جمال خاشقجی قتل معاملہ میں سعودی ولی عہد و وزیر اعظم محمد بن سلمان کے استثنیٰ کیلئے امریکی عدالت میں درخواست

شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اپنے ایک فرمان کے ذریعہ گذشتہ ہفتہ سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کو وزیراعظم مقرر کیا ہے۔ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز وزیر اعظم مقرر کئے جانے کے بعد انہیں دنیا کے مختلف ممالک کے سربراہوں کی جانب سے تہنیتی پیامات کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا اور اب ایک اہم کیس کے سلسلہ میں انکا نام پھر صحافت کی سرخیوں میں ابھرکر سامنے آرہا ہے۔ واضح رہے کہ سن 2018ء میں ولیعہد محمد بن سلمان کی ساکھ اُس وقت بُری طرح متاثر ہوئی تھی جب ترکی کے شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں ممتاز سعودی صحافی جمال خاشقجی کا بے رحمانہ قتل کردیا گیا تھا اور انکی باقیات بھی نہیں ملی تھی۔جمال خاشقجی کے قتل کی رپورٹس جب منظر عام پر آئی تو سننے والوں کے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے اور دل و دماغ میں ایک خوف سا محسوس ہونے لگا تھا ، کیونکہ ذرائع ابلاغ کے ذریعہ جو خبریں منظر عام پر آئیں تھیں اور انکے قتل میں جو اذیت ناک طریقہ استعمال کیا گیا اسے سننے کے بعد روح کانپ اٹھی تھی۔ اس اذیت ناک قتل میں جہاں 20سے زائد اہم عہدوں پر فائز یا خاص سعودی شہریوں کا نام منظر عام پر آیا تھا ۔ امریکی انٹیلی جنس کا خیال ہیکہ شہزادہ محمد بن سلمان نے ہی ان کے قتل کا حکم دیا تھایعنی اس اندوہناک قتل کی منظوری ولیعہد نے خود دی تھی۔2018میں جمال خاشقجی کو قتل کئے جانے کے بعد امریکی خفیہ اداروں کی رپورٹس کے بعد جمال خاشقجی کی منگیتر خدیجہ چنگیزی اور خاشقجی کے قائم کردہ انسانی حقوق کے گروپ نے مشترکہ طور پر امریکی عدالت میں مقدمہ دائر کیا تھا اور سعودی ولیعہدمحمد بن سلمان کے خلاف غیر معینہ ہرجانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ شہزادہ محمد بن سلمان کے وکلاء نے امریکی عدالت کو بتایا کہ اب جبکہ ولیعہد شہزادہ محمد سلمان کو وزیر اعظم مقرر کردیا گیا ہے اس لئے صحافی جمال خاشقجی قتل کیس میں انہیں استثنیٰ حاصل ہے۔ 3؍ اکٹوبر 2022کو محمد بن سلمان کے وکلاء نے اپنی دلیل میں کہا ہیکہ حال ہی سعودی عرب نے جو شاہی حکم نامہ جاری کیا ہے اس کی بنیاد پر اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عہدے اور حیثیت کی بنیاد پر ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان استثنیٰ کے حقدار ہیں۔بتایاجاتا ہیکہ محمد بن سلمان کے وکلاء نے عدالت سے مقدمہ کو خارج کرنے کی درخواست کرنے والی اپنی عرضی میں ایسے دوسرے معاملات کا حوالہ بھی دیا ہے جہاں امریکہ نے غیر ملکی سربراہ مملکت کے لئے استثنیٰ کو تسلیم کیاہے۔ عدالت نے سماعت کے امریکی محکمہ انصاف سے کہا کہ اس بارے میں وہ اپنی رائے کا اظہار کرے کہ آیا شہزادہ محمد بن سلمان کو استثنیٰ حاصل ہے نہیں۔