92 نیوز چینل کے نمائندہ جنید اقبال کی ایک ویڈیو میرے
پاس چیک کرنے کے لئے آئی جس میں جنید صاحب دس منٹ کے طویل سجدے کے طبی اور
روحانی فوائد بیان کررہے ہیں ۔ شروع میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی
ایک حدیث بھی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اتنا لمبا سجدہ کرتے کہ اتنی
دیر میں پچاس آیات پرھی جاسکتی ہیں پھر وہ مختلف جسمانی فوائد بیان کرتے
ہیں اور آخر میں نماز کے بعد الگ سے دس منٹ کا شکرانہ سجدہ کرنے کو کہتے
ہیں تاکہ مذکورہ فوائد حاصل ہوسکیں۔((بیان کئے گئے فوائد میں سے یہ ہے کہ
سجدہ سے دماغ ، دماغی اعصاب، آنکھوں اور سر کے دیگر حصوں کی طرف خون متوازن
اسپرٹ سے منتقل ہوتا ہے۔ سردرد، ضعف بصارت اور ضعف سماعت درست کرتا ہے۔
آنکھوں کے نیچے بنے سیاہ حلقے اور رخسار کی جھری ختم کرتا ہے، یاد داشت
درست کرتا اور بالوں کو گرنے سے روکتا ہے۔ بڑھاہاپا دیر تک نہیں آتا،
پھیپھڑے مضبوط کرتا اور گردے کی اصلاح کرتا ہےنیزجھینک ، نزلہ ، شدید فلو،
بلغم ، رعشے ، ناک کے غدود کی اصلاح کرتا ہے۔ ان فوائد میں ایک فائدہ یہ
بھی ذکر کرتے ہیں کہ دنیا بھر کے ماہرین طب، جن میں مسلم اور غیرمسلم سب
شامل ہیں،نے اپنے طویل تجربے کے نتائج بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ دماغی
کمزوری کو دور کرنے کا واحد طریقہ دس منٹ کا طویل سجدہ ہے۔))
آئیے شریعت کی روشنی میں جسمانی فوائد حاصل کرنے کے لئےدس منٹ کے طویل سجدے
کی حیثیت جانتے ہیں ۔ اس سے قبل کچھ بنیادی باتیں ذہن میں رہے ۔
بلاشبہ اللہ تعالی نے عبادات کی انجام دہی میں یعنی نماز، روزہ ، حج ، زکوۃ
کی ادائیگی میں اخروی فوائد کے ساتھ دنیاوی فوائد بھی رکھے ہیں مثلا نماز
ادا کرنے سے غم والم دور ہوتا ہے،روزہ رکھنے سے شہوت پر غلبہ حاصل ہوتا ہے،
زکوۃ دینے سے مال بڑھتا ہے اور حج وعمرہ کے درمیان متابعت کرنے سے فقر
وفاقہ دور ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔
دوسری بات یہ ہے کہ عبادت میں اخلاص نیت مطلوب ہے یعنی اگر ہم نماز ادا
کرتے ہیں تو اس نماز سے ہمارا مقصد صرف اور صرف اللہ کی رضا ہو ، یہ الگ
بات ہے کہ نماز پڑھنے سے ہمیں دنیاوی اور جسمانی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں
مگر ہم جسمانی فوائد اور ورزش کےمقصد سے نماز نہیں پڑھیں گے ، اگر ایسا
کرتے ہیں تو پھر یہ نماز اللہ کے لئے نہیں ورزش کے لئے ہوگی اور ایسی عبادت
اللہ کے یہاں مقبول نہیں ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ اللہ نے نمازوصبر کےذ ریعہ مدد حاصل کرنے کا حکم دیا ہے
اور اللہ کے رسول محمد ﷺ کو جب بھی کوئی غمگین کرنے والا معاملہ درپیش ہوتا
آپ نماز پڑھتے ۔ اس سبب سے ہم مشکلات کے وقت بلاشبہ نماز پڑھ کراللہ سے مدد
مانگ سکتے ہیں ۔ یہاں پر یہ بات بھی ذہن میں رکھیں اللہ سے مدد طلب کرنے کے
