بھٹو ریفرنس

پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دینے کی بات گزشتہ 32برس سے کی جا رہی ہے ۔ اس عرصے میں بھٹو کی بیٹی دو مرتبہ ملک کی وزیراعظم رہیں لیکن عدالت عظمیٰ سے نظرثانی کی اپیل کی گئی نہ ہی اس کیس کو ری اوپن کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی ۔حیرانی کی بات ہے اب جب کہ پیپلز پارٹی کی حکومت بحران سے دوچار ہے ،خود آصف علی زرداری صدار تی استثنا کی بنیاد پر گرفتاری سے بچے ہوئے ہیں تو پیپلز پارٹی کو ذوالفقار علی بھٹو کیس کی یاد ستانے لگی ہے۔حیرت کی بات ہے زرداری حکومت کے تین برس کے عرصے میںبے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو نہ تلاش کیا جا سکا۔ وہ خاتون کہ جس کی قربانی کی بنا پراس کا شوہرآج برسر اقتدار ہے، اس کے قتل کی سازش بے نقاب کرنے کی کسی کو پروا نہیں،حالانکہ ملک کا صدر خود کہتا ہے کہ ”میںقاتلوں کو جانتا ہوں“۔ سپریم کورٹ میں جو ریفرنس دائر کیا گیا ہے اس میں اسلامی تعلیمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ احتساب سے کوئی بالا تر نہیں، مگر ریفرنس پیش کرنے والا خوداستثنا کے پردے میں چھپ کر عدالتوں کا سامنا کرنے سے گریزاں ہے۔حقیقت یہ ہے پیپلز پارٹی نے مذکورہ ریفرنس بھیج کر خود اپنے پاﺅں پر کلہاڑی ماری ہے۔ریفرنس بھیجنے والے دانستہ یا نادانستہ ایک ٹریپ میں پھنس گئے ہیں۔اب ایک بار پھر راز ہائے درونِ پردہ کی گرہیں کھلیں گی۔وہ سارے مظلوم مقتول اپنے خون آلود چہروں کے ساتھ عدالت عظمیٰ کا دامن تھامے فریاد کرتے نظر آئیں گے جن کی داد رسی آج تک نہیں ہو سکی تھی۔دلائی کیمپ کی باتیں ہوں گی، نواب محمد احمد خان کا تذکرہ آئے گا۔ریفرنس دائر ہونے کے بعدمقتول نواب محمد احمد خان کے بیٹے بیرسٹر احمد رضا قصوری نے کہا ہے کہ” میں اُمید رکھتا ہوں ہوں کہ سپریم کورٹ انصاف کے تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے مجھے مدعو کرے گی ؛کیونکہ ایک پارٹی ذوالفقارعلی بھٹو ہے تو دوسری مقتول پارٹی ہے جس کا میں بیٹا ہوں۔میرے والد پر حملہ درحقیقت مجھ پر حملہ تھا لیکن اتفاقاً میرے والد اُس کی زد میں آئے۔اس سے قبل مجھ پر 18 حملے ہو چکے تھے، جس کا تمام ریکارڈ سپریم کورٹ میں پہنچ چکا ہے۔ میرا بھٹو سے ذاتی معاملہ نہیں تھا، اُن کے ہاتھ سے پیپلزپارٹی کا سب سے بڑا ایوارڈ نشان پیپلزپارٹی وصول کیاتھا۔ بھٹو نے اقتدار کی لیلیٰ حاصل کرنے کے لیے ملک کوتقسیم کرادیا“۔

زرداری کے والد بھٹو کے پرانے مخالفین میں سے تھے۔کیا زرداری نے ریفرنس دائر کر کے مردہ بھٹو سے اپنے باپ کا بدلہ لیا ہے،تاکہ بھٹو کے وہ گناہ ایک بار پھر سامنے آئیںجن کو مخلوق بھلا چکی ہے؟اب ایف یس ایف کی بات ہو گی ،الذوالفقار کا ذکر ہو گا،طیارے کے اغوا کا معاملہ اچھالا جائے گا اور بقول کسے ملک ٹوٹنے کے واقعے کی دوبارہ تحقیقات کا مطالبہ بھی ہو سکتا ہے۔ ان کرداروں کو بے نقاب کرنے کی بات بھی ہو سکتی ہے جو سقوط ڈھاکہ کے ذمے دار تھے، پھر حمودالرحمن کمیشن کی سفارشات کا جائزہ لینے کی بھی بات بھی ضرورہو گی ۔ مشرقی پاکستان گیا ،حمود الرحمن کمیشن رپورٹ آئی،مگر ذمہ داروں نے قوم کو اس کی ہوا تک نہ لگنے دی۔بے نظیر بھٹو نے اسی لیے ریفرنس پیش نہیں کیا تھاکہ وہ سمجھتی تھیں یہ لاحاصل ہے، اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو گا ،بلکہ اس سے بھٹو کے لیے منفی تاثر ابھرے گا۔ خواجہ رفیق، ڈاکٹر نذیراحمد ،مولانا شمس الدین اور چودھری محمد اقبال کے قتل کے معاملات بھی اس ریفرنس کے حوالے سے زیر بحث آئیں گے۔ یہ سوال بہر حال جواب طلب ہو گا کہ ایف ایس ایف کے عملے کو نواب محمد احمد کو مارنے کا حکم کس نے دیا اورانہیں مارنے کی کیا وجہ تھی۔ اگر یہ کیس اُٹھایا گیا ہے تو ہماری قومی ذمہ داری ہوگی کہ آرٹیکل 6 کے اطلاق کے لیے جہاں ہم یحییٰ خان کو مجرم ٹھہرائیں،بھٹو پر بھی اُن کے حصے کی ذمے داری ڈالی جائے۔