اب دیکھنا ہے کہ امریکی عدالت ولیعہد و وزیر اعظم محمد بن سلمان کو صحافی جمال خاشقجی مقدمہ میں استثنیٰ دیتی ہے یا نہیں اگر امریکی عدالت انہیں مقدمہ میں استثنیٰ قرار دے دیتی ہے تو اسکے بعد جمال خاشقجی کی منگیتر اور انکا ساتھ دینے والے خاموشی اختیار کرلیتے ہیں یا پھر اعلیٰ عدلیہ سے رجوع ہوکر انصاف کیلئے ڈٹے رہتے ہیں۔ویسے ولیعہد محمد بن سلمان انکے والد و فرمانروأ مملکت سعودی عربیہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے اس دورِ حکمرانی ہی میں عملاً عالمی سطح پر سعودی عرب کے ایک مضبوط حکمراں کے طور پر دیکھے جارہے ہیں لہذا ہوسکتا ہیکہ عنقریب امریکی عدالت میں ان کے حق میں فیصلہ آجائے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ امریکی خفیہ اداروں کی معلومات کتنی مصدقہ ہوتی ہیں اس پر بھروسا نہیں کیا جاسکتا کیونکہ عراق میں صدام حسین کو دی گئی پھانسی کے بعد جو حقیقت دنیا کے سامنے آئی اس سے امریکی خفیہ ایجنسی کی پول کھول کر رکھ دی ۔اسکے باوجود امریکہ کے خلاف یا خفیہ ایجنسی کے ان عہدیداروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور اس اہم ترین عراق کی تباہی و بربادی اور صدام حسین کی شہادت کے معاملے کو کچرے دان میں ڈال دیا گیا۔اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہیکہ امریکی خفیہ ایجنسی پر بھی مکمل طور پر بھروسا نہیں کیا جاسکتا۔ویسے آج اسلامی ممالک میں امیر و غریب ، حکمراں و عوام کے درمیان امتیازبرتا جاتا ہے جس کی کئی مثالیں منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔ اسلامی نظامِ شریعت جو خلفائے راشدین یا بعض بادشاہوں کے دور میں نافذ تھا ، جس میں خلیفۂ وقت، امیر یا بادشاۂ وقت بھی قاضی کی عدالت حاضری کیلئے بلاوا آتا تو فوراً حاضر ہوکر ان پر لگائے گئے الزامات کو سن کر اپنا مدعا پیش کرتے اور پھر قاضی ٔ وقت جو فیصلہ صادر فرماتے اسے قبول کرلیتے ۰۰۰ کاش آج بھی ایسے ہی حکمراں دنیا میں ہوتے !

الحمد ﷲ نئے عمرہ سیزن میں تاحال 12لاکھ سے زائد عمرہ زائرین کی حجاز مقدس حاضری
الحمد ﷲ ! کورونا وبا کے خاتمہ کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں کوراحت ملی ہے ۰۰۰ گذشتہ دو سال کے عرصہ میں لاکھوں عازمین حج و عمرہ ادھورے خواب لیے حج و عمرہ سے محروم کردیئے گئے تھے۔ اﷲ کی مرضی و منشاء کیا تھا یہ وہی بہتر جانتا ہے۔الحمد ﷲ 6؍ اکٹوبر کی ایک رپورٹ کے مطابق اس سال نئے عمرہ سیزن میں بحری اور فضائی راستوں سے 4 اکتوبر 2022 تک تقریباً 12 لاکھ سے زیادہ عمرہ زائرین سعودی عرب پہنچ چکے ہیں۔سب سے زیادہ 3 لاکھ 17 ہزار200 انڈونیشیا سے آئے ہیں۔ پاکستان سے ایک لاکھ 95 ہزار 224، انڈیا سے ایک لاکھ 33 ہزار 517 اور عراق 86 ہزار 803 عمرہ زائرین مملکت آئے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابقسعودی وزارت حج و عمرہ نے تمام عمرہ کمپنیوں و اداروں سے کہا ہے کہ ’وہ تمام زائرین کو معیاری خدمات فراہم کریں۔ ان کے سفر کو آسان اور آرام دہ بنائیں۔‘ نئے عمرہ سیزن میں اب تک فضائی راستے سے 8 لاکھ 80 ہزار 929، بری راستوں سے 89 ہزار561 اور بحری راستے سے297 عمرہ زائر حجاز مقدسپہنچے ہیں۔ وزارت حج و عمرہ نے پھر عمرہ کمپنیوں اور اداروں سے کہا ہے کہ ’وہ مسجد نبوی ﷺ’ ریاض الجنہ‘ میں نماز اور حاضری کے پرمٹ جاری کرائیں۔ گروپوں کی شکل میں عمرہ زائرین کو مسجد الحرام پہنچائیں۔ مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران زائرین جتنی بار عمرہ کرناچاہیں انہیں پرمٹ جاری کرنے کی سہولت فراہم کریں۔‘اسی طرح مسجد نبوی ﷺ ’ریاض الجنہ میں خواتین کیلئے نماز اور زیارت روضۂ رسول پر حاضری کیلئے نئے شیڈول کا اعلان کیا گیا ہے۔اُردو نیوز کے مطابق مسجد نبوی کی انتظامیہ نے کہا ہے کہ ’زائر خواتین صبح 6 سے 11 بجے تک اور رات ساڑھے نو سے 12بجے تک ریاض الجنہ میں نماز ادا کرسکتی ہیں۔‘انتظامیہ نے بیان میں کہا کہ ’جمعے کو زیارت کا وقت الگ ہوگا۔ خواتین صبح چھ سے نو بجے اور پھر رات ساڑھے نو سے 12بجے تک ریاض الجنہ میں نماز اور زیارت کرسکیں گی۔

سعودی وزیر حج و عمرہ ڈاکٹرتوفیق الربیعہ دو روزہ دورے کے موقع پر اتوار2؍ اکٹوبر کو تاشقند میں ازبکستان کے صدر شوکت مرزایوف سے ملاقات کی ہے۔دونوں ممالک کے درمیان حج و عمرہ سمیت متعدد شعبوں میں باہمی تعاون کے متعدد معاہدے ہوئے ہیں۔ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیر حج نے اس موقع پر کہا کہ ’’نسک پلیٹ فارم کے ذریعہ آن لائن عمرہ و زیارت ویزوں کا اجراء آسان بنادیا گیا ہے۔ اب باآسانی اور تیزی سے عمرہ ویزے جاری کرانا ممکن ہوگیا ہے۔ انہو ں نے کہا کہ پہلے عمرہ ویزے کا دورانیہ ایک ماہ ہوا کرتا تھا اب دنیا کے کسی بھی ملک سے آنے والے عمرہ زائرین کو تین ماہ تک مملکت میں قیام کی سہولت دی گئی ہے۔

شیخ احمد نواف الصباح نئے کویتی وزیر اعظم مقرر
امیر کویت شیخ نواف الاحمد الصباح نے5؍ اکٹوبر چہارشنبہ کو شیخ احمد نواف الاحمد الصباح کو وزیراعظم مقرر کرکے نئی کابینہ کی تشکیل کا فرمان جاری کیا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق نئے کویتی وزیراعظم شیخ احمد نواف الاحمد الجابر الصباح 1956ء میں پیدا ہوئے ، وہ امیر کویت کے سب سے بڑے فرزند ہیں۔ انہو ں اسکول سے یونیورسٹی تک کی تمام تعلیم کویت میں حاصل کی ۔کویت یونیوسٹی سے بی کام ہیں۔ شیخ احمد نواف عسکری خدمات انجام دے چکے ہیں ۔بتایا جاتا ہیکہ وہ وزارت داخلہ میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔انہوں نے 9؍ مارچ 2022تک وزیر اعظم کے نائب اول اور وزیر داخلہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیئے اس سے قبل نیشنل گارڈز کے نائب سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔ان کے علاوہ امیر کویت نے دیگر وزارتوں پر تقررات عمل میں لائے ہیں۔

