دیتے ہیں سراغ فصل گل کا،شاخوں پر جلے ہوئے بسیرے۔
اس مضمون میں موبائل فون کی تباہ کاریاں کا احاطہ کیا گیا جسے پڑھ کر آپ کے
رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے۔ ہرصاحب اولاد اس تحریر کو ایک بارضرورپڑھیں۔مجھے
یہ ٹیکنالوجیکل پروگریس(ٹیکنالوجی کی ترقی) نہیں بلکہ انٹیلیکچول
ڈیلکوئنسی(فکری بے راہ روی) معلوم ہوتی ہے ۔رفتہ رفتہ سب ٹیکنالوجی کے غلام
بنتے جارہے ہیں۔پڑھا تھا کہ جمشید بادشاہ اپنے جام میں ساری دنیا کا نظارہ
کرتا تھا۔ آج بچے بوڑھے سب اپنے موبائل اسکرینوں پر ہوش ربا نظاروں سے لطف
اندوز ہورہے ہیں۔مفت موبائل ڈیٹا نہیں بلکہ ان کے ہاتھ کوئی کھلونا آگیا
ہے۔بوریت دور کرنے کی چکر میں مخرب اخلاق ویب سائٹس پر حاضری لگانا اب بچے
بوڑھے کسی کے لیے بھی باعث عار نہیں ہے۔افراد خاندان سے سیدھے منہ بات نہ
کرنے والے فرضی (آن لائن)دوستیاں اور رشتہ داریاں نبھاتے نہیں تھکتے۔کسی
بھی نامعلوم شخص سے اس کی حقیقت جانے بغیر رشتہ استوار کرلیتے ہیں نتیجتاً
رسوائی ،مایوسی،ذہنی و فکری الجھنوں ا ور پریشانیوں کے باندھ کھل جاتے
ہیں۔فرضی رشتوں کے فریب پر، پھر ایک بار کھوکھلی آن لائن دنیا کے آگے ٹسوے
بہاکر ہمدردیاں بٹورنے کے جتن کرتے ہیں۔طلبہ کو پڑھائی،مارکس اور غیر صحت
مند مسابقت نے ڈپریشن کا شکار کردیا ہے۔نوعمری میں دباؤ ،اکیلے پن کے شکا
ربچے کسی دردمند کو نہ پاکرانٹرنیٹ و شوشل میڈیا کی خرابیوں سے لذت کام
ودہن حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جذباتی ہیجان و خلجان میں مبتلا بچے
جھوٹی تسلیوں اور مکار رشتوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ریاونمود،اسٹیٹس ،گلیمر
و سنسنی خیزیوں کی چکر میں اپنا مستقبل داؤ پر لگا بیٹھتے ہیں۔انٹرنیٹ و آن
لائن دنیا کے ہاتھوں بچوں میں فکری بے راہ روی خو ب پروان چڑھ رہی ہے۔مشتہ
نمونہ از خروارے، گزشتہ دو مہینوں کے دوران طلبہ کی جانب سے انجام دیئے گئے
کئی ایک پرتشدد واقعات میں سے چند واقعات پیش کررہا ہوں۔
29ستمبر 2022کودہلی کے ایک اسکول میں دسویں جماعت کے پانچ طلبہ نے منصوبہ
بنایا اور آن لائن چاقو خرید کر اپنے ایک ساتھی کا قتل کردیا۔(ٹائمز آف
انڈیا)
19 ستمبر 2022کو دہلی کے سیلم پور علاقے میں پیش آئے ایک خوفناک واقع نے سب
کے دل و دماغ کو ماؤف کردیا۔ ایک دس سالہ لڑکے ساتھ دس سے بارہ سال کی عمر
کے تین لڑکوں (جس میں مقتول کا رشتے کا بھائی بھی شامل تھا) نے جبراًبد