بھٹو بہت بڑے جاگیردار سر شاہ نواز بھٹو کے بیٹے تھے۔ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں بڑی جاگیر اور سر کا خطاب ۔ تاریخ کا یہ اٹل فیصلہ ہے کہ جاگیریں آ قاؤں کی بڑی خدمات کے صلے ہی میں ملتی ہیں۔ ویسے ہی کون جاگیریں دان کرتا ہے۔بھٹو نے ابتدائی تعلیم بمبئی میں حاصل کی جہاں ان کی بڑی جائیداد اور کوٹھیاں تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1952ءمیں آکسفورڈ یونیورسٹی سے اصول قانون میں ماسٹر کی ڈگری لی۔ اسی سال مڈل ٹمپل لندن سے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا ۔وہ پہلے ایشیائی تھے جنھیں انگلستان کی ایک یونیورسٹی ساؤتھ مپٹن میں بین الاقوامی قانون کا استاد مقرر کیا گیا۔ مزید تعلیم کے لیے امریکہ چلے گئے،1958ءمیںبرکلے یونیورسٹی کیلی فورنیا سے سیاسیات میں گریجویشن کی۔یہ بھی معلوم ہونا ضروری ہے کہ وہ کون بدنصیب شخص تھا جس نے ذہین وفطین بھٹو کو مشورہ دیاتھاکہ یورپ اور امریکا میںروشن مستقبل چھوڑ کر پاکستان جاکر ایک بدنام آمرایوب کی کابینہ میں شامل ہو جائیں ۔1958ءمیں جنرل ایوب خان کی کابینہ میں وزیر تجارت بنے ، 1960ءمیں ان کو اقلیتی امور ، قومی تعمیر نو اور اطلاعات کا قلم دان سونپا گیا ، 1962 میں وزیر صنعت و قدرتی وسائل اور امور کشمیر بنائے گئے۔جون 1963ءمیں وزیر خارجہ بنے، یہ منصب ان کے پاس جون1966ءتک رہا۔اس طرح ایوب خان کے دور میں انہوں نے آٹھ برس ِ اقتدار کے مزے لیے،اس عرصے میں ان کاایوب سے کبھی اختلاف نہیں ہوا، ورنہ اس طرح ایک وزارت سے دوسری وزارت کی سیڑھیاں نہ چڑھتے رہتے۔ان کے بارے میںیہ کہنا بھی درست نہیں کہ آمریت سے نفرت کی وجہ سے وزارت کو لات ماری ،یہ صحیح نہیں انہیں آمریت سے کبھی نفرت نہیں ہوئی۔انہوں نے تو مارشل لا ایڈمنسٹریٹرکی گود میں آنکھ کھولی اوراسے محبت اورعقیدت سے ڈیڈی کہہ کر پکارا۔

