بھارت جوڑوی مخالفت ہی حمایت ہے

بھارت جوڑو یاترا کی کامیابی یہی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اس کو نظر انداز نہیں کرسکی ۔ وہ اگراس مہم کو نظر انداز کردیتی تو پالتو میڈیا بھی وہی کرتا ہے اور عوام اس سے بے خبر رہ جاتے ہیں۔ اس لیے بی جے پی کی بھلائی بھارت جوڑو کی ان دیکھی کرنے میں تھی مگر وہ ایسا نہیں کرسکی۔ اس کے صبر کا باندھ بہت جلد ٹوٹ گیا۔ اس کی مخالفت میں امیت شاہ سے لے کر جے پی نڈا اور سمرتی ایرانی سے لے کرہیمنت کمار بسوا سرما جیسے نہ جانے کتنے لوگ لنگوٹ کس کر دنگل میں کود پڑے۔یہ لوگ بھول گئے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو قومی سطح پر مقبول بنانے کے لیے ان کی کوئی کارکردگی نہیں بلکہ مخالفت ذمہ دارتھی۔ اس کی دومثالیں بہت مشہور ہیں۔اتر پردیش کے ایک احمق سیاستداں نے جب تضحیک آمیز انداز میں اعلان کیا کہ ایک چائے والا کبھی بھی ملک کا وزیر اعظم نہیں بن سکتا تو مودی جی نے چائے پر چرچا شروع کردی اور اس کے حوالے سے ایسی ایسی کہانیاں سنائیں کہ لوگ فریفتہ ہوگئے۔ اسی طرح جب کانگریسی رہنما منی شنکر ایرّ نے بی جے پی کی گاندھی خاندان کے ذریعہ کی جانے والی قومی خدمات کا حوالہ دیتے ہوئے سوال کیا مودی کےوالدین کون تھے ؟ تو سیاق و سباق سے کاٹ اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا گیا۔ اس طرح گویا وزیر اعظم نریندر مودی نے قومی و صوبائی سطح پر مخالفت کو خوب بھنایا ۔اب الٹا بی جے پی والے راہل گاندھی کی مخالفت کرکے ان کا بھلا کررہے ہیں اور وہ دن لد گئے جب انہیں پپو کہہ کر نظر انداز کیا جاتا تھا ۔

بی جے پی کے بیشتر کارکنا ن اپنے ہی رہنماوں سے خوفزدہ ہیں اس لیے وہ بغیر اشارے کے کچھ نہ بولتے ہیں اور نہ کرتے ہیں۔ حزب اقتدار جماعت کے بڑے رہنما شیرینی کی ایک لکیر کھینچتے ہیں دیگر کارکنا ن چینٹیوں کی مانند اس پر چلنے لگتے ہیں۔ اس بار امیت شاہ نے اس کی ابتداء کرتے ہوئے کہا کہ راہل بابا کوہندوستان کی تاریخ پڑھنی چاہیے۔ تاریخ کا ذکر آتے ہی کرناٹک میں بی جے پی سرکار نے تاریخ کے نصاب میں جو کھلواڑ کیا ہے وہ نظروں کے سامنے آگیا۔ وہاں پر اسکول میں پڑھایا جارہا ہے کہ ساورکرکو انڈمان نکوبار کی ایک ایسی جیل میں قید کیا گیا تھا جہاں کوئی پرندہ بھی پر نہیں مارسکتا تھا اور نہ روشنی کی کرن جاسکتی تھی لیکن ایک بلبل جی ہاں بلبل کو استثناء حاصل تھا۔ وہ ایک ایسے سوراخ سے اس کمرے میں داخل ہوجاتی جس میں سے سورج کی شعاع کے لیے بھی گزرنا ناممکن تھا۔ وہ بالبل اندر جاکر ساورکر کے لیے کوئی پیغام رسانی کا کام نہیں کرتی کیونکہ یہ کام تو طوطے کا ہے اورفی الحال گودی میڈیا کررہا ہے۔ وہ بلبل ساورکر کو اپنے کند ھے پر سوار کرکے باہر لاتی اور ملک بھر کی سیر کروا کر واپس چھوڑ آتی۔