فعلی کی ۔ اس کے مقعد میں لوہے کی سلاخ گھسیڑدی اوراینٹوں سے مارمارکر شدید
زخمی کردیا۔بعد ازاں یہ معصوم دوران علاج دواخانے میں انتقال کرگیا (ہندوستان
ٹائمز)۔
چند دنوں قبل الکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ریاست جھارکھنڈ کے ڈمکا علاقے کے
ایک رہائشی اسکول کی ویڈیو بہت تیزی سے وائرل ہوئی ہے۔ جس میں نویں(9)جماعت
کے طلبہ نے اپنے ریاضی کے استاد اور کلرک کو مبینہ طور پر پراکٹیکل امتحان
میں خراب نمبر دینے پربرہم ہوکر درخت سے باندھ کر پیٹا (انڈین ایکسپریس)۔
ہفتہ24ستمبر 2022کے ایک اور واقع میں دسویں جماعت کے ایک طالب علم نے اپنے
ساتھی طالب علم کے ساتھ جھگڑ نے پر استاد کی ڈانٹ سے ناراض ہوکراستاد پر
فائیر کردیا۔ ملزم طالب علم استاد پر تین راؤنڈ فائرکرنے کے بعد بندوق لے
کر فرار ہو گیا (این ڈی ٹی وی ڈاٹ کام) ۔
طلبہ کے کمرۂ جماعت میں مہلک ہتھیار ساتھ لانے ،اساتذہ کو جان سے ماردینے
کی دھمکیوں کے واقعات میں آئے دن اضافے سے فکر مندٹمل ناڈو ہائرسیکنڈری
اسکول ہیڈماسٹرس اسوسی ایشن نے اساتذہ کے تحفظ کی فراہمی کو یقینی بنانے کے
لیے قانون سازی کا مطالبہ کرتے ہوئے دھرنا دیا(ٹائمز آف انڈیا)۔
یہ سب کیاہورہا ہے؟
حالیہ چند سالوں سے تعلیمی نظام غیر محسوس طریقے سے تاجرانہ آن لائن
ایجوکیشنل کمپنیوں کے زیر تسلط ہوتا چلاجارہاہے۔ کرونا وبائی دور میں مدارس
خوفناک زہریلے پروپیگنڈے کی وجہ سے تقریباً دو سال تک بند رہے ۔جس سے بچے
اپنے گھروں میں محصور ہوکر سماجی زندگی سے دورہوگئے۔انسانی نفسیات میں یہ
بات شامل ہے کہ کوئی شئے اگر مفت میں مل جائے تو پھر وہ ا س کا غلط استعمال
ضرور کرتاہے۔معاشرے کے کئی مسائل مفت خور ی کی نفسیات سے معروضہ وجود میں
آئے ہیں۔ مفت میں زہربھی مل جائے تو ہم پینے سے دریغ نہیں کرتے۔ استحصالی
تاجرانہ نظام ( جس میں تعلیم بھی شامل ہے)مفت خوری کی نفسیات کو عیاری سے
استعمال کرتے ہوئے دنیا کو اپنے شکنجے میں مسلسل کس رہا ہے۔سال 2014 میں
سستے موبائل ڈیٹا پلان کے آغاز کے بعد سیل فون ہر بچے کے ہاتھ میں آ گیا۔
تین سالہ بچے کو سیل فون چلاتا دیکھ کر معصوم والدین کی باچھیں کھل جاتی
ہیں ’’واہ! ہمارا بچہ کتنا ٹیک سیوی ہے‘‘۔کریلا ، نیم چڑھا کے مصداق وبائی
دور نے انٹرنیٹ ،موبائل اور دیگر ذرائع ابلاغ تک رسائی میں جتنی بھی
رکاوٹیں حائل تھی انھیں ایک جھٹکے میں دور کردیا۔ ابتداً آن لائن تعلیم
