اہل دل اور بھی ہیں اہل وفا اور بھی ہیں

انجنیر عمر گوتم اور مولانا کلیم صدیقی پر جبراً تبدیلیٔ مذہب کا جھوٹا الزام لگا کر جیل بھیج دینے کے بعد سنگھ پریوار نے سوچا کہ ہندو دھرم محفوظ ہوگیا ہے۔ اب کسی کو ہندووں کے مذہب کی تبدیلی کا خیال نہیں آئے گا ۔ کوئی ان کی جانب نظر اٹھا کر دیکھنے کی جرأت نہیں کرے گا اورتبدیلیٔ مذہب کاسلسلہ بند ہوجائے گا لیکن عجب اتفاق ہے کہ جس دن ملک بھر میں وجئے دشمی کا تہوار منایا جارہا تھا اور ناگپور سے بلند بانگ دعوے کیے جارہے تھے دارالخلافہ دہلی میں ہندو ہردیہ سمراٹ وزیر اعظم نریندر مودی کی ناک کے نیچے ہزاروں لوگوں نے ہندو مذہب کو چھوڑ کر بدھ مت اختیار کرلیا۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے برسوں پہلے اسی دن ہندو دھرم سے علٰحیدگی اختیار کرکے بدھ مت اپنایا تھا۔ اس وقت انہوں نے ہندوؤں کے دیوتاؤں کو نہ ماننے کا حلف اٹھایا تھا ۔ اس میں کہا گیا تھا کہ ’ میں برہما، وشنو، مہیش کو کبھی بھی ایشور نہیں مانوں گا اور نہ ہی ان کی پوجا کروں گا۔ میں رام اور کرشن کو ایشور نہیں مانوں گا اور نہ ہی ان کی پوجا کروں گا۔ میں گوری گنپتی وغیرہ ہندو مذہب کے کسی دیوی دیوتا کو نہیں مانوں گا اور نہ ہی پوجا کروں گا'۔

5؍ اکتوبر کو دسہرہ کےشبھ مہورت پر دہلی کے امبیڈکر بھون میں اس عہد کی صدائیں بلند ہورہی تھیں ۔ اس تقریب کا اہتمام عام آدمی پارٹی کی دہلی سرکار میں سماجی فلاح و بہبود کے وزیر راجندر پال گوتم، بھارتیہ بدھسٹ مہاسبھا اور بدھسٹ سوسائٹی آف انڈیا نے کیا تھا ۔ اس میں تقریباً دس ہزار لوگوں نے بدھ مت اپنانے کی دیکشا لی۔ اس پروگرام میں راج رتن ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے پڑپوتے اور بہت سے بودھ راہبوں نے شرکت کی تھی۔ ویسے تو ہر سال وجے دشمی کے دن بودھ مت کے پیروکارڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کے حلف کی یاد دہانی کرتے ہیں۔ ان کے 22 عہد میں سےکئی میں ہندو دیوی دیوتاؤں سے اعلان برأت کیا گیا تھا۔ دہلی میں فقط اس کا اعادہ کیا گیا لیکن سیاسی فائدہ اٹھانے کی خاطر بی جے پی نے اس کی تشہیر شروع کردی۔ اس نے الزام لگایا کہ مذکورہ پروگرام میں دلت برادری سے تعلق رکھنے والے ہزاروں ہندوؤں کو بودھ بنایا گیا۔ ہندوتوا کے ایجنڈے پر کام کرنے والی بی جے پی کے لیے یہ نہ صرف ایک چیلنج بلکہ زبردست رسوائی کا سامان بھی تھا ۔

مشن جئے بھیم کے بانی راجندر پال گوتم نے ٹوئٹر پر تقریب کی تصاویر شیئر کرکے بی جے پی کے الزامات کی تصدیق کردی ۔ انہوں نے اپنے پیغام میں لکھا کہ ، ‘آئیے مشن جئے بھیم کے تحت لوگوں کو بدھا کی طرف بلائیں ۔ آج وجئے دشمی کے موقع پر "مشن جئے بھیم” کے تحت دس ہزار سے زیادہ دانشوروں نے ڈاکٹر امبیڈکر بھون رانی جھانسی روڈ پر تتھاگتا گوتم بدھ کے دھما پر گھر واپس آکر ذات پات اورچھوت چھات سے پاک ہندوستان بنانے کا عہد لیا۔ جئے بھیم!” اس جملے میں گھر واپسی سیدھے سیدھے تبدیلیٔ مذہب کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ بی جے پی نےگجرات الیکشن میں اس کا فائدہ اٹھانے کی غرض سے زبردست دباؤ بنانا شروع کردیا ۔ ا س کے مدنظروزیراعلی کیجریوال کو مجبور ہوکر اپنے کابینی وزیر راجندر پال گوتم سے استعفیٰ لینا پڑا۔ جمہوریت اور سیکولرزم کو مذہبی آزادی کا ضامن قرار دے کردن رات اس کا قصیدہ پڑھنے والوں کو اس سانحہ کے بعد خیالوں کے جہاں سےنکل کر حقیقت کی دنیا میں آجانا چاہیے ۔ ایسے موقع پر علامہ اقبال کا یہ شعر دوہرانا لازم ہوجاتا ہے؎
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے کہ آزادی کی ہے نیلم پری

