گجرات :مہنگائی اور بیروزگاری کی ڈبل انجن سرکار

گجرات کی انتخابی مہم کا بگل خود وزیر اعظم نے زلزلہ زدہ بھج میں جاکر بجادیا ۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ گجرات کے فسادات وزیر اعظم نریندر مودی کی سیاسی زندگی کا سب سے اہم موڑ ہے لیکن اس سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل بھج کا زلزلہ ہے۔ اس وقت بی جے پی کے کیشو بھائی پٹیل گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے اور انہوں نے نریندر مودی کا دیس نکالا کررکھا تھا ۔ مودی دہلی سےلے کر امریکہ تک کی خاک چھانتے تھے لیکن گجرات کے اندر ان کی دال نہیں گلتی تھی۔ اس زلزلہ کے بعد بازآباد کاری میں بری طرح ناکامی نے کیشو بھائی پٹیل کی ہوا اکھاڑ دی اور مودی جی کی قسمت کھل گئی۔ زلزلے کے بعد ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں بی جے پی کی شکست اور کانگریس کی کامیابی نے بی جے پی کے اندر زلزلہ برپا کردیا۔ اس کے نتیجے میں کیشو بھائی پٹیل کو ہٹا کر نریندر مودی پر داوں لگانے کا فیصلہ کیا گیا ۔ مودی نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد فسادیوں کو کھلی چھوٹ دے کر انتخاب جیت لیا ۔ بھج زلزلہ کے سبب کیشو بھائی کو ہٹاکر اگر مودی کو وزیر اعلیٰ نہیں بنایا جاتا تو انہیں سابرمتی ایکسپریس کی آگ کو ریاست بھر میں پھیلا کر اپنے قدم جمانے کا موقع ہی نہیں ملتا ۔ اس لیے یہ سانحہ مودی کی سیاسی زندگی میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے ۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے اس بار انتخابی مہم کا آغاز کرتے ہوئے اسی علاقہ میں کہا کہ 2001 کے گجرات زلزلے کے بعد کچھ لوگوں نے بھُج کو مکمل طور پر ختم سمجھ لیاتھا اور یہ کہا تھا کہ اب اس کا کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہ بات خودمودی کے بارے میں بھی درست ہے کیونکہ اس وقت بہت سارے لوگ یہ سوچنے لگے تھے کہ ان کی سیاسی زندگی اختتام پذیر ہوچکی ہے اور اب کچھ نہیں ہوسکتا ہے۔ اپنے خطاب میں آگے مودی جی نے کہا ایسے شبہ کرنے والوں کو بھج ُکے جوش و خروش کا اندازہ نہیں تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتےوہ کھڑاہوگیا اورآج ملک کے سب سے تیزی سے ترقی کرنے والے اضلاع میں سےشامل ہے۔ مودی کے ساتھ یہی ہوا لوگ ان کے جوش و خروش کا اندازہ نہیں لگا سکے نیز جیسے ہی انہیں موقع ملا تیزی سے ترقی کرتے ہوئے وہ وزیر اعظم بن گئے ۔ مودی بھُج کو زمین پر گرکر اٹھنے کی ایک شاندار کہانی بتاتے ہیں اور یہ بات خود ان پر بھی صادق آتی ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی کے مطابق اس کامیابی کے پیچھے کچھّ ضلع کے لوگوں کا جوش اور دو دہائیوں کی انتھک محنت ہےمگر مودی کی کامیابی کے پیچھے محنت کے ساتھ عیاری و مکاری کا بھی اہم کردار ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جو شخص پانچ سال کے اندر ملک کو ترقی یافتہ بنانے کاوعدہ کرکے آیا تھا وہ آٹھ سال بعد مزید پچیس سال مانگ رہا ہے اور ڈھٹائی کے ساتھ کہتا ہے ہندوستان 2047ء میں ترقی یافتہ ملک ہوگا۔ انسان جو مرضی میں آئے کہنے کے لیے آزاد ہے مگر اس پر تالی بجانے کی مجبوری تو عوام پر نہیں ہے ۔ بھلا ہو اندھے مقلد ین کا جن کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہے۔ وہ تالیوں کی گڑگڑاہٹ سن کر بغیر کچھ سوچے سمجھے اتباع کرنے لگتے ہیں ۔ یہی مودی کی مسلسل انتخابی کامیابی کا راز ہے۔ وزیر اعظم نے فرمایا 2001ء کے خوفناک زلزلہ کی تباہی کے بعد انہوں نے ضلع کو ترقی دینے کا وعدہ کیا تھا اور 2022ء میں وہ ہو چکا ہے۔ اب 2047ء تک وہ ہندوستان کو ترقی یافتہ ملک بنانے کا وعدہ کررہے ہیں ۔ مودی جی بھول گئے کہ اس وقت ان کی عمر 97؍سال ہوگی ۔ کیا وہ اس کبر سنی تک اقتدار پر فائز رہ کر ملک کو ترقی یافتہ بنائیں گے؟ وزیر اعظم نے اس موقع پر 470؍ ایکڑ رقبہ پر محیط ایک یادگاری میوزیم کا افتتاح کیا جس پر زلزلہ میں ہلاک ہونے والے تقریبا 13,000 افراد کے نام درج ہیں ۔ انسان کا معاملہ بھی عجیب ہے کہ وہ اپنے سے قبل مرنے والوں کو تو یاد کرتا ہے مگر اپنی موت کو بھول جاتا ہے۔

