شیو سینامیں حالیہ بغاوت پہلی نہیں ہے بلکہ گزشتہ 56 سال
میں کئی مرتبہ پارٹی کو بغاوت کا سامنا کرنا پڑا ہے،پہلی بار بال ٹھاکرے کے
دست راست مادھودیشپانڈے نے 1970 کے عشرے میں احتجاج کیا اور پارٹی سے نکال
دیئے گئے،البتہ دوسری بغاوت کا پرچم 1991 میں موجودہ نیشنلسٹ کانگریس پارٹی
(این سی پی)لیڈر چھگن بھجبل نے بلند کیا ،جوپہلی صف کے لیڈرسمجے جاتے تھے
اور انہیں تب بال ٹھاکرے کے "اوتر ادھیکاری" یعنی جانشین کہاجاتا تھا،حال
میں ایک جلسہ میں شیوسیناصدر ادھو ٹھاکرے نے کہاکہ اگر وہ شیوسینا میں ہوتے
بھجبل بہت پہلے وزیر اعلی بن جاتے تھے۔اس پہلی بڑی بغاوت بغاوت نے شیوسینا
کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔شیو سینا کے بارے میں سبھی کوعلم ہے کہ وہ ایک
علاقائی سیاسی جماعت ہے،لیکن آنجہانی بالا صاحب ٹھاکرے نے 1980 کے عشرے میں
قومی مسائل پر اپنی بات پیش کرنا شروع کی اور اسے نہ ہوتے ہوئے قومی درجہ
حاصل ہوا،دراصل 1980 میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی تشکیل ہوئی
اورآنجہانی پرمود مہاجن اور اُن کے بہنوئی گوپی ناتھ منڈے نے ،جوکہ بال
ٹھاکرے سے کافی قریبی تعلقات رکھتے تھے ،مہاراشٹر میں بی جے پی کے ساتھ
انتخابی سمجھوتہ کرلیا اور 1995 میں شیوسینا-بی جے پی اتحاد کو کامیابی ملی
اور شیوسینا کے سنئیر لیڈر منوہر جوشی کی سربراہی میں شیوسینا اور بی جے پی
کی اتحادی حکومت بھی بھی بن گئی اور تقریباً ساڑھے چار سال بلاروک ٹوک اور
بلااختلاف بخوبی حکومت کی گئی تھی،کیونکہ بال ٹھاکرے نے پہلے روز سے کہہ
دیا۔تھ کہ مہاراشٹر میں منوہر جوشی سرکار اُن کے "ریموٹ کنٹرول" سے چلائی
جائے گی اور اُس پر عمل بھی کیا گیاتھا۔
شیو سینا کی تشکیل سے قبل بال ٹھاکرے مشہور انگریزی اخبار فری پریس کے صفحہ
اول کے کارٹونسٹ تھے اُن کے والد1960 میں پربھو دھن ٹھاکرے سنيکت مہاراشٹر
تحریک کے سرگرم رہنماء تھے،1966 میں ریاست مہاراشٹر کی تشکیل کے چھ سال
ہونے کے بعد بھی مراٹھی مانس کو سرکاری ملازمتوں کو ان کا حق ملنے کی
شکایتوں کے درمیان شیوسینا کی بنیاد ڈالی گئی،یہ بھی کی کہا جاتا تھا کہ
وزیراعظم اندرا گاندھی کا مہاراشٹر میں اثرورسوخ کم کرنے کے لیے ریاست کی
کانگریس لیڈر شپ نے بال ٹھاکرے کی حمایت کی تھی۔جن میں بمبئی کانگریس کے
صدر در ایس کے پاٹل پیش پیش تھے اور اس دور میں انہیں ممبئی کا بے تاج
بادشاہ کہا جاتا تھا۔
مہاراشٹرمیں 2019 میں شیواور بی جے پی اتحاد نے ساتھ ساتھ اسمبلی الیکشن
لڑے اور شیوسینا کی نشستیں کم آنے پر بھی ادھو ٹھاکرے نے مرکزی وزیر داخلہ
امت شاہ پر الزام عائد کیا کہ نشستیں کم آ نے پر بھی بی جے پی اس مرتبہ
شیوسینا کو وزارت اعلیٰ کا عہدہ دے دے گی ،لیکن بی جے پی کی نشستیں زیادہ
جیتنے پر امت شاہ اپنے وعدے سے مکر گئے اور وعدہ خلافی پرشیوسینا نے
ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے این سی پی اور کانگریس سے مل کر حکومت سازی کرلی ،اور
