کیا گجرات میں جھاڑو کمل کا سپڑا صاف کرسکتا ہے؟

گجرات میں امسال نومبر کے اندر ریاستی انتخاب ہوگا۔ بی جے پی نے اپنے حق میں ہوا سازی کے لیے حال میں ایک سروے کروایا ۔ اس میں خود گودی میڈیا نے کچھ ایسے انکشافات کردیئے کہ جو اس کے خلاف تھے اس لیے اسے گوگل سے غائب کر دیا گیا ۔ اس کی تفصیل ای ٹی جی ریسرچ نامی سروے کرنے والوں کی ویب سائٹ پر بھی مضمون کی شکل میں موجود نہیں ہے ہاں ٹائمز ناو کی کچھ ویڈیوز کو ہنوز ہٹایا نہیں گیاہے، بعید نہیں کہ بہت جلد وہاں سے بھی اسے غائب کردیا جائے۔ اس جائزے کے مطابق اگر آج انتخاب ہوجائیں تو بی جے پی کو 115-125نشستوں پر کامیابی مل سکتی ہے۔

کانگریس 39-44 کے درمیان سمٹ جائے گی اور عآپ کو 13-18 سیٹیں ملیں گی دیگر لوگ صرف 2-4 سیٹ جیت سکیں گے۔ یہ عجیب و غریب نتائج ہیں کیونکہ جب رائے دہندگان سے سوال کیا گیا کہ انتخاب میں سب سے اہم مدعا کیا ہے تو 49 فیصد لوگوں کے نزدیک وہ مہنگائی تھا ۔ اس میں کیا شک ہے کہ گجرات کی ڈبل انجن سرکار اس کے لیے ذمہ دار ہے۔سوال یہ ہے کیا لوگ ووٹ دیتے وقت اسے بھول جائیں گے؟ اس کے بعد دوسرے نمبر پر 26 فیصد لوگوں کے نزدیک بیروزگاری اہم ترین مدعاہے۔ ظاہر ہے اس عفریت کی بھی سیدھی ذمہ داری بی جے پی پر آتی ہے۔

بیروزگاری اور مہنگائی کی سب سے بری مار غریب ترین طبقات پر پڑتی ہے جن کی تعداد ملک میں اسیّ کروڈ ہے ۔انھیں کورونا وباء کے دوران مفت اناج دینے کی نوبت آگئی تھی ورنہ وہ بھکمری کا شکار ہوجاتے۔ہر ماہ پانچ کلو چاول اور ایک کلو چنا کھاکر انسان زندہ تو رہتا ہے مگر اس سے ماں اور بچے کے اندر تغذیہ کی کمی ہوجاتی ہے کیونکہ پروٹین اور وٹامن وغیرہ نہیں مل پاتا۔ وزیر اعظم اپنے ماہانہ ریڈیو پروگرام 'من کی بات' میں اس طرح کے موضوعات پر عام طور پر لب کشائی نہیں کرتے مگر بولتے بھی ہیں تو کچھ اس طرح کہ آسام کے بونگائی گاؤں میں غذائی قلت کے خلاف لڑائی کے لیے پروجیکٹ سمپورنا چلایا جا رہا ہے۔ اس کے تحت آنگن واڑی سنٹر کے ایک صحت مند بچے کی ماں، غذائی قلت کا شکار بچے کی ماں سے ہر ہفتے ملتی ہے اور غذائیت سے متعلق معلومات پر تبادلہ خیال کرتی ہے یعنی ایک ماں دوسری ماں کی دوست بن کر، اس کی مدد کرتی ہے، اسے سکھاتی ہے۔ اس اسکیم کی مدد سے اس خطہ میں ایک سال کے اندر 90 فیصد سے زائد بچوں سے غذائی قلت دورہوئی ہے۔ کیا یہ معاملہ اس قدر سہل ہے کہ محض زبانی جمع خرچ سے حل ہوجائے؟ لیکن وزیر اعظم کے پاس ہر مسئلہ کا حل بول بچن ہی ہے توہے ۔ اب بیچارے کریں تو کریں کیا اور بولیں تو بولیں کیا ؟