ایوب دور میں بھٹو کے بارے میں یہ سوال بھی اٹھا کہ ان کی شہریت تو بھارتی ہے، پاکستان کے وزیر کیسے ہو سکتے ہیں؟ بڑی لے دے ہوئی ۔ بھٹو صاحب بھارتی شہریت پر اڑے رہے اورتین سال تک مقدمہ بھی لڑتے رہے۔ آخر کار ناکام ہو کر انہیں پاکستانی شہریت پر اکتفا کرنا پڑا۔ایوب دور کے تمام آمرانہ معرکوں میں بھٹو ایک معاون کے طور پرشریک و سہیم نظر آتے ہیں۔ حتیٰ کہ1964 ءمیں اپوزیشن نے فاطمہ جناح کو ایوب کے خلاف الیکشن میں کھڑا کر دیا توایوب خان کی طرف سے بھٹو پر جوش سپورٹر تھے۔اس موقعے پر سید مودودیؒ نے یہ تاریخی فقرہ کہا تھا ”محترمہ فاطمہ جناح میں صرف ایک کمی ہے کہ وہ عورت ہیں اور ایوب خان میں صرف ایک خوبی ہے کہ وہ مردہیں“۔بھٹونے بھی اپنی ساری صلاحیتوں کے ساتھ مردآہن کا ساتھ دیا، وزیر خزانہ شعیب اور الطاف گوہر کی طرح نہ جانے کتنے ہی تنخواہ دار بھٹو کے معاون مقرر تھے ،نتیجے کے طور پرحکومتی مشینری جیت گئی اوراپوزیشن ہار گئی۔اس وقت کی بھٹو کی تقریروں کا ریکارڈ یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہو گا کہ بھٹوایوب خان کوتمام خوبیوں کا مرقع خیال کرتے تھے اور قائد اعظم کی بہن ان کے خیال میںسراپا عیب اور برائی تھیں۔ ایوب خان تو ان کے منہ بو لے ڈیڈی بھی تھے ،اس حوالے سے یہاں ایک جملہ معترضہ درج کرنا بھی مناسب ہو گا۔(مسلم لیگ حکومت کے دور میںقومی اسمبلی میں بجٹ بحث کے دوران پی پی پی کے ارکان سابق صدر ایوب خان پر تنقید کر رہے تھے۔ نکتہ اعتراض پر جواب دیتے ہوئے حکومتی رکن اور گوہر ایوب خان کی اہلیہ زیب گوہر ایوب خان نے کہا ”ذوالفقارعلی بھٹو ایوب خان کو ڈیڈی کہہ کر پکارتے تھے، ایوب خان گوہر ایوب کے ڈیڈی تھے ،اس لحاظ سے بھٹو صاحب میرے جیٹھ ہوئے۔ یہ ا س بات کا خیال کیا کریں“)۔

1965ءکی جنگ میں بھٹو ایوب خان کے احمقانہ فیصلوں کے پرجوش حامی نظر آتے ہیں،بلکہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ کرانے میں بھی بھٹوکا بنیادی کردار تھا،لیکن اس جنگ کے خاتمے پر ہم دیکھتے ہیں کہ مغرب بھٹو کو نئے گھوڑے کے طور پر آگے لا رہا ہے۔امریکا جانتا تھاکہ ایوب سے جو کام لیا جا سکتا تھا۔لیا جا چکا ہے،اب وہ ایک چلا ہوا کارتوس تھا۔ بڈبیر سے اڑایا گیا امریکی جاسوس طیارہ U-2روس نے مار گرایا۔روس نے ایوب خان کو دھمکی دی کہ ہم نے پشاور کے گرد سرخ دائرہ لگا دیا ہے۔1965ءکی پاک بھارت جنگ میں امریکا نے پاکستان کی مدد کے بجائے سپیئر پارٹس سے لدا جہاز نہر سویز میں رکوا دیا ۔ایوب خان اپنی اس تذلیل پر دکھی تھا۔اس نے بڈبیر والا امریکی اڈا بند کروا دیا۔ اس کے بعد بھٹو کو آگے بڑھانے کی کوششیں اور تیز ہو گئیں۔اس موقعے پر صدر جانسن نے بھٹو کو آگے بڑھنے کا موقع فراہم کیااور ایوب خان سے کہا کہ وہ بھٹو کو وزارت سے فارغ کر دے۔ ایوب نے جانسن کو مایوس نہ کیا اور بھٹو کو سیاست میں کامیاب ترین آغاز کا موقع مل گیا۔تب بھٹو کو معلوم نہ تھاکہ ان کے سر پر عوامی مقبولیت کا تاج رکھا جانے والا ہے ،وہ تووزارت سے نکالے جانے کے ناگہانی حادثے کے لیے تیار ہی نہ تھے، ایوب نے ان کو وزارت سے فارغ کیا تولاہور ریلوے اسٹیشن پر دوستوں کے سامنے رو پڑے۔اور کہا”ڈیڈی کوکہیں کہ مجھے وزارت میں واپس لے لیں“۔

