غلزئی چاہیے

پاکستان کے کسی بھی ادارے یا شہر میں کوئی بھی ایسا شخص جوملک اور قوم کے لیے کام کررہا ہو وہ ہی اصل میں ہمارا نیشنل ہیرو ہے اور ایسے افراد کے کارناموں کی تعریف کرنا میں فرض سمجھتا ہوں بچے کو اگر سکول میں اچھے نمبر ملے ہوں تو والدین اسے انعام دیکر خوش کرتے ہیں کہ وہ مزید محنت کرے اسی طرح کام کرنے والے افراد کی تعریف کرنا مزید انہیں اچھے کام کی ترغیب دینا ہوتی ہے اور اس میں کنجوسی بلکل نہیں کرنی چاہیے انسان خطاؤں کا پتلا ہے اگر اچھے اور نیک کام ہی کرنا ہوتے تو پھرحضرت انسان کو جنت سے کیوں نکالا جاتا جو غلطی ہی نہ کرے تو وہ فرشتہ ہوا اور فرشتوں کی ہمیں ضرورت نہیں وہ نظر آتے ہیں اور نہ ہی کچھ کہتے ہیں ہمیں تو اپنے جیسے انسانوں کے ساتھ ہی وقت گذارنا ہے اور ایسے افراد کو اٹھا کر نیچے سے اوپر لانا ہے جو ملک وقوم کے ساتھ ساتھ اپنے ادارے کے بھی حامی و وفا دار ہوں ابھی حالیہ بارشوں اور سیلاب نے ملک میں خاص کر سندھ میں جو تباہی پھیلائی وہ ابھی تک رک نہیں سکی ایسے حالات میں سب سے اہم کام ٹرانسپورٹ کا ہوتا ہے جو نقل مکانی کے ساتھ ساتھ اشیائے ضروریہ کی ترسیل کا فریضہ بھی سرانجام دیتا ہے اور اس سلسلہ میں ہمارا ریلوے کا نظام سب سے اعلی ہے جو بدقسمتی سے سیلاب کی نظر ہوگیا اگر یہاں بھی ہمارے روایتی قسم کے افسران ہوتے تو ہوسکتا ریلوے کی طرح ریلوے ٹریک بھی ڈوبے رہتے تو کسی پر کوئی الزام نہ آتاکیونکہ بہانہ بھی تھا کام چور قسم کے افسران کی موجودگی میں لمبی دیہاڑیاں لگانے والے بھی تاڑ میں تھے اور تخمینہ بھی سوا پانچ سو ارب روپے سے زائد کاہے خوب اور ڈٹ کر لوٹ مار ہوسکتی تھی مگر ایک بندے کی نیک نیتی اور کام کی لگن نے ناممکن کو ممکن بنا دیا ریلوے ٹریک کی بحالی کے ساتھ ہی وہ مرد قلندر بھی اپنی ملازمت کے 36سال پورے کرکے ریٹائر ہو گیا جی ہاں بغیر کسی بیرونی مدد کے کراچی تک آپریشن بحال کرنے والے سی ای او ریلوے فرخ تیمور ریٹائر ہو گئے ملکی تاریخ کے بد ترین سیلاب میں جب ریلوے تنصیبات تباہ ہو گئیں تو پاکستان ریلویز کے لیے ایسا ممکن نہ رہا کہ حکومت پاکستان سے مدد لیے بغیر متاثرہ جگہوں پر ٹرین آپریشن کا آغاز ہو سکے اس صورت حال میں چیف ایگزیکٹو افسر ریلوے فرخ تیمور غلزئی نے ہیڈ کوارٹرز سے ہدایات جاری کرنے کی بجائے خود فیلڈ میں جا کر کام کیا اور ریلوے کے اپنے وسائل اور بغیر کسی بیرونی امداد کے صرف ایک ماہ میں پشاور تا کراچی آپریشن بحال کرکے ٹرین کا رکتا ہوا پہیہ رواں کر دیا جو سوا پانچ سو ارب کے نقصان کے بعد ادارے کی بحالی ناممکنات میں سے تھی تنصیبات کی بحالی کے لیے انہوں نے ایک گینگ مین سے لے کر ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ تک کے حوصلے بلند رکھے اور ان سے تین شفٹوں میں کام کروایاخاص کر اے ای این حضرات نے ریلوے کے اس خستہ ٹریک کو جس محنت اور کوشش سے بحال کروانے میں اپنے سی ای او کا ساتھ دیا وہ بھی قابل تعریف ہے جبکہ قلیوں اور ٹی ایل اے اسٹاف کو ملنے والی امداد کے فیصلے پر عملدرآمد میں انکاکلیدی کردار رہا وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے پچھلے دور میں جب ریلوے ریونیو میں ریکارڈ اضافہ ہوا تو فرخ تیمور غلزئی ان کی کور ٹیم کا حصہ تھے انہیں امید ہے کہ پاکستان ریلویز میں بہت پوٹینشل ہے اور جلد ہی ادارہ دوبارہ اپنے پاں پر کھڑا ہو گا کیونکہ ہمارے افسران اور ملازمین قابلِ فخر ہیں صرف ان کی خدمات کو سراہے جانے کی ضرورت ہے فرخ تیمور غلزئی پیشے کے لحاظ سے سول انجینئر ہیں انہوں نے 2 مئی 2022 کواپنے اس عہدے کا چارج سنبھالاتھا انہوں نے 2019 کے دوران ریلوے ہیڈ کوارٹر لاہور میں ایڈیشنل جنرل منیجر انفراسٹرکچر کے طور پربھی خدمات سر انجام دیں اور سال 2018 کے دوران سیکرٹری ریلوے بورڈ کے طور پر بھی خدمات انجام دیں ستمبر 2020 سے مئی 2022 تک پاکستان ریلویز کے وفاقی حکومت کے انسپکٹربھی رہے۔ فرخ تیمور غلزئی پروفیسر محسن حیات خان کے ہاں 8 اکتوبر 1962 کو پاکستان کے جنوبی پنجاب کے ایک دور افتادہ ضلع ڈیرہ غازی خان میں غلزئی (غلجی) کے سلیمان خیل قبیلے کے ایک پشتون خاندان میں پیدا ہوئے ان کا نام ان کے والدین نے محمد فرخ تیمور خان رکھا تھا ان کے آباؤ اجداد نے مشرقی افغانستان کے صوبہ زابل سے ہجرت کی اس وقت ان کے قریبی اور بڑھے ہوئے خاندان کے افراد ڈیرہ غازی خان اور ملتان میں آباد ہیں ان کے والدین ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے معروف ماہر تعلیم تھے جنہوں نے اپنی زندگی پنجاب کے پسماندہ اور دور افتادہ علاقے کے لڑکوں اور لڑکیوں کی خدمت کے لیے وقف کی ہوئی تھی فرخ تیمور غلزئی نے 1986 میں یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور (ٹیکسلا کیمپس ) سے سول انجینئرنگ میں بیچلر کیا اور ملتان ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں بطور اسسٹنٹ انجینئر شامل ہوئے اکتوبر 1989 تک تین سال تک انہوں نے ملتان ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) میں بے شمار اہم ترقیاتی منصوبوں کو انجام تک پہنچایا 1989 میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے امتحانات پاس کرنے کے بعد انہوں نے اکتوبر 1989 میں اسسٹنٹ ایگزیکٹو انجینئر کے طور پر پاکستان ریلوے میں شمولیت اختیار کی تین ریلوے ڈویژنوں یعنی ملتان ڈویژن، لاہور ڈویژن اور سکھر ڈویژن کے ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ کے طور پر خدمات انجام دیں چیف انجینئر اور منیجنگ ڈائریکٹر نیو سٹیشنز کے طور پر کام کرتے ہوئے انہوں نے پاکستان میں سکھ ٹورازم کو فروغ دینے کے سلسلے میں نئی عمارتوں کی تعمیر کی منصوبہ بندی کی اور اس پر عملدرآمد کیا جو کہ نارووال، ننکانہ صاحب، حسن ابدال سمیت مسافروں کی سہولت کے لیے بہاولپور، ساہیوال، اوکاڑہ، رائے ونڈ کے ساتھ ساتھ لاہور جنکشن اسٹیشن پر نئے ٹی ڈی آفس ٹاور کی تعمیر کی بطورفیڈرل گورنمنٹ انسپکٹر آف ریلویز (FGIR) کے طور پر، فرخ تیمور غلزئی نے ریلوے ایکٹ 1890 کودسمبر 1996 تک درست کرکے سیکشن 4(2)(c) کی دفعات کے مطابق پاکستان ریلویز میں بڑے ٹرین حادثات کی انکوائریاں کیں فرخ غلزئی کی شادی مسز سبرینا پونم درانی سے ہوئی ہے اور ان کے چار بچے ہیں دو بیٹے اور دو بیٹیاں سبھی بچے ڈاکٹر ہیں اور دادا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے والد کی طرح عوام کی خدمت میں مصروف ہیں اگر اسی طرح کے ریلوے میں چند اور افسران پیدا ہوجائیں تو یہ محکمہ بھی مثالی ترقی کرتا ہوا اپنی منزل تک پہنچ پہنچ سکتا ہے شرط صرف یہ ہے کہ ہر شعبہ میں کہیں نہ کہیں ایک غلزئی چاہیے ایک گینگ مین سے سی ای او تک ۔

 

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 830 Articles with 612399 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.