انتخابی عمل کا مقصد بہترین رہنما کے ہاتھوں میں ملک کی
باگ ڈور سونپنا ہوتا ہے لیکن جمہوری سیاست میں عوامی مقبولیت کی بنیاد پر
نااہل افراد اقتدار کے تخت پربراجمان ہوجاتے ہیں ۔ ایسے رہنماوں کو دودھ کا
دودھ اور پانی کا پانی کرکےان کی شہرت پر خاک ڈالنے والے میڈیا سے سب سے
بڑا خطرہ ہوتا ہے ۔ اس لیے دنیا بھر کے شاطر حکمراں اپنی مقبولت کو بڑھانے
یا برقرار رکھنے کی خاطر دھن دولت کے ذریعہ ذرائع ابلاغ کو قابو میں رکھنے
کی سعی کرتے ہیں ۔ وطن عزیز میں تو حکومت کے تلوے چاٹنے والے گودی میڈیا کی
فوج عالمِ وجود میں آگئی ہے جن کا فرضِ منصبی دن رات ’’ہرہر مودی ، گھر
گھر مودی‘ کا ورد کرنا ہے۔ یہ لوگ حکومت کی تعریف میں آسمان اور زمین کے
قلابے ملا دیتے ہیں ۔ مثلاً ایک ایسے وقت میں جبکہ نوٹ بندی کے سبب سارا
ملک کراہ رہا تھا ۔ لوگ اے ٹی ایم کی قطار میں دم توڑ رہے تھے ایک ٹیلیویژن
چینل نے یہ انکشاف کیا کہ نئی نوٹ میں ایک ایسی الکٹرونک چِپ لگی ہوئی ہے
جس سے سیٹیلائٹ کے ذریعہ اس کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جائے گی۔ اس طرح
دہشت گردی کا چندہ بالکل بند ہوجائے گا جبکہ حقیقت میں وہ نوٹ ہاتھوں میں
رنگ چھوڑنے لگی تھی۔ اس کے باوجود مشہور قوالی’’سنسار میں باجے ڈھول یہ
دنیا میری طرح ہے گول ،یہ پیسہ بولتا ہے ‘‘ کی مصداق جھوٹ کو پھیلانے کا
کام زور و شور سے جاری و ساری تھا۔
گودی میڈیا ہرروز شام کے وقت ٹیلی ویژن کے پردے پر ایک تماشا لگاتا ہے۔ اس
میں عوام کے بنیادی مسائل پر بحث و مباحثہ کرنے کے بجائے ان کی توجہ
بھٹکانے کی خاطر ہندو مسلم کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔ ہر ٹیلیویژن چینل نفرت
انگیز موضوعات پر جذباتی مباحث کا اہتمام کرکے زیادہ سے زیادہ ناظرین کو
اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ اس کے اشتہاری نرخ کا دارومدار
اس کی ٹی آر پی پر ہوتا ہے۔ یہ تو اوپر کی کمائی ہے لیکن اندر کی آمدنی
یعنی سرکاری انعام و اکرام کا سارا انحصار حکومت کی زیادہ سے زیادہ چاپلوسی
پر ہوتا ہے۔ بد قسمتی سے موجودہ نظامِ سیاست میں عوام کے ٹیکس کا پیسہ فلاح
و بہبود کے بجائے اشتہار بازی پر خرچ ہوتا ہے۔ مرکزی حکومت سے لے کر ریاستی
سرکار تک ہزاروں کروڈ روپیہ ان ٹیلی ویژن چینلس پر نچھاور کیا جاتا ہے اور
بدلے میں وہ حق نمک ادا کرتے رہتے ہیں تاکہ ان پر نظرِ عنایت کا سلسلہ جاری
رہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی چونکہ مقبولیت کے بے حد حریص ہیں اس لیے میڈیا
کو ان سے زیادہ اہمیت کوئی اور نہیں دے سکتا۔ گجرات کے مسلم کش فسادات کے
بعد ان سے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا تھا کہ کیا انہیں کسی بات کا افسوس ہے
؟ تو ان جواب تھا کہ انہیں میڈیا کا ٹھیک سے استعمال نہیں کرپانے کا ملال
ہے۔
