کراچی! آخر مسئلہ کیا ہے؟

ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ ہم سچ جانتے ہوئے بھی مصلحت کا شکار رہتے ہیں اور نجانے کس خوف سے اس کا اظہار نہیں کر پاتے۔مسئلہ کیا ہے یہ سب جانتے ہیں لیکن مسئلے کا حل کیا ہے یہ ذرا ٹیڑھی کھیر ہے۔وہ یوں کہ ہر پارٹی اپنی مرضی کا حل چاہتی ہے لیکن انصاف پہ مبنی حل کی کسی کو خواہش نہیں اس لئے کہ اس سے ان کے مفادات پہ زد پڑتی ہے۔جو ماسٹر مائنڈ ہیں ان کا تو نقصان بھی کوئی نہیں کہ مرنا تو ہر حال میں غریب ہی نے ہے۔اس کا تعلق خواہ کسی بھی پارٹی سے ہو۔آج اگر الطاف بھائی کا کوئی بھانجا بھتیجا،شاہی سید کا کوئی چاچا ماما،زرداری یا عبداللہ شاہ کا کوئی اپنا اس قضیئے میں جان سے جائے تو دیکھیں کیسے چار دن میں امن ہوتا ہے۔مر چونکہ ساجھے ماجھے اور گامے رہے ہیں اور ان ساجھوں ماجھوں اور گاموں کو اللہ نے انہیں اقتدار کی بھٹیوں کا ایندھن بنانے کے لئے پیدا کیا ہے اس لئے ان کی موت پہ ان کے لواحقین بھی پوری طرح نہیں روتے بس ایک آدھ دن رو پیٹ کے دوبارہ کسی دوسری میت کا انتظار شروع کر دیتے ہیں۔دوسری طرف یہ ناحق خون مخالف پہ پریشر بڑھانے کے کام آتا ہے۔

کچھ ماہ پہلے جب کراچی میں مسائل پیدا ہوئے تو میں نے انہی کالموں میں ایم کیو ایم کے ایک فاشسٹ تنظیم بننے کی وجوہات لکھتے ہوئے عرض کیا تھا"ہندوستان سے ہجرت کر کر پاکستان آنے والے یہ لوگ منکسر المزاج،تہذیب یافتہ اور انتہائی پیار کرنے والے تھے۔انہوں نے اپنی اولادوں کو بھی یہی سبق پڑھانے کی کوشش کی۔لیکن یہاں کا عمومی مزاج وہ نہیں تھا جس سے وہ ٹوٹ کے یہاں پہنچے تھے۔ان کی اولادوں نے جب دیکھا کہ یہاں لکھنو کی تہذیب اور دلی کا رومانس نہیں چلنے والا تو انہوں نے اپنے آپ کو اسی رنگ میں رنگ لیا جو یہاں کا مقامی رنگ تھا۔سندھ میں بات لاتھی اور سوٹے سے ہوتی تھی۔یہ چونکہ مقامی آبادی سے زیادہ ذہین اور پڑھے لکھے لوگ تھے اس لئے انہوں نے ٹیکنالوجی سے بھی فائدہ اٹھایا اور یوں مقامی و غیر مقامی سب انہی کا دم بھرنے لگے۔یہ سیدھا سادا "جس کی لا ٹھی اس کی بھینس والا معاملہ تھا۔کچھ عرصہ تو یہ سلسلہ چلتا رہا۔پہلے امیر المومنین اللہ انہیں غارت کرے ان کے زیر سایہ انہیں شہہ ملی رہی پھر امیر الشیاطین تشریف لائے تو ان کو بھی اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے یہی منظربھاتا تھا اس لئے انہوں نے بھی اس جماعت پہ اپنی کرم نوازیاں جاری رکھیں۔یوں ہر طرف انہی کا طوطی بولتا رہا۔

