جھڑک اور چھڑک

ریاست پاکستان کیلئے جہاں بیرونی قرض مہلک مرض کی طرح ہیں وہاں اس مملکت خدادادکوڈیل اورڈھیل کی سیاست نے بھی ڈبویا ہے ۔جس وقت تک آمروں اور قومی چوروں کو" این آر او "دینے والی شاپ کاشٹر ڈاؤن اور کئی دہائیوں سے مہم جوئی پر رواں دواں جیپ کاپہیہ جام نہیں ہوگااس وقت تک پاکستان سیاسی ،معاشی اورانتظامی طورپر ٹیک آف نہیں کرے گا۔"نظریہ ضرورت ـ"کے تحت پاکستان میں دندناتے اوربیرون ملک سے ریاستی اداروں کوللکارتے قومی چوروں کے مجرمانہ ریکارڈ کو"نظرانداز" کرنااوران کے ہاتھوں میں کلین چٹ تھمانایقینا خطرناک ہوگا ۔ان دنوں ہمارے ہاں" تاحیات نااہلی" کاموضوع زیربحث ہے ،میں سمجھتا ہوں تاحیات نااہلی کی سزادینے والے بھی ممتاز قانون دان اورمستند منصف تھے لہٰذاء عوام کی ذہن سازی کیلئے جاری شعبدہ بازی بندکی جائے کیونکہ واصف علی واصف ؒ کے فلسفہ کی روشنی میں "بادشاہ کاگناہ ،گناہوں کابادشاہ ہے" ۔یادرکھیں ایک عالم اورکسی جاہل کاگناہ برابر نہیں ہوسکتا ،حکمران اورکسی عام شہری کی قانون شکنی میں زمین آسمان کافرق ہے۔اگر کنوارہ نوجوان اوربیوی کے ہوتے ہوئے شوہرباہر زناکربیٹھے تونوجوان کے مقابلے میں شوہر کوزیادہ سخت سزا دی جائے گی لہٰذا ء کسی منتخب وزیراعظم کے اخلاقی، سیاسی یامالی گناہوں کی گرفت عام شہریوں کے مقابلے میں کئی گنازیادہ سخت ہوگی۔اگر ایک انسان کے ناحق قتل پرقاتل کو عمر قید ہوسکتی ہے توپھربائیس کروڑ پاکستانیوں کے وسائل میں نقب لگانے ،ان کے حقوق اورمستقبل پرشب خون مارنیوالے کی تاحیات نااہلی ہرگز ناجائزنہیں ۔یادرکھیں ہماری ریاست مزید آئینی تضادات اورسیاسی تنازعات کی متحمل نہیں ہوسکتی۔اگرکسی مصلحت یانظریہ ضرورت کے تحت بند باب دوبارہ کھلیں گے توپھر بات بہت دورتک جائے گی۔

وفاق میں بیٹھے نفاق پسندعناصر اپنے متنازعہ اقتدار کادوام یقینی بنانے کیلئے سیاسی انتقام اور نوے کی دہائی والی نفرت انگیز سیاست کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں، ضیائی آمریت کی باقیات نے پرویزی آمریت کے دوران چندماہ کی جیل اورجدہ کے قصرسرورمیں خودساختہ جلاوطنی کے باوجود کچھ نہیں سیکھا۔ رانا ثناء اﷲ خاں اپنے مخصوص اندازمیں کپتان کو"جھڑک" اوراس کے اشتعال انگیز بیانات جلتی پرتیل" چھڑک" رہے ہیں۔رانا ثناء اﷲ سے افراد جس کے دوست ہوں اسے کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔کانچ کے محلات میں بیٹھے اتحادی حکمران کپتان پرخشت باری سے گریز جبکہ عمران خان سمیت اپوزیشن قائدین بھی اپنے انداز بیاں میں نرمی پیداکریں ورنہ اس گرماگرمی کے نتیجہ میں شجرجمہوریت مزید مرجھاسکتا ہے۔ رانا ثناء اﷲ کی زبان بندی سے یقینا حکومت اورکپتان کے درمیان ڈائیلاگ کیلئے " کھڑکیاں" کھلیں گی ،دوسری صورت میں وفاقی وزراء کی" جھڑکیاں" سننے کے بعد عوام اتحادی حکومت سے مزید بیزار ہوسکتے ہیں۔ جس وقت تک حکمران عوام کی "نبض" پرہاتھ نہیں رکھیں گے اس وقت تک ان کی سیاسی" قبض"ختم نہیں ہوگی۔بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اﷲ خان کی وفات کے بعدملک میں سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ اور نواب غوث بخش باروزئی کے سوا کوئی سیاستدان نہیں جواتحادی حکومت اورپی ٹی آئی کی صورت میں واحداپوزیشن جماعت کے درمیان پائیدار پل بنے۔سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ ، نواب غوث بخش باروزئی سے نیک نیت بزرگ و زیرک سیاستدانوں کوسیاسی حدت اورشدت میں کمی کیلئے کلیدی کرداراداکرنا ہوگا۔سیاسی داناؤں میں شمارہونیوالے چوہدری شجاعت نے اپنے فرزند کا وزارت کاشوق پوراکرنے کیلئے اپنے ہاتھوں سے اپنی سیاست اورعاقبت بربادکرلی جبکہ چوہدری پرویزالٰہی کافرزند ارجمند چوہدری مونس الٰہی اپنے معتدل ومتحرک والد کیلئے بیش قیمت اثاثہ اور سرمایہ افتخاربن کرابھرا ہے ۔ پرویز الٰہی اور مونس الٰہی کیلئے پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے زیادہ وہ سیاسی" دھڑا" اہم ہے جہاں اس وقت ان کاخاندان "کھڑا" ہے ، اگر وہ تخت لاہور کیلئے شریف برادران سے جاملتے تومستقبل میں ہاتھ ملتے رہ جاتے۔ مونس الٰہی اپنے والد اور قائد پرویزالٰہی کابہترین مشیراورقابل ترین جانشین ہے۔

