کپتان جب بھی کوئی دِل خوش کُن اعلان کرتا ہے تو میں
تحریکِ انصاف میں شمولیت کا ارادہ باندھ لیتی ہوں ۔ یہ بات الگ کہ ضمیر بہت
لعن طعن کرتا ہے لیکن اُس ضمیر کو گٹر میں بہا دینا چاہیے جو بھوکوں مار
دے۔ نوازلیگ کی حمایت میں کالم لکھ لکھ کر ’’ہپھ‘‘ گئے لیکن مجال ہے جو اُس
طرف سے ہوا کے دوش پر سوار ہو کر کسی ’’لفافے‘‘ کی مسحور کُن خوشبو آئے۔
دوسری طرف جن لکھاریوں نے کپتان کا دامن تھاما وہ دنوں، مہینوں میں کروڑ،
ارب پَتی بن گئے۔ ایسے ہی ایک اینکر کا بیان ہے کہ اُس کی اتنی آمدن ہے جس
سے وہ ہر 2 ماہ بعد ڈیفنس میں کوٹھی بنا سکتا ہے۔ ہمیں معلوم کہ ’’سلطنتِ
عمرانیہ‘‘ سے پہلے اُس کے پاس ’’کَکھ‘‘ بھی نہیں تھا اور اب وہ اپنی دولت
پہ ’’غُٹر گوں، غٹرگوں‘‘ کرتا پھرتا ہے۔
ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ خان کے ہر اعلان پر پی ٹی آئی میں شمولیت کا
ارادہ باندھتی اور توڑتی رہتی ہوں۔ مثلاََ جب اُنہوں نے 50 لاکھ گھروں کی
بات کی تو میں نے بھی ایک نئے نویلے گھر کے سہانے سپنے سجا لیے۔ پھر جب
کپتان نے انڈوں، مرغیوں، کٹوں اور وَچھوں کے ذریعے معاشی ترقی کا خواب
دکھایا تو میں سوچنے بیٹھ گئی کہ ہمارے لیے کَٹے وَچھے بہتر ہوں گے یا انڈے
مُرغیاں؟۔ لیکن 50 لاکھ گھروں کی طرح کپتان کا یہ منصوبہ بھی درمیان میں ہی
لٹک گیا۔ اِس کے بعد اُنہوں نے کئی سہانے سپنے دکھائے لیکن ہر سپنے کی
تعبیر اُلٹ۔ اپنے ہر اعلان کے بعدکپتان تو ’’پھُر‘‘ ہو جاتے ہیں اور میں
کسی نئے اعلان کے انتظار میں بیٹھ جاتی۔ مجھے یقین کہ کپتان کی اِس میں بھی
کوئی نہ کوئی مصلحت ہی مضمر ہوگی جسے میرے جیسے کُند ذہن نہیں سمجھ سکتے
وگرنہ کیسے ممکن ہے کہ ایک عظیم رَہنماء سینکڑوں اعلانات کرے اور کسی ایک
پر بھی عمل نہ ہو۔ اپنے اعلانات پر عمل درآمد نہ کرنے کا عُقدہ وا کرتے
ہوئے خان نے کہا ’’ذمہ داری میری تھی مگر حکمرانی کسی اور کی تھی‘‘۔ چونکہ
کپتان جھوٹ نہیں بولتا اِس لیے یقیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے ہی کپتان کے ہاتھ
پاؤں باندھ رکھے ہوں گے۔’’لیگئیے‘‘ البتہ کپتان کے اِس بیان پر یقین کرنے
کو تیار نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب کپتان وزیرِاعظم تھا تو کہا کہ کوئی بھی
فیصلہ اُن سے پوچھے بغیر نہیں ہوتا اِس لیے وہ ہر فیصلے کا ذمہ دار ہے لیکن
اب کہتا ہے ’’حکمرانی کسی اور کی تھی‘‘۔ اگر واقعی کپتان بے بَس تھا تو پھر
اسٹیبلشمنٹ کی کوششوں کے باوجود عثمان بُزدار کو پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ سے
فارغ کیوں نہ کیا گیا؟۔ کیا یہ بھی اسٹیبلشمنٹ کا حکم تھا کہ ملک ریاض کو
قومی خزانے کے 190 ملین پاؤنڈز دے کر یونیورسٹی کے نام پر کئی سو ایکڑ زمین
