بھارت مستقبل میں عالمی سطح پر سفارتی بنیادوں پر اہم
کردار ادا کرنے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ رواں برس دسمبر میں جی20 کی صدارت ملنے
کے بعد اگلے برس نئی دہلی میں سربراہی اجلاس ، شنگھائی تعاون تنظیم کی
صدارت دیئے جانے پر چین کی حمایت اور روسی مبارک باد کے بعدایس سی او کا
سربراہی اجلاس بھی اگلے برس بھارت میں ہوگا۔ رواں برس اقوام متحدہ کی
سلامتی کونسل کی چیئرمین شپ بھی مل جائے گی۔عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق جی
سیون تنظیم میں بھارت کی شمولیت زیرغور ہے،اگر روس کے بجائے بھارت کو شامل
کیا گیا تو گروپ جی ایٹ کہلایا جائے گا ۔ واضح رہے کہ رواں برس بھارت نے
جرمنی میں منعقدہ جی سیون کے اجلاس میں مہمان ملک کی حیثیت سے شرکت کی تھی۔
دنیا کی توجہ بھارت کی سفارتی پیش رفت کی جانب مبذول ہورہی ہے ، کیونکہ
معیشت کے حوالے سے 600بلین ڈالر کا زرمبادلہ رکھنے والا ملک برطانیہ کو
پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کی پانچویں بڑی معاشی قوت قرار دیا جارہا ہے۔واضح
رہے کہ جی 20 ممالک دنیا کی جی ڈی پی کا 80 فیصد ہے، جبکہ یہ ممالک بین
الاقوامی تجارت کے 75 فیصد اور آبادی کے 60 فیصد کی نمائندگی کرتے
ہیں۔شنگھائی تعاون تنظیم کی عالمی سطح پر بڑی اہمیت ہے اور جی سیون دنیا کی
سات بڑی قوتوں کی حامل مملکتوں کی بااثر تنظیم ہے۔ سلامتی کونسل کا غیر
مستقل رکن ہونے کے باوجود چیئرمین شپ ملنا ، کئی حوالوں سے بھارت کے لیے
فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے اور اس امر سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا کہ بھارت
جی20کی صدارت ملنے کے بعد 200سے زائد میٹنگوں کے شیڈول سمیت دیگر اہم عالمی
تنظیموں میں ایف اے ٹی ایف کے پلیٹ فارم کی صدارت ملنے کے بعد، مزید منفی
رویئے اور ناپسندیدہ طرز عمل سے پاکستان مخالف سفارتی لابنگ کر تے ہوئے
مملکت کے لیے پریشانیاں پیدا کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرے گا ۔
عالمی قوتوں کا بھارت کو اہمیت دینے کی ایک بہت بڑی وجہ انسانی منڈی بھی ہے
، تاہم دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ بھارت اب بھی بہت مشکل سماجی مسائل کے ساتھ
ذات پات ، نسلی امتیاز ،مذہبی اقلیتوں کے خلاف ریاستی پالیسی، انسانی حقوق
کی بدترین خلاف ورزیوں اور ماحولیاتی آلودگی کا شکار ایسا ملک ہے جس کے
دہرے معیار پر عالمی قوتوں کی خاموشی پر سوالیہ نشان بھی ہے۔ بھارت میں
سماجی تفریق اور معاشرتی ترقی میں شہری و دیہی تفریق نمایاں ہے۔ ذات پات
اور مذہبی امتیاز کے شکار ملک میں چند برسوں سے نہیں بلکہ ہزاروں برسوں سے
دلت جیسی اچھوت کہلانے والی ذاتوں کے معیار زندگی کو دیکھا جائے تو ذات پات
کے نظام کو ختم کرنے کے بجائے ریاستی سطح پر بڑھاوا دیا جارہا ہے اور مذہبی
اقلیتوں کے لیے ویسے مواقع میسر نہیں جیسے برہمن ذات سے وابستہ ہندوئوں کو
فراہم کئے جاتے ہیں۔
بھارت میں غربت انتہا ئی سنگین مسئلہ ہے ۔ بھارت کی اقتصادی مشاورتی کونسل
(ای اے سی) کی جاری عدم مساوات رپورٹ کے مطابق ماہانہ 25 ہزار آمدنی والے
10 فیصد، جبکہ ایک ارب 30 کروڑ سے زیادہ آبادی والے بھارت میں 15 فیصد
آبادی کی ماہانہ آمدنی پانچ ہزار روپے یا 64 ڈالر سے بھی کم ہے۔ عدم
مساوات کی وجہ سے بھی پچھلے چالیس برسوں میں، غریب ترین بھارتی ریاستوں کی