وزیر اعظم بن جانے کے بعد انہوں نے میڈیا پر بہت خاص توجہ رکھی اور ذرائع
ابلاغ کی مہربانی سے اپنی تمام تر نااہلی کے باوجود وزیر اعظم نریندر مودی
دنیا کے مقبول ترین رہنما بن گئے ہیں۔ پچھلے دنوں مارننگ کنسلٹ پولیٹیکل
انٹیلیجنس' (ایم سی پی آئی) سروے نے اعلان کیا کہ مودی جی کو ملک کے 75
فیصدعوام کی منظوری حاصل ہے اس لیے وہ عالمی رہنماؤں میں مقبول ترین شخص
بن گئے ہیں۔ اس فہرست میں 22 عالمی رہنما شامل تھے اور ان میں 41 فیصد
ریٹنگ کے ساتھ امریکی صدر جو بائیڈن پانچویں نمبر پر تھے۔ اس طرح مودی جی
نے ہیٹ ٹرک کرلی کیونکہ جنوری 2022 اور نومبر 2021 میں بھی وہی دنیا کے
مقبول ترین رہنماؤں کی فہرست میں سرفہرست تھے۔اس ادارے نے مارننگ کنسلٹ کی
طرف سے مئی کے اندر مودی کی مقبولیت کی شرح میں 63 فیصد کی گراوٹ درج کی
گئی تھی جوکہ اگست 2019کے بعد سے کم ترین سطح تھی لیکن مئی 2020 میں مودی
کو 84 فیصد کی اپروؤل ریٹنگ حاصل ہوگئی۔ اس وقت کورونا وائرس کے سبب کروڈوں
مزدور پیدل ہزاروں کلومیٹر کا سفر کرکے اپنےگاوں جانے کے لیے مجبور ہوگئے
تھے۔ ان کو اگر مودی جی پر اعتماد ہوتا تو وہ مودی جی پر اعتماد کرکے اپنے
گھروں میں بیٹھے رہتے اورمسافت کی زحمت نہیں اٹھاتے۔ اس کے بعد مودی جی کی
مقبولیت کم ہوئی مگر پچھلے آٹھ ماہ کے اندر اس میں پھر سے چار فیصد کا
اضافہ ہوگیا۔ یہی شرح قائم رہی تو بعید نہیں کہ اس طرح کے سروے میں انہیں
اگلے انتخاب تک ان کو صد فیصد سے بھی زیادہ لوگوں کی حمایت حاصل ہوجائے۔
اس بابت دنیا کے مختلف ممالک کے لوگ کیا سوچتے ہیں اس اندازہ کرنا مشکل ہے
مگر ہندوستان کے اندربعض سیاسی مبصر اور دانشور ایسے جائزوں کو بعید از
حقیقت سیاسی کرتب بازی قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق صوبائی انتخابات میں
سیاسی مفاد کے پیش نظر اس طرح کے جائزے "اسپانسر‘‘ کرکے عوام کو بیوقوف
بنایا جاتاہے۔ملک کے اندر یہ کام انڈيا ٹو ڈے سے لیا جاتا ہے۔ میڈیا کایہ
معروف ادارہ 'موڈ آف دی نیشن' کے نام سے جو سروے کرتا ہے اس میں بھی ہمیشہ
وزیر اعظم نریندر مودی کا بول بالہ رہتا ہے۔انڈیا ٹوڈے کےجائز ے نے اس وقت
یہ تسلیم کیا تھا کہ ملک وبا کے مصائب اور اس کے زخموں سے نبرد آزما ہے،
معیشت تباہ حال ہے اور چین کے ساتھ ایک خطرناک سرحدی محاذ آرائی کا ماحول
ہونے کے ساتھ ہی کسانوں کے مسائل بھی ہیں، تاہم ان ساری وجوہات کے باوجود
مودی کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی ۔اس تضاد بیانی کے سبب معروف صحافی
اور ایڈیٹرز گلڈز آف انڈيا کے سکریٹری سنجے کپور کے نزدیک اس طرح کے سروے
کا مقصد حکمرانوں کی تعریف اور ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہوتا اور جائزہ
لینے والی ایجنسیاں نہ صرف اپنے آقاؤں کے تابع ہوتی ہیں بلکہ ان کے اشارے
