اصل مضمون سے قبل ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے۔رسول
اللہ ﷺ نے مختلف قبائل اور علاقوں میں سرایا اور چھاپے بھیجنے کا آغاز
فرمایا، ان کی نوعیت اکثر باقاعدہ جنگ کی نہ ہوتی تھی، اس کو ہم کسی قدر
طاقت آزمائی یا جھڑپ اور چھاپے سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ [رحمۃ للعالمین]
اعداے اسلام کا یہ واویلا کہ پیغمبرِ اسلام نے تلوار کےزور سے لوگوں کو
داخلِ اسلام کیا، ایک ایسا واضح اور بدیہی جھوٹ ہے، جو محتاجِ تردید نہیں۔
اگر ان لوگوں میں شمہ برابر عقل و شعور اور رائی برابر انصاف و دیانت ہو،
تو سوچیں کہ حضورِ اکرم ﷺ نے جب دنیا کے سامنے دعوتِ اسلام پیش کی تو آپ ﷺ
یک و تنہا تھے، کوئی آپﷺکا یار و مددگار نہ تھا، اپنے پرائے سب دشمن تھے۔
کئی سال تک آپ ﷺ خفیہ طریقے سے لوگوں کو دعوت دیتے رہے اور اس طویل عرصے
میں چند گنتی کے افراد مسلمان ہوئے۔ تیرہ سالہ مکی دور میں تو آپ ﷺ نے
تلوار اٹھائی ہی نہیں۔ ان حالات میں یہ پروپگینڈہ کہ آپﷺ نے جبراً لوگوں
کو مسلمان بنایا، کوئی علمی دلیل ہے یا علم واخلاق کا دیوالیاپن؟ اگر کہا
جائے کہ آپﷺ کے جاں نثاردوستوں نے یہ کام کیا، تو سوال یہ ہے کہ ان جابرین
پر کس نے جبر کیا تھا؟ اُنھیں کس طاقت نے آپ ﷺ کا جاں نثار بنایا؟ ان تمام
باتوں سے قطعِ نظر اگر انصاف کی نگاہ سے دیکھا جائے تو جبراً کسی کو مسلمان
بنانا ممکن ہی نہیں، اس لیے کہ جبر و جور سے تو زیادہ سے زیادہ کسی کو
زبانی کلمہ ہی پڑھایا جا سکتا ہے، اس کے دل و دماغ میں تو اسلام کی حقیقت
نہیں اتاری جا سکتی۔ اگر کوئی شخص ظاہراً کلمہ پڑھ لے، مگر باطن میں کفریہ
عقائد چھپائے بیٹھا ہو تو یہ مسلمان نہیں، بلکہ عام کفار سے بھی بد تر کافر
منافق ہے، تو ان مخالفین کے بہ قول گویا آپ ﷺ نے عام کفار کو جبراً منافق
بنایا، جو دشمنی میں عام کفار سے بھی دو گام آگے تھے۔ الغرض! مستشرقین کا
یہ پروپگینڈہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا، غور کیا جائے تو یہ آپ اپنی تردید کے
مترادف ہے۔[احسن الفتاویٰ]
ہجرت کے بعد تقریباً کُل زمانہ آپ کا مغازی و سرایا کی تہذیب و ترتیب میں
صَرف ہوا، اس واسطے یہ آپ ﷺکی سیرت کا بہت ہی مہتم بالشان حصہ ہے، اور
تمام مغازی کے وجوہ و اسباب اور تفصیل و نتیجہ اسلامی تاریخ میں پورا پورا
محفوظ ہے، لیکن چوں کہ یہ خود ایک وسیع مضمون ہے، لہٰذا یہاں اختصار سے کام
لیا جا رہا ہے۔
جہاد اور قتال کی اجازت
جہاد کی اجازت دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: {اُذِنَ لِلَّذِيْنَ
يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰي نَصْرِهِمْ
لَقَدِيْرُ}جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے، اُنھیں اجازت دی جاتی ہے ( کہ وہ
اپنے دفاع میں لڑیں) کیوں کہ ان پر ظلم کیا گیا ہے اور یقین رکھو کہ اللہ
ان کو فتح دلانے پر پوری طرح قادر ہے۔[الحج] ایک موقع پر فرمایا:
{وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ ۙ لَّفَسَدَتِ
الْاَرْضُ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ}اگر اللہ
لوگوں کا ایک دوسرے کے ذریعے دفاع نہ کرے تو زمین میں فساد پھیل جائے، لیکن
اللہ تمام جہانوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے۔ [البقرۃ]مکہ مکرمہ میں