حکمران ہوں یاان کا مدمقابل کپتان ،ان میں سے کوئی سیلاب زدگان کیلئے "رنجیدہ" اوران کی بحالی کیلئے "سنجیدہ" نہیں،ہماری ایک تہائی ریاست غرقاب جبکہ حکمران اورسیاستدان طبقہ ہوس اقتدار کے سمندر میں غرق ہے۔غذائی ضروریات اورادویات سے محروم مصیبت زدگان عنقریب موسم سرما کے رحم وکرم پر ہوں گے،افسوس حالیہ سیلاب کے نتیجہ میں بڑے پیمانے پرتباہی کے باوجودوفاقی حکومت اورسیاسی قیادت کی ترجیحات میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئی ، اتحادی حکمران نام نہاد جمہوریت کی طاقت سے نیب کے مقدمات سے نجات پانے کے بعد کپتان اوراس کے حامیوں کیخلاف مقدمات بنارہے ہیں ۔سیلاب زدگان کیلئے نیب زدگان کے دوراقتدارمیں اس زمینی آفت کاسامنا کرنا مصیبت سے بڑی مصیبت ہے۔ دنیا کے متعدد ملکوں سے اب تک سیلاب زدگان کے نام پرجوکچھ بھی آیا وہ ہنوزان تک نہیں پہنچا،تاہم قومی چوروں کی تو چاندی ہوگئی ۔چوروں کے درمیان "ا تفاق" کی چوٹ سے نیب کاڈنک نکل گیا، کرپشن میں لتھڑے عناصر کوبیگناہی کا" پروانہ" ملنے کے بعد اب نیب کی یتیمی قابل رحم ہے۔تعجب جوآئینی مدت کی بجائے عدت پوری کرنے کیلئے اقتدارمیں آئے ہیں ،انہیں ا س قدر اہم فیصلے کرنے کااختیار کس نے دیا ۔

شریف خاندان کے افراد کو انتقامی اقدامات اورخودساختہ القابات کی عادت ہے ،جس طرح "خادم پنجاب" اور"شہبازسپیڈ" یہ دونوں القابات بھی شہبازشریف کی اپنی اختراع ہیں۔شریف برادران کاشمارپاکستان میں چھانگا مانگا سیاست اور زرد صحافت کے فروغ سمیت مختلف سیاسی برائیوں کے بانیان میں ہوتا ہے، وہ اپنے مدمقابل مردوزن سیاستدانوں پرذاتی حملے کرنے میں ماہر ہیں۔ڈان لیک سے آڈیواورویڈیو لیک تک شریف برادران اپنے مقابل آنیوالی سیاسی قیادت کی نازیبا تصاویرتیارکروانے اورانہیں جہازوں سے گرانے میں بھی کوئی شرم وشتم محسوس نہیں کرتے۔ دوسری طرف کپتان کی زبان بھی اس کے قابو میں نہیں تاہم شریف خاندان کیلئے مکافات عمل کادوسرانام کپتان ہے ۔یادرکھیں جونفرت کے بیج بوتے ہیں وہ محبت کی فصل نہیں کاٹ سکتے لہٰذاء عہدحاضر کے سیاستدان دشنام طرازی اوراشتعال انگیز ی سے گریزکریں۔