لئے نماز پڑھنا ایک الگ مسئلہ ہے اور کسی بیماری یا خاص دنیاوی مقصد کے
حصول کے لئے فقط طویل سجدہ کرنا الگ مسئلہ ہےیعنی ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔
اب آتے ہیں دس منٹ کے طویل سجدہ کی طرف، تو یہ طویل سجدہ جو عدد میں صرف
ایک سجدہ ہوتا ہے خواہ وہ نماز میں ہو یا نماز سے باہر الگ سے ہودونوں
صورتوں میں انجام دینا غلط ہے، اس ایک طویل سجدہ سے جہاں ایک طرف عبادت کی
روح (اخلاص) ختم ہوجاتی ہے تود وسری طرف رسول اللہ ﷺ کی سنت کی خلاف ورزی
ہوتی ہے ۔
دس منٹ کے اس سجدے میں اخلاص نہ ہونے کی دلیل صحیح بخاری کی پہلی حدیث :
انما الاعمال بالنیات یعنی عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے اور اس سجدہ کی
طوالت کی نیت عبادت نہیں دنیاوی منفعت ہے۔ جہاں تک رسول اللہ ﷺ کی عبادت کا
طریقہ ہے تو مکمل ذخیرہ احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ قیام ، رکوع اور
سجود میں اعتدال قائم رکھتے یعنی ان تمام جگہوں پر یکساں مقدار میں ٹھہرتے۔
چنانچہ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :رَمَقْتُ
الصَّلَاةَ مع مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ، فَوَجَدْتُ
قِيَامَهُ فَرَكْعَتَهُ، فَاعْتِدَالَهُ بَعْدَ رُكُوعِهِ، فَسَجْدَتَهُ،
فَجَلْسَتَهُ بيْنَ السَّجْدَتَيْنِ، فَسَجْدَتَهُ، فَجَلْسَتَهُ ما بيْنَ
التَّسْلِيمِ والانْصِرَافِ، قَرِيبًا مِنَ السَّوَاءِ.(صحيح مسلم:471)
ترجمہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کو جانچا تو معلوم ہوا
کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیام، پھر رکوع، پھر رکوع سے کھڑا ہونا، پھر سجدہ
اور دونوں سجدوں کے درمیان کا جلسہ پھر دوسرا سجدہ اور سجدے اور سلام کے
بیچ کا جلسہ یہ سب برابر برابر تھے۔
آپ ﷺ تہجد میں لمبا سجدہ کرتے تھے مگر صرف سجدہ ہی لمبا نہیں ہوتا بلکہ
قیام ، رکوع اور سجود تمام مراحل لمبے ہوتے ۔یہی کیفیت گرہن کی نماز سے
متعلق بھی وارد ہےچنانچہ صحیحین سمیت متعدد کتب حدیث میں مذکور ہے کہ رسول
اللہ سورج گرہن کی نماز پڑھی،راویہ حدیث اسماء بنت ابی بکر بیان کرتی ہیں:
فأطالَ القيامَ ثمَّ رَكعَ فأطالَ الرُّكوعَ ثمَّ رفعَ فأطالَ القيامَ ثمَّ
رَكعَ فأطالَ الرُّكوعَ ثمَّ رفعَ ثمَّ سجدَ فأطالَ السُّجودَ(صحيح
النسائي:1497)
ترجمہ:پس آپ نے لمبا قیام کیا، پھر رکوع کیا تو لمبا رکوع کیا، پھر (اپنا
سر رکوع سے) اٹھایا تو لمبا قیام کیا، پھر رکوع کیا تو لمبا رکوع کیا، پھر
اپنا سر رکوع سے اٹھایا، پھر سجدہ کیا تو لمبا سجدہ کیا۔
ان احادیث کامطلب یہ ہے کہ نبی ﷺ اگر قیام لمبا کرتے تو رکوع بھی لمبا
کرتےاور سجدہ بھی ۔مختصرنماز پڑھتے ہوئےصرف سجدہ لمبا کرنا ، وہ بھی ایک
سجدہ سنت رسول کی صریح مخالفت ہے۔ اور نماز سے باہر الگ سے دس منٹ کا طویل
سجدہ کرنا یہ تو بالکل ہی خلاف شریعت ہے ۔گویا جب ہم نماز پڑھیں گے تو
