راہل گاندھی نے بھارت جوڑو کا نعرہ لگا کر بی جے پی کی
دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا اور اسی کے ساتھ زعفرانی کیمپ میں کھلبلی مچ گئی۔
مودی جی نے کانگریس کی ہر شئے چرا لی مگر اپنی توڑ پھوڑ کی سیاست کو چھپا
نہیں سکے ۔ انگریزوں نے سنگھ پریوار کے ڈی این اے میں ’پھوٹ ڈالو اور راج
کرو‘ کی حکمت عملی ڈال دی ہے اس کے باوجود انہوں نے ’ سب کا ساتھ سب کا
وکاس‘ کاخوشنما نعرہ لگا کر قومی سیاست میں قدم رکھا تھا۔ پانچ سال بعد بھی
جب وکاس نہیں ہوسکا تو سرجیکل اسٹرائیک کا ہنگامہ کھڑا کرکے دوبارہ انتخاب
جیت لیا اور اپنی دوسری میعاد کا آغاز ’سب کا ساتھ ، سب کا وکاس ، سب کا
وشواس اور سب کا پریاس ‘ کا نعرہ لگا کر کیا ۔ یہ ایک کھوکھلا جملہ تھا
کیونکہ مودی جی نہ تو سب کو ساتھ رکھنے میں کامیاب ہوئے تھے اور نہ سب کا
وکاس (ترقی) کرنے میں انہیں کامیابی ملی تھی۔ پانچ سالوں تک انہوں نے
امبانی اور اڈانی کا ساتھ دے کر ان کا وکاس کیا تھا ۔ نہ تو ان پر عوام کا
وشواس (اعتماد ) تھا اور انہیں خواص پر اعتماد تھا ۔ اس لیے سب کا پریاس
(کوشش) بڑھایا گیا تاکہ اس ناکامی کا ٹھیکرا عوام کے سر پر پھوڑ کہہ دیا
جائے کہ سب لوگوں نے ٹھیک سے محنت نہیں کی اس لیے بیچارے مودی جی فیل
ہوگئے۔
اس دوران اپنی ناکامیوں کی طرف سے توجہ ہٹانے کے لیے لوگوں کو آپس میں
لڑانے کا کام خوب ہوا اور اپنے سیاسی مفاد کی خاطر ملک کو توڑ پھوڑ دیا
گیا۔ ایسے میں جب راہل گاندھی قوم کو جوڑنے کی خاطر نکلے تو اقتدار کی
چولیں ہلنے لگیں اور پانچ مہینے یاترا کے پہلے پانچ دنوں کے اندر ہی بی جے
پی زبردست بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی۔ بعید نہیں کہ پانچ ماہ بعد یہ لوگ بغیر
انتخاب لڑے ہی دفع ہوجائیں ۔ بی جے پی کا معاملہ یہ ہے کہ سرکار پہلے تو
ڈرا دھمکا کر مخالفین کو خاموش کرنے کی کوشش کرتی ہے اور جب اس سے بات نہیں
بنتی تو نظر انداز کرکے میڈیا کی مدد سے عوام کی توجہ ہٹا تی ہے۔ بھارت
جوڑو یاترا کی سنُ گنُ سے ہی بی جے پی ڈر گئی اور اس نے اپنا کام شروع
کردیا ۔ نیشنل ہیرالڈ کا معاملہ اٹھاکر پہلے راہل گاندھی پر شکنجہ کسا گیا
اور پھر سونیا گاندھی کو بھی ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی مگر وہ سنگھ
پریوار تو تھا نہیں جو معافی تلافی پر اتر آتا۔ گاندھی پریوار کی حمایت
میں کانگریسی سڑکوں پر اتر آئے اور الٹا بی جے پی کا نقصان ہونے لگا
کیونکہ اس نے نادانستہ طور پر شیر کی دم پر پیر رکھ دیا تھا۔ اس لیے بی جے
پی نے اس مہم کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا۔
بی جے پی کو اندازہ ہے کہ عوام کے اندر سرکار کے خلاف بیروزگاری اور
مہنگائی جیسے بنیادی مسائل کے سبب غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اس کو بھنانے کی
خاطر اگر کوئی رہنما میدان میں اترے توسرکار کی حالت خراب ہوسکتی ہے اس لیے
بھارت جوڑو یاتراکو روکنے کی بلاواسطہ کوشش کی گئی۔ کانگریس کے سوا بی جے
پی کے سارے مخالفین علاقائی نوعیت کے ہیں اس لیے ان کے اثرات کو پورے ملک