حاصل کر لی جائے؟۔ کیا اسٹیبلشمنٹ نے کہا تھا کہ پنکی پیرنی کے لیے ہیروں
کے ہاراور نگوٹھیاں لی جائیں؟۔ کیا توشہ خانے پر ’’جھاڑو پھیرنے‘‘ کا حکم
بھی اسٹیبلشمنٹ نے دیا تھا؟۔ کیا جیل میں میاں نوازشریف کے سامنے مریم نواز
کو گرفتار کرنے اور پھر اُسے پھانسی کوٹھڑی میں رکھنے کا آرڈر بھی کسی اور
طرف سے آیا تھا؟۔ کیا آصف زرداری کی بہن فریال تالپور کو ہسپتال سے گرفتار
کرنے کا حکم بھی اسٹیبلشمنٹ نے ہی دیا تھا؟۔ کیا رانا ثناء اﷲ، شاہد خاقان
عباسی، احسن اقبال، خواجہ سعد رفیق، خواجہ سلیمان رفیق اور اُن جیسے دیگر
کئی لیگی رَہنماؤں کی پکڑ دھکڑ کے پیچھے بھی اسٹیبلشمنٹ ہی کا ہاتھ تھا؟۔
آخری سوال یہ کہ اگر کپتان واقعی اتنا مجبور اور بے بس تھا تو وہ ایسی
وزارتِ عظمیٰ کو ٹھوکر مار کر عوام میں واپس کیوں نہ آگیا۔ آج جب وزارتِ
عظمیٰ چھن گئی تو اُسے سب کچھ یاد آگیا۔۔۔۔۔ میں پہلے بھی کہہ چکی کہ کپتان
جھوٹ نہیں بولتا اِس لیے اُس نے جو کچھ بھی کہا، وہی سچ۔ رہی لیگیوں کی بات
وہ تو کپتان کی مقبولیت کے حسد میں مبتلاء اور حیران کہ خان کی مقبولیت اب
بھی پہاڑوں سے اونچی کیوں اور کیسے؟۔
پہاڑوں سے یاد آیا کہ لال حویلی والے نے انکشاف کیا ہے کہ 15 اکتوبر سے
پہلے کے پی کے کے ٹائیگر پہاڑوں سے اُتر کر اسلام آباد پر قبضہ کر لیں گے۔
اسلام آباد کے شمال کی طرف مری کی پہاڑیوں کا سلسلہ ہے جسے مارگلہ کی
پہاڑیاں کہا جاتا ہے۔ مارگلہ کے دوسری طرف کے پی کے ہے۔ کپتان نے تو کہا
تھا ’’چورڈاکو اور اُن کے ہینڈلرز سُن لیں کہ ہم نے جو پلان تیار کیا ہوا
ہے وہ کسی کو بھی نہیں معلوم۔ شہبازشریف اور رانا ثناء اﷲ! تم اُلٹے بھی
لٹک جاؤ تو کچھ نہیں کر سکتے‘‘۔ کپتان کایہ راز لال حویلی والے نے فاش کر
دیا۔ اب حکیم ثناء اﷲ فیصل آبادی اِس کا بھی کوئی نہ کوئی ’’دیسی ٹوٹکا‘‘
ڈھونڈ نکالے گا۔ اِسی لیے میں نے ہمیشہ مشورہ دیا کہ لال حویلی والا
’’اُن‘‘ کا جاسوس ہے اِس لیے اُس سے ذرا بچ بچا کے۔ اِس ’’جُماں جنج نال‘‘
کے بارے میں تحریکِ انصاف کے اندرونی حلقوں میں عام نفرت پائی جاتی ہے۔
پچھلے دنوں کورکمیٹی کے اجلاس میں شاہ محمودقریشی اور پرویز خٹک نے اُس کی
موجودگی پر شدید اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ جب حکومت ہی نہیں رہی تو پھر وہ
کس حیثیت سے اجلاس میں شرکت کرتا ہے۔ دراصل کپتان نے تو اُسے صرف اِس لیے
اپنے ساتھ نتھی کیا ہوا تھا کہ وہ گیٹ نمبر چار کا ملازم ہے۔ اب جبکہ اُسے
گیٹ نمبر چار سے دھتکار دیا گیا اور خود اُس کا بیان ہے کہ پچھلے چھ سات
ماہ سے اُس کا گیٹ نمبر چار سے کوئی رابطہ نہیں تو پھر کپتان کو بھی اُس سے
فاصلہ کر لینا چاہیے۔
ویسے مجھے لال حویلی والے کی کسی بھی بات پر کبھی یقین نہیں آیا کیونکہ اُس
کی ’’طوطا فال‘‘ کبھی سچ ثابت نہیں ہوئی۔ اِس لیے میں سمجھتی ہوں کہ اُس کی