ہماری نیت صرف اللہ کی رضا ہوگی تاہم ساتھ ہی یہ بھی نیت ہوجائے کہ اس
عبادت کے ذریعہ اللہ ہماری دنیاوی اور جسمانی پریشانی دور کردے اس میں کوئی
حرج کی بات نہیں ہے لیکن نماز میں صرف ایک سجدہ طویل کرنا اور اس طویل سجدہ
کی یہ نیت کرنا کہ اس سے فلاں فلاں بیماری دور ہوجائے گی یا دماغی کمزوری
ختم ہوجائے گی ایسے سجدہ کی قطعا اجازت نہیں ہے ، نہ نماز میں ، نہ ہی نماز
کے باہر۔اورنماز کے اندر جتنے سجدے ہوں گے وہ قیام ورکوع کی مقدار میں ہوں
گے جیساکہ رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے۔
نماز اللہ کی بندگی ہے جوانسانی تخلیق کا مقصد ہے اور جسمانی بیماری دور
کرنے کے لئے اللہ نےالگ سے دوائیں نازل فرمائی ہے۔عبداللہ بن مسعود رضی
اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما أنزلَ اللَّهُ داءً إلَّا أنزلَ لَهُ دَواءً(صحيح ابن ماجه:2790)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے ایسی کوئی بیماری نہیں اتاری جس کی دوا نہ اتاری ہو۔
اس لئے ہمارے جسم کو کوئی بیماری لگ جائے تو اپنا علاج کرانا چاہئے ،ساتھ
ہی جائز ومشروع کام حتی اللہ کی خالص بندگی کرتے ہوئے یہ نیت بھی ہو کہ
اللہ ہماری دنیاوی مشکلات یا جسمانی پریشانیاں دور فرمائے ، کوئی مضائقہ
نہیں ہے بلکہ بیمارکی طرف سے صدقہ کرنے کا ثبوت ملتا ہے اور صدقہ بھی عبادت
ہے مگر یاد رہے بیماری دور کرنے کے لئے ایسی کوئی عبادت انجام نہیں دیں گے
جس کا ثبوت نہیں ہے ۔دماغی کمزوری یا دیگر جسمانی امراض دور کرنے کے لئے دس
منٹ کا طویل سجدہ کرنا ایسی عبادت ہے جس کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک لمبے سجدہ کی حقیقت:
ابوداؤد ، سنن نسائی اور دارقطنی میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ
کی تہجد کی نماز کی صفت بیان کرتے ہوئے ذکر کرتی ہیں ۔
ويوترُ بواحِدَةٍ ويسجُدُ سجدةً قدرَ ما يقرأُ أحدُكُم خَمسينَ آيةً(صحيح
أبي داود:1337 و صحيح النسائي:1327 و سنن الدارقطني:1545)
ترجمہ:اور ایک رکعت کے ذریعہ وتر کرتے اور ایک سجدہ اتنا لمبا کرتے کہ کوئی
اس سے پہلے کہ آپ سجدہ سے سر اٹھائیں پچاس آیتیں پڑھ لے۔
اس حدیث پر امام نسائی نے باب باندھا ہے(بَابُ : السُّجُودِ بَعْدَ
الْفَرَاغِ مِنَ الصَّلاَةِ) یعنی نماز سے فارغ ہونے کے بعد سجدہ کرنے کا
بیان۔
دراصل حدیث کا اوپر ذکر کیا ہوا ترجمہ بھی صحیح نہیں ہے اور امام نسائی سے
حدیث کا باب باندھنے میں سہو ہوگیا ہے۔
حدیث کے اس ٹکڑے کا صحیح ترجمہ یہ ہے،"ایک رکعت وتر پڑھتے اور اتنی دیر تک
سجدہ کرتے جتنی دیر میں تم میں سے کوئی پچاس آیتیں (رکوع سے) سر اٹھانے سے
پہلے پڑھ لے"۔
اس میں جس طویل سجدے کا ذکر ہے وہ نماز کے بعد کا سجدہ نہیں ہے بلکہ یہ
تہجد کے سجدہ کا ذکر ہے اور اس سجدہ کی طوالت بیان کی جارہی ہے کہ آپ ﷺ
تہجد میں اس قدر لمبا سجدہ کرتے کہ کوئی اتنی دیر میں پچاس آیات پڑھ لے
