"یہ اکیسویں صدی ہے ہم دھرم کے نام پر کہاں پہنچے
ہیں،ہمیں ایک سیکولر اور باشعور معاشرہ ہونا چاہیے ،لیکن آج نفرت کا ماحول
ہے۔" ان سطروں کے ذریعے سپریم کورٹ کی دورکنی بینچ بشمول جسٹس کے ایم جوسف
اور جسٹس رشی کیش رائے نے ملک کے نفرت کے حالات پر اپنی تشویش کو پیش کیا۔
ملک کے حالات میں گزشتہ آٹھ برسوں میں یکسر تبدیلی واقع ہوئی ہے،مرکز میں
نریندرمودی کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت کا پہلا پانچ سالہ دور غنیمت
رہا ،ایک نعرہ "سب کاساتھ سب کاوکاس لگاکر سبز باغ دکھائے گئے ،لیکن دوسرے
دور کو اُس سے بالکل اُلٹ کہاجاسکتا ہے،اس عرصے میں بیوکریسی ، انتطامیہ ،محکمہ
پولیس اور آخری حربے کے طور پر ایک حد تک عدلیہ پر بھی ہاتھ رکھنے کی کوشش
کی گئی اور کئی موقعوں پر دیئے گئے مبینہ فیصلوں نے عام آدمی کے یقین اور
اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے،لیکن پھر بھی عوام عدلیہ پر بھروسہ رکھتے
ہیں،ورنہ کس کو ضمانت دینے اور نہ دینے کے فیصلے اس انداز میں کئے گئے کہ
اُن سے جانبداری کی بُو آتی تھی۔
ویسے عدلیہ یا عدالت کی شکل میں اُمید کی کرن اب بھی عام آدمی کے دل میں
برقرار ہے،کیونکہ کبھی کبھی ایسے فیصلے سامنے آتے ہیں۔جوایک بار پھر عدلیہ
پر اعتماد بحال ہوجاتا ہے ،سپریم کورٹ آف انڈیا نے حالیہ چندسال میں ملک
بھر میں دیئے جانے والے نفرت انگیز بیانات پر کچھ عرصہ درگزر کے بعد اب
جاکر سخت موقف اختیار کیا ہے اور ایسے معاملات میں سب سے پہلے پولیس کے
طریقہ کار پر ناراضگی ظاہر کی ہے۔عدالت عالیہ نے پولیس سے انتہائی سخت لہجہ
میں کہا ہے کہ وہ ملک میں دیئے جانے والے اشتعال انگیز اور نفرت انگیز
بیانات پرشکایت کا انتظار نہ کرے بلکہ ایسے پھوٹ ڈالنے والے بیانات
کاازخودنوٹس لے اور متعلقہ افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور انہیں
سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جائے ، یہ پہلی بار ہوا ہے کہ عدالت عالیہ نے سخت
لہجہ میں کہاہے کہ اگر پولیس نے کارروائی میں لاپروائی کی اورمعاملہ کورفو
دفع کیا تو ایسی کسی بھی لاپروائی پر توہین عدالت کا مترادف قرار دیتے ہوئے
مقدمہ کاسامنا کرنے کے لیے تیار رہناہوگا۔
عدالت نے بڑی باریکی سے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک بڑے جمہوری
اور سیکولر ملک میں ایسا ماحول کبھی بھی نہیں دیکھا گیا کہ نفرت کرنے والوں
نے اپنے مہاپُرش یا خدا کا قد اتنا چھوٹا کر دیا ہو۔کہ جو چاہے وہ نفرت
انگیز بیانات دیتا رہے بلکہ انسانوں کے ساتھ ساتھ مذہبی اور دھارمک شخصیتوں
کو بھی شکار بنایاجائے۔سپریم کورٹ نے اس معاملے میں مزید سخت رویہ اپنایا
ہے اور اب تک اتراکھنڈ، اتر پردیش اور دہلی پولیس کو نوٹس دے کر سخت ہدایت
دی ہے کہ وہنفرت انگیز سرگرمیوں کے خلاف کی گئی کارروائی کی تفصیلات عدالت
عالیہ میں پیش کرے۔
دراصل شاہد عبد اللہ نامی عرض گزار نے نفرت انگیز تقاریر اور بیانات پر ایک
رٹ پٹیشن دائر کی تھی ۔جس پر عدالت نے بھی تشویش ظاہر کی ہے اور سخت موقف
پیش کیا ہے۔اور یہ بھی ہدایت دی ہے کہ نفرت انگیز بیانات پر کیا کارروائی
کی گئی ہے ،اترپردیش،اتراکھنڈاور دہلی پولیس تفصیلات پیش کرے ورنہ توہین