انقالاب فرانس یوروپ کی تاریخ کا وہ غیر معمولی واقعہ ہے جو ساری دنیا پر اثر انداز ہوا۔ اس نے فرانس کے ساتھ ساتھ دنیا کے کئی ممالک میں ملوکیت کا خاتمہ کردیا ۔ اس انقلاب کے پس پردہ بھی بھوک کی آگ کارفرما تھی۔ فرانس کی آخری ملکہ ”میری انطونیا “کے بابت مشہور ہے کہ وہ بھی وزیر اعظم مودی کی مانند اپنی پرتعیش زندگی کے سبب عوامی مسائل سے بالکل بے خبر ہوگئی تھیں۔ ایک بار فرانس کے کسان بادشاہ لوئی کے محل کے سامنے مظاہرہ کر رہے تھے جس طرح آج کل راہل گاندھی کی قیادت میں مہنگائی کے خلاف ملک گیر احتجاج ہورہا ہے اور حکومت کا ناطقہ بند ہونے لگا ہے ۔ ایسے میں ”میری انطونیا “ نے محافظوں سے احتجاج کی وجہ دریافت کی ۔ محافظوں نے ملکہ کو بتایا کہ لوگوں کے پاس کھانے کو روٹی نہیں ہے۔ اس پر ملکہ نے وہ تاریخی جملہ کہا جو تاریخ میں رقم ہوگیا۔ وہ بولیں اگر ان کے پاس روٹی نہیں تو ”انہیں کیک کھانے دو“۔ مودی جی اس سے بھی آگے نکل گئے انہوں فرمایا "آپ سوچ سکتے ہیں، غذائی قلت دورکرنے میں موسیقی اور بھجن کا استعمال کیا جا سکتا ہے؟ اور مدھیہ پردیش کے دتیا ضلع میں "میرا بچہ ابھیان" کی مثال دے کر وہ بولے اس کے تحت ضلع میں بھجن کیرتنوں کا انعقاد کرکے غذائی گرو ( اساتذہ) کو بلایا گیا۔ مودی جی کو پتہ ہونا چاہیے کہ بھوک کی آگ کو الفاظ کے کھیل سے نہیں بجھایا جاسکتا ہے۔ اس پر توجہ نہ دی جائے اقتدار کی چولیں ہل جاتی ہیں ۔ نظیر اکبر آبادی نے کیا خوب کہا ہے؎
روٹی نہ پیٹ میں ہو تو پھر کچھ جتن نہ ہو
میلے کی سیر خواہش باغ و چمن نہ ہو
بھوکے غریب دل کی خدا سے لگن نہ ہو

سچ ہے کہا کسی نے کہ بھوکے بھجن نہ ہو
مہنگائی کے خلاف کانگریس نے 4 ستمبر کو دہلی میں جس میگاریلی کا اہتمام کیا اس کو عوام کی زبردست حمایت حاصل ہوئی ہے ۔اب یہ پیغام راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا سے سارے ملک میں جائے گا ۔ دیکھنا یہ ہے گجرات کے رائے دہندگان اس سے کتنے متاثر ہوتے ہیں۔ مہنگائی اور بیروز گاری کے خلاف کانگریس کی ملک گیر مہم بی جے پی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ گجرات کی ترقی کا جو ڈھول پیٹا جاتا ہے وہ صرف 14؍فیصد لوگوں کے نزدیک اہم ہے اور ذات پات و مذہب کو محض 11فیصد لوگ اہمیت دیتے ہیں ۔ بی جے پی کے پسندیدہ موضوعات کو پچیس فیصد سے زیادہ لوگ اہمیت نہیں دیتے۔ اس کے باوجود 42 فیصد لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ ہندو مسلم منافرت کا مدعا انتخاب پر چھا جائے گا۔ سوال یہ ہے جس مدعا کو 11فیصد لوگ اہمیت کا حامل سمجھتے ہیں وہ 42 فیصد لوگوں کے نزدیک انتخاب پر کیونکر چھا جائے گا۔ یہ ذرائع ابلاغ کا کمال اور افواہوں کی سیاست جو رائے دہندگان کو باولا کردیتی ہے۔ گجرات کے 29فیصدووٹرس کو نہیں لگتا کہ فرقہ پرستی انتخابات پر حاوی ہوجائے گی اور 10 فیصد کے مطابق یہ ہوسکتا ہے۔ اس بابت 19 فیصد لوگ کچھ کہنے کی حالت میں نہیں ہیں۔ بلقیس بانو کا مدعا اچھال کر انتخاب جیتنے کا خواب دیکھنے والی بی جے پی کے لیے یہ اچھی خبر نہیں ہے۔

