روس اور یوکرین کی جنگ عالمی سطح پر دنیا کو معاشی بحران
کی جانب ڈھکیل رہی ہے۔ پہلے ہی کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا کی معیشت کو
شدید نقصان پہنچا ہے ۔ اگر روس اور یوکرین کے درمیان جنگ بندی نہ ہوئی تو
مستقبل قریب میں اسکے سنگین نتائج برآمد ہونگے۔ اسی لئے کئی اہم ترین ممالک
کے حکمراں روس اور یوکرین کے درمیان مصالحت کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔
متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید آل نہیان نے بھی 11؍ اکٹوبر منگل
کو سینٹ پیٹرزبرگ کے دورے پر روانہ ہوئے جہاں انہو ں نے روس کے صدر
ولادیمیر پوتن سے ملاقات کی ۔شیخ محمد زاید النہیان کی کوششیں کتنی ثمر آور
ہوتی ہے یہ الگ بات ہے لیکن انہو ں نے جو پیشِ قدمی کی ہے وہ قابلِ ستائش
ہے ۔ کیونکہ دنیا کو اس وقت امن و سلامتی اور معاشی استحکام کی ضرورت ہے ۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق متحدہ عرب امارات کے صدر نے یوکرین بحران کے تمام
فریقوں کے درمیان بات چیت کی ضرورت پرزور دیا۔بتایا جاتا ہیکہ ملاقات کے
دوران امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید آل نہیان نے کہا کہ ’امارات دنیا میں
امن واستحکام کی بنیادوں کے استحکام میں کردار ادا کرنے کا خواہاں
ہے۔کشیدگی کم کرنے اور بحرانوں کا سفارتی حل تلاش کرنے کے لئے کام کررہا
ہے۔ یوکرینی بحران حل کرانے کیلئے سفارتی کوششوں کی بھرپور حمایت ضروری
ہے‘۔الامارات الیوم کے مطابق بتایا جاتا ہیکہ شیخ محمد بن زاید نے منگل کو
ماسکو میں روسی صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ باہمی دلچسپی کے متعدد مسائل اور
حالات پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ خصوصا یوکرین بحران کی تازہ صورتحال پر غور
کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ’ روس کے ساتھ تجارتی لین دین کا حجم دگنا کرکے
پانچ ارب ڈالر تک پہنچا دیا ہے‘۔’امارات نے سفارتکاری، بات چیت اور بین
الاقوامی قوانین کے اصولوں کے احترام پر زور دیا ہے‘۔روس کے صدر کا کہنا
تھا کہ’ امارات نے خطے میں اہم کردار کیا ہے۔ ماسکو چاہتا ہے کہ توانائی کی
منڈیاں رسد اور طلب کے درمیان توازن میں رہیں۔ اقدامات کا مقصد توانائی
سیکڑ میں استحکام پیدا کرنا ہے‘۔
***سعودی فرمانرواشاہ سلمان بن عبدالعزیز کی صدارت میں جدہ کے قصر السلام
میں سعودی کابینہ کا اجلاس منگل 11؍ اکٹوبر کو منعقد ہوا ۔ کابینہ نے
ایئرپورٹس کی عالمی کونسل (اے سی آئی) کا ریجنل آفس دارالحکومت ریاض میں
قائم کرنے کے فیصلے کی ستائش کی اور کہا کہ یہ اس بات کی علامت ہے کہ سعودی
عرب ہوابازی کے شعبے میں عالمی سطح پر آگے بڑھ رہا ہے۔ اجلاس میں کہا گیا
کہ عالمی تیل منڈی میں توازن اور استحکام کے حوالے سے اوپیک پلس کا کلیدی
کردار ہے۔کابینہ نے قطر میں عالمی فٹبال ورلڈ کپ دیکھنے جانے والے شائقین
کیلئے جاری ’’ھیا کارڈ‘‘ کی ای سروس فیس سرکاری خزانے سے ادا کرنے کی
منظوری دی ہے۔انکے علاوہ مزید فیصلوں کی منظوری دی گئی ہے۔
ایران میں بے حجابی کیلئے پرتشدداحتجاج میں اضافہ ۔ سپریم لیڈر کو ہٹانے کا
مطالبہ
بے شک اسلام میں لڑکیوں اور خواتین کیلئے حجاب ضروری ہے اور اس سے انکی
عصمتوں کی حفاظت ہوتی ہے اور معاشرے میں پردہ نشین خواتین کو عزت و احترام
کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ برائیوں اور بے حیائیوں کا امکان بھی کم ہوتا