اس کے بعد استاز الاساتذہ جناب زرداری صاسحب تشریف لائے تو ان کی کایاں طبیعت نے بھانپ لیا کہ ان کے بغیر کراچی میں قدم رکھنا مشکل ہوگا اس لئے انہوں نے بھی انہیں ساتھ ملائے رکھنا ضروری سمجھا۔ساتھ ہی انہوں نے کچھ ذوالفقار مرزے بھی چھوڑ دیئے کہ یہ لوگ آپے سے باہر نہ ہو جائیں۔یہ چھپن چھپائی چلتی رہی تا آنکہ فیصلے کی گھڑی آپہنچی۔جہاں آصف زرداری صاحب نے کراچی کو اس کے قابضین سے ،جو اب کراچی کے کراچی والوں سے بھی زیادہ مالک ہیں،واگذار کروانا چاہا تو پتہ چلا کہ یہ تو لوہے کے چنے ہیں ۔زرداری صاحب کو لگ پتہ گیا کہ ان کو چھیڑنا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے۔لیکن وہ زرداری جو پاکستان کی مروجہ رذیل سیاست میں حقیقتاََ سب پہ بھاری ہے۔اگر پیپلز پارٹی کے پرانے جیالے مجھے معاف کر دیں تو میں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں سمجھتا کہ بھٹو اور دختر بھٹو تو میرے ممدوح کے پاسنگ بھی نہیں تھے۔وہ بھلا کہاں رکنے والے تھے۔وہ زرداری جس نے نواز شریف سے لے کے چوہدری شجاعت اور مولٰنا فضل الرحمٰن سے لے کے اسفند یار ولی تک سب کی سیاست کو ٹکے توکری کر دیا تھا کہاں رکنے والے تھے انہوں نے اپنی کوششیں جاری رکھیں اور کبھی خوشی کبھی غم کا راگ آلاپتے اپنے قدم آگے بڑھاتے رہے۔ایم کیو ایم کی طرح انہوں نے بھی بھتے کی پرچیاں بانٹنا شروع کیں۔علاقوں میں اپنے پنجے گاڑنا شروع کئے۔جس کا لازمی طور پہ ایم کیو ایم نے برا منایا۔

جہاں یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ہائیڈ اینڈ سیک کا کھیل کھیل رہے تھے وہیں ایک تیسرا فریق بھی جسے ان دونوں نے شروع کی بندر بانٹ میں دسترخوان پہ تو بٹھا لیا تھا لیکن اسے حصہ دینے کی طرف کسی کا دھیان نہ تھا و ہ بھی اپنے دانت نکوس رہا تھا۔ جس طرح کبھی اردو بولنے والوں کو ایم کیو ایم نے سائبان دیا تھا اسی طرح ملک کے شمال مغربی حصوں سے ہجرت کر کے کراچی پہنچنے والے پٹھان بھی اے این پی کو جائے اماں سمجھ کے اس کے جھنڈے تلے آاکھٹے ہوئے تھے۔مہاجر جب آئے تھے تو سندھیوں سے زیادہ پڑھے لکھے تھے اور پٹھان جب آئے تو اپنے کلچر کے حساب سے مہاجروں سے بھی زیادہ وحشی تھے۔قتل و غارت ایم کیو ایک کی گھٹی میں تو نہ تھی انہوں نے تو اسے مجبوراََ گلے لگایا تھا لیکن پٹھان تو اسلحے کو اپنا زیور کہتا اور قتل و غار ت گری کو اپنی شان سمجھتا ہے اس لئے حصہ نہ ملنے پہ انہوں نے اپنی مہارت کا استعمال شروع کیااور کشتوں کے پشتے لگا دئیے۔تب کہیں جا کے کراچی کی بندر بانٹ میں مصروف پہلے دونوں فریقوں کو خیال آیا کہ ایک شکاری تو ہم دسترخوان پہ بھی بٹھا آئے ہیں۔یہ فریق تو اپنے اپنے حصے ہی پہ راضی نہ تھے تیسرے کو کہاں سے دیتے اس پہ جھگڑا بڑھ گیا اور اس کے نتیجے میں اب کراچی میں سروں کے مینار تعمیر ہو رہے ہیں۔روز لاشے اٹھتے ہیں۔زرداری صاحب کی سیاست کامیاب ہے ۔الطاف بھائی کی گدی کی رونقیں بھی قائم ہیں اور شاہی سید کی شاہی کی بھی آجکل بڑی دھوم ہے۔

رہ گئے عوام تو وہ کالانعام یعنی جانور ہوتے ہیں۔جانور کی زندگی کی معراج ہی یہی ہے کہ وہ اپنے آقا کی مرضی و منشاءکو مقدم جان کر اپنا سب کچھ اس کے حضور لٹا دے سو یہ جانور یہ کام کئیے جا رہے ہیں اور جب تک آخری بے وقوف بھی موجود ہے یہ بوریاں یونہی کھلتی سلتی اور بند ہوتی رہیں گی۔کراچی میں قتل و غارت صرف اسی صورت رک سکتی ہے اگر ان تین متحارب درندوں کا اپنے اپنے حصے پہ اتفاق ہو جائے یا پھر وہی شروع کی بات کہ الطاف کا بھائی، زرداری کا بیٹا یا شاہی سید کا کوئی چاچا ماما کسی اندھی یا آنکھ والی گولی کا نشانہ بن جائے۔
Qalandar Awan
About the Author: Qalandar Awan Read More Articles by Qalandar Awan: 63 Articles with 59127 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.