عدالت کے مقدمہ کے لیے تیار رہے۔حالانکہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ،لیکن
عدالتوں کے حکم اور ہدایات کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیاجاتا اور بہانے بازی
کی جاتی ہے،عدالتوں سے اسٹیٹس رپورٹ پیش کرنے کے نام پر تاریخ پر تاریخ لے
لی جاتی ہے۔اور حال میں دیکھا یہ گیا ہے کہ نفرت انگیز بیانات دینے والے
لیڈران کھلے عام گھومتے رہتے ہیں اور پولیس کاروائی انتہائی نرمی بھرا رہتا
ہے،یا پولیس خاموش تماشائی بنی رہتی ہے ۔سماعت کے دوران عرض گزار کے وکیل
کپیل سبل نے دہلی کے ایم پی کی تقریر کا حوالہ دیاکہ انہوں نے جلسہ عام میں
ایل مخصوص فرقے کے خلاف زہر اگلا اور پہلے بھی وہ ایسا کر کے ہیں،لیکن
کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے ان کے حوصلے بلند ہوجاتے ہیں اوروہ کچھ عرصہ
بعد پھر اسی طرح نفرت انگیز ی کرتے ہیں۔
واضح رہی کہ ان دونوں ججوں نے اس معاملہ کی سماعت کے دوران ہی ٹی وی نیوز
چینلوں کے اینکرس کو بھی لتاڑااتھا اور کہاکہ راست نشریات کے دوران نفرت
انگیز گفتگو نہ ہونے دینے ۔حالانکہ عجیب اتفاق ہے کہ دوسری اور خصوصی طور
پر دہلی ہائی کورٹ نپور شرمااور ایک انگریزی نیوز چینل کی اینکر کے مقدمات
کو دہلی منتقل کرنے کی اجازت دے چکی ہی۔ اور ان کے خلاف کارروائی بھی نہیں
ہوئی ہے۔
خیر سپریم کورٹ نے فی الحال جو رویہ اختیار کیا ہے ،وہ قابل ستائش ہے۔
عدالت نے کئی ایسی باتیں کہی ہیں جو قابل غور ہیں کہ سماج کا تانا بانا
بکھراجارہا ہے اور اس نفرت بھرے ماحول میں ہم نے "ایشور" کو چھوٹا بنادیا
ہے کہ اُن کے نام پر اختلاف ہورہے ہیں اور باشعور اور تعلیم یافتہ طبقہ
خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔آرایس ایس سرسنگھ چالک دسہر ہ ریلی میں سناتن
دھرم کی باتیں کرتے رہے اور آبادی کا ہوا بھی پیش کیا گیا ہے جبکہ وزیراعظم
نریندر مودی ملک بھر میں مندروں کی ازسرنو تعمیر کے بعد ان کے افتتاحی
تقریبات میں شرکت کررہے ہیں۔ عدالت کی نکتہ چینی سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ہم
نے مندروں اور عبادت گاہوں کو تو عالیشان بنا دیا ہے ،لیکن "ایشور" کے
قدموں چھوٹا کردیا ہے۔داسنا مٹھ کے نرسیا گری نے بیان دیا کہ علی گڑھ مسلم
یونیورسٹی کو بم سے اڑادیا چاہئیے اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی
ہے،نفرت پھیلانے والے جو دستور کے خلاف ہیں،اس لیے یہی لگتا ہے کہ وہ دستور
کو مانتے نہیں ہیں اور وہ ایسا کرتے ہی۔ تو وہ ملک دشمن نہیں ہیں بلکہ کئی
مرکزی وزیر گری راج سنگھ اور انوراگ ٹھاکر بھی اقلیتی فرقے خلاف اشتعال
انگیزی کرنے کے ملزم ہیں،لیکن انہیں ترقی دے دی جاتی ہے،جس کا مقصد اور یہ
پیغام دینا ہےکہ اب یہ عام بات ہے اور مستقبل میں بھی یہی سب کچھ بڑھ
جائیگا ۔
عدلیہ کو بھی ایک طبقہ ذمہ دار ہے کیونکہ نپورشرما کے معاملے سخت تبصرہ
کرنے اور ملک کے حالات کے لیے ذمہ دار قرار دیا لیکن آج بھی وہ آزاد
ہیں۔عدالت کے حکم پر کارروائی نہیں کی گئی ہے،عدالت عالیہ کو تبصرے کے
بجائے اپنے حکم پر عمل درآمد کرانا ہوگا ورنہ ان نفرت پھیلانے والوں کا کچھ
نہیں ہوگابلکہ انہیں مزید حوصلہ ملے گا۔
|