مسلمانوں پر کفار کے مظالم کا یہ حال تھا کہ کوئی دن خالی نہ جاتا کہ کوئی
مسلمان ان کے دستِ ستم سے زخمی اور چوٹ کھایا ہوا نہ آتا ہو۔ قیامِ مکہ کے
آخری دور میں مسلمانوں کی تعداد بھی خاصی ہوچکی تھی، وہ کفار کے ظلم و جور
کی شکایت اور ان کے مقابلے میں قتل و قتال کی اجازت مانگتے تھے، رسول اللہ
ﷺ جواب میں فرماتے کہ صبر کرو مجھے ابھی تک قتال کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہ
سلسلہ دس سال تک اسی طرح جاری رہا۔جس وقت رسولِ کریم ﷺوطنِ مکہ چھوڑنے اور
ہجرت کرنے پر مجبور کردیےگئے اور صدیقِ اکبر آپ کے رفیق تھے، تو مکہ مکرمہ
سے نکلتے وقت آپ کی زبان سے نکلا اخرجوا نبیھم لیھلکن یعنی ان لوگوں نے
اپنے نبی کو نکالا ہے، اب ان کی ہلاکت کا وقت آ گیا ہے۔ اس پر مدینہ طیبہ
پہنچنے کے بعد مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی (جس میں مسلمانوں کو کفار سے
قتال کی اجازت دے دی گئی) ۔اور ابن عباس نے فرمایا کہ یہ پہلی آیت ہے جو
قتالِ کفار کے معاملے میں نازل ہوئی، جب کہ اس سے پہلے ستر سے زیادہ آیتوں
میں قتال کو ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ [معارف القرآن]
غزوات و سرایا
جہاد کا حکم نازل ہوا اورآپ ﷺنے جہاد و قتال شروع فرمایا اور اطراف و
جوانب میں لشکر روانہ فرمائے، جس جہاد میں آپ نے بہ نفسِ نفیس شرکت
فرمائی، علماے سیر کی اصطلاح میں اس کو غزوہ کہتے ہیں اور جس میں آپ شریک
نہیں ہوئے اس کو سریہ اور بعث کہتے ہیں۔[سیرۃ المصطفیٰ] بخاری شریف میں ہے
کہ ابواسحاق زید بن ارقمؓکے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے ان سے دریافت
کیا: رسول اللہ ﷺنے کتنے غزوات کیے ہیں ؟ انھوں نے جواب دیا: انیس۔ پھر
پوچھا گیا :آپ نے کتنی مرتبہ رسول اللہ ﷺ کے ہم راہ غزوات میں شرکت کی ہے؟
انھوں نے جواب دیا: سترہ میں۔ ابواسحاق کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: سب سے
پہلے کون سا غزوہ واقع ہوا تھا ؟انھوں نے فرمایا: عسیرہ یا عشیرہ۔ شعبہ
کہتے ہیں کہ میں نے یہی بات قتادہ سے دریافت کی تو انھوں نے جواب دیا:
عشیرہ۔ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، كُنْتُ إِلَى جَنْبِ زَيْدِ بْنِ
أَرْقَمَ فَقِيلَ لَهُ: كَمْ غَزَا النَّبِيُّ ﷺ مِنْ غَزْوَةٍ؟
قَالَ: تِسْعَ عَشْرَةَ، قِيلَ: كَمْ غَزَوْتَ أَنْتَ مَعَهُ ؟
قَالَ: سَبْعَ عَشْرَةَ، قُلْتُ: فَأَيُّهُمْ كَانَتْ
أَوَّلَ؟ قَالَ: الْعُسَيْرَةُ أَوْ الْعُشَيْرُ، فَذَكَرْتُ
لِقَتَادَةَ، فَقَالَ: الْعُشَيْرُ. [بخاری]
موسیٰ بن عقبہ، محمد بن اسحاق، واقدی، ابن سعد، ابن جوزی، دمیاطی عراقی نے
غزوات کی تعداد ستائیس بتائی ہے اور سعید بن مسیب سے چوبیس اور جابر بن عبد
اللہ سے اکیس اور زید بن ارقم سے انیس کی تعداد مروی ہے۔ علامہ سہیلی
فرماتے ہیں: وجہ اختلاف کی یہ ہے کہ بعض علما نے چند غزوات کو قریب قریب
اور ایک سفر میں ہونے کی وجہ سے ایک غزوہ شمار کیا، اس لیے ان کے نزدیک
غزوات کی تعداد کم رہی اور ممکن ہے کہ بعض غزوات کا علم نہ ہوا ہو۔ علیٰ
ہٰذا سرایا کی تعداد میں بھی اختلاف ہے، ابن سعد سے چالیس اور ابن عبد البر
سے پینتیس اور محمد بن اسحاق سے اڑتیس اور واقدی سے اڑتالیس اور ابن جوزی
سے چھپن کی تعداد منقول ہے۔[سیرۃ المصطفیٰ]
[مضمون نگار دارالافتا، نالاسوپارہ، ممبئی کے مفتی ہیں]
|