ریاستی انتخاب نے وزیر اعظم نریندر مودی کو زلزلے کی یاد دلائی ورنہ تو وہ اسے بھول ہی گئے تھے ۔ اس افتتاح سے قبل وزیراعظم نے 5 ہزار کروڑ کے نئے پراجکٹس کا سنگ بنیاد رکھا اور بعد میں روڈ شو کیا ۔ اس طرح آگے پیچھے انتخاب اور درمیان میں زلزلے کے سبب مرنے والوں کی یاد۔ اسے لاشوں کی سیاست کہتے ہیں۔ وہ لاشیں کبھی زلزلے میں مرنے والوں کی ہوتی ہیں تو کبھی فساد میں ہلاک ہونے والوں کی مگر سیاست تو سیاست ہی ہوتی ہے۔مودی جی نے بھُج کے اندر کھادی کی صنعت میں ۸گنا اضافہ کا دعویٰ کیا اگر ایسا ہے تو ترنگا بنانے کی خاطر چین اور امبانی سے پولیسٹر خریدنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ وزیراعظم نےوہاں سے لوٹ کر گاندھی نگر میں سوزوکی کے 40 سالہ تکمیل کی تقریب سے خطاب کیا ۔ اتفاق سے اس وقت گجرات میں بی جے پی کی سرکار نہیں تھی ورنہ اس کا سہرا بھی وہ اپنے سر پر باندھ لیتے۔

مودی نے دعویٰ کیا بھُج زلزلے کےوقت وہ وزیر اعلیٰ نہیں تھے پھر بھی ایک عام کارکن کی حیثیت سے دوسرے ہی دن بھج پہنچ گئے تھے۔ انہیں نہیں معلوم تھا کہ وہ کیسے اور کتنے لوگوں کی مدد کر سکیں گے لیکن انہوں نے لوگوں کے درمیان رہنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ بعید نہیں کہ اس کی تصدیق کے دوران واڈ نگر اسٹیشن کی چائے یاد آجائے جس کا وجود مشکوک ہے ۔ اس تقریب کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے پانچ سال پرانا راگ الاپتے ہوئے کہا کہ ملک اور دنیا میں گجرات کو بدنام کرنے اور ریاست میں سرمایہ کاری روکنے کی پے در پے سازشیں رچی گئیں حالانکہ گجرات کسی سازش کے تحت بدنام نہیں ہوا بلکہ ان کی نااہلی کے سبب فسادات کے پھیلنے کی وجہ سے دنیا بھر میں وہ تنقید کا نشانہ بنا ۔ بلقیس بانو کے مجرمین کو رہا کرکے ان کی سرکار نے گجرات کے نام پر پھر سے بٹاّ لگادیا ہے۔ اس سے قبل 2017میں تو مودی نے بی جے پی کے خلاف منموہن سنگھ پرپاکستان سے مل کر سازش کرنے کا سنگین الزام بھی لگادیا تھا جو انتخاب کے بعد اوندھے منہ گرگیا۔

اپنی اس طرح کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی خاطر بی جے پی کو انتخاب سے قبل ہندو مسلم کارڈ کھیلنا پڑتا ہے اور پچیس سال تک حکومت کرنے کے باوجود انتخاب جیتنے کی خاطر بلقیس بانو کے مجرمین کو رہا کرنے کی شرمناک حرکت کرنی پڑتی ہے۔ گجرات دراصل مودی اور شاہ کی جنم بھومی ہے۔ اس ریاست میں ساڑھے بارہ سال نریندر مودی وزیر اعلیٰ رہے اور اس دوران انہوں نے کسی اور کو ابھرنے ہی نہیں دیا ۔ اس لیے جب وہ وزیر اعظم بن کر دہلی گئے تو ایک غیر معروف رہنما آنندی بین پٹیل کو وزیر اعلیٰ بنانا پڑا۔ اس کے بعد امیت شاہ اور آنندی بین کے درمیان ایک سرد جنگ چھڑ گئی ۔ امیت شاہ اس وقت پارٹی کے صدر تھے مگر آنندی بین ان کو کوئی اہمیت نہیں دیتی تھیں۔ اس مہابھارت کا یہ نتیجہ نکلا کہ دو سال اور ڈھائی ماہ کے بعد آنندی بین کی چھٹی کردی گئی اور امیت شاہ اپنی برادری کے وجئے روپانی کو وزیر اعلیٰ بنانے میں کامیاب ہوگئے ۔ پچھلے الیکشن میں وہ ایک سو پچپن کا ہدف لے کر میدان میں اترے تھے مگر سو تک پہنچنے میں مودی سمیت شاہ کو پسینہ چھوٹ گیا۔ وجئے روپانی نہایت نااہل وزیر اعلیٰ تھے اس کے باوجود پچھلے سال تک انہیں کھینچا گیا ۔ ان کی قیادت میں اگلا الیکشن جیتنا ممکن نہیں ہے اس لیے ایک ایسے ناتجربہ کار بھوپندر پٹیل کو ان کی جگہ لگایا گیا جو پہلی بار رکن اسمبلی بناتھا ۔ بھوپندر پٹیل اپنے پیش رو سے بھی زیادہ نااہل نکلے ۔ اگلے الیکشن میں اس کی کا میابی مشکل ہے اس لیے اب صرف گودھرا کا سہارا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلقیس بانو پر مظالم ڈھانے والوں کو رہا کرکے عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بعید نہیں بی جے پی ان بدمعاشوں کو ٹکٹ دے یا ان کاچہرا دکھا کر ووٹ مانگے۔ اقتدار کے حصول کی خاطر یہ لوگ تو کسی بھی سطح تک گر سکتے ہیں لیکن عوام کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ خود کیا کرتے ہیں ؟
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2075 Articles with 1279279 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.