ایران میں احتجاجیوں سے سختی کے ساتھ نمٹنے کا حکم
آخر کار ایران کی عدلیہ نے 17سالہ ایرانی لڑکی نیکا شاکرمی کی ہلاکت کی تحقیقات شروع کردی ہے ۔بتایا جاتا ہیکہ نیکا شاکرمی مبینہ طور پر ایران میں جاری مظاہروں کے باعث ہلاک کردی گئی۔بتایا جاتا ہیکہ نیکا شاکرمی 20؍ستمبر کو تہران میں احتجاج کرنے کے بعد دس دن تک لاپتہ ہوگئی تھی۔ بی بی سی ذرائع ابلاغ کے مطابق نیکا کی خالہ نے بتایاکہ ایک دوست کو اپنے آخری پیغام میں اس نے کہا تھا کہ سیکیورٹی فورسز اس کا پیچھا کررے ہیں۔ اور پھر آخر کار نیکا کے اہل خانہ کو اس کی لاش دارالحکومت کے ایک حراستی مرکز کے مردہ خانے میں ملی۔نیکا کے اہل خانہ نے اتوار 2؍ اکٹوبر کوجبکہ اس دن اس کی 17ویں سالگرہ تھی اس کے والد کے آبائی شہر خرم آباد میں منتقل کیا ۔لیکن سیکیوریٹی فورسز نے نیکا کی لاش خرم آباد سے ’’چوری ‘‘ کرکے اسے ویسیاں گاؤں میں دفن کردیا ۔ واضح رہے کہ 16؍ ستمبر کو پولیس حراست میں خاتون مہسا امینی کی ہلاکت سے شروع ہونے والے احتجاج کا سلسلہ بڑھتا ہی جا رہا ہے جبکہ پرتشدد واقعات میں اب تک کم و بیش 100افراد بشمول سیکیوریٹی اہلکار ہلاک ہوچکے ہیں۔ایران کے دارالحکومت تہران کی شریف یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں بھی 3؍ اکٹوبر کو طلبہ اور پولیس کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئی ہیں جس میں متعدد افراد کو گرفتار کرنے کی خبریں ہیں۔ایران کے سپریم لیڈر آیت اﷲ علی خامنہ ای نے اس بڑھتے ہوئے احتجاج کے سلسلہ میں کہا ہے کہ اس کے پیچھے امریکہ اور اسرائیل کا ہاتھ ہے۔ انہو ں نے پولیس پر زور دیا ہیکہ وہ ’’مجرموں کے سامنے ڈٹ کرکھڑے ہوں‘‘۔ ایران کی حکومت ان احتجاجیوں کے خلاف سخت کارروائی کررہی ہے جس کے بعد باعث ہلاکتو ں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ یہ سلسلہ مزید کیا نوعیت اختیار کرتا ہے۰۰۰

روس اور یوکرین کی جنگ بندی ضروری ۰۰۰ رجب طیب اردغان
روس اور یوکرین کی جنگ سے عالمی سطح پر سنگین صورتحال پیدا ہورہی ہے اور نہیں معلوم کب جنگ کب تک جاری رہے گی اور اس کی وجہ سے دنیا کن خطرناک حالات سے دورچار ہوگی۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے77ویں سیشن کے موقع پر ترکیہ کے صدر رجب طیب اردغان نے دنیا کو درپیش مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے روس اور یوکرین جنگ کی صورتحال پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان جتنا جلد ممکن ہوسکے حل تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے اپنے خطابمیں کہا کہ وبائی مرض کورونا وائرس سے لڑتے ہوئے دنیا نے بین الاقوامی یکجہتی کی اہمیت کو سمجھا ہے ۔ اردغان نے کہاکہ ترکیہ نے 161ممالک اور 12بین الاقوامی تنظیموں کو بغیر کسی امتیاز کے باوجود مدد فراہم کی اوردنیا اس وقت اسی طرح کی مدد کی ضرورت درکار تھی۔