سیاسی کیریر کا آغاز کرتے ہوئے بھٹو کی خواہش تھی کہ عوامی نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کی جائے۔ مگر اے این پی اس کے لیے راضی نہ ہوئی۔ چنانچہ بھٹو نے تیس نومبر1967ءکو لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی قائم کر دی اوراسلام ہمارا مذہب، سوشلزم ہماری معیشت، جمہوریت ہماری سیاست اور طاقت کا سرچشمہ عوام کو منشور بنایا اورروٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا ۔ سوشلزم سے لوگ الرجک تھے۔ تنقید ہوئی تو جمہور کی خوش نودی کی خاطر سوشلزم اسلامی ہو گیا۔ بھٹو صاحب بڑے جذباتی اور شعلہ بیان مقرر تھے۔ وہ جوش میں آ کر کہتے کہ یہ میری نہیں آپ کی پارٹی ہے،تو لوگ جھوم اٹھتے ۔روٹی کپڑا اور مکان سب سے بڑا جھوٹ تھا،مگرلوگوں کو اکٹھا کرنے کا یہ سب سے کامیاب نعرہ تھااور بھٹو لوگوں کو اکٹھا کرنے کا فن خوب جانتے تھے۔ان کی شہرت چند ہفتوں کے اندر اندرسارے ملک میں جنگل کی آ گ کی طرح پھیل گئی ۔وہ ہر جلسے میں اعلان کرتے تھے کہ میں بتاؤں گا تاشقند میں کیا ہواتھا۔ مگر تاشقند کی بلی کبھی تھیلے سے باہر نہ آئی۔تاہم ایوب خان کے خلاف عوامی نفرت بڑھتی ہی چلی گئی، یہاں تک کہ ” ایوب کتا ہائے ہائے “ عوام کا پسندیدہ نعرہ بن گیا۔یہی نفرت بھٹو کی اصل طاقت تھی۔ایک دن ایوب خان اپنے لان میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ننھے منھے بچوں کا ایک چھوٹا سا جلوس گزرا جو ”ایوب کتا ہائے ہائے“ کے نعرے لگا رہا تھا۔ یہ بچے ایوب کے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں تھے۔ اس دن بوڑھا آمر اندر سے ٹوٹ گیا۔مگرپھربھی اقتدار کی منتقلی کے لیے اسے فوج کے عیش پرست جرنیل یحیٰٰ خان کے سوا کوئی اورموزوں شخص نظر نہ آیا۔

26 مارچ 1969ءکو ایوب خان نے استعفا دے کراور ملک پر دوسرا فوجی راج مسلط کر کے جان چھڑا لی ۔جنرل یحیٰ نے منصفانہ انتخابات کروائے ۔ انتخابات اتنے منصفانہ تھے کہ ان سے ملک نصفا نصف دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ مشرقی حصے میں مجیب کی عوامی لیگ نے جھاڑو پھیر دیا ،تو مغربی حصے میں پیپلز پارٹی کے نامزد کھمبے تک ایم این اے اور ایم پی اے بن گئے ۔بھٹو صاحب نے مجیب سے کہا ”اِدھر ہم اُدھر تم “ یعنی دو اسمبلیاں‘ دو وزیر اعظم بنا لیتے ہیں۔مجیب نے انکار کیا۔ڈھاکہ میں اسمبلی کے اجلاس کی تاریخ رکھ دی گئی۔ بھٹو نے موچی دروازے والے جلسے میں اعلان کر دیا کہ ڈھاکہ اجلاس میں شرکت کے لیے جانے والے ایک طرف کا ٹکٹ لے کر جائیں۔ واپس آئے تو ہم ان کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔پاکستان کو متحد رکھنے کی آخری امید بھی ڈوب گئی۔قومی اسمبلی کا اجلاس بھٹو نے نہ ہونے دیا۔عوامی لیگ نے بغاوت اور خانہ جنگی شروع کر دی۔فوج نے بغاوت کچلنے کے لیے آپریشن کا فیصلہ کر دیا۔ اس ہلاکت خیز فیصلے کو بھٹو کی حمایت حاصل تھی۔فوجی آپریشن کے فیصلہ ہونے کے بعدبھٹو صاحب کراچی ائرپورٹ پر جہاز سے اترتے ہوئے انتہائی خوش نظر آ رہے تھے۔انہوں نے کہا:”خدا کا شکر ہے ملک بچا لیا گیا۔“ اپنی یادداشتوں میں ایوب خان نے سانحہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے لکھا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو اور یحییٰ خان ملک توڑنے پر اتفاق کر چکے تھے۔کاش کوئی ایوب کو بتانے والا ہوتا کہ جناب یہ دونوں تو آپ ہی کی باقیات ہیں۔