اس واقعہ سے چراغ پا بی جے پی نے اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی خاطر اس مذہب کی تبدیلی کے لیے عام آدمی پارٹی کے وزیر راجندر پال گوتم کو ذمہ دار ٹھہراکر انہیں وزیر کے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کرنے لگے اور اس میں کامیاب بھی ہوگئے لیکن اس سے جن لوگوں نے ہندو مذہب چھوڑا ہے ان کی گھر واپسی تھوڑی نا ہوگی۔ اس معاملے میں بی جے پی کے رہنماوں نے دہلی پولیس سے شکایت بھی کررکھی ہےلیکن دلت ووٹرس کی ناراضی کے پیش نظر گرفتاری کا امکان کم ہے مگر دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کو ہندو مخالف ثابت ہونے کا پروپیگنڈہ زور و شور سے جا ری ہے۔بی جے پی آئی ٹی سیل کے انچارج امت مالویہ نے ایک ویڈیو شیئر کیا جس میں کیجریوال کے پوسٹر اور کٹ آؤٹ پر مسلم ٹوپی اور کندھے پر چار خانوں والا تولیہ ہے۔ کیجریوال کی تصویر پر گجراتی میں لکھا ہے کہ 'میں ہندو مذہب کو پاگل پن مانتا ہوں۔' اور 'میں ہندو مذہب کے دیوتاؤں اور دیویوں برہما، وشنو، مہیش، شری رام، شری کرشن کو ایشور نہیں مانوں گا اور نہ ہی ان کی پوجا کروں گا۔'

یہ کھیل ایک ایسے وقت میں کھیلا جارہا ہے جب اروند کیجریوال اپنے آپ کو بی جے پی والوں سےکٹڑ ہندو ثابت کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ پروپگنڈا ان کی شبیہ کو بگاڑ کر آئندہ اسمبلی انتخابات میں ان کی پارٹی کے امکانات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے گوتم سے فوراً استعفیٰ لے لیا۔ تبدیلیٔ مذہب سنگھ پریوار کی سب سے دکھتی رگ ہے۔ وشو ہندو پریشد میناکشی پورم میں تبدیلیٔ مذہب کے خلاف قائم ہوئی تھی ۔ ہندوتوا کے حاملین گھر واپسی کی بات تو کرتے ہیں لیکن اس معاملے میں پیش رفت ممکن نہیں ہے ۔ اسی لیے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت نے بھی پچھلے سال کہا تھا کہ ہمیں کسی کا مذہب تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے، ہمیں تو لوگوں کو طرز زندگی کا درس دینا ہے۔ یہ اعتراف اس لیے کیا جاتا ہے کہ ہندو سماج کسی غیر مذہب کو اپنانے کا ظرف نہیں رکھتا۔ اس کی تازہ ترین مثال اتر پردیش شیعہ وقف بورڈ کے سابق چیئرمین وسیم رضوی ہے جس نے گذشتہ سال 5 دسمبر کو ہندو مذہب اختیار کر لیا تھا۔قرآن کے خلاف عدالتِ عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹانے والے تیاگی نے اعتراف کیا ہے کہ ہندو مذہب میں پہلا مسئلہ ذات پات اور بھائی چارے کا ہے۔ اگر آپ نے کوئی ذات لے بھی لی تو اس ذات کے لوگ آپ کو قبول نہیں کریں گے۔ میں تیاگی بن گیا مگر مجھ سے وہ سماج بیٹی روٹی کا رشتہ نہیں بنائے گا۔یہ سناتن دھرم کے مسائل ہیں۔ یہاں لوگ دوسروں کو نہیں اپناتے۔
جتیندر تیاگی نے اپنے عملی مشاہدے کی بناء پر جو بات کہی اس کا راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کو بھی ادراک ہے اس لیے وہ ذات پات کے نظام کو اب بھول جانے کی وکالت کرتے ہیں ۔ موہن بھاگوت نے ناگپور میں منعقدہ ایک کتاب کی اجرائی تقریب میں کہا کہ اب ذات پات کے نظام کی سماج میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اس کا ایک مطلب تو یہ بھی نکلتا ہے کہ پہلے تھی۔ ان کے مطابق بنیادی طور پر ذات پات کے نظام میں کوئی امتیاز نہیں تھا۔ یہ دعویٰ تو بار بار کیا جاتا ہے لیکن اس کی کوئی دلیل یا نظیر نہیں ملتی۔ اس سنگین سماجی مسئلہ سے راہِ فرار اختیار کرتے ہوئے وہ اس پر گفتگو کرنے والوں کویہ بتانے کی تلقین کرتے ہیں کہ ذات پات ماضی کی بات ہے اور اب اسے بھول جانا چاہئے۔ان کے مطابق وہ چیز جو امتیاز پیدا کرتی ہے اسے ختم کر دینا چاہیے۔انہوں نے اعتراف کیا کہ ذات پات کی وجہ سے سماجی تفاوت پھیلتا ہے۔ یہ نظام بہت پیچیدہ ہے اور اسے ختم کیا جانا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کام کون کرے گا ؟ اور کیسے کرے گا ؟

