بہت ہو گیا تیرا نواز میرا نواز، تیرا بلاول میرا بلاول،
تیرا کپتان میرا کپتان کرتےاب اپنے گھر ، اپنی آ نے والی نسلوں اور اپنے
ملک کاسوچنا ہو گا اپنےملک کی فکر کرو. اب وقت آ گیا ہےعوام کو لیڈر
پرستیوں سے باہر نکلنا ہو گا۔ لیڈر پرستیوں سے باہر نکل کر جہاںانکا لیڈر
غلط ہو وہاں اس کو فوراً غلط کہے اور جہاں کوئی دیگر سیاسی رہنما صحیح کام
کر رہا ہے تو اپنے تمام تر اختلافات کوچھورکر اسکو صحیح کہے. ہم اپنے سیاسی
مقاصد کے لئے اس حد تک گر چکے ہیں کہ کوئی ہمارا مخالف رہنما اچھا کام بھی
کر رہا ہو توہم اپنے سیاسی مفادات کے لیے ہم اس کو عوام کے سامنے غلط ثابت
کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔
ہم پاکستانی قوم تب تک ایک عظیم قوم نہیں بن سکتی جب تک پاکستان کی عوام
اپنی تمام تر اختلافات ، اپنا مطلب اور اپنی محبتکو ایک طرف رکھ کر صحیح کو
صحیح اور غلط کو غلط کہنا نہیں آتا۔ ہم اپنے سیاسی لیڈر کی محبت میں اس قدر
مبتلا ہوتے ہیں کہہم ان کی غلطیوں کو بھی مختلف جواز بنا کر لوگوں کے سامنے
ڈیفنڈ کررہے ہوتے ہیں۔
آخر کب ہم اس سیاسی پارٹی بازی سے نکل کر صرف اپنے ملک و قوم کا سوچیں
گے۔اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی سوچ کو بدلیں۔ ہمکو کسی ایک پارٹی کو سپورٹ
کرنا چاہیے لیکن اس کی محبت میں اتنا ہی نہ مبتلا ہوجائے کہ اگر وہ کسی
مقام پر غلط ہو تو ہم میںان پر تنقید کرنے کی بھی ہمت نہ ہو۔ ہمارے سیاسی
رہنماؤں کو اس بات کا پتا ہونا چاہیے کہ آگر ہم کہیں غلط ہوے تو ہمارے اپنے
ہیچاہنے والے ہم پر تنقید کریں گے اس لیے وہ ہر فیصلہ اور ہر بات کرنے سے
پہلے ذرا سوچیں گے۔ انکو یہ نہ ہو کہ ہم جو مرضی کرےیابولے ہم کو ڈیفنڈ
کرنے والے اور ٹرک کی بتی کے پیچھے لگنے والے بہت لوگ ہیں۔
بدلو سوچ اور تب بدلے گا پاکستان
ہم بنائے مل کر خوبصورت پاکستان
میں عمران خان کو باقی تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان سے بہتر سمجھتا ہوں۔
اور ان کی ایمانداری اور نیک نیت ہونے کی وجہسے میں ان کو بہت پسند کرتا
ہوں پر اس کے علاوہ میں عمران خان کی بہت سی باتوں سے اختلافات ہیں ان میں
سے دو اہماختلافات یہ ہیں
میرا عمران خان سے پہلا اختلافات اس بات پر ہے جس بات کا پچھلے چار سالوں
میں عمران خان نے سب سے زیادہ زکر کیا ریاستمدینہ۔ عمران خان نے اپنی پچھلے
چار سالوں میں ریاست مدینہ کا ذکر کئی بار کیا اور انہوں نے یہ کہا کہ وہ
پاکستان کو ریاستمدینہ جیسی ریاست بنانا چاہتے ہیں جہاں غریب امیر تمام
قانون کے کٹہرے میں برابر ہوں. اور اس ملک میں ریاست مدینہ جیساقانون لانا
چاہتے ہیں اور میں ان کی اس بات سے خوش بھی ہوں کہ وہ پاکستان میں ایک
اسلامی نظام لانے کی بات کرتے ہیں۔ پر میراخان صاحب سے اختلاف صرف اس بات
پر ہے کہ خان صاحب ریاست مدینہ میں صرف قانون کی بالادستی نہیں وہاں پر اور
بھیبہت سی چیزیں اور بھی تھی
وہاں پر اخلاق نام کی چیز تھی۔ اخلاق‘‘ جمع ہے ’’خلق‘‘ کی جس کا معنی ہے
’’رویہ، برتاؤ، عادت‘‘۔یعنی لوگوں کے ساتھ اچھے رویےیا اچھے برتاؤ یا
اچھی طرح پیش آنا۔ اور میرا آپ سب سے بڑا اختلاف یہ ہے کہ آپ اخلاقیات کو
بھول چکے ہیں اپنی سیاست کوچار چاند لگانے کے لیے اخلاقیات کو بہت پیچھے
چھور آئیں ہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان صاحب پاکستان کے مقبول ترین لیڈر ہیں
اور ان کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ بہتاہم ہے اور اگر وہ کسی سیاسی
رہنما کا نام بگاڑتے ہیں تو ان کو دیکھ کر ان کے چاہنے والے بھی اسی نام سے
اس کو پکاریں گے۔جس سے معاشرے میں بھی بداخلاقی پیدا ہوگی لہذا خان صاحب کو
تنقید کرنی چاہیے پر سیاستدانوں کے نام رکھنے اور کھلےجلسے عام میں ان کو
ان کے غیر اخلاقی ناموں سے پکارنا ایک اچھی سیاست نہیں ہے اور نہ ہی اس چیز
کو ہمارے معاشرے میں اورنہ ہی ہمارے مذہب میں اچھا سمجھا جاتا ہیں اگر کسی
کو مولانا ڈیزل بلا کر یا کسی کو چیری بلوسم بلا کر یا کسی کو امریکیوینٹی
لیٹر بلا کر آپ کی سیاست کو چار چاند لگ جائیں گے یا پڑھے لکھے لوگ آپ کی
اس بات کو سراہیں گے یا کسی جگہ اس باتکو ڈیفنڈ کرنگے تو یہ غلط سوچ ہے آ
پکی۔
اور دوسرا آختلاف یہ ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ ہے اور وہ اسٹیبلشمنٹ
کو سیاسی مقصد کے لیے استمال کرے تو ٹھیکاگر کوئی اور کرے تو غلط اگر
عدالتیں ان کے حق میں فیصلہ دیں تو ٹھیک اگر نہ دے تو وہ بھی غلط اور جج
غدار، اگر میڈیا انکے حقمیں بولے تو ٹھیک اگر ان کے خلاف بولے تو میڈیا بک
گیا۔ اگر چند صحافی انکے حق میں بولے تو ٹھیک اگر ان کے خلاف بولے تو
وہلفافہ صحافی ہے۔
لیذا برائے مہربانی اپنی سیاسی جماعت کو سپورٹ کریں اپنے لیڈر کو سپورٹ
کریں لیکن جب وہ غلط ہوں تو ان کا ساتھ نہ دیں۔ جبوہ غلط ہوں تو ان کو کہں
کہ آپ اس جگہ غلط ہیں۔ اپنے ملک کو پہلے رکھیں پھر اپنے لیڈر کو۔ اس شخص کی
تعریف کریں جو ملککے لیے کچھ اچھا کر رہا ہے بےشک وہ آپکا سیاسی مخالف ہی
نہ ہو۔
|