میں محسوس نہیں کیا جاسکتا ۔ کانگریس جیسی بھی ہے ایک ملک گیر سیاسی جماعت
ہے۔اس کے اندر دیگر علاقائی جماعتوں کو اپنے ساتھ لینے کی صلاحیت ہے۔ بی جے
پی نے بھی کانگریس کو اکھاڑپھینکنے کی خاطر ہر کس و ناکس کو اپنے ساتھ جوڑا
تھا۔ ان کے نازو نخرے اٹھائے تھے اور وہ ان کی حمایت سے اقتدار پر فائز
ہوئی تھی۔ اس وقت بی جے پی کے اندر رعونت نہیں تھی اور لوگ اس کےحوالے سے
پرامید تھے۔ اب حالات بدل گئے ہیں اس لیے ایک ایک کر کے اس کے ساتھی مخالفت
پر تُل گئے ہیں۔ پنجاب میں اکالی دل، مہاراشٹر میں شیوسینا اور بہار کے جے
ڈی یو کا الگ ہوجانا اس کی چند مثالیں ہیں ۔ ویسے ممتا بنرجی بھی ایک زمانے
میں بی جے پی کی حلیف تھیں۔ اس لیے بھارت جوڑو یاترا آگے چل کر این ڈی اے
توڑو مہم میں تبدیل ہوسکتی ہے جو بی جے پی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
ماضی میں کانگریس پر بی جے پی یہ الزام لگاتی رہی ہے کہ وہ اسے بدنام کرنے
کی خاطر شور مچاتی رہتی ہے ۔ مثال کے طور پر پہلے دعویٰ کیا گیا کہ چین تو
ہندوستان میں داخل ہی نہیں ہوا مگر اب بڑی شان سے خود سرکار اعتراف کررہی
ہے چین تین کلومیٹر پیچھے چلا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ آیا ہی نہیں تھا
تو واپس کیوں گیا ؟ کیا اس نے وزیر اعظم کو سالگرہ کا تحفہ میں یہ زمین دے
دی ۔ اب مودی جی کی یہ حالت ہے چین کی واپسی پر خوش بھی نہیں ہوسکتے اس لیے
کہ ایسا کرنے سے خود ان کے اپنے دعویٰ کی تردید ہوجاتی ہے۔ خیربڑ بولے وزیر
اعظم کا خاموش رہنا ان کی اپنی مجبوری ہے لیکن اس سے حزب اختلاف کا یہ
الزام تو درست ثابت ہوگیا کہ چین ہندوستانی سرحد میں داخل ہوا تھا اسی لیے
واپس گیا لیکن یہ بات طے ہے کہ اس نے پورا علاقہ خالی نہیں کیا ۔ آگے چل
کر وہ جن علاقوں کو خالی کرے گا تو پتہ چلے گا کہ وہ ان علاقوں پر بھی قابض
تھا ۔ ویسے یہ بات طے ہوگئی کہ چین کو واپس بھیجنا لال لال آنکھیں دکھانے
والے وزیر اعظم کے بس کی بات نہیں ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی اپنی مدافعت میں فی الحال 'بھارت جوڈو یاترا' اور راہل
گاندھی کے خلاف جھوٹ پھیلانے میں مصروف ہے ۔ اس لیے کانگریس پارٹی کے
ترجمان گورو ولبھ نے وزیر اعظم نریندر مودی، حکمراں پارٹی کے صدر جے پی نڈا
اور مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی سے دروغ گوئی کے لیے معافی مانگنے کا مطالبہ
کیا ہے۔ گورو ولبھ نہیں جانتے کہ جھوٹ بولنا جن کا اوڑھنا بچھونا ہو وہ اس
میں عار محسوس نہیں کرتے اور نہ شرمندہ ہوتے ہیں ۔ اس لیے معافی مانگنے کا
سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پارٹی ترجمان نے مزید کہا کہ 'بھارت جوڑو یاترا'
اور راہل گاندھی کو بڑے پیمانے پر مل رہی عوامی حمایت نے ’بھارت توڑو
نظریہ‘ والی بی جے پی کو خوفزدہ کر دیا ہے۔ اس حقیقت کا مظاہرہ بی جے پی کی
بوکھلاہٹ آئے دن کرتی رہتی ہے ۔ دوسروں کو پریشان کرنے والا بی جے پی کا
آئی ٹی سیل فی الحال خود پریشان ہے کیونکہ اسے روزآنہ جھوٹ گھڑنا پڑ رہا