بھارت نے مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کی آڑ میں فوج داخل کر دی ۔ پاکستان کے مشرقی اور مغربی حصے کا آپس میں رابطہ ٹوٹ گیا۔ پاکستان کی قریب ایک لاکھ فوج مشرقی پاکستان میں پھنس گئی۔ صورت حال گھمبیر ہو گئی،تواقوام متحدہ کا اجلاس بلایا گیا۔ یحیٰ خان نے بھٹو کو نائب وزیر خارجہ کی حیثیت سے اجلاس میں شرکت کے لیے بھیجا۔ وہاں روس کی شہ پر پولینڈ نے جنگ بندی اور سیاسی تصفیے کی قرار دار پیش کی،قراردادمنظور ہو جاتی تو ملک ٹوٹنے سے بچ جاتا۔ بھٹو صاحب نے قرار داد پھاڑ کر پھینک دی اور ”ہم ہزار سال تک جنگ لڑیں گے“کہتے ہوئے اجلاس سے باہر نکل گئے۔ دو دن بعد ہی جنرل نیازی نے نوے ہزار فوج کے ساتھ بھارتی جنرل اروڑا سنگھ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ۔کچھ دنوں بعدبھٹو نے مجیب الرحمان کو مغربی پاکستان سے فرار کروا دیا۔ اس کے بعد بھٹوسویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن کر ملک کے سیاہ وسفید کے مالک بن گئے۔آدھے پاکستان کا صدر بنتے ہی بھٹو نے” بنگلہ دیش تسلیم کرو“مہم چلائی ۔اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد کا ڈرامہ رچایا اور اس آڑ میں بنگلہ دیش کو تسلیم کرا لیا۔

زیادہ سے زیادہ اختیارات پر قبضہ کی ہوس بھٹو کی سب سے بڑی کمزوری تھی۔1973ءکے آئین سے پہلے ایک مرحلے پر یہ الجھن پیش آئی کہ بھٹو صدر بنیں یا وزیر اعظم ؟کیونکہ صدر۔صدر ہوتا ہے اور وزیر چاہے وزیر اعظم ہو۔ ہوتا وزیر ہی ہے۔ اس کا حل بھی آسانی سے ڈھونڈ لیا گیا ۔آئین بنتے ہی فوراً اس میں ترامیم کر کے صدر کو” فضل الٰہی“ بنا دیا گیا۔دیواروں پرچاکنگ کی جانے لگی:”صدر فضل الٰہی کو رہا کرو“ بے چارے صدر کا یہ حال تھا ایک دن آفس میں بے کار بیٹھے بیٹھے بہت دیر ہو گئی اور صدر صاحب تنگ آ گئے ،تو اٹھے اور بھٹو کے پی اے کے پاس آئے اور کہا ” یار بہت دیر ہو گئی اوربڑے صاحب کا پتہ نہیں “ وہ بات کاٹ کر بولا بھٹو صاحب تو دیر ہوئی چلے گئے،آپ بھی جائیں۔ صدر صاحب نے پریشان ہو کر کہا:” سچی ؟ یار کہیں مروا نہ دینا۔“ بھٹو صاحب کی ہمیشہ خواہش رہی کہ ان کے ماتحت ان کے اشاروں پر ناچا کریں۔ اس سلسلے میں بعض اوقات مضحکہ خیز صورت حال بھی پیش آئی۔مثلاًوہ پینٹ پہننے کے بہت شوقین تھے ۔تو انہوں نے وزراءاور پارلیمنٹ کے اراکین کو بھی خاص ڈیزائین کی پینٹ پہنا دی۔ اس پینٹ کے دونوں طرف رنگ دار پٹیاں بنی ہوئی تھیں۔تاکہ پارلیمنٹ کے ارکان عام لوگوں سے منفرد نظرآئیں، کسی ستم ظریف نے فقرہ کس مارا” واہ کیا خوب بینڈ گروپ ہے“۔ بھٹو صاحب نے شرمندہ ہو کر یہ حکم واپس لے لیا۔

بھٹو صاحب کی وڈیرہ مزاجی سے گجرات کے ایک زمیندارایم این اے بھی متاثر ہوئے ۔ یہ صاحب ہمیشہ سے تہمد باندھنے کے عادی تھے اورانہیں چادر کا پلو چٹکی میں پکڑے رہنے کی بھی عادت تھی ۔یہ عاد ت پینٹ پہننے کے بعد بھی جاری رہی۔دوستوں کے مشورے سے اپنے پی اے کی ڈیوٹی لگا دی کہ” جب میں پینٹ کو چادر سمجھ کر پکڑ وں تو آہستہ سے میرا ہاتھ ہٹا دیا کرو“۔