بھارتیہ جنتا پارٹی کے وہ لوگ جو ذات پات کے نظام سے تنگ آکر دوسرے مذاہب اختیار کرنے والوں کے خلاف ہنگامہ کھڑا کردیتے ہیں کیا ان سے یہ کام ہوسکے گا؟ انجنیر عمر گوتم اورراجندر پال کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے والوں کے لیے کیا یہ ممکن ہے؟ ذات پات کے نظام سے سیاسی گائدہ اٹھانے والے اور اپنے رائے دہندگان کی خوشنودی کے لیے ہر طرح کا ظلم و ستم کرنے وا لوں کے لیے یہ کام کیسے کریں گے ؟ تفریق و امتیاز کی سرکوبی کے لیے جس عقیدۂ توحید کی ضرورت ہے وہ کہاں سے لائیں گے؟ آخرت کی جوابدہی کے بغیر سماج کا طاقتور طبقہ ظلم و جبر سے کیسے اجتناب کرے گا؟ نبی کریم ﷺ کی پیروی کے بغیر اونچ نیچ کی دیوار کیونکر ڈھائی جائےگی؟ قرآن مجید کی تعلیمات کے سوا عدل و مساوات کا نسخۂ کیمیا کیسے ہاتھ آئے گا ؟

جتیندر تیاگی بھی اب یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہے کہ ساتویں صدی کا مذہب اسلام دنیا کا دوسرا بڑا مذہب اس لیے بنا کہ اس کی کچھ خوبیاں ہیں۔اسلام میں گھل مل جانے کی جگہ ہے۔ اسلام قبول کر لینے کے بعد آپ کے ماضی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ازدواجی تعلقات میں کوئی حرج نہیں۔ اسلام میں ذات پات کے لیے کوئی ذلت نہیں اٹھانی پڑتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ مرتے دم تک سناتن رہے گا، لیکن جانتا ہے کہ اس سے بیٹی روٹی کا رشتہ کوئی نہیں بنائے گا۔ اس کو ایسا لگتا ہے کہ وہ نہ گھر کاہے نہ گھاٹ کا۔ سناتن دھرم میں آنے کے بعد اس کی شادی ٹوٹ گئی۔ اب وہ کہتا ہے میں نے اپنی زندگی میں زہر گھول لیاہے۔ اسی لیے پورے خاندان کے ساتھ سناتن مذہب میں نہیں آیاکہ پہلے میں خود آکر دیکھنا چاہتا تھا۔ اب وہ کہتا ہے اچھا ہوا کہ پورا خاندان ساتھ نہیں آیا۔ جیتندر تیاگی اب ڈپریشن میں جاچکا ہے اور خودکشی پر غور کررہا ہے۔ بعید نہیں کہ اپنے ارتداد کی سزا وہ خود اپنے آپ کو دے ڈالے لیکن اگر تائب ہوکر پھر سے مشرف بہ اسلام ہو جائے تو اس میں دنیا وآخرت دونوں کی فلاح مضمرہے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449170 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.