اس کے صدر ادھوٹھاکرے وہاں کے وزیراعلی بنا دیئے گئے،اور ٹھیک ڈھائی سال
بعد بی جے پی نے ایکناتھ شندے کواکسا کر بغاوت کر اقتدار پر قبضہ
کرلیا،شیوسینا پہلے 30 سال تک بی جےپی کی اتحادی رہی ،کیونکہ نظریاتی طور
پر دونوں ایک دوسرے سے کافی ہم آہنگ تھے،مہاراشٹر اسمبلی انتخابات، 2019ء
دونوں نے اتحاد کے ساتھ لڑے،جس میں ان کے اتحاد کی فتح ہوئی،لیکن فتح کے
فورا بعد شیوسینا نے کہنا شروع کر دیا کہ امت شاہ لنء وعدہ کیا تھا کہ اسی
کا وزیراعلی ہوگا،بی جے پی اس پر تیار نہ ہوئی،جس کے بعد دونوں کا اتحاد
ٹوٹ گیا،پھر شیوسینا نے اپنی نظریاتی حریف کانگریس اور این سی پی کے ساتھ
مل کر حکومت تشکیل دی،اس کا بنیادی نظریہ مراٹھی اور ہندو قوم پرستی
ہے،لیکن حکومت میں آنے کے بعد نہوں 9 نے اپنی اس تصویر کو کافی حد تک بدل
دیا ہے،اب جہاں وہ سیکولرازم کے گن گارہی ہے ،بلک پارٹی صدر ادھو ٹھاکرے
اور ان کے مسلمانوں سے بھی انکی قربت بڑھی ہے،چنانچہ کئی بار مسلم مسائل
پر۔لیڈران مل بیٹھے۔این۔ آر سی مسئلہ پربی جے پی کی مخالفت کی اور اسے نافذ
نہ کرنے کا عندیہ دیا، جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ بال ٹھاکرے نے 19
جون کو پارٹی کی بنیاد ڈالی اور ان کے وہم وگمان بھی بھی56سال بعد شندے
گروپ اتنی شدت کے ساتھ بغاوت کرے گا کہ پارٹی کی چولیں ہل جائیں گی ،یہاں
تک کہ قومی الیکشن کمیشن دونوں کے تنازع میں شیوسینا کا انتخابی نشان سیل
کردے گا،احتجاج کے باوجود انہیں ان کی ایماء پر پارٹی کے الگ الگ نام اور
نشانات دے دیئے گئے۔یہ صاف نظر آرہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے اس معاملہ میں
جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے ،
شیوسینا کو نئے نام اور انتخابی نشان کے معاملے میں ادھو ٹھا کرے گروپ نے
بھی الیکشن کمیشن پر شندے گروپ کی درپردہ حمایت کرنے اور جانبداری کرنے کا
سنسنی خیز الزام عائد کیا ہے۔
اس بات کو اجاگر کرتے ہوئے کمیشن کو لکھے گئے ایک طویل مکتوب میں ادھو ٹھا
کرے گروپ نے کم از کم ۱۴ نکات کی نشاندہی کرتے ہوۓ اس بات کو ثابت کرنے کی
کوشش کی ہے کہ الیکشن کمیشن کا جھکاؤ شندے گروپ کی طرف تھا اور اس نے اپنے
عمل سے اس بات کو یقینی بنایا کہ شندے گروپ زیادہ بہتر انداز میں نام اور
انتخابی نشان کا انتخاب کر سکے۔
ادھو گروپ نے انتخابی نشان اور پارٹی کا نام ویب سائٹ پر جاری کر دیئے اور
پھر انہیں ڈیلیٹ کر دینے نیز تجاویز پیش کرنے کیلئے شندے گروپ کو اضافی وقت
دینے کا حوالہ دیا ہے۔ ادھو ٹھا کرے گروپ جو اب "شیوسینا ادھو بالا صاحب
ٹھاکرے ہے، الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خط میں نشاندہی کی ہے کہ شندے گروپ کی
جانب سے نام اور نشان کی تجویز داخل کرنے سے قبل ادھو ٹھاکرے نے کمیشن میں
اپنے گروپ کیلئے جو نام اور علامتیں پیش کی تھیں ، انہیں کمیشن نے اپنی ویب
سائٹ پر جاری کر دیا ۔انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ سے شندے گروپ کو یہ موقع