ونایک دامودر ساورکر کی حیات میں اگر کوئی یہ کہانی انہیں سناتا تو وہ انگریزوں سے شکایت کرکے افسانہ نویس کو کالے پانی کی سزا پر بھجوادیتے ۔ ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا تو خودکشی کرلیتے ۔ اندھے بھگتوں کا معاملہ بالکل مختلف ہے وہ تو کوئی بھی چمتکار کسی سے بھی جوڑسکتے ہیں جیسے مودی جی کا بچپن میں مگر مچھ کے بچے کو اٹھا کر گھر لے آنا اور ماں کے منع کرنے پر اس کو تالاب میں پھر سے چھوڑ آنا۔ مودی جی اگر اپنے بچپن میں یہ کارنامہ انجام دے سکتے ہیں تو زعفرانی بلبل ساورکر کو ملک بھر کی سیر کیوں نہیں کرواسکتا؟ امیت شاہ چاہتے ہیں کہ راہل گاندھی بھارت جوڑو یا ترا چھوڑ کر اس طرح کے قصے کہانیوں سےدل بہلانے کی خاطر ہندوستان کی من گھڑت تاریخ پڑھیں جس میں ساورکر جیسا بزدل کو ہیرو اور ٹیپو سلطان جیسا دلیر مجاہدِ آزادی ولن بنا دیا گیا ۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ ٹیپو سلطان کو بدنام کرنے والی وہی بالبل ہے جو ساورکر کو پورے ملک دورہ کرواکر ایک نمائندہ مجاہد آزادی کے طور پر پیش کرتی ہے۔ یہ ایک ایسی تاریخ ہے جس نے قومی تہذیب و ثقافت کو مضحکہ خیز بچوں کی کارٹون فلم بناکررکھ دیا ہے۔ اس لیے راہل گاندھی تو دور کسی ایرے غیرے نتھو خیرے کو بھی یہ تاریخ نہ پڑھنی چاہیے اور نہ پڑھانی چاہیے۔

وزیر داخلہ امیت شاہ کی دوسری تنقید نے خودان کے پیر پر کلہاڑی چلادی ۔ انہوں نے کہا راہل گاندھی غیر ملکی ڈیزائنر ٹی شرٹ پہن کر بھارت جوڑنے کے لیے نکلے ہیں۔ امیت شاہ اگر ایک لمحہ کے لیے بھی سوچتے کہ اس کا ردعمل کیا ہوگا تو ایسی حماقت کبھی نہ کرتے۔ اس لیے کہ وزیر اعظم کی تو ہر شئے ڈیزائنر ہوتی ہے۔ ان کا قلم ، ان کا لباس بلکہ عینک تک باہر سے آتی ہے۔ شاہ جی بھکتوں نے ٹویٹ پر ٹی شرٹ کی قیمت لکھی تو لوگوں نےمودی کے دس لاکھ والے کوٹ کی تصویر ٹانک دی۔ اس سے شرمناک بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ مودی جی نے آزادی کی 75؍ سال بعد چین کے پالیسٹر کا پرچم لہروا دیا۔ یوگا کی چٹائی بھی اس چین سے منگوائی گئی جس نے گلوان میں حملہ کرکے اپنے فوجیوں کو موت کے گھاٹ اتارا اور ہماچل پردیش سے گلوان تک نہ جانے کتنے بڑے علاقہ کو غصب کرلیا۔ شاہ جی بھول گئے کہ جن کے گھر شیشے کے ہوتے ہیں وہ پردے لگا کر کپڑے بدلتے ہیں لیکن اس احتیاط کا پاس و لحاظ کرنے کی خاطر شرم وحیا درکار ہوتی ہے۔ زعفرانیوں کا ان پاکیزہ اقدار سے کیا سروکار ۔