والدین اور دیگر افراد کو بہت دلکش اور ترقی یافتہ معلوم ہورہی تھی۔لیکن
لاک ڈاؤن کے بعد والدین کو آن لائن تعلیم کے نام پر بچوں کے ہاتھوں میں
دیئے گئے سیل فونز کی خباثتوں کا حقیقی ادراک ہوا۔حالیہ واقعات کی روشنی
میں انٹرنیٹ ڈیٹا سے لیس موبائل فونز معاشرے کے لیے ایک بڑے خطرے کا پیش
خیمہ ثابت ہو رہے ہیں۔اﷲ کرے یہ اندیشے ،اندیشے رہیں لیکن حقیقت سے آنکھیں
چرانا حماقت نہیں تو اور کیا ہے؟
دماغ کا اگلا حصہ پری فرنٹل کورٹیکس (Pre Frontal Cortex)جذباتی کنٹرول اور
خود پر قابو پانے میں مددگار ہوتا ہے۔ پچیس سال سے پہلے اس کی مکمل نشوونما
نہیں ہوتی ہے۔ پچیس سال سے کم عمر کے افراد جذبات پر کنٹرول ،خود پرضبط
،جذبہ احتساب،صواب دید،صلاح و مصلحت شناسی کے لیے جدوجہد کرتے نظرآتے
ہیں۔یہی وجہ ہے کہ شراب اوربالغ فلمیں وغیرہ بچوں کے لیے ممنوع ہیں۔ مسرت و
لذت کا لطیف فرق حصول لذت کو ایک نشہ قرار دیتا ہے۔حصول لذت میں مگن نوخیز
نسل موبائل فونز و انٹر نیٹ کے منفی استعمال سے معاشرے کے اخلاقی اقدار کے
بخیے ادھیڑ رہی ہے۔سل فون ملیریا،ڈینگی کے مچھر سے بھی زیادہ زہریلا ہے۔اس
کے زہریلے اثرات کے نفسیاتی،معاشرتی و جسمانی عوارض اور جرائم کی تباہ کن
داستانیں اب منظر عام پر آنے لگی ہیں۔ سیل فون کی عادت نے بچوں کو احساس
ذمہ داری سے محروم کردیا ہے۔عریاں مواد ،فحش فلمیں(بلیوفلمس) پرتشدد ویڈیوز
تضیع اوقات گیمز سے اخلاقی بحران پیداہورہاہے۔ واٹس ایپ،انسٹاگرام گروپس
تشکیل دے کر بچے ایک دوسرے کی تضحیک و تذلیل اور بہتان طرازی جیسیبرے کاموں
میں وقت تباہ کررہے ہیں۔مار دھاڑ،قتل،خودکشی،عصمت دری،ہم جنس پرستی،خاندان
کو فراموش کرنا،ماں بہن کے ساتھ جنسی تعلق،شراب نوشی،سگریٹ،حقہ ،چرس و دیگر
منشیات کا استعمال ۔نیٹ بچوں کو یہی تو سکھارہا ہے۔لاکھوں بچے پہلے ہی ان
برائیوں میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ماہرین نفسیات بھی ان کا علاج کرنے سے عاجز
ہیں۔
والدین کو خوش فہمی ہے کہ ان کے بچے بہت معصوم ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے پاس
طلبہ کی فلاح و بہبود کوئی اہمیت نہیں رکھتی ۔ان کی فلاح بہبود کے بعد کیا
انہیں ووٹ مل سکتے ہیں؟اسی فکر نے انھیں اس سے کوسوں دور رکھا ہے۔بچوں کے
موبائل فون استعمال کرنے سے سیل فون اور سافٹ ویئر کمپنیوں کی کروڑ ہا روپے
کی تجارتیں چل رہی ہیں۔سیل فونز ،ہارڈویئر ،ڈیٹا پلانز چھوڑکر صرف آن لائن
