کلرسیداں میں اس وقت وارداتوں کے نرغے میں گھر چکا ہے
پولیس سو گئی ہے لیکن چوروں ڈاکووں مکمل طور پر جاگ رہے ہیں چوریوںِ
ڈکیتیوں کی وارداتوں میں ہر آئے دن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے شاہ باغ سے لے
کر کھڈ بناہل تک کوئی بھی ہر شہری اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھ رہا ہے پچھلے
دو تین ماہ سے کوئی روز ایسا نہیں دیکھا جس دن کے اخبار میں کسی چوری یا
ڈکیتی کی واردات کی خبر پڑھنے کو نہ ملی ہوایسا محسوس ہو رہا ہے کہ پولیس
اور چور ڈاکو ایک دوسرے کے دوست بن چکے ہیں اردات کرنا اب بہت آسان ہو چکا
ہے بہت کم واداتیں ایسی ہیں جن کے ملزمان قانون کی گرفت میں آئے ہوں واردات
کرنے والے بڑے آرام سے ایک طرف ہو جاتے ہیں جبکہ مدعی پارٹی اگلے دس سالوں
تک تھانوں کے چکر کاٹنے پر مجبور ہو جاتے ہیں پولیس تعاون نہیں کرتی ملزمان
پکڑے نہیں جاتے ہیں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مدعی تھک ہار کر ہاتھ کھڑے کر
دیتے ہیں جس وجہ سے وارداتی پھر بچ نکلتے ہیں پولیس اب صرف معمولی درخواست
بازی ، بند کمرے میں تاش پر جواء کھیلنے والوں اور پتنگ فروشوں تک محدود ہو
چکی ہے بڑی وارداتیں ان کی دسترس سے نکل چکی ہیں افسران کی کھلی کچہریاں
صرف روٹین کی کاروائی بن چکی ہیں جو سائلین تھانوں میں دھکے کھا رہے ہوتے
ہیں وہی کھلی کچہریوں میں بھی رلتے دکھائی دیتے ہیں محکمہ پولیس کو اب بہت
زیادہ سہولیات دستیاب ہو چکی ہیں پولیس افسران اعلی تعلیم یافتہ بھرتی ہو
رہے ہیں تفتیش کیلیئے بھی جدید ٹیکنالوجی متعارف ہو چکی ہے اس کے باوجود
مجرم پکڑے نہ جانا ان کا کیفر کردار تک نہ پہنچنا پولیس ڈیپارٹمنٹ کی
کارکدگی پر سوالیہ نشان ہیں پولیس عام غریب بندے کیلیئے اب بھی خوف کی
علامت ہے لیکن جرائم پیشہ افراد کیلیئے نرم رویہ رکھتی ہے کلرسیداں جرائم
پیشہ افراد کیلیئے بہترین محفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے کلرسیداں تھانے میں
تعینات اے ایس آئیز یا ایس آئیز جب شہر میں پھر رہے ہوتے ہیں تو ان کی ٹور
ٹار دیکھ کر ان سے خوف محسوس ہوتا ہے اور خاص طور پر اگر کوئی پولیس والا
کسی ہوٹل میں بیٹھا ہو تو اس ہوٹل میں بیٹھے ہوئے دیگر افراد کی پولیس والے
کو دیکھ کر بھوک ہی مر جاتی ہے جس سے صاف طاہر ہوتا ہے کہ پولیس کا خوف اب
بھی موجود ہے لیکن ہماری پولیس اپنے فرائض کو پہچاننے سے اس جدید دور میں
بھی قاصر ہے اگر وہ اپنے فرائض کو دیانتداری کے ساتھ انجام دینے کی کوشش
کریں تو واردات تو بہت دور کی بات جرائم پیشہ افراد اس علاقے میں بھی نظر
نہ آئیں لیکن افسوس جب ان کے کارنامے اخبارات کی زینت بنتے ہیں تو ان کو
پڑھ کر دلی دکھ ہوتا ہے ہماری پولیس کس طرف جا رہی ہے پیشہ وارانہ تربیت کے
ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت بھی بہت ضروری ہوتی ہے پولیس کے اعلی حکام کو اس
طرف بھی دھیان ہو گا کہ وہ کم از کم مہینے میں ایک مرتبہ ہر تھانے کے
افسران و اہلکاران کو اخلاقی و معاشرتی تربیت کا بھی اہتمام کریں ان کو
احساس دلائیں کہ ان کی زمہ داریاں یہ ہیں لیکن وہ جا کس طرف رہے ہیں اس سے
بہت سی بہتری لائی جا سکتی ہے نو تعینات ایس ایچ او قمر سلطان اپنی طرف سے
تو بہت کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ کامیاب ہوتے نظر نہیں دکھائی دے رہے ہیں
شروع میں انہوں نے کچھ دعوے کیے لیکن اب ان میں روایتی سستی قابض ہو چکی ہے
اور وہ ٹھنڈے پڑ گے ہیں شاید وہ یہ بات محسوس کر چکے ہیں کہ زیادہ تیزی
نہیں دکھانی چاہیے اگر کسی بھی تھانے کا ایس ایچ او یہ تہیہ کر لے کہ جرائم
پیشہ افراد کو نکیل ڈالنی ہے تو کوئی بھی اس کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن
سکتا ہے اﷲ پاک اس کے راستوں سے تمام رکاوٹیں ہٹا دیں گے اس کو دلیر بنا
دیں گے ہمارے تھانے کے ایس ایچ او قمر سلطان بھی اگر ایسے کرنے کی ٹھان لیں
تو کلرسیداں کے عوام ،میڈیا ان کے دست و بازو بن جائیں گے امید کی جاتی ہے
کہ پولیس تھانہ کلرسیداں جرائم پیشہ افراد کو قانون کے شکنجے میں لانے
کیلیئے اپنا کردار ضرور ادا کریں گے |