10 ستمبر 2022۔۔۔صبح 10:00 بجے آج کی صبح ذرا مختلف تھی۔
گھنگھور گھٹاؤں اور سرمئی بادلوں تلے گھن گرج کی طبلہ نوازیاں ۔۔۔۔۔ مغموم
دلوں کے لیے اداسیاں تو شاداں و فرحاں کے لیے سرور آگیں کیفیت کا پیام
۔۔۔۔۔ معمول کے کاموں کو لپیٹتے سمیٹتے، لشتم پشتم تیار ہوتے، گرتے پڑتے
کالج کی طرف روانگی نے؛ مانو کسی خیال کو اس دماغ کے قریب پھٹکنے تک نہ دیا
تھا جو ہر وقت خیالوں کی آماجگاہ بنا رہتا ہے ۔کالج پہنچنے پر دفتر شاہی سے
ایک تقریب میں شرکت کا حکم ملا ۔۔۔۔ چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی ۔۔۔۔۔
سو؛ایک جدید طرز کے ہنڈولے میں سوار ۔۔۔۔ ہوا کی مست خرامیوں کے سنگ بہتے
ہوئے جا پہنچے اس مقام پہ جہاں ایک ڈائیلسز سینٹر کے افتتاح کی تقریب کے
وقوع پذیر ہونے کے آثار بڑے واضح اور روشن تھے۔ سو ہم بھی وہاں موجود
معززین اور مہمانوں کی بھیڑ بھاڑ میں کھو گئے ۔
اب آسمان پہ چھائی بدلیوں سے اٹھکھیلیاں اور چہلیں کرتی ننھی ننھی بوندوں
نے بادل سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور زمین کا رخ کیا،مگر یہاں قیام کی بجائے
کچھ ہی دیر میں سرسراتی ہواؤں کے دوش پہ کسی اورہی سمت روانہ ہو گئیں ۔
ڈائیلسز سینٹر میں داخل ہوئے تودیکھا کہ ہیپاٹائٹس بی اور سی کے مریضوں میں
تخصیص اور احتیاط کے لیے عمارت میں (جنرل وارڈ اور آئسو لیشن وارڈ ) کے دو
الگ الگ یونٹ بنائے گئے تھے تاکہ جان لیوا بیماری کی منتقلی کو حتی الوسع
روکا جا سکے۔اب وہاں موجود لوگوں کو جدید مشینری اور آلات سے متعارف کرایا
گیا ۔ جو مخیر حضرات کے تعاون سے لائے گئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہترین ڈاکٹرز اور
ماہرین کی خدمات کے حصول کے ساتھ ساتھ 5 مشینوں کو کام میں لاتے ہوئے؛ مرض
کی شدت اور نوعیت کے تحت 2 مریضوں کو آئسولیشن میں جب کہ 2 کو جنرل وارڈ
میں علاج کی سہولت سے مستفید ہوتے ہوئےدیکھا گیا ۔ اس سینٹر میں علاج کچھ
دن پہلے ہی شروع کیا جا چکا تھا جب کہ افتتاحی تقریب کے وسیلے سے آج عوام
کی توجہ کو اس جانب مبذول کرانا مقصود تھا تاکہ درد دل رکھنے والے اور لوگ
بھی اس کار خیر کا حصہ بنتے چلے جائیں ۔ معززین شہر کو ڈاکٹرز اورنگران
عملے کی بریفنگ کے بعد آگے کی کارروائی اور پروگرام کے دوسرے سیشن میں شرکت
کے لیے تمام مہمانان گرامی کو گلف مارکی راولاکوٹ کی طرف رہنمائی کی گئی
اور پھر کچھ وقت میں سب وہاں پہنچ گئے ۔۔۔۔۔
وہاں پہنچتے ہی ۔۔۔۔۔ کسی قلندر اور درویش منش کے وجد میں ڈوبے نعرہ مستانہ