اقتصادی ترقی قومی اوسط سے کم رہی ہے۔ پنجاب امیر ترین ریاستوں میں نمایاں
طور پر شمار کیا جاتاہے۔ صدی کے آغاز تک، سب سے امیر ریاست پنجاب نے غریب
ریاست بہار کو فی کس جی ڈی پی میںکئی گنا پیچھے چھوڑا اور یہ فرق آج تک
برقرار ہے۔ لیکن بھارت میں بین علاقائی فرق صرف ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے
میں نمایاں ہے،ترقی پذیر دنیا کے لیے اس طرح کا تناسب کچھ خاص نہیں ہے۔ اصل
بات یہ ہے کہ بھارت میں خود کی شناخت قومی بنیادوں پر نہیں بلکہ تہذیبی،
ذات پات اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر کی جاتی ہے۔
بھارت میں عدم مساوات اور ریاستی جانب دارانہ پالیسیوں کی وجہ سے آزادی
پسند تحریکیں پنجاب، آسام اور مقبوضہ کشمیر میں تیزی سے مضبوط ہو رہی ہیں
نیز ماحولیاتی مسائل کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جن سے مستقبل قریب
میں نمٹنا بھارت کے لیے قریباً ناممکن ہو جائے گا۔ غریبوں کے معیار زندگی
کو بہتر بنانے کی ضرورت پر غیر سنجیدگی اور متوسط طبقے کی تعداد میں تیزی
سے اضافہ بھی بھارتی ترقی کے کھوکھلے پن کو ظاہر کرتا ہے ، یہاں تک کہ میک
کینسی گلوبل انسٹی ٹیوٹ کی پیشن گوئی کے مطابق، جو بھارت کے بارے میں ان
خدشات کو بڑھاتی ہے کہ 2025 تک بڑھتی آبادی کے مسائل سے آبی وسائل،
نباتات اور حیوانات پر بوجھ بڑھنے کا باعث بن سکتے ہیں ۔ جنگی جنون میں خطے
میں ہتھیاروں کی دوڑ میں سر فہرست رہنا،سماجی میدان میںذات پات کا غیر
منصفانہ نظام بھی سماجی تناؤ میں اضافے کا باعث بنے گا۔ عالمگیریت کا عمل
اور ملک کے اندر لبرلائزیشن کی پالیسی بھی اس منفی رجحان کے فروغ میں معاون
ثابت ہو سکتی ہے۔فکری میدان میں ہزاروں کی تعداد میں مستند ماہرین کی
سالانہ بیرون ملک روانگی ، مستقبل قریب میں اعلیٰ ٹیکنالوجی کے میدان میں
بھارت کی پوزیشن کو نمایاں طور پر کمزور کرنے کا سبب بن رہی ہے، اور طویل
مدتی میں ثقافتی حرکیات میں بگاڑ کا باعث بن سکتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ،
سیاسی استحکام کی کمی اور گزشتہ بیس سالوں میں مذہبی شدت پسندی کے اضافے نے
ملکی سیاسی طرز پر یکسر نظر ثانی کے مطالبات بڑھتے نظر آرہے ہیں۔
امریکہ اور چین کے ساتھ بھارت اپنے اثر و رسوخ کے عالمی مرکز کی حیثیت کا
سب سے زیادہ امکانی دعویدار ہے، اور غالباً، دنیا کے مستقبل کے تعین میں
امریکہ اور چین کی فیصلہ کن حیثیت میں بھارت اپنے سفارتی ، تجارتی تعلقات
کو بڑی انسانی منڈی رکھنے کی وجہ سے اہم کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں
آسکتا ہے ۔روس، یورپی یونین اور جاپان کے پاس ایک نئی ہندسی شخصیت کا حصہ
بننے کا موقع ہے، لیکن یہ بڑی حد تک ان کی سیاسی مرضی اور اقتصادی ترقی کی
حرکیات پر منحصر ہوگا ۔ تاہم پاکستان مستقبل میں کہاں کھڑا ہوگا ، اس کا
انداز ہ ہم مملکت کے موجودہ سیاسی بحران ، سٹیک ہولڈرز کی ترجیحات اور دنیا
میں درپیش چیلنجز سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت سے لگا سکتے ہیں۔ پاکستان
خطے میں دنیا کے لیے اہم جغرافیائی حیثیت اور مقام رکھتا ہے ، لیکن بدترین
معاشی صورت حال اور سیاسی جماعتوںکی چپقلش اور فروعی مفادات پر قومی
ترجیحات کو فوقیت دینے کے رجحان نے ہمیں ایسے مقام پر لاکھڑا کیا ہے جس پر
غور و فکر و عمل کی ضرورت سب کے حق میں بہتر ہوگی۔
|