر کے کھانے کے تھے۔ رات کے
کھانے کے بارے میں جب میں استفسار کیا تو اس انڈین افسر نے کہا کہ" آپ کی
فلائٹ رات 9 بجے ہے اس لیے رات کا کھانا آپ کو جہاز میں دیا جائے گا۔"اب
اتحاد ائیرلائن کا ایک گائیڈ مجھے میرے ہوٹل کی طرف لے جانے کے لیے ہمراہ
کیا گیا۔ وہ خاصا خوش مزاج تھا۔ وہ جنوبی انڈیا کی کیرلا کی ریاست سے تھا۔
اس لیے اردو نہیں بول سکتا تھا۔ اس کے ساتھ انگریزی ہی میں گفتگو ہوتی
رہی۔راستہ کافی گھماؤ پھیراؤ والا تھا۔ وہ مجھے پیدل ہی میرے ہوٹل تک لیکر
آیا۔ میرا ہوٹل ٹرمنل کے3 arrival lounge میں تھا۔ میرا گائیڈ مجھے اس
سیکورٹی چیک پوسٹ کے پاس سے لیکر گزرا جہاں اُس فقیراللباس یورپی دوشیرزہ
کو ا ابوظبی ائیرپورٹ کے سیکورٹی کے لونڈوں نے نشان عبرت بنا یا تھا۔ میری
آنکھوں کے سامنے وہ منظر دوبارہ آگیا۔ میرا گائڈ مجھے ہوٹل کے استقبالیہ کے
کاؤنٹر پر فلپین سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون افسر کے حوالے کر کے چلتا
بنا۔ اس خاتون نے بڑی خوش مزاجی سے رہائش کا کوپن مجھ سے لیکر مجھے میرے
کمرے کی چاپی اورفری انٹرنیٹ کا وافائی دیا۔ مجھے کمرہ نمبر 306 دیا گیا۔
یہ چابی بھی بہت مختلف انداز کی تھی جس کی نقل تیار کرنا ایک عام لاک میکر
کا کام نہیں تھا۔جیسے ہی میر ا گائیڈ مجھے یہا ں چھوڑ کر گیا ۔ مجھے کچھ
دال میں کالا محسوس ہونے لگا۔ میں تو اپنے آپ کو ائیرپورٹ کے arrival
lounge میں ہی کھڑا محسوس کر رہا ہے۔ کوئی ہوٹل کی لابی یا ہوٹل کے آثار
نظر نہیں آرہے تھے ، ہوٹل کے کاؤنٹر کے سامنے ایک لمبی گلی (corridor) تھی
جہاں سے departure lounge کو راستہ جاتا تھا۔ ہوٹل کے کاؤنٹر بائیں جانب
اسی طرح کی ایک لمبی گلی (corridor) امیگریشن کاؤنٹر کی طرف جاتی تھی۔
البتہ کاؤنٹر کے بغل میں قلیجی رنگ کے شیسے کا ایک دروازہ تھا اور اندر
تقریبا دس فٹ لمبی ایک گلی تھی یہ گلی 4 فٹ چوڑی تھی ۔ اس کے دونوں اطراف
تین قلیچی رنگ کے دروازے تھا ۔ دروازہ عام دروازوں سے خاصی بھاری اور مضبوط
دکھائی دے رہا تھا۔ ہر دروازے پر ابھرے ہوئے دھاتی اعداد میں ایک نمبر کندا
کیا گیا تھا۔ اس گلی کے دروازے پر جلی حروف میںRESHFRESHHH by AEROTEL کندا
تھا۔
کھودا پہاڑ نکلا چوہے کے مترادف جب میں نے 306 نمبر کمرے کا دروازہ کھولا۔
وہ تو انگریزی فلموں کے جیل کے کیبن سے مشابہ تھا۔ البتہ اس سے قدرے آرام
دہ تھا۔ مجھے ڈبل روم دیاگیا۔ جس میں ایک بستر نیچے اور ایک بستر اوپر تھا۔
اوپر والے بستر کے لیےلوہے کی ایک سیڑھی لگی تھی۔ اچھی بات یہ تھی کہ میرے
ساتھ اس کمرے میں کوئی اور مسافر نہیں ٹھہرایا گیا۔ گویا میں ہی اکیلا قیدی
تھا اس کمرے میں ! اس کمرے کا حجم تقریبا 6ضرب 8 مربع فٹ تھا۔ اس ہوٹل میں
اس طرح کے 12 کمرے تھے۔ 6 کمرے استقبالیہ کے دائیں جانب اور چھ کمرے اس کے
بائیں جانب تھے۔ میرا کمرہ بائیں جانب والی گلی میں تھا۔ اس کمرے میں مجھے
مفت وائی فائی ، ائیرکنڈشنگ، صاف ستھری دو لحافیں، پانی کی دو بوتلیں دی
گئی تھی۔ کمرے کی روشنیاں کم اور زیادہ کی جاسکتی تھیں۔ البتہ خاصہ ٹھنڈ کر
رہا تھا۔ اس کو میں نے استقبالیہ سے درخواست کر کے کم کروایا۔ اے سی کا
کنٹرول کمرے میں نہیں تھا۔ باتھ روم کمرے سے باہر 20 قدم کے فاصلے پر تھا۔
یہ کیونکہ مسافروں کی گزر گاہ نہیں تھی اس لیے کافی پرسکون جگہ تھی ۔ زیادہ
تر فلائیٹ رات کو آتی ہیں۔کمرہ پرسکون جگہ پر واقع تھا، کوئی شور نہیں تھا۔
|