صدر ترکیہ نے کہا کہ دنیا کی معیشت جو وبائی مرض کے باعث بہت برے طریقے سے متاثر ہوئی تھی اس پر روس یوکرین جنگ کے بہت خطرناک اثرات مرتب ہوئے ہیں۔دنیا اس وقت متعدد خطرات سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے اور ان مشکل حالات میں اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے77 ویں سیشن کا مقرر کردہ تھیم بالکل آجکل کے اس مشکل دور کی عکاسی کرتا ہے۔صدر ترکیہ نے کہا کہ روس اور یوکرین کے درمیان سات ماہ سے جاری جنگ کے حل کیلئے ضروری ہے کہ ایک درمیانی راستہ فوری طور پر نکالا جائے جس سے دونوں ممالک کے وقار قائم رہیں۔ایک ساتھ مل کر، ہمیں ایک معقول سفارتی حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے جو دونوں فریقوں کو بحران سے نکلنے کا باوقار راستہ فراہم کرے۔انہوں نے کہا کہ پائیدار امن کی بنیاد یوکرین کی علاقائی سالمیت کے تحفظ پر ہونی چاہیے۔ترکیہ جلد روس اور یوکرین جنگ کے خاتمے اور دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کی کوششوں میں تیزی لائیں گے اور اس بات کا بھی خاص خیال رکھیں گے کہ یوکرین کی علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی نہ ہو۔ صدر نے تمام ممالک سے تعاون کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ میں بین الاقوامی تنظیموں اور تمام ممالک کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ ترکیہ کی کوششوں کی مخلصانہ حمایت کریں۔دنیا آج سمیٹ کر ایک گاؤں کی طرح ہوگئی ہے اس کے باوجود عالمی سطح پر نظر ڈالیں تو اس بات کا اندازہ ہوتا ہیکہ کروڑوں لوگ بھوک و پیاس سے دم توڑرہے ہیں یا انکی زندگیاں موت و زیست سے دوچار ہے۔ اس سلسلہ میں صدر ترک کا کہنا تھاکہ ’’ اس بات کا جواب دینا کافی مشکل ہے کہ دنیا کا پانچواں حصہ آج بھی بھوک اور افلاس کا شکار کیوں ہے‘‘۔ انسانیت کو درپیش اس بھیانک تصویر پر امید کی روشنی ڈالنے کا واحد راستہ،ایک منصفانہ نقطہ نظر اور بین الاقوامی تعاون اور یکجہتی کو مضبوط کرنا ہے۔اردغان نے اپنے خطاب کے موقع پر کہا کہ ہم ایک ایسے دور میں شامل ہوچکے ہیں جہاں ہمیں دنیا کو پیش چیلنجز کا مل کر سامنا کرنا ہوگا۔ رجب طیب اردغان نے جس طرح عالمی سطح پر سب کو مل جل کر دنیا کے تمام مسائل و مصائب کو حل کرنے کی طرف توجہ دلائی اسے عالمی سنجیدگی سے لیا جائے تو دنیا میں امن و سلامتی کی بحالی ممکن ہوسکتی ہے لیکن کیا ایسا ممکن ہے ؟ سوال پیداہوتا ہیکہ کیا عالمی سطح پر سوپرپاور طاقتیں غریب و متوسط سطح کے ممالک کو خوشحال زندگی فراہم کرنا چاہتی ہیں؟ کیونکہ انہیں اپنی معیشت کو مستحکم بنائے رکھنے کے لئے اپنے ہتھیاروں کی کروڑوں ڈالرس کے عوض ترسیل ضروری ہے اور اسکے لئے ایک دوسرے ممالک کے درمیان جنگیں جاری رکھنا اور آپس میں اندرونی و بیرونی اختلافات کو فروغ دینا ان ممالک کے لئے ضروری ہے ۰۰۰
*****
 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 210232 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.