نے میری سماعتوں کو مرتعش کیا ؛ ایک خالص دنیا دار کے دل کی دنیا ہی بدل
ڈالی ، اس کے قلب و نظر میں طلاطم بپا کر دیا :
کسی درد مند کے کام آ
کسی ڈوبتے کو اچھال دے
یہ نگاہ مست کی مستیاں
کسی بد نصیب پہ ڈال دے
ایسا لگا ۔۔۔۔ واقعی کسی بدنصیب کے درد وملال نے میرے در دل پہ دستک دی ہو
۔روح میں کسی انجانے درد کی کسک اترنے لگی ۔۔۔۔
ضابطے کی کارروائی بڑے نک سک اور کسی قدر احتیاط سے کی گئی ۔۔۔۔حمد ، نعت ،
ترانے اور پھر ایک کے بعد ایک اسٹیج پر ابھرتے مقررین نے ہال میں موجود
سامعین کے خیالات کی رو کو بارہا تبدیل کیا ۔کبھی اسے کسی ایک دھارے پہ
ڈالا تو کبھی کسی اور سمت پہ موڑ دیا ۔
اسی اثناء میں بجلی کا ایک کوندا لپکا ۔۔۔۔ خیال کی تند و تیز رو نے سجھایا
کہ جس فکر کو باندھ کر اس بزم میں لایا گیا۔ اذہان و قلوب کو ایک اعلا و
ارفع مقصد کے لیے کسی خاص سمت میں ڈھالا جا رہا ہے کہیں وہ شریر خیال بھی
آسمان کے بادلوں کی مثل منتشر ہو گیا تو۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟
نہیں۔۔۔ایسا نہیں ہوناچاہیے۔۔۔۔
اور ایسا نہیں ہوگا ۔۔۔۔۔
رائٹ فاونڈیشن 2021 میں باقاعدہ رجسٹر ہونے والی وہ تنظیم ہے جس کے لیے 6
برس قبل ہی جہد مسلسل کا آغاز ہو چکا تھا۔ لطف کی بات یہ رہی کہ اس بار
مردوں کے سماج میں ایک عورت نے تن تنہا اس کوہ گراں کو اٹھانے کا فیصلہ کر
لیا۔باوصف اس کے ؛ سب نے ہزار منع کیا ؛ لاکھ سمجھایا بجھایا کہ یہ بوجھ
ناتواں کاندھوں کے لیے نہیں ہے مگر ایک ہم جنس نے پیٹھ تھپکی ، حوصلہ دیا
اور آخر کار اس راہ پرخار کا انتخاب کر لیا گیا۔
اس تنظیم نے جب پہلے پہل ضرورت مندوں کے لیے دست سخاوت بڑھایا تو کورونا کے
دوران میں؛ متاثرین راولاکوٹ اور کوٹلی کی اعانت و دستگیری کرنے کو، ان
علاقوں میں ؛ راشن تقسیم کرنےکے سلسلہ میں فیاضانہ اپنا حصہ ڈالا ۔ اس کے
بعد کوٹ متے خان اور پوٹھی چھپریاں کے مقامات کے علاوہ پلندری میں بھی واٹر
سپلائی اسکیم کے تحت پانی کے ذخائر دریافت کیے اور انہیں فیض عام کے لیے
مختص کر دیا۔ اس کے علاوہ کینیڈا سے گرم ملبوسات کی ترسیل و تقسیم کو ایل
او سی اور کیل مظفر آباد کے غریب و مستحق لوگوں تک پہنچانے کا اہتمام
کیاگیا ۔ اب تک کی تمام فلاحی سرگرمیوں میں سب سے بڑا منصوبہ ڈائیلسز سینٹر
کے قیام کی صورت سامنے آیا جسے حکومت کے صحت کارڈ سے منسلک کرنے کی کوشش
جاری ہے تاکہ مریضوں کے لیے اس کے دور رس نتائج حاصل کیے جا سکیں۔
مجھے مسجدوں کی خبر نہیں مجھے مندروں کا پتا نہیں
میری عاجزی کو قبول کر مجھے اور درد و ملال دے