بھٹو صاحب جن دنوں بنگلہ دیش تسلیم کروانے کی مہم میں سرگرم تھے،اکثر کہا کرتے تھے۔ ”تاریخ بتائے گی کہ ملک کس نے تڑوایا ہے۔ “تو جماعت اسلامی کے ڈیرہ غازی خان سے منتخب ایم این اے ڈاکٹر نذیر نے فیصل آباد کے ایک جلسے میں تقریر کرتے ہوئے کہا ” بھٹو صاحب تاریخ بعد میں بتائے گی۔ میں آج بتاتا ہوں ۔ملک تم نے تڑوایا ۔ تم نے “ اور بھٹو نے پنجاب کے گورنر کھر کو حکم دیا کہ اس کی زبان بند کر دی جائے۔ موٹر سائیکل پر دو آدمی آئے کلینک پر بیٹھے، ڈاکٹر نذیر کو شہید کر کے فرار ہونے لگے ۔لوگوں نے پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا۔ پولیس نے انہیں چھوڑ دیا۔ پھر پکڑا پولیس نے پھر چھوڑ دیا اور آج تک ان قاتلوں کے خلاف مقدمہ تک درج نہ ہوسکا۔گورنرکھر نے بھٹو کی شہ پر بے شمار” کھر مستیاں“ کیں جو تاریخ کے ریکارڈ میں درج ہیں۔ کھر آج بھی فخریہ انداز میں کہتا ہے کہ بھٹو میرا استاد ہے ۔خواجہ رفیق ایک جلسے کے بعد تانگے میں بیٹھے اپنے گھر جا رہے تھے۔ انار کلی کے چوک میں کھر کے پالتو کتوں نے انہیں تانگے سے نیچے گھسیٹ لیا اور چاقوچھریوں کے وار کر کے شہید کرڈالا ۔ پھر ان کی خون میں لتھڑی تڑپتی لاش پر بھنگڑا ڈالتے ہوئے ۔” ہے جمالو “ گایا گیا۔ جو اس دور میں پیپلز پارٹی کا پسندیدہ ”ترانہ“ تھا۔اب سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر ہوا تو خواجہ رفیق شہید کے بیٹے خواجہ سعد رفیق کے پرانے زخم ہرے ہوگئے ۔انہوں نے کہا:”میں وکیل ہوں نہ جج لیکن بھٹو کے دورِ اقتدارکے ایک خون کا دعویٰ خواجہ رفیق شہید کا بھی ہے، میں اُس وقت اِس قابل نہیں تھا کہ تھانے جاسکتا ۔ جو تھانے تک جاسکا اس نے مقدمہ درج کرالیا ۔ بھٹو کا خون ۔خون ہے تو سیاسی کارکنان کا خون بھی پانی نہیں۔“

افتخار عرف تاری کا لاہور کے غنڈوں میں بڑا نام تھا ۔ کسی نے بھٹو سے اس کی بد مستیوں کی شکایت کی،تو بھٹو نے اشارے سے اس کا کان نزدیک کروایا اور کہا ”تمہارے علم میں تاری سے بڑا کوئی غنڈہ ہے تو میرے پاس لاؤ میں اسے تاری سے بڑا مقام دوں گا۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے میری حکومت ان ہی لوگوں کے بل پر چل رہی ہے“۔

پیپلز پارٹی نے بھٹو دور میں غنڈوں کی ایک فوج پال رکھی تھی ۔ ہر غنڈے کوا ہلیت کے مطابق بھتّہ ملتا تھا۔ ان کی عمومی ڈیوٹی یہ تھی کہ دفعہ 44کے دوران( جو اکثر رائج رہتی تھی) چوکوں اور چوراہوں پربیٹھیں ۔ہتھیاروں کی نمائش کریں ۔ لوگوں کے دلوں میں اپنی حکومت کا رعب اور دبدبہ بٹھائیں ۔ پیپلز پارٹی ایک غنڈے کی تیاری میں خاص نفسیاتی ترکیب استعمال کرتی تھی۔ داڑھی ، مونچھ اور سر کے بالوں کو خصوصی انداز میں پالا جاتا کہ دیکھنے والے کی نظر خوف ناک چہرے کی بھول بھلیوں میں الجھ کر رہ جاتی۔ بندہ بے شک ”چڑی کا بچہ“ہی کیوں نہ ہوتا۔ایسے ماڈل کو دور سے دیکھتے ہی پتہ چل جاتا کہ ”حکومتی ہے “ اس غنڈہ نوازی کے دور میںخاص خاص شہروں میں باقاعدہ غنڈہ گروپ منظم کیے گئے تھے۔ مثال کے طور پر منڈی بہاؤ الدین کا ” ٹرک سوار چھاپہ مار گروپ“ مشہور تھا جو اپوزیشن کے جلسوں کو الٹنے اور درہم برہم کرنے میں ماہر اور مشاق تھا۔ جلسہ گاہ میں پانی چھوڑ کر بجلی کاکرنٹ دے دینا،سانپ اور بچھو چھوڑ کر جلسے میں بھگدڑ مچا دینا جیسی کارروائیاں مقامی گروپ انجام دیتے تھے۔