ہے ۔ جمہوریہ اسلامی ایران میں لڑکیوں اور خواتین کو مکمل حجاب میں رہنے پر
زور دیاجاتا ہے ، خواتین کے سر پر اوڑھنی لازمی ہے ، سر کے بال دکھائی دینے
کی صورت میں گرفتاری عمل میں لائی جاتی ہے ۔ اسلامی قوانین کی عمل آوری
کیلئے مذہبی پولیس گردیش کرتی رہتی ہے ۔ 13؍ ستمبر کو ایسا ہی ایک معاملہ
پیش آیا یعنی ایک 22سالہ خاتون مہسا امینی کو درست طور پر حجاب نہ اوڑھنے
کی وجہ سے گرفتار کرلیا گیا جس کی تین دن بعد پولیس حراست میں ہی موت واقع
ہوگئی۔ مہسا امینی کے افراد خاندان کاکہنا ہے کہ پولیس نے انکی بیٹی کو
گرفتار کرکے شدید زدوکوب کیا جس کی وجہ سے وہ ہلاک ہوگئی۔مہسا امینی کی
ہلاک کے بعد 17؍ ستمبر سے ایران کے تقریباً تمام شہروں میں شدید احتجاجی
مظاہروں کا آغاز ہوا ۔ حکومتِ ایران نے ان مظاہرین سے سختی سے نمٹنے کیلئے
سیکیوریٹی فورسز کو ہدایت دی جس کی وجہ سے احتجاج میں شدت پیدا ہوگئی اور
کئی بچے،نوجوان مرد و خواتین ہلاک یا زخمی ہوگئے اور سینکڑوں احتجاجی
مظاہرین کو حراست میں لے لیا گیا ۔ ان پرتشدد احتجاجی مظاہروں کے سلسلہ میں
انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہیکہ اب تک کم از کم دو سو افراد بشمول 19بچے
ہلاک ہوچکے ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ ایران میں سکیورٹی فورسز نے اسکول میں
گھس کر طلبہ کو گرفتار کیا ہے۔ احتجاج کی یہ لہر حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج
ثابت ہورہی ہے جس میں ایران کے مذہبی رہنما و سپریم لیڈر آیت اﷲ خامنہ ای
کو ہٹانے کے مطالبات بھی ہورہے ہیں ۔ ہفتہ 9؍ اکٹوبر کو تہران کی الزہرا
یونیورسٹی میں اس وقت صورتحال مزید خراب ہوگئی تھی جب ایرانی صدر ابراہیم
ریئسی وہاں ایک تقریب میں شرکت کیلئے پہنچے تھے ۔ انکے خطاب کے دوران ہی
طالبات نے احتجاج شروع کردیا اور انہیں وہاں سے ’’چلے جاؤ‘‘ کے نعرے
لگائے۰۰۰حکومت جس طرح احتجاجیوں نمٹ رہی ہے ،اسے وہ حق بجانب گردانتی ہے
کیونکہ پردہ خواتین کیلئے ضروری ہے ۔جبکہ بعض احتجاجی خواتین و نوجوان
لڑکیاں جس طرح بے پردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت کے خلاف آواز اٹھارہی
ہیں اس سے حالات مزید بگڑتے دکھائی دے رہے ہیں اور ایسی خواتین کو
سیکیوریٹی فورسز نشانہ بنانے کی خبریں ہیں ۔ذرائع ابلاغ کے مطابق 12؍
اکٹوبر کو ایران کے سکیورٹی حکام نے کردستان کے علاقے سنندج میں ٹینک اور
جنگی جہاز پہنچا دیے ہیں، جہاں تقریباً چار ہفتے سے مسلسل احتجاج جاری ہے
جبکہ خصوصی فوجی دستوں کی بسیں بھی روانہ کر دی گئی ہیں۔ عرب نیوز کے مطابق
حجاب درست طور پر نہ اوڑھنے پر گرفتاری کے بعد پولیس حراست میں ہلاک ہونے
والی مہسا امینی کا تعلق اسی صوبے سے تھا ۔فی الحال احتجاج کی سب سے زیادہ
شدت سنندج میں بتائی جارہی ہے۔سینٹر فار ہیومن رائٹس کے مطابق ایسی ہی
صورتحال سیستان بلوچستان میں بھی ہے وہاں 30؍ ستمبر سے اب تک 90سے زائد
افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ڈائرکٹر ہادی غائمی کے مطابق’ ’کردستان میں فوجی
دستوں کے ہاتھوں سفاکانہ ہلاکتیں اور سیستان بلوچستان میں قتل عام سے عیاں
ہے کہ ریاستی تشدد میں مزید اضافہ ہو گا۔‘‘انسانی حقوق کے ادرے ایمنسٹی
انٹرنینشل نے بتایا ہے کہ اسے سخت تشویش ہے کیونکہ فوجی دستے مظاہرین کے
خلاف آتشیں اسلحہ اور آنسو گیس استعمال کر رہے ہیں جبکہ لوگوں کو ان کے
گھروں میں بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ عرب نیوز نے میٹرو کا حوالہ دیتے