راہل گاندھی کی بدترین دشمن سمرتی ایرانی ہیں اس لیے وہ اپنے حریف پر تنقید کا کوئی موقع نہیں گنواتیں ۔ سمرتی ایرانی نے بھارت جوڑو یاترا کے خلاف سمع خراشی کرتے ہوئے یہ الزام ٹھونک دیا کہ کنیا کماری سے یاترا شروع کرتے وقت وہ سوامی وویکانند کو بھول گئے۔ سمرتی ایرانی کو نہ جانے کس بیوقوف نے یہ اطلاع دی کہ راہل وہاں نہیں گئے تھے حالانکہ تلسی بہو اگر گوگل سے مدد لیتیں تب بھی ان کی یہ غلط فہمی دور ہوجاتی لیکن اندھے بھگتوں کے سامنے بولنے سے قبل انسان محنت کیوں کرے؟ وہ لوگ تو جھوٹ کو ماننے اور پھیلانے کے لیے مستعد بیٹھے رہتے ہیں ۔ اسی سبب سے بی جے پی والے منہ زور ہوگئے ہیں۔ سمرتی کی بہتان تراشی کے بعد کانگریس نے ان کی تقریر کے ساتھ راہل کی وویکانند یادگار پر خراج عقیدت کی ویڈیو جاری کردی۔ اب سمرتی ایرانی پھنس گئیں اس دوران کسی نے آر ٹی آئی کرکے یہ معلومات پحاصل کرلی کہ ان کے شراب خانے سلی ڈیل کے لیے کھانے کا لائسنس پرسمرتی ایرانی کے شوہر کا نام لکھا ہے۔ ویسے سمرتی ایرانی کو یہ بھی بتانا پڑے گا کہ کیا وویکانند کے نام لیوا شراب خانے چلاتے ہیں اور کیا ایسا کرنے سے ان کا نام روشن ہوتا ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ ایک جھوٹا الزام لگا کر موصوفہ پھنس گئیں۔

بھارت جوڑو یاترا پر سب سے پہلا ٹویٹ آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ ہندوستان کو تقسیم کرنے کا کام کانگریس نے کیا ہے اس لیے راہل گاندھی کو بھارت جوڑنے کے لیے پاکستان جانا چاہیے۔ بسوا سرما کے ٹویٹ کا جواب جب جئے رام رمیش نے دیا تو وہ بولے میں نے کانگریس میں کئی سال گزارے ہیں لیکن میں کسی جئے رام رمیش کو نہیں جانتا۔ اس بیان کےکئی پہلو سے دلچسپ ہیں۔ پہلا تو یہ ہے کہ ملک کی تقسیم کے لیے اگر کانگریس ذمہ دار ہے اور وہ کام غلط تھا تو انہوں اپنی جوانی کے 19 بہترین سال کانگریس کی نذر کیوں کیے؟ دوسرے یہ کہ جس پارٹی کے سابق صدر لال کرشن اڈوانی نے مینارِ پاکستان میں جاکر قائد اعظم محمد علی جناح کی تعریف و توصیف کی اور اس میں وہ کیا کررہے ہیں ؟ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ اقتدار کی امید میں وہ ملک توڑنے والوں سے مفاہمت کو برا نہیں سمجھتے اور سچائی یہی ہے کہ اقتدار کا لالچ انہیں ملک توڑنے والی بی جے پی کی پناہ میں لے گیا ہے۔ آخری بات یہ ہے کہ وزیر اعظم مودی نے بن بلائے پاکستان کا دورہ کیوں کیا تھا؟ کیا وہ بھارت جوڑنے کے لیے وہاں گئے تھے یا بھارت توڑنے کے لیے؟ مودی جی نے اسلام آباد میں نواز شریف کی والدہ کی قدم بوسی کے بعد بریانی کھاکر جو کارنامہ کیا ہے ملک اسے بھول نہیں سکے گا۔
امیت شاہ سے ترغیب لے کر راہل گاندھی کے خلاف بی جے پی کے صدر جے پی نڈا نےراہل گاندھی کے خلاف خوب جی بھر کے بھڑاس نکالی ۔ ان کی تقریر کا لبِ لباب یہ تھا کہ کانگریس ایک بھائی بہن کی پارٹی ہے۔ یہ ایک خاندان کا اقتدار ہے۔ نڈا جی کو پتہ ہونا چاہیے کہ مودی جی نے بی جے پی کو ایک فرد کی جماعت بنادیا ہے۔ اس ایک شخص کے آگے پورا سنگھ پریوار بے بس و لاچار ہے۔ کسی کی کچھ نہیں چلتی ۔ فرد کا موازنہ خاندان سے کیا جائے تو خاندان بہر حال انفرادی آمریت سے وسیع ہوتا ہے۔ وہاں کوئی تو ہوتا ہے جس سے شکایت کی جائے یہاں تو ہر ہر مودی گھر گھر مودی۔ نڈا کے مطابق یہ اقتدار کی لڑائی ہے اس کی کوئی نظریاتی بنیاد نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کانگریسیوں نے کیرالہ میں خاکی نیکر جلا کر ساری دنیا کو پیغام دیا کہ یہ نظریاتی جنگ ہے اور اس کے نشانے پر صرف بی جے پی نہیں بلکہ پوار اسنگھ پریوار ہے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449754 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.