ہےمگر بات نہیں بن پارہی ہے۔
آئی ٹی سیل کے سربراہ امت مالویہ نے بوکھلاہٹ میں راہل گاندھی پر ایک ایسا
الزام لگادیا جو لوٹ مودی اور شاہ پر آگیا ۔ انہوں نے کہا کہ راہل گاندھی
پریس سے نہیں ملتے اور عوامی جلسے نہیں کرتے۔ عوامی جلسوں کے لیے جومالی
وسائل درکار ہیں ان پر تو بی جے پی سانپ بن کر بیٹھی ہوئی ہے۔ اس کے قریب
جو کوئی بھی جاتا ہے ای ڈی اور سی بی آئی اس کو ڈس لیتے ہیں اس لیے حزب
اختلاف کے لیے بڑے اجتماعات کا انعقاد مشکل ہوگیا ہے۔ عوام سے رابطے کی
بابت ا ٓج کل آئے دن امیت شاہ کی سیکیورٹی میں خلل کی خبریں ذرائع ابلاغ
کی زینت بن رہی ہیں۔ ممبئی دورے کے وقت ایک ایمبولنس کو روک دیا گیا کیونکہ
وہ رکاوٹ بن گئی تھی ۔ حیدرآباد میں ایک رکن اسمبلی کی گاڑی سے وہ ڈر گئے
۔ زیڈ پلس سیکیورٹی کے عادی بی جے پی رہنماوں میں اب عوام سے براہ راست
رابطے کی ہمت نہیں رہی۔ عوام میں جاکر جلسہ جلوس کرنے کی جرأت تو حزب
اختلاف کے لوگ ہی دکھا رہے ہیں ۔ جہاں تک پریس کانفرنس کا سوال ہے وہ تو
راہل گاندھی ہر دوسرے تیسرے دن کر رہے ہیں مگر مودی جی کی پریس کانفرنس
دیکھنے کی خاطر تو بھگتوں کی آنکھیں ترس گئی ہیں ۔ بہت ممکن ہے کہ یہ خوشی
ان کے نصیب میں ہی نہ ہو۔
بی جے پی نے اس یاترا کی جانب سے توجہ ہٹانے کی خاطر چیتے کا ڈرامہ کیا مگر
آگے چل کر یہ انکشاف ہوا کہ اس کا فیصلہ تو منموہن سنگھ کے زمانے ہوچکا
تھا۔ وہ تو مودی جی کی سست روی نے اس پر عمل در آمد میں آٹھ سال لگا دئیے
۔ کانگریسی رہنماوں نے اوٹ پٹانگ مخالفت کرکے ماضی میں مودی کو جس طرح
فائدہ پہنچایا وہی غلطی اب بی جے پی والے کررہے ہیں اور اس کا فائدہ راہل
کو ہورہا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کانگریس کے پاس سنگھ جیسا کیڈر نہیں ہے
لیکن ہندوستان میں انتخاب جذباتی لہر سے ہارے یا جیتے جاتے ہیں۔ ایسا نہ
ہوتا مغربی بنگال میں بی جے پی کو ایسی کراری ہار کا سامنا نہیں کرنا پڑتا
اور اتر پردیش میں اس کی 55؍نشستیں کم نہ ہوجاتیں ۔ پنجاب میں کانگریس اور
اکالی دل کے پاس کیڈر تھا مگر عام آدمی پارٹی نے دونوں کو شکست فاش سے
دوچار کردیا۔ راہل کو پورے سنگھ پریوار کو ہرانا نہیں ہے کیونکہ بی جے پی
تو صرف اور صرف مودی کی ذات تک سمٹ گئی ہے۔ وہ اگر مودی کو ہرا دیتے ہیں تو
’راون دہن‘ کے بعد اس کی فوج ازخود ڈھیر ہو کجائے گی۔ وزیر اعظم نریندر
مودی نے موجودہ انتخابی کشمکش کو اجتماعی کے بجائے انفردای محاذ آرائی
بناکر اپنے ہر مخالف کا بھلا کردیا ہے۔ اب ملک کے کسی بھی سیاستداں کو سنگھ
کا مقابلہ کرنے کی ضرورت نہیں اس کے لیے یہ کافی ہے کہ مودی جی کو ناک آوٹ
کرکے رنگ سے باہر کردے تو اقتدار کا گلیارہ ازخود اس کے پاس آجائے گا۔
بھارت جوڑو کی بابت مرکزی وزیر ہر دیپ سنگھ پوری نے کہا یہ کانگریس جوڑو
یاترا ہے ۔ یہ بات درست ہے لیکن انہیں پتہ ہونا یہ بی جے پی توڑو یاترا بھی
ہے کیونکہ راہل گاندھی کا دعویٰ ہے کہ یہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی غلط
کاریوں سے ہونے والے نقصان کی درستگی ہے۔
|