بھٹو صاحب کی خواہش کے مطابق اگر کوئی سیدھا نہ ہوتا،تو اسے سیدھا کرنے کے مختلف طریقے تھے۔ایک ڈائرکٹ میتھڈتھا ؛یعنی سیدھا سیدھا اوپر روانہ کر دیا جاتا۔ جیسے نواب محمد احمد خاں ،ڈاکٹر نذیر اور خواجہ رفیق اوردوسرے بہت سے لوگوں کے ساتھ ہوا۔دوسرا حربہ مخالف کو جسمانی تشدد کے مختلف مراحل سے گزارنا تھا۔ اس میں چھوٹے بڑے کی کوئی تفریق اورلحاظ نہ تھا۔ جماعت اسلامی کے بزرگ رہنما میاں طفیل محمد پر جسمانی تشدد کے علاوہ ان کی داڑھی بھی نوچی گئی، مسلم لیگی احمد سعید کرمانی کی بینائی زائل کر دی گئی ۔ اور1965ءکی جنگ کے ہیرو ایم ایم عالم کو چوبیس گھنٹے الٹا لٹکایا گیا ۔

ایک حربہ اور تھاجو مخالف کو جیتے جی توڑ ڈالتا تھا۔یہ حربہ بھٹو دور میں بے تحاشا استعمال کیاگیا۔ یہ حربہ جنسی تشدد کا ظلم تھا ۔ زیر عتاب افراد کی آنکھوں کے سامنے ان کی چیختی چلاتی بہن بیٹی یا بیوی پر جنسی تشدد کے پہاڑ توڑے جاتے اور معتوب سے من چاہے اقبالی بیان لیے جاتے ۔ قلعہ اٹک میں ایئر فورس کے نا پسندیدہ افسروں سے نا کردہ جرائم کے اقبالی بیان حاصل کر نے کے لیے ایک قادیانی میجر نے یہ حربہ خوب استعمال کیا ۔ سیالکوٹ کے ایک پولیس افسر کو معطل کر کے گھر بھیج دیا گیا، اس لیے کہ اسے حکم دیا گیا تھاکہ فلاں شخصیت کی جوان بیٹیوں کے ساتھ زیادتی کروا کے تصویریں بنواؤ اور وہ تصویریں میرے پاس بھیج دو ۔افسر نے یہ حکم ماننے سے معذرت کی تھی کہ اس کے اپنے گھر میں جوان بچیاں ہیں۔ کوئی جوان بیٹیوں والا باپ ایسا ظلم کرنے کاحوصلہ نہیں رکھتا ۔ شورش کاشمیری کو بھی اسی قسم کی دھمکی دی گئی تھی اور وہ عظیم خطیب سات بیٹیوں کا باپ بے چارہ ایک دم برف کی سل ہو کر بیٹھ رہا ۔ تحریک ختم نبوت کے دوران اخبارات میں ایک خبر چھپی ” ملتان میں حکومت نے غنڈوں کا صفایا کر دیا“ ان کی بھنویں ، مونچھیں اور سر مونڈ دیا اور منہ کالا کر کے ان کا جلوس نکالا گیا۔ان کا جرم یہ تھا کہ انہیں تحریک ختم نبوت کے اسیر مولویوں کے سیلوں میں بھیجا گیا تھا ۔کیمرہ مینوں کے ساتھ، تا کہ مولویوں کو جنسی طور پر ذلیل کر کے تصویریں بنوائیں،لیکن مولویوں کے سمجھانے پروہ منہ کالا کیے بغیر واپس آ گئے تھے۔

بھٹو صاحب کے دور میں شراب پر پابندی عاید کی گئی،مگر وہ ایسے کھرے اور صاف گوتھے کہ بھرے جلسوں میں بے دھڑک بتایا کرتے تھے کہ ”میں شراب پیتا ہوں ۔غریبوں کا خون نہیں پیتا “۔ایک جلسے میں ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا”کام کرتے کرتے تھک جاتا ہوں تو اتنی تھوڑی سی پی لیتا ہوں“ غریب بے چارے خوش ہو کر تالیاںپیٹنے لگے۔