پر کام کرتی ہیں۔وہ بھی اسے سیاسی مفاد کی مشق قرار دیتے ہیں۔ بی جے پی کے
قومی صدر جے پی نڈّا نے سروے کی تائید میں کہا تھا کہ یہ مودی حکومت کے
عوامی مفاد کی پالیسی کے سبب عوامی محبت کا نتیجہ ہےجبکہ ٹوئٹر پر انکیت
نامی صارف نے لکھا تھا کہ ،مارننگ کنسلٹ نے شمالی کوریا کا سروے کرنے کی
جرأت نہیں کی ورنہ کم جونگ ان اس زمرے میں سرِ فہرست ہوتے۔
اس تناظر میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر دنیا کی سب سے امیرترین سیاسی
جماعت کا مقبول ترین رہنما اپنے مخالفین کے خلاف سرکاری ایجنسیوں کا بے
دریغ استعمال کیوں کرتا ہے ؟ ایک زمانے میں کانگریس بیورو آف انوسٹی گیشن
کہلانے والی سی بی آئی کو اب پنجرے کا طوطا یا بی جے پی کے داماد کا لقب
کیوں دیا جارہا ہے؟ اس کے لیے یوپی اے اور این ڈی اے سرکاروں کا ایجنسیوں
کے استعمال کی بابت اعدادو شمار چشم کشا ہے۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ کی زیر
قیادت کانگریس کے دس سالہ دورِ اقتدار میں جملہ 72سیاستدانوں پر چھاپہ پڑا
تھا اس میں سے 43 یعنی 60 فیصد کا تعلق حزب اختلاف سے تھا ۔ اس کے برعکس
اپنے آٹھ سالہ دورِ اقتدار میں مودی سرکار نے124 اہم سیاسی شخصیات پر ہاتھ
ڈالا ان میں سے118 یعنی 95 فیصد کا تعلق مخالف جماعتوں سے تھا ۔ اس طرح
آئندہ دو سالوں میں مودی سرکاریقیناً کانگریس سے دوگنا زیادہ لوگوں پر
چھاپے مار چکی ہوگی اور بعید نہیں کہ فخر سے یہ دعویٰ کیا جائے کہ آزادی
کے بعد پہلی بار یہ کارنامہ انجام دیا گیا۔
مندرجہ ذیل اعدادو شمار کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یو
پی اے سرکار نے 4 سابق وزرائے اعلیٰ ،2 وزراء ، 13 ارکان پارلیمان ، 15
ارکان اسمبلی ، 3سابق ارکان پارلیمان اور ایک سابق رکن اسمبلی پر چھاپہ
مارا تھا ۔ اس کے مقابلے این ڈی اے نے اب تک ایک وزیر اعلیٰ ، 12سابق
وزرائے اعلیٰ ،12 وزراء ، 34 ارکان پارلیمان ، س27 ارکان اسمبلی 10 سابق
ارکان اسمبلی اور سابق ارکان پارلیمان پر ہاتھ ڈالا۔ یوپی اے جہاں 12؍
لوگوں کو گرفتار کیا تھا وہاں این ڈی اے اب تک 22؍ لوگوں کو گرفتار کرچکی
ہے۔ صرف سزا کے معاملے میں مودی سرکار پیچھے ہے یعنی وہ صرف ایک فرد کو سزا
دلوا سکی جبکہ منموہن کے زمانے میں 6 لوگوں کو سزا ہوئی تھی۔ اس سے پتہ
چلتا ہے کہ میڈیا کے سارے بلند بانگ دعووں کے باوجود موجودہ حکومت کے اندر
عدم تحفظ کا احساس بہت زیادہ ہے۔ پاپولر فرنٹ پر مارے جانے والے چھاپوں کا
اس زاویہ سے بھی جائزہ لینا ضروری ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جنگل میں چیتوں
کو چھوڑنے والی یہ سرکار اقتدار کے معاملے میں ان ہرنوں سے بھی زیادہ کمزور
اور بزدل ہے جنھیں چیتوں کی خوراک کے طور پر جنگل میں لاکر چھوڑا گیا۔ اس
لیے جس دن یہ کاغذی شیر اقتدار سے محروم ہوں گے ایک دم سے بھیگی بلی بن
جائیں گے۔
|