ہمارے پیارے نبی محمد صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم پورے عالم کے محسن ہیں کہ جن
کے ذریعے سے دین ہم تک پہنچا اور ہم نے ربّ کو پہچانا۔ آپ ؐ کے ذریعے سے
ہمیں نیکی و بدی، اچھائی اور برائی ، گناہ اور ثواب کا فرق معلوم ہوا۔ آپؐ
کے ذریعے سے ہی ہمیں جینے کا سلیقہ اور شعور اور آخروی زندگی کی وعید ملی۔
آپ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم سردار الانبیاء ، امام الانبیاء اور خاتم
المرسلین ہیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے مقام کی عظمت و رفعت کا کیا
ٹھکانہ ، جہاں باری تعالیٰ کا نام آتاہے ، وہیں آپ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ و سلم
کا نام مبارک آتاہے ۔ کلمہ طیبہ آپؐ کے شرف کی دلیل ، کلمہ شہادت آپؐ کی
صداقت کاثبوت ہے ۔ اﷲ ربّ العزت نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ایسا بنایا کہ
نہ اس سے پہلے ایسا کوئی بنایا ہے نہ بعد میں کوئی بنائے گا۔ سب سے اعلیٰ،
سب سے اجمل، سب سے افضل، سب سے اکمل، سب سے ارفع، سب سے انور، سب سے آعلم،
سب سے احسب، سب سے انسب، تمام کلمات مل کر بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان
کو بیان کرنے سے قاصر ہیں،اگر سارے جہاں کے جن و انس ملکر بھی حضرت محمد
صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی شان اقدس اور سیرت طیبہ کے بارے میں لکھنا شروع
کریں تو زندگیاں ختم ہو جائیں مگر رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی شان
کا کوئی ایک باب بھی مکمل نہیں ہو سکے گا۔
کیونکہ اﷲ ربّ العزت نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے ’’اے محبوب صلی اﷲ
علیہ وآلہٖ وسلم ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کر دیا ہے۔جس ہستی کا ذکر مولائے
کائنات بلند کرے،جس ہستی پر اﷲ تعالیٰ کی ذات درودوسلام بھیجے، جس ہستی کا
ذکر اﷲ رحمن و رحیم ساری آسمانی کتابوں میں کرے، جس ہستی کا، چلنا ،پھرنا
،اٹھنا، بیٹھنا،سونا، جاگنا،کروٹ بدلنا، کھانا، پینا مومنین کیلئے باعث
نجات، باعث شفاء، باعث رحمت ،باعث ثواب،باعث حکمت، باعث دانائی ہو، اور اﷲ
ربّ العزت کی ذات نے آپ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات کبریا کو مومنین
کیلئے باعث شفاعت بنا دیا ہو، اس ہستی کا مقام اﷲ اور اﷲ کا نبی صلی اﷲ
علیہ وآلہٖ وسلم ہی جانتے ہیں۔ پھر اس ہستی کے متعلق سب کچھ لکھنا انسانوں
اور جنوں کے بس کی بات نہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے نبی کریم محمد صلی اﷲ علیہ وآلہٖ
وسلم کو بے شمار خصوصیات عطافرمائی ہیں جن کو لکھنا تو در کنارسارے جہان کے
آدمی اور جن ملکر گن بھی نہیں سکتے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات اقدس الفاظ
اور ان کی تعبیرات سے بہت بلند وبالا تر ہے۔ آپ کا ئنات کا مجموعہ حسن ہیں،
آپ کا قد نہ زیادہ لمبا تھا نہ پست ، ماتھا کشادہ تھا، سر بہت خوبصورتی کے
ساتھ بڑا تھا، آپ کے بال نیم گھنگریالے تھے، آپ کی بھوئیں گول خوبصورت تھیں
جہاں وہ ملتی ہیں وہاں بال نہ تھے وہاں ایک رگ تھی جو کہ غصے میں پھڑکتی
تھی، آنکھ مبارک کے بارے میں ہے کہ آپ کی آنکھیں لمبی، خوبصورت، سرخ ڈوروں
سے مزین تھیں، موٹی اور سیاہ، سفیدی انتہائی سفید، آپ کی پلکیں بڑی دراز،
آپ کی ناک مبارک آگے سے تھوڑا اٹھا ہوااور نتھنوں سے باریک ، ایک نور کا
ہالہ تھا جو ناک پر چھایا رہتا تھا ، آپ کے ہونٹ انتہائی خوبصورت تراشیدہ،
تھوڑے دہانے کی چوڑائی کے ساتھ ، دانت بڑے خوبصورت اور متوازی اور ان میں
کسی قسم کی کوئی بے ربطگی نہ تھی، انتہائی باہم مربوط، پہلے چار دانتوں میں
خلا تھا، جب آپ مسکراتے تو دانتوں سے نور نکلتا ہوا سامنے پڑتا تھا، گال
مبارک نہ پچکے ہوئے نہ ابھرئے ہوئے ، چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح
چمکتا ہوا گول تھا، داڑھی مبارک گھنی تھی۔
علامہ قرطبی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے حضرت محمد
صلی اﷲ علیہ وسلم کے حسن و جمال میں سے بہت تھوڑا ساظاہر فرمایا اگر سارا
ظاہر فرماتے تو آنکھیں اس کو برداشت نہ کرسکتیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا
سارا حسن ظاہر کیا لیکن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے حسن کی چند جھلکیاں
دکھائی گئیں اور باقی سب مستور رہیں، کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو اس جمال کی
تاب لا سکتی، اس لئے ہم وہی کچھ کہتے ہیں جو صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم
اجمعین نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو دیکھ کر ہم تک پہنچایا۔ براء بن عازب رضی
اﷲ عنہ کی اس بات کو حضرت حسان بن ثابت رضی اﷲ عنہ شاعر رسول اﷲ نے ان
الفاظ میں بیان کیا’’ آپ جیسا حسین میری آنکھ نے نہیں دیکھا ، آپ جیسے جمال
والا کسی ماں نے نہیں جنا ، آپ ہر عیب سے پاک پیدا ہوئے ، آپ ایسے پیدا
ہوئے جیسے آپ نے خود اپنے آپ کو چاہا ہو‘‘۔ غرضیکہ آپ کے اسوہ حسنہ پر عمل
پیرا ہو کر ہی ہم دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ دعا ہے کہ اﷲ
تعالیٰ ہمارے دلوں میں سب سے زیادہ رحمت اللعالمین حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و
سلم کی محبت پیدا فرمائے آمین۔
|