پاکستان توڑنے کا سانحہ عظیم جو مسلم امہ کے چہرے پر گھناؤنا داغ ہے،یہ قیامت تک مٹنے والا نہیں ۔ اس سانحے میں لاکھوں گھر اجڑ گئے،لاکھوں عزتیں تار تار ہو گئیں۔ مسلمان عورتوں سے کلکتہ اور بھارت کے دوسرے شہروں کے قحبہ خانے بھر دیے گئے ۔ پاکستان کے وفادار اور محب وطن لوگوں کو چن چن کر عذاب و تعذیب کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ لاکھوں بہاری مسلمان آج تک اچھوتوں کی طرح خیموں میں زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں۔ جن لوگوں نے یہ قیامت صغریٰ برپا کرنے میں حصہ لیایا فائدہ اٹھا یا ،یاجنہیں کسی فائدے کی امید تھی، اللہ تعالیٰ نے انہیں اس دنیا میں تو ذلیل خوار کر کے عبر ت کا نمونہ بنا ہی دیا ۔اور ابھی اگلے جہان کا حساب کتاب باقی ہے۔ اس خونی ڈرامے کا ایک کردار مجیب الرحمن تھا جو اپنے گھر والوں سمیت موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ایک بیٹی بچی تھی جو باپ کی رہی سہی کسر پوری کر رہی ہے۔ دوسرا کردار اندرا گاندھی تھی جوخود بھی بری موت مری اور بیٹا راجیو بھی مظلوموں کے انتقام کا نشانہ بنا۔ خاندان کا نشان مٹ گیا۔اور پاکستان کے تڑوانے میں سب سے اہم کردار بھٹو صاحب کا تھا۔ ان کے پہلے اور آخری انتخابات بھی دھاندلی کا شاہ کار تھے ۔ تحریک چلی اور نتیجتاً تیسرا مارشل لاءآیا،جو ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوا ہائے ہوس ملک گیری ۔اقتدار کی ہوس لاعلاج مرض ہے ،یہ بیماری ان کے سارے خاندان میں چھوت کی طرح پھیل گئی۔بیٹی سال ہا سال جلا وطن رہی ۔دو بار وزیر اعظم بنی،لیکن ادھورا اقتدار نصیب ہوا۔اسی دوران یکے بعد دیگرے دو جوان بھائی قتل ہوئے،بہن وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی بھائیوں کے قاتلوں پر ہاتھ ڈالنے سے قاصر رہی۔ چوتھا مارشل لا آیا تو پھر خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لی ۔ خاوند جیل میں ،خود کہیں اور بچے کہیں۔این آر ا ونے واپسی ممکن بنائی،واپس آئیں بھی تو کیا آئیں، اوپر سے ان کا بلاوا آ گیااوراین آر اوکا پھل کسی اور کی جھولی میںجاگرا ۔اس شخص کی طرح جواپنی خود ساختہ جنت میں داخل ہونے کے لیے گھوڑے سے اتر رہا تھا ۔ ابھی ایک پاؤں رکاب ہی میں تھا کہ بلاوا آ گیا۔ یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے؟

بھٹو چلا گیابے نظیر آ گئی ۔بے نظیر آئی تواس کے بھائی گئے۔ بھائیوں کا لہو رائیگاں گیا۔پھر بے نظیر خود بھی گئی ،اس کا خون بھی رزق خاک ہوا، اس کا شوہر صدر ہوتے ہوئے اس کا کچھ مداوا نہ کر سکا۔ (حالانکہ ان کا اپنادعویٰ ہے کہ وہ قاتلوں کو جانتے ہیں)۔ اب بھٹو کی موت پرمٹھائی بانٹنے اور بھنگڑے ڈالنے والے انہیں دوبارہ زندہ کرنے کے لیے وکالت کریں گے ، سبحان اللہ !کیاعجیب انقلاب ہے۔ کرسی پر بیٹھے انسانوں کی گردن میں سریا ٹھک جاتا ہے اوروہ فرعون بن جاتے ہیں،کرسی نہ رہے تو یوں لگتا ہے گویا غبارہ پھٹ گیا۔ بڑے بڑے خدائی کا دعویٰ کرنے والے فرعون ،سکندر اور قیصرخالی ہاتھ آئے تھے خالی ہاتھ ہی چلے گئے ۔اللہ کی پکڑ بڑی سخت ہے” سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارا“۔ بس نام رہے گا اللہ کا ۔اللہ کی سنت ہے کہ وہ ظلم کو تا دیر پنپنے نہیں دیتا ۔واقعی بدی کی قوتوں کے ختم ہوتے رہنے میں ہی انسانیت کا بچاﺅ ہے۔۔۔۔
Rao Muhammad Jamil
About the Author: Rao Muhammad Jamil Read More Articles by Rao Muhammad Jamil: 16 Articles with 12298 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.