مل گیا کہ وہ ادھو گروپ کی علامتوں اور تجویز کر دو ناموں کو ملحوظ رکھتے
ہوئے اپنے لئے بہتر نام اور نشان کا انتخاب کر سکے۔ اتناہی نہیں ادھو گروپ
کا الزام ہے کہ انہوں نے جو علامتیں الیکشن کمیشن میں بطور انتخابی نشان
پیش کی تھیں، کم وبیش وہی علامتیں شندے گروپ نے بھی پیش کیں کیوں کہ وہ
کمیشن کی ویب سائٹ پر اسے دیکھنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ ادھو گروپ نے اپنی
جانب سے پیش کر دہ تجاویز کو ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے کے بعد ہٹا دینے کا
حوالہ دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کو لکھا ہے کہ ہمارے لئے یہ حیرت انگیز تھا
کہ الیکشن کمیشن نے بعد میں ( علامات اور نام والا مکتوب ویب سائٹ سے ہٹا
دیا اور یہ کہنے کی ضرورت ہی کیا تھی کہ شندے گروپ کا وہ خط بھی کمیشن نے
اپنی ویب سائٹ پر آپ لوڈ ہی نہیں کیا جس میں انہوں نے اپنی جانب سے نام اور
نشان کی تجویز پیش کی تھی۔ مکتوب میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ ادھو
گروپ کی تجاویز کو جان لینے کے بعد ہی ممکن ہوسکا کہ شندے گروپ نے نام کے
طور پر پہلی تجویز رکھی جو ادھو گروپ کی جانب سے رکھی گئی تھی جبکہ علامتوں
میں بھی پہلی اور دوسری علامت والی تھی جو ادھو گروپ نے پیش کی تھی۔ اس کے
نتیجے میں انتخاب میں ٹکراؤ کی صورت پیدا ہوئی ادھو گروپ اپنی جانب سے پیش
کئے گئے پہلے نام اور پہلی اور دوسری علامت کو حاصل کرنے میں نا کام ہو
گیا۔ اس کے ساتھ ہی ادھو گروپ نے الیکشن کمیشن پر سنگین الزام بھی عائد کیا
ہے کہ انہیں نام اور نشان الاٹ کرنے کے تعلق سے کمیشن نے جو مکتوب اپنی ویب
سائٹ پر اپ لوڈ کیا اس میں علامت کی تصویر نہیں تھی مگر جب شندے گروپ کیلئے
اسی طرح کا مکتوب اپ لوڈ کیا گیا تو اس میں نہیں دی گئی علامت کی بڑی کی
تصویر شامل کی گئی تھی۔جوکہ کمیشن کی جانبداری کا ثبوت ہے۔
گزشتہ چند سال سے برسراقتدار بی جے پی پر پولیس،شہری انتظامیہ اور عدلیہ پر
سیاسی دباؤ بنائے رکھنے کی پالیسی اختیار کی ہے ،جس کے تحت حزب اختلاف ہی
نہیں بلکہ ہر ایک مخالف کو ایک طرف کردیا جائے،ایسے بے شمار معاملات سامنے
آئے ہیں ،کسی سوشل سوسائٹی کی نمائندںگی کرنے وذلےایکٹیوسٹ کو جیل میں
ٹھونس دیا جاتا ہے،ایسے بے شمار نوجوان ہیں ،جنہوں نے ناانصافی ،بے روزگاری
اور بدعنوانی کے خلاف آواز بلند کی تو ان پر ملک مخالف ایکٹ کے تحت
کارروائی کی گئی ،فی الحال جیل میں سینکڑوں افرادلاعلم ہیں کہ انہی۔ کس جرم
کی ساز دی جارہی ہے۔یہی کام الیکشن کمیشن بھی کررہا ہے،کئی انتخابی تاریخوں
کا اعلان مرکزکی ہدایت ہر کیا جاتا ہے۔اور پولیس،انتظامیہ عدلیہ اور الیکشن
کمیشن ۔جیسے غیرجانبدارادارے سیاسی دباؤ میں۔ اپنے اصولوں اور قانون وضوابط
کو بالائے تک رکھ چکے ہیں ۔اور اسے سلسلہ میں کہاجارہا ہے کہ اُف یہ تیرے
اُصول ،جانبداری اورمن ما نی،اوران کے پیش نظرمستقبل میں عوام ،سیاسی
جماعتوں اور اداروں وتنظیم کوسنگین نتائج کا سامناکرنا پڑسکتا ہے۔
|