کراچی۔ فوج آئے گی تو بھلے دیر سے آئے

میں کیا اور میرا خیال کیا لیکن میں فوج کے کسی بھی ماورائے آئین کام کے حق میں نہیں۔بچپن سے لے کے آج تک جب کبھی بھی فوج نے سول اداروں کی ذمہ داریاں سنبھالیں،میرے دل کی گرہیں بڑھتی ہی گئیں۔اس کی وجہ یہ نہیں کہ مجھے فوج سے بغض ہے بلکہ اس کی وجہ میری فوج اور اس سے جڑے لوگوں سے میرا وہ پیار ہے جو ہر مسلم لیگی گھرانے کا خاصہ ہے۔میں لام ،میم ،نون ،قاف اور صاد مسلم لیگوں اور مسلم لیگیوں کی بات نہیں کر رہا ۔میں اس مسلم لیگ کی بات کر رہا ہوں جس نے قائد اعظم علیہ الرحمہ کی بے مثل قیادت میں پاکستان بنایا تھا۔وہ لوگ جو اس مسلم لیگ کے جلسوں کی صفیں پچھاتے رہے ۔انہیں پاکستان کی ہر شے سے بڑا پیار ہے۔اسی جذبے کو انہوں نے اپنی اولادوں کے دلوں میں بھی پروان چڑھایا۔وہ لوگ خود تو وقت کے ساتھ ساتھ اپنے سچے جذبے لئے اپنے مالک کے حضور پیش ہو گئے لیکن پاکستان کےلئیے اپنی محبتوں کا بیج اپنی اولادوں کے سینوں میں بھی بو گئے۔

آپ کو اگر میری اس بات پہ یقین نہیں آتا تو ذرا اپنے اردگرد نظر دوڑا لیں ۔وہ لوگ جن کے آباؤ اجداد پاکستان کی تحریک میں کسی بھی حیثیت میں سرگرم رہے۔ان کی اولاد آج بھی آپ کو پاکستان اور اہل پاکستان کے ساتھ مخلص نظر آئے گی۔ہاں !میں ان لوگوں کی بات نہیں کر رہا جو پہلے انگریزوں کے کتوں کو نہلا نہلا کے چمکاتے اور جاگیریں حاصل کرتے رہے اور بعد میں ہوا کا رخ دیکھ کے ہم پہ پیر تسمہ پا کی طرح مسلط ہونے مسلم لیگ میں آموجود ہوئے۔اساتذہ کہتے ہیں کہ غداروں کے نام احتیاط سے لینے چاہیں حالانکہ میرا خیال ہے کہ غداروں اور ملک دشمنوں کے نام تو ملک کے سب سے بلند ایوان میں لکھ رکھنے چاہیں تا کہ آنے والی نسل بھی جان سکے کہ کس کس نے اپنے ذاتی مفاد کے لئے مادر وطن کی گود اجاڑنے کی کوشش کی۔لیکن کیا کریں اس کا کہ اس طرح کرنے کے لئے ایک ایوان نہیںبلکہ بہت سے ایوانوں کی ضرورت پڑے گی اس لئے کہ یہاں تو جو بھی آیا اس نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے ذاتی مفاد ہی کو ملکی مفاد قرار دے دیا۔اور اس کے بعد اللہ دے اور بندہ لے۔

مجھے فخر ہے کہ میں انہی لوگوں کی اولا دہوں جنہوں نے بھوکے پیٹ پاکستان کے نعرے لگائے تھے اور جب پاکستان بن گیا تو انہوں نے سر نیہوڑا کے اس کی محبت کو دل میں بسایا اور اس کی خدمت کو اپنا شعار بنا لیا۔اس لئے جب فوج وہ کام کرنے آتی ہے جس کی اسے اجازت نہیں۔پھر جب اس پہ زبان طعن دراز ہوتی ہے تو دل دکھتا ہے۔لوگ تو اللہ کریم کی منشاءمیں بھی نعوز باللہ کیڑے نکالنے سے باز نہیں آتے۔فوج کہاں کی فرشتہ ہے کہ عوام اسے معاف کر دے۔ظاہر ہے جس کام کے لئے آپ کی تربیت ہی نہیں اسے جب آپ کرنے کی کوشش کریں گے تو اس کی کوئی کل سیدھی ہو ہی نہیں سکتی۔یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی پائلٹ یہ اعلان کر دے کہ میں خدمت خلق کے جذبے سے آئیندہ تندور پہ روٹی لگایا کروں گا۔سوچئیے کہ پائلٹ صاحب کا کیا حال ہو گا اور اس آٹے کا اور تندور کا کیا بنے گا جو پائلٹ صاحب کے جذبہ خدمت خلق کی بھینٹ چڑھے گا۔جو لوگ فوج کو اقتدار سنبھالنے کے لئے طرلے کر رہے ہوتے ہیں انہیں جب کوشش بسیار کے باوجود فوج کے دسترخوان سے بھی کوئی ٹکڑا ہاتھ نہیں آتا تو یہی لوگ فوج کو گالی دینے میں پہل کرتے ہیں۔