15 اکتوبرکو پہاڑوں سے اُتر کر اسلام آباد پر قبضہ کرنے والی پیشین گوئی
بھی غلط ہی ہوگی۔ جس وقت میں یہ کالم لکھ رہی ہوں 15 اکتوبر آدھا گزر چکا
ہے لیکن تاحال مارگلہ کی پہاڑیوں پر کوئی ہلچل نہیں۔ 16 اکتوبر (آج) ضمنی
انتخاب کا دن ہے جس میں ہمارا کپتان قومی اسمبلی کی 7 سیٹوں پر انتخاب میں
حصّہ لے رہا ہے۔ یہ یقین کہ کپتان تمام سیٹوں پر کامیاب ہو جائے گا اور اگر
نہ ہوا تو پھر یقیناََ دھاندلی ہوئی ہوگی جس پر احتجاج ہمارا آئینی حق۔ پھر
بھی میں سوچ رہی ہوں کہ اگرپہاڑوں سے اُترنے والی پیشین گوئی سچ ثابت
ہوجاتی تو کیا فلمی سین ہوتاکہ جب ہمارے خیبرپختونخوا کے مسلح پختون بھائی
مارگلہ کی پہاڑیوں سے ’’حقیقی آزادی‘‘ کے نعرے بلند کرتے ہوئے نمودار ہوتے
اور پھر ’’آگیا تے چھا گیا‘‘۔ میرا خیال ہے کہ یہ پختون ایسے ہی اسلام آباد
کو فتح کر لیتے جیسے طالبان نے کابل فتح کیا تھا اور پھر اُن کا
’’امیرالمومنین‘‘ فتح کا جھنڈا لہراتا ہوا کابل کے صدارتی محل میں داخل ہوا
تھا۔ ایسے ہی ہمارا کپتان پورے تزک واحتشام کے ساتھ بنی گالہ سے وزیرِاعظم
ہاؤس آکر حقیقی آزادی کا پرچم بلند کرے گا اور پیچھے مدھر دھنوں میں ’’اَج
میرا نچنے نوں جی کرداـ‘‘ لائیو گایا جا رہا ہوگا۔ بس ایک اُڑچن حکیم ثناء
اﷲ فیصل آبادی ہے جو ہر وقت مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہتا رہتا ہے ’’آؤ تو
سہی، بھرپور استقبال کریں گے‘‘ (اِس فیصل آبادی کے طریقۂ استقبال کی ایک
جھلک ہم 25 مئی کو ملاحظہ کر چکے)۔ اب یہ شرپسند فیصل آبادی دھڑادھڑ ہمارے
رَہنماؤں کی پکڑ دھکڑ میں مصروف ہے۔ پہلے حامد زماں اور سیف اﷲ نیازی کو
پکڑا اور اب اعظم سواتی کو پابندِ سلاسل کر دیا گیا۔ پتہ نہیں ہمارے کپتان
کو سواتی جیسے ’’تحفے‘‘ کہاں سے ہاتھ لگے جو گیٹ نمبر 4 پر جا کر پاک فوج
کو تڑیاں لگانے جیسی بڑھکیں لگا رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں یہی کہا
جا سکتا ہے ’’کیا پِدّی اور کیا پِدّی کا شوربہ‘‘۔ سواتی نے لکھا 'How long
imported govt & its criminals & their masters 5-6 in establishments are
going to play with the future of our nation?. I wish Imran Khan allow me
I would come straight to Gate 4 in Rawalpindi to challange those who
have ruined this country".(کب تک امپورٹڈ حکومت، اُس کے کریمینلز اور اِس
کے اسٹیبلشمنٹ کے 5,6 آقا قوم کے مستقبل سے کھیلیں گے؟ میری خواہش ہے کہ
عمران خاں مجھے اجازت دے دے تو میں سیدھا راولپنڈی کے گیٹ نمبر 4 پر اُن
لوگوں کو چیلنج کرنے کے لیے جاؤں جنہوں نے ملک تباہ کر دیا)۔ کہے دیتے ہیں
کہ پاک فوج ہمارا فخر تھا، ہے اور ہمیشہ رہے گی اِس لیے سواتی جیسے بڑھک
باز کے لیے یہی پیغام ’’ہور چوپو‘‘۔
|