چنانچہ حدیث کا یہی ٹکڑا صحیح بخاری میں ان الفاظ کے ساتھ وارد ہے۔
فَيَسْجُدُ السَّجْدَةَ مِن ذلكَ قَدْرَ ما يَقْرَأُ أحَدُكُمْ خَمْسِينَ
آيَةً قَبْلَ أنْ يَرْفَعَ رَأْسَهُ(صحيح البخاري:994)
ترجمہ:آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سجدہ ان رکعتوں میں اتنا لمبا ہوتا تھا کہ
سر اٹھانے سے پہلے تم میں سے کوئی شخص بھی پچاس آیتیں پڑھ سکتا۔
یہاں ایک سجدہ کا ذکر نہیں ہے بلکہ السجدہ کا لفظ آیا ہے جو تہجد کے تمام
سجدوں کو شامل ہے ۔ اس سے زیادہ صریح الفاظ ابوداؤد میں وارد ہیں۔
ويمكُثُ في سُجودِهِ قدرَ ما يقرأُ أحدُكُم خَمسينَ آيةً قبلَ أن يرفعَ
رأسَهُ (صحيح أبي داود:1336)
ترجمہ: اپنے سجدوں میں اتنا ٹھہرتے کہ تم میں سے کوئی اتنی دیر میں سر
اٹھانے سے پہلے پچاس آیتیں پڑھ لے۔
یہاں دیکھیں سجود جمع کا لفظ آیا ہے گویا سیدہ عائشہ رسول اللہ کے تہجد کے
سارے سجدوں کی طوالت بیان کررہی ہیں۔ ابن ماجہ کے الفاظ سے بھی یہ بات واضح
ہوتی ہے۔
ويوترُ بواحدةٍ ويسجدُ فيهنَّ سجدةً بقدرِ ما يقرأُ أحدُكم خمسينَ
آيةً(صحيح ابن ماجه:1125)
ترجمہ:اور ایک رکعت وتر پڑھتے تھے، اور ان رکعتوں میں سجدہ اتنا طویل کرتے
کہ کوئی سر اٹھانے سے پہلے پچاس آیتیں پڑھ لے۔
یہ ساری روایات سیدہ عائشہ سے مروی ہیں ، ان تمام دلائل کا خلاصہ یہ ہے کہ
نبی ﷺ تہجد کی نماز عام نمازوں سے طویل پڑھتے تھے، تہجد میں آپ کا قیام جس
قدر لمبا ہوتا، اسی مقدار میں رکوع اور سجدے بھی لمبے ہوتے تھے ۔
کثرت دعا کے لئےفرض نماز کے آخری سجدے کو لمبا کرنا:
موضوع سے متعلق ایک اور پہلو ہے جس کی یہاں وضاحت کرنا مفید رہے گا۔ سجدہ
میں انسان اللہ سے قریب ہوتا ہے اس لئے سجدہ میں زیادہ دعا کرنے کا حکم ہوا
ہے ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا:
أقرب ما يكون العبد من ربه وهو ساجد فأكثروا الدعاء(صحیح مسلم:482 ) .
ترجمہ:بندہ سجدہ میں اپنے پروردگار سے بہت نزدیک ہوتا ہے تو سجدہ میں بہت
دعا کرو۔
اس حدیث کی وجہ سے بعض لوگ فرض نماز کی آخری رکعت کے آخری سجدے کو لمبا
کرتے ہیں اور زیادہ دعائیں کرتے ہیں ۔ ایسا کرنا کس حد تک درست ہے؟
آخری سجدے کو دیگر سجدے سے الگ ڈھنگ سے ادا کرنا یعنی آخری سجدے کو کثرت
دعا کے لئے خاص کرنا اور اسی سجدے کو لمبا کرنا سنت کی مخالفت ہے ، سنت سے
یہ ثابت ہے کہ نماز کے تمام ارکان میں اعتدال ہویعنی قیام ، رکوع اور سجود
سب برابر ہوں جیساکہ ہم نے اوپر دلائل سے معلوم کرلیا ہے البتہ نمازی سجدوں
میں کچھ طوالت کرسکتا ہے کیونکہ اس کیفیت میں بندہ رب سے قریب ہوتا ہے تاہم
دوباتیں دھیان میں رکھنا چاہئے ۔
(1)یہ طوالت نماز کے آخری سجدے کے ساتھ خاص نہ ہوبلکہ تمام سجدوں میں دعا
کی جائے۔
(2) امام ہونے کی صورت میں اس قدر لمبا سجدہ نہ کرے کہ مقتدی پہ شاق گذرےیا
قیام ورکوع کی مقدار سے حد درجہ طویل ہوجائے۔
|