ہوئے بتایا ہے کہ 16 سالہ یوٹیوبر سارینہ اسماعیل زادہ کو پچھلے ماہ کراج
میں احتجاج کے دوران سکیورٹی اہلکاروں نے شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا جس
سے وہ دم توڑ گئی تھیں۔ رپورٹ کے مطابق گھر والے کئی روز تک سارینہ کو
ڈھونڈتے رہے اور 10ویں روز حکام نے لاش ان کے حوالے کی۔ سارینہ کی مسخ شدہ
لاش دیکھنے کے بعد اس کی والدہ شدید صدمے سے دوچار ہوگئی اور پھرگھر پہنچ
کر پھانسی لے کر خودکشی کرلی۔اس سے قبل بھی ایک اورنوجوان لڑکی نیکاشاکرمی
کی مظاہروں کے دوران ہلاکت ہو گئی تھی۔ ایسی اور کتنی خواتین و لڑکیاں
ہونگی جو پرتشدد مظاہروں کے دوران ہلاک ہوچکی ہیں۰۰۰حکومتِ ایران خواتین و
لڑکیوں کو اسلامی تعلیمات کے ذریعہ پردہ کے احکامات سے واقف کروائیں اور
انہیں سختی سے نہیں بلکہ نرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پردہ سے متعلق بتائیں کہ
یہ انکے تشخص کا ضامن ہے ۔اور اسی کے ذریعہ انہیں عزت و وقار حاصل ہوتا
ہے۔کاش بے پردہ خواتین اسلامی احکامات کو سمجھ پاتیں۔
اردنی خاتون انجینئر ملک کی پہلی’’کوسٹر‘‘ ڈرائیور
تعلیم ’انسان کو معاشرہ میں مہذب، قابل فہمِ و فراست شخصیت کاحامل بناتی ہے
اور ان ہی تعلیم یافتہ افراد کو انکی قابلیت اوراعلیٰ صلاحیتوں اور محنت کی
بنیاد پربہتر سے بہتر روزگار فراہم ہوتاہے۔چاہے وہ سرکاری سطح پر ہو
یاخانگی یا خودکا اپنا کاروبار۰۰۰یہ ضروری نہیں کہ تعلیم کا حصول سرکاری
نوکری ہی ہو۰۰۰تعلیم یافتہ ، محنتی اور ذمہ داری کا احساس رکھنے والے افراد
کسی بھی پیشہ سے وابستہ ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایسی ہی ایک اردنی اعلیٰ
تعلیم یافتہ خاتون رشان النابلسی ہیں جنہوں نے فوڈ انجینئرنگ میں ڈگری حاصل
کی ہے تاہم انہیں ملازمت نہ ملنے کی صورت میں پبلک ٹرانسپورٹ’’کوسٹر‘‘چلانے
پر مجبور ہونا پڑا اس طرح وہ ملک (اُردن) کی تاریخ کی پہلی خاتون ڈرائیور
بن گئیں۔ذرائع ابلاغ کے مطابق رشان النابلسی شمالی اُردن کے شہر اربد میں
کوسٹر ڈرائیور کے طور پر کام کر رہی ہیں۔اسکائی نیوز کے مطابق رشان
النابلسی نے بتایا کہ ’کوسٹر کے مسافر مجھے ڈرائیور کی سیٹ پر بیٹھا دیکھ
کر حیرت کا اظہار کرتے ہیں۔ پہلی اردنی خاتون ہوں جو پبلک ٹرانسپورٹ کی
ڈرائیور بنی ہوں۔‘
اردنی خاتون کا کہنا ہے کہ ’فوڈ انجینیئرنگ میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد
سرتوڑ کوششوں کے باوجود ملازمت نہیں ملی تو پبلک بس ڈرائیور کے طور پر کام
کرنے کے سوا کوئی اور آپشن نہیں تھا۔‘ انہوں نے بتایا کہ ’ڈرائیورکی ڈیوٹی
مشکل ہے۔ روزانہ صبح 5 بجے شروع ہوتی ہے اور سورج غروب ہونے تک جاری رہتی
ہے۔ یہ محنت مشقت کا کام ہے۔‘ رشان النابلسی کا کہنا ہے کہ ’معاشرے کی جانب
سے تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ خاص طور پردوسرے ڈرائیور اور مسافر اس
پر فقرے کستے رہتے ہیں۔‘ سوشل میڈیا پربھی تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ بیشتر
صارفین نے رشان النابلسی کے اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’رزق حلال نعمت
ہے۔ ڈرائیونگ کوئی بری بات نہیں۔‘ بعض افراد کا اعتراض ہے کہ ’پبلک
ٹرانسپورٹ ڈرائیور کا کام مردوں کا ہے، عورتوں کا نہیں۔ اس کیلئے جسمانی
مشقت درکار ہوتی ہے۔‘ان سب کے باوجود رشان النابلسی فی الحال کوسٹر ڈرائیور
کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی ہیں، ہوسکتا ہیکہ بہت جلد انہیں انکی تعلیم
کے اعتبار سے بہتر سے بہتر نوکری مل جائے ۔
|