ہال میں سب سے پہلے جاوید صادق صاحب نے تنظیم اور اس کے متعلقین کا تعارف
پیش کیا ۔انہوں نے سلسلہ کلام کو بڑھاتے ہوئے راولاکوٹ کی مستند و معتبر
علمی و ادبی شخصیت ڈاکٹر ظفر حسین ظفر کو اسٹیج کی میزبانی کے فرائض
سونپے۔ڈاکٹر ظفر صاحب نے رائٹ فاونڈیشن کی چیئرپرسن ڈاکٹر عذرا لطیف اور ان
کے ساتھیوں پروفیسر رخسانہ لطیف،پروفیسر منشاء خان ،شاہزیب شبیر خان اور
دیگر درد دل رکھنے والے مخیر حضرات کی کاوشوں کو سلام پیش کیا۔نیز احادیث
کے تناظر میں حالی کے شعر کا حوالہ دیا :
یہ پہلا سبق تھا کتاب ہدی' کا
کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا
تنظیم کی صدر اور سابق (ڈی ای او) نسیم حیات صاحبہ نے مزید تعارف و تعریف
سے منتظمین کے حوصلے بلند کیے ۔چیئرپرسن ڈاکٹر عذرا لطیف نے اس کام کے
شروعاتی دور پہ بات کرتے ہوئے اسے فعال بنانے میں نوجوان نسل کی کوششوں کو
بے حد سراہا۔ شاہزیب شبیر خان نے شعبہ صحت کے متعلقین سے راولاکوٹ میں ایک
cath lab کےفوری قیام کے علاوہ اس تنظیم کو اسپتال کی ایمبولینس سروس تک
رسائی دینے کی استدعا کی ۔ نیز نوجوان نسل کے خوب لتے لیے کہ اپنے آباء کی
محنت پہ اترانے کی بجائے خود محنت کرنا ہوگی کیونکہ ہمارے عہد میں قدیم کی
نسبت سہولیات بہت زیادہ ہیں جب کہ محنت اور اس کا جذبہ بہت ہی کم ۔ان کا
پیغام بہ قول اقبال یہ تھا کہ :
تھے تو آبا وہ تمھارے ہی، مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو!
چوہدری عتیق الرحمان برسالوی نے حکومتی کاموں کے خلاء کو پر کرنے کے لیے
تنظیم سازی کی ضرورت پر زور دیا ۔ اس سلسلے میں تجاویز دیتے ہوئے شفافیت،
میرٹ کی بحالی اور ڈونرز کے اعتماد کو اہم قرار دیا۔یہ پیغام بھی دیا کہ
گھر گھر جا کر صدقات اور عطیات جمع کرنے سے ایک مزدور بھی احساس ذمہ داری
رکھتے ہوئے عطیہ دینے میں فراخ دلی کا مظاہرہ کرے گا ۔ان کی تجاویز نے
مستقبل کی دل خوش کن تصویر دکھلا دی کہ میرپور اور دیگر اضلاع میں پرائیویٹ
سیکٹر کے کئی اسپتال اس نوع کے منصوبوں کو کامیابی سے ہمکنار کر چکے ہیں۔
صدیق کیانی صاحب ؛ جو دل کھول کے عطیات پیش کرتے ہیں ؛ نے لوگوں کی جیبوں
سے پیسہ نکالنے کو سب سے زیادہ مشکل مرحلہ قرار دیا اور اس کے لیے مختلف
گروپوں کی تشکیل سے اذہان سازی کی تجویز دی۔
اشفاق صاحب نے ناہید فاونڈیشن کی جانب سےایک کروڑ روپے کی خطیر رقم عطیہ کی
اور عذرا لطیف صاحبہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے "دھرتی کی قابل فخر بیٹی"
کا خطاب دیا۔