کراچی کے حالات بہت برے سہی ہر روز بلا مبالغہ بیسیوں لاشیں گرتی اور سینکڑوں بچے یتیم ہو رہے ہیں لیکن اس میں فوج کا کیا دوش۔اگر کوئی قصور ہے تو ان بے حس لوگوں کا جنہوں نے یہ خون آشام درندے منتخب کئے۔جنہوں نے ان بھیڑوں کو اقتدار کے سنگھاسن پہ پہنچایااور بٹھایا۔آج یہی لوگ کراچی میں اپنے حصے بخرے کرنے کے لئے کراچی کو لہو رنگ کئے ہوئے ہیں۔آج ٹی وی آن کریں تو ہر طرف سے صدا بلند ہو رہی ہے کہ کراچی کے حالات بہتر کرنے کے لئے فوج طلب کی جائے۔کوئی ان سے پوچھے کہ میٹھا میٹھا آپ کھائیں اور کڑوے کے لئے فوج۔فوج آئے گی تو سختی بھی ہوگی۔سختی ہو گی تو ملزم اور مجرم مل کے چیخیں گے ۔ان لوگوں کی چیخوں کی آواز ہمیشہ معمعل سے بہت بلند ہوتی ہے۔یہ آوازیں نہ صرف ملک بلکہ بیرون ملک سے شہہ دیتے ان مجرموں کے آقا بھی سنیں گے اور پھر اسے ایمپلفائی کر کے ساری دنیا کو سنائیں گے۔جس سے نہ صرف فوج بلکہ ملک بھی بدنام ہو گا۔دوسری طرف اسلام آباد میںفوج پہ نامہربان عدلیہ بھی نگران ہو گی کہ کہیں فوج کے کسی ادنیٰ اہلکار کے قدم چوکیں اور وہ ازخود نوٹس لیں۔اس ماخول میں فوج کا کراچی میں آنا کوئلوں کی دلالی کے سوا کچھ ثابت نہ ہو گا۔

میںسلام کرتا ہوں جنرل کیانی اور فوج کی قیادت کو جنہوں نے کراچی کے انتہائی برے حالات میں بھی کسی طرح کی جذباتیت اور ناروا پھرتی کا مظاہرہ نہیں کیا۔جنرل کا یہ بیان کہ فوج حکومت کے ماتحت ہے اور حکومت کے کسی بھی حکم کی پاسداری کرے گی دراصل اس بات کا غماز ہے کہ آپ ہی نے درد دیا ہے آپ ہی اب اس درد کی دوا تلاش کریں۔اگر آپ نے اس آگ میں فوج کو جھونکنا ہے تو اس کا فیصلہ بھی آپ ہی کریں۔وہ زمانے لد گئے جب سیاستدان فوج کے کندھوں پہ سوار اقتدار کے مزے لوٹنے آیا کرتے تھے۔اب جو کرے گا بھرنا بھی اسی کو پڑے گا۔وزیر اعظم کا یہ بیان کہ اب ہمیں کراچی کے حالات کو ٹھیک کرنا ہی پڑے گا اگر ہم نہیں کریں گے تو کوئی اور آکے کرے گا بھی دراصل اشارہ ہے کہ ہم سے تو یہ ٹھیک ہونے کے نہیں اپ ہی کو اب آگے بڑھنا ہو گا۔مجھے لیکن یقین ہے کہ فوج اب کی بار قانونی راستہ اختیار کرے گی۔یہ فیصلہ پارلیمنٹ سے ہو یا عدالت عظمیٰ اپنے ازخود نوٹس سے اس کا فیصلہ کرے۔فوج کا کام فیصلے کرنا نہیں فیصل؛وں پر عمل درآمد ہے۔اس لئے آئین جن لوگوں کو فیصلے کرنے کا اختیار دیتا ہے انہیں ہی یہ وزن اٹھانا چاہئیے۔

حکومت نے کراچی میں فوج کو نہ بلانے کا فیصلہ کر کے اپنی زندگی کچھ اور بڑھا لی ہے۔یہ نالائق حکومت اپنے کچھ ٹوٹکے ضرور آزمائے گیلیکن اس کھیل کے دوسرے فریق اتنے تنومند ہو چکے ہیں کہ یہ جھگڑا اب ختم کرانا حکومت کے بس کی بات نہیں۔ہو گا کیا اس دفعہ ماجھا بندوق کی گولی سے نہیں قانون کی گولی سے مرے گا۔پیروں کے پیر جناب مردان شاہ پگارہ نے ویسے بھی فرما دیا ہے کہ ستمبر ستمگر ہے۔فوج آئیگی تو مارشل لا لگے گا لیکن میں بھی آپ کو بتا دوں کہ اس دفعہ مارشل لا تو لگے لیکن وہ فوجی نہیں ہو گا۔کیا ہو گا یہ میں کیوں بتاؤں اللہ نے آپ کو بھی تو اتنا بڑا کھوپڑا عطا کیا ہے۔
Qalandar Awan
About the Author: Qalandar Awan Read More Articles by Qalandar Awan: 63 Articles with 54443 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.