دنیابھر میں 31دسمبر کے بعد 2023ء شروع ہوجائے گالیکن متحدہ حکومت کادھڑا نوے کی دہائی اوربندگلی سے باہرنہیں نکلنا چاہتا،یہ اپنے" شوق" کیلئے دوسروں کو"شاک" دیتے رہیں گے ۔ہمارے ملک میں مقدمات اورتعصبات کی سیاست زوروں پر ہے، وفاق کے دباؤپر کپتان کیخلاف ایف آئی آرمیں دہشت گردی کادفعہ لگائی گئی جوپچھلے دنوں اسلام آباد ہائیکورٹ نے اڑا دی لیکن وفاقی حکومت نے کسی آفیسر کومعطل یا ٹرانسفر نہیں کیا، اس کے بعد پنجاب میں دوعددوفاقی وزراء کیخلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج رجسٹرڈ ہوئی تووفاق نے غضبناک انداز میں لاہور کے مستعد اور پروفیشنل سی سی پی او غلام محمودڈوگر کواسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں رپورٹ کرنے کاآمرانہ اورمنافقانہ حکم صادر کردیا جس پروزیراعلیٰ پنجاب پرویزالٰہی نے غلام محمودڈوگر کے ساتھ جادوکی جپھی لگا تے ہوئے لاہورمیں مجرمانہ سرگرمیوں کے سدباب کیلئے ان کی کاوشوں کوبھرپور انداز سے سراہا اوردوٹوک انداز میں انہیں پنجاب سے ریلیوکرنے سے انکار کردیا ۔پنجاب کے انتھک سینئر صوبائی وزیرمیاں اسلم اقبال نے بھی وفاق کی طرف سے غلام محمودڈوگر کی تبدیلی کے فیصلے کومسترد کردیا۔سیاستدان اقتدار پراپنی گرفت مستحکم بنانے کیلئے سرکاری حکام کوانتقام کانشانہ بناتے اوران کے درمیان دراڑ پیدا کرتے آئے ہیں۔ تخت اسلام آباد پربراجمان حکمران کالاہور کے انتھک سی سی پی او غلام محمودڈوگر کو اسٹیلشمنٹ ڈویژن میں رپورٹ کرنے کاشاہی فرمان" انتظامی" نہیں "انتقامی" تھا جو پنجاب حکومت کیلئے قابل قبول نہیں کیونکہ صوبہ میں آفیسرز کی کافی کمی ہے ۔ نڈر اورنیک نیت غلام محمودڈوگر کی وفاداریاں اورتوانائیاں کسی سیاسی خاندان یاحکومت نہیں بلکہ ریاست کیلئے وقف ہیں ۔جو"محمود"کا"غلام" اورجس کی قوم" ڈوگر" ہووہ کسی فرعون یا حکمران کی غلامی قبول نہیں کرسکتا۔ سرفروش اورسربلندغلام محمودڈوگر کو سرکش عناصر کا تنا ہواسرانصاف کی دیوی کے روبروجھکانا اورشرپسند"کوبروں" کاپھن کچلنا آتا ہے ،وہ شروع سے اب تک اپنے مختلف عہدوں اور محاذوں پرسماج دشمنوں اوران کے سہولت کاروں کامحاسبہ کرتے رہے ہیں ،ان کی اس کمٹمنٹ کودیکھتے ہوئے انہیں دوسری بار سی سی پی اولاہور تعینات کیا گیا ہے، ان کے دورمیں بدنام زمانہ بدمعاشوں کوتھانوں میں حاضری لگاتے ہوئے دیکھا گیا۔عمومی طورپرہمارے سیاستدانوں کی طرح آفیسرز کے بھی "دوچہرے "ہوتے ہیں لیکن پروفیشنل ایڈیشنل آئی جی غلام محمودڈوگر کا"ایک چہرہ" اورلاہور میں شرپسندعناصر کیخلاف کریک ڈاؤن کی کامیابی کا ان کے سر"سہرا" ہے۔ماہ محرم،حالیہ کرکٹ میچزاورعیدمیلادالنبی ؐکے دوران امن وامان برقراررکھنا لاہور پولیس کی قیادت اور پیشہ ورانہ مہارت کامظہر ہے،غلام محمودڈوگر شہر اورشہریو ں کی ضرورت ہیں۔ سی سی پی اوغلام محمودڈوگر اورڈی آئی جی آپریشنز افضال احمدکوثرنے لاہور پولیس کی سمت اوراس کی ترجیحات کافی حدتک درست کردی ہیں ۔غلام محمودڈوگر ایک" عہدساز" آفیسر ہیں،وہ "عہدوں"کیلئے" سازباز"نہیں کرتے۔ وفاقی حکومت کا اپنے وزراء کیخلاف ایف آئی آر کے اندارج کواپنی انا پرحملے سے تعبیر کرنادرست نہیں ،محض ایک ایف آئی آر کی بنیاد پر لاہور پولیس کے باصلاحیت کمانڈر کوسرنڈر کرنے پر مجبور کرنا سیاسی مداخلت اورعداوت کی انتہا ہے ۔پنجاب حکومت اوروفاق کے درمیان تناؤکی قیمت ایک قابل آفیسرغلام محمودڈوگر کیوں اداکریں ،صوبائی حکومت کا مکتوب موصول ہونے کے بعدبھی وفاق ہٹ دھرمی چھوڑنے کیلئے تیار نہیں، یادرکھیں انتقام کے بل پرریاستی نظام نہیں چلے گا۔
 

Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 147 Articles with 106506 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.