قائد تو نہیں بھانڈ ضرور بن رہے ہیں !!

مسلمانوں نے ملک بھر میں میلاد النبی کا جشن پر زور طریقے سے منایا اور رسول اللہ ﷺسے محبت اور چاہت کا بھرپور مظاہرہ کیا ، اب کم و بیش میلاد کی رونقیں کم بھی ہوگئی ہیں سوائے کچھ مقامات پر اب جلسے ہونے والے ہیں۔ کرناٹک میں بھی میلاد النبی ﷺ پچھلے کچھ سالوں کے مقابلے میں اس دفعہ بڑے پیمانے پر منعقد کرتے ہوئے مسلمانوں نے اپنے وجود اور جوش کا مظاہر ہ بھی کیاہے ۔ اب میلاد النبی ﷺ کے اختتام کے بعد مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ موجود ہ حالات پر نظر ڈالیں تو انکے مستقبل کیلئے بہتر ہوگا ۔ جہاں ایک طرف پچھلے کئی دنوں سے مسلمان میلاد کی تیاری میں لگے ہوئے تھے وہیں مسلمانوں کے خلاف سازشیں تیز ہوچکی ہیں ۔ مختلف تنظیموں پر پابندی لگائی گئی جس کا ذرہ برابر بھی احساس بھارت کے مسلمانوں کو نہیں ہے ، اب بھی مسلمان خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں ۔ کرناٹک میں جہاں مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں عام ہوچکی ہیں وہیں مسلمانوں کیلئےموجود ریزرویشن کو ختم کرنے کا پورا منصوبہ تیار ہوچکاہے جلد ہی کرناٹک حکومت مسلمانوں کے 2Bریزرویشن کو ختم کرتے ہوئے 2Aمیں ضم کریگی جہاں پر اب تک 3 فیصد مسلمانوں کو سرکاری نوکریوں ، تعلیم اور سرکاری سہولیات میں ریزرویشن تھا اب وہ ختم ہوکر 1 فیصد پر جاکھڑا ہوجائیگا ۔ لیکن مسلم قائدین ، دانشوران اور نام نہاد لیڈروں کو اس سے کوئی لینا دینا نظر نہیں آرہاہے۔ سب اپنی مستی میں مست ہیں ۔ تاریخ میں آتا ہے کہ عباسی حکومت کے آخری دور میں ایک وقت وہ آیا جب مسلمانوں کے دارالخلافہ بغداد میں ہر دوسرے دن کسی نہ کسی دینی مسئلہ پر مناظرے ہونے لگے جلد ہی وہ وقت بھی آ گیا جب ایک ساتھ ایک ہی دن بغداد کے الگ الگ چوراہوں پر الگ الگ مناظرے ہو رہے تھے، مناظرے اس بات پر تھے کہ ایک وقت میں سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں، کوا حلال ہے یا حرام؟ مسواک کا شرعی سائز کتنا ہونا چاہئے؟ ابھی یہ مناظرے ہو ہی رہے تھےکہ ہلاکو خان کی قیادت میں تاتاری فوج بغداد کی گلیوں میں داخل ہو گئی اور سب کچھ تہس نہس کردیا۔ مسواک کی حرمت بچانے والے لوگ خود ہی بوٹی بوٹی ہو گئے۔ سوئی کی نوک پر فرشتے گننے والوں کی کھوپڑیوں کے مینار بن گئے جنہیں گننا بھی ممکن نہ تھا، کوے کے گوشت پر بحث کرنے والوں کے مردہ جسم کوے نوچ نوچ کر کھا رہے تھے، آج ہلاکو خان کو بغداد تباہ کئے سیکڑوں برس ہو گئے مگر قسم لے لیجئے جو مسلمانوں نے تاریخ سے رتی برابر بھی سبق لیا ہو،آج ہم مسلمان پھر ویسے ہی مناظرے سوشل میڈیا پر یا اپنی محفلوں ،جلسوں اور مسجدوں کے منبروں سے کر رہے ہیں ،قوالی اور مشاعرے کرنا ہمارے مذہبی فرائض میں شامل ہونے لگے ،فرقےاور مسلک کے ہمارے جھنڈا بردار صرف اور صرف اپنے اپنے فرقوں کو جنت میں لے جانے کا دعویٰ کر رہے ہیں اور دور حاضر کا ہلاکو خان ایک ایک کرکے مسلم ملکوں کو نیست و نابود کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔ہم عجیب دانشورقوم ہمیشہ نان ایشو پر ساری انرجی اور دانش ضائع کردیتے ہیں۔ لڑ جھگڑ کر تھک کر مطمئن ہو کر سو رہتے ہیں کہ ہم نے فلاں پارٹی کی ایسی کی تیسی کر دی۔ مودی، بی جے پی اور سنگھ پریوار کی سوشل میڈیا پر ماں بہن ایک کرکے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ جیسے ہی ہمارے یہ جملے ان لوگوں تک پہنچے۔ قومیں تنقید، بحث، احتجاج اور ردعمل سے حکومتوں کی پالیسیوں پر اثرانداز ہوتی ہیں نہ کہ بھانڈ پن سے۔ چونکہ میڈیا بھی ایسے ہی لوگوں کو زیادہ پذیرائی دیتا ہے اس لئے ہر کوئی مسلمانوں کا قائد، ترجمان ، لیڈر بن کر ٹی وی میں بحث کے لئے بیٹھ رہاہے۔ ہم جس نوجوانوں سے عقابی روح پیدا کرنے کی امید کررہے ہیں وہ بھانڈ ، نچئے اور نہ جانے کیا کیا بنتے جارہے ہیں ۔ مسلمانوں کے سامنے ہر دن اتنے مسائل ہیں کہ ان مسائل کو سمجھنے کے لئے عرصہ لگ رہاہے لیکن اس سمت میں فکر کرنے کے لئے امت تیار ہی نہیں ہے جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ انکے پیروں تلے سے زمینیں کھسکتی جارہی ہیں اور وہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ آسمان میں اڑ رہے ہیں ۔ غور کریں اور فکربدلیں ورنہ انجام بہت برا ہوسکتاہے۔
 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 197815 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.