پچھلے پچیس سال سے گجرات میں بی جے پی کا راج ہے اس کے باوجود جب لوگوں سے پوچھا گیا کہ کیا اس نے اپنے وعدے پورے کیے تو 45 فیصد نے مثبت جواب دیا مگر منفی جواب دینے والے بھی 39 فیصد ہیں نیز 16 فیصد اس بابت کچھ کہنے کی حالت میں نہیں ہےیعنی گودی میڈیا کے جائزے میں بھی اکثریت نے وعدہ پورا کرنے کے حق میں رائے نہیں دی ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا نے کے بعد کانگریس کو ان کی ہمدرد بناکر پیش کیا ۔ اس کے سبب بی جے پی سے ناراض رائے دہندگان نے بھی کو ئی متبادل موجود نہ ہونے کے سبب حب علی میں نہیں بلکہ بغض معاویہ میں اس کو ووٹ دیا ۔ اب عوام کے سامنے عام آدمی پارٹی کی شکل میں ایک ہندو نواز متبادل موجود ہے۔ اس لیے بعید نہیں کہ لوہا لوہے کو کاٹے اور بی جے پی سے ناراض ہندوعام آدمی پارٹی کو ووٹ دے۔ گجرات میں فی الحال ایک تھوڑی بہت مسلم نواز کانگریس، ہندو نواز مگر مسلمانوں کی غیر مخالف عآپ اور مسلم مخالف بی جے پی زور آزمائی کررہے ہیں ۔ اس لیے ممکن ہے کانگریس اور عام آدمی پارٹی کی مخلوط حکومت گجرات میں بن جائے۔

وزیر اعظم کو فی الحال اروند کیجریوال کی مفت اسکیموں پر بڑا اعتراض ہے۔ وہ اسے ریوڈی کہہ کر ان کا مذاق اڑاتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ انتخاب سے قبل نت نئے پراجکٹس کا سنگ بنیاد رکھنا اور اول فول وعدے کرنا کیا ہے؟ مودی اور کیجریوال کی ریوڈی میں بنیادی فرق یہ ہے کہ مودی کے وعدے ہوا ہوا میں اڑنے والے رنگ برنگے غباروں کی سی ہوتی ایک ہوا میں ہوتی ہے جن کے پیچھے عام لوگ زندگی بھر بھاگتے رہتے ہیں مگر ہاتھ آتے ہی فوراً ہوا چھوڑ کر پچک جاتےہیں ۔ یہ غبارے ان سرمایہ داروں کو براہِ راست فائدہ پہونچاتے ہیں جن کو اس کے ٹھیکے ملتے ہیں ۔کیجریوال کی ریوڈیاں زمینی سطح پر عام لوگوں کو فائدہ پہنچاتی ہیں ۔جمہوریت کے علاوہ ملوکیت میں بھی بادشاہ اپنی مقبولیت میں اضافہ کی خاطر ریوڈیاں بانٹتے تھے ۔ علاؤالدین خلجی اپنے چچا جلال الدین خلجی کوٹھکانے لگا کر اقتدار پر فائز ہوا تو عام لوگوں میں قبول عام حاصل کرنے کے لیے اس نے ایک چھوٹی توپ بنوائی۔اس کا قیام جہاں بھی ہوتا تھا اس کے اطراف لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہو جاتا۔ انہیں خوش کرنے کی خاطر وہ اپنی توپ میں سکے بھر کر لوگوں کی جانب اچھال دیتا تھا ۔ لوگ ان سکوں پر ٹوٹ پڑتے اور اس طرح جلال الدین خلجی کو بھول کر علاؤالدین خلجی کے حامی ہو جاتے۔

مودی جی سکوّں کے بجائےسپنے اچھالتے ہیں اور غفلت کا شکار عوام ان کے پیچھے دوڑنے لگتے ہیں ۔ کیجریوال ریوڈیاں اچھالتے ہیں اور لوگ انہیں حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے پر گرنے پڑنے لگتے ہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ ملک کے عوام کب تک ان خیالی ریوڈیوں سے دل بہلاتے رہیں گے اور کبھی حقیقت کی دنیا میں قدم رنجا فرمائیں گے بھی یا نہیں؟ وزیر اعظم کے ذریعہ باقائدہ انتخابی مہم کا افتتاح تو ابھی ہوا ہے لیکن غیر رسمی آغاز امسال 12 مارچ کو ہوگیا تھا ۔اتر پردیش سمیت چار ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کے فوراً بعد مودی جی اپنی آبائی ریاست گجرات کے دورے پر پہنچ گئے اور دو روزمیں تین روڈ شو کرڈالے ۔اس وقت انہوں پچاس کلومیٹر کا فاصلہ سڑک پر طے کرکے انتخاب کی تیاری شروع کردی گئی یعنی یہ ناٹک بہت پہلے شروع ہوچکا ہے۔ گجرات کے لوگوں کو چاہیے کہ وہ ان سے کیے جانے والے پرانے اور اترپردیش والوں سے کیے جانے والے نئے وعدوں یاد کرکے اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں ۔ ورنہ پھر وہی 50؍سال پرانی قوالی سن کر دل کو بہلانا پڑے گا ؎
تیرا وعدے پہ وعدہ ہوتا گیا ، دل بیتاب زیادہ ہوتا گیا
جینے کی مہلت گھٹتی گئی ، مرنے کا تقاضہ ہوتا گیا




 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450082 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.