راجا لیاقت کیانی صاحب؛ جو اس تنظیم کے ایک اورسب سے بڑے ڈونر ہیں؛ نے
لوگوں سے بہت زیادہ اور تسلسل کے ساتھ عطیات دینے کی اپیل کی ۔
کوثر حسین شاہ صاحب نے اس جذبے کی بےحد ستائش کی جس کی وجہ سے لوگ اپنا وقت
ایسے فلاحی کاموں کے لیے صرف کرتے ہیں ۔ انہوں نے معاشرتی انحطاط سے بچنے
کے لیےاخلاقی قدروں کے فروغ کے لیے کام کرنے کی صلاح دی۔
مجھے زندگی کی طلب نہیں مجھے سو برس کی ہوس نہیں
میرے کالکوں کو مہو کر وہ فنا جو ہے لازوال دے
عرفان تصدق صاحب نےنوجواں جذبوں اور امنگوں کو سراہا۔مہمان خصوصی اور ڈی جی
ہیلتھ ڈاکٹر آفتاب احمد خان صاحب نےگردوں کے مرض کے اسباب و علل پر غور
کرنے کی تجویز پیش کی نیز یہ کہا کہ اس شعبے میں تربیت یافتہ افراد کی کمی
کو پورا کرنے کے لیے مزید لوگوں کی ضرورت ہے۔ اصغر علی زیدی سی ای او ؛ CMH
نے علاقائی تعصب سے بچتے ہوئے مریض کو صرف مریض سمجھنے کی تلقین کی تاکہ ہر
ایک یکساں طور پہ مستفید ہو پائے۔
اس دوران میں فنڈ ریزنگ کا سلسلہ بھی چلتا رہا ۔ فراخ دلانہ عطیات دینے
والے احباب اور اداروں میں درج ذیل نام شامل ہیں:
آمنہ اسپتال ، بیگم شاہد اور احباب ،خولہ خان صاحبہ، سنگولہ ویلفیئر
فاؤنڈیشن، پروفیسر امتیاز صاحب، اشفاق صاحب، صائمہ صاحبہ، ضمیر شاہ صاحب،
الخدمت فاونڈیشن، سردار سیاب صاحب۔
ان ناموں کے علاوہ یہ تنظیم کئی احباب کی سخاوت اور فیاضی کے بل پر ہی اس
ڈائیلسز سینٹر کا آغاز کرنے کے قابل ہوئی ۔ ان بڑی بڑی قابل قدر ہستیوں میں
صدیق کیانی اور راجا لیاقت کیانی جیسے نام شامل ہیں۔ اس کے ساتھ یہ تذکرہ
بھی بہت ضروری ہے کہ آئندہ بھی ایسے کئی مہربان ہاتھوں کی ضرورت ہے جو اس
شجر کو اپنے جذبہ ایثار سے سینچتے رہیں ۔
یہ مئے کشی کا غرور ہے یہ میرے دل کا سرور ہے
میرے مئے کدے کو دوام دے میرے ساتھیوں کو جمال دے
تقریب کے اختتامی مرحلے میں سیف فاونڈیشن کی جانب سے ایگریکلچر یونیورسٹی
کے طلبہ و طالبات کو سیلاب متاثرین کی بحالی کے کاموں میں دلچسپی و دلجمعی
سے رات دن ایک کر دینے کے لیے ، ان کے جوش و جذبے کو سراہتے ہوئے سرٹیفکیٹ
دئیے گئے ۔ ان طلبہ میں بڑی تعداد گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والوں کی تھی
جو اخلاص کی بے بہا دولت اپنے دلوں میں رکھتے ہیں۔
اللہ کرے اس انجمن کو دوام ہو اور حوصلوں کو استقلال ۔۔۔۔ یہ ایسا سحاب
بہار ہو ۔۔۔۔جو منتشر ہو نہ مختصر ۔۔۔۔۔ بل کہ خلق خدا پہ ٹوٹ کے برسے ۔۔۔۔
جل تھل ایک ہو جائے ۔۔۔جس سے بستی ، جنگل ، پہاڑ، دریا سبھی فیض یاب ہوا
کریں۔ (آمین )
|