گیمنگ کا کاروبار ہی ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔اگر بچے موبائل فونز استعمال
کرنا چھوڑدیں تو یہ تمام کاروبار چوپٹ ہوکر رہ جائے گا۔ہمیں اپنی نوخیز نسل
کو تباہی سے بچانے کے لیے ان امور پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔عوامی
تحریکات و مہمات چلانے ہوں گی ۔نوجوان ملک کا مستقبل ہوتے ہیں۔ اگر یہ
محفوظ رہیں گے تو ملک محفوظ رہے گا۔
ٓ
آپ کے ذہن میں ابھرنے والے سوال کا مجھے بخوبی احساس ہے۔ آپ کہنا چاہتے ہیں
کہ ہم بچوں کو سیل فون کیوں نہ دیں؟کیا ہم بچوں کو ٹیکنالوجی سے دور
کردیں؟بچوں کو سیل فون نہ دینے کی احمقانہ بات آپ بھلا کیسے کرسکتے
ہیں؟میرے عزیز بھائی میں نے بھلا کب کہا کہ آپ کے بچے ٹیکنالوجی سے دور
ہوکر پتھر کے دور میں چلے جائیں۔چھری سے پھل ،سبزترکاری کاٹنے کے علاوہ کسی
کا گلابھی کاٹا جاسکتا ہے۔اسی لیے کہتا ہوں کہ صرف معلومات نہیں بچوں کی
تربیت پر بھی توجہ مرکوز کریں۔ علم و تربیت کے مجموعہ کانام ہی تعلیم
ہے۔ٹیکنالوجی ہماری غلام ہے۔ ہم ٹیکنالوجی کے غلام کیسے بن سکتے ہیں؟ گھر
اور اسکول میں ڈیسک ٹاپ پر چائلڈ سیفٹی لاک لگائیں۔والدین اور اساتذہ اپنی
نگرانی میں بچوں کو انٹرنیٹ سے مطلوبہ معلومات حاصل کرنے میں مدد کریں۔ڈیسک
ٹاپ کے بجائے اگر آپ انہیں سیل فون تھمادیں گے تو وہ اپنی بلانکٹ(کمبل)میں
،حمام(باتھ روم) میں،کسی اور مقام پر دروازے بند کرتے ہوئے فحش مواد (بلیو
پکچرس) دیکھیں گے۔پرتشدد ویڈیوز دیکھنے کے عادی ہوجائیں گے۔گیمز بھی بچوں
کو تشدد پر ابھار رہے ہیں۔لاکھوں بچے پہلے ہی اس دلدل میں دھنس چکے
ہیں۔اپنی اولاد کی حفاظت کیجیے۔سیل فون کی لت لاکھوں بچوں کے دماغ کو نقصان
سے دوچار کررہی ہے۔دماغ میں پائے جانے والے گرے مادے (Grey Matter)اور سفید
مادے (White Matter)کے خراب ہونے کی وجہ سے بچے ADHD جیسے دماغی امراض کا
شکار ہورہے ہیں۔
لاکھوں بچے سیل فون کی نیلی روشنی(بلیولائٹ) کی وجہ سے مکمل یا جزوی طور پر
اپنی بینائی سے محروم ہو رہے ہیں۔سیل فون پر ویڈیو گیمز کھیلنے سے گیمر کے
انگوٹھے، ٹرگر انگلی، کارپل ٹنل سنڈروم(Carpal Tunnel Syndrome)، ٹینس
ایلبو، کندھے گرنے اور سر گرنے ( سنڈروم) جیسے امراض میں کا شکار ہوسکتے
ہیں۔ایک یا دو نہیں پوری دنیا میں لاکھوں بچے اس تباہ کن راستے پر چل پڑے
ہیں۔موبائل فون بچوں کے ہاتھوں میں ایک ٹائم بم سے کم نہیں ہے۔یہ آج نہیں
تو کل ،کل نہیں تو پرسوں ایک دن ضرور پھٹے گا۔تب کیا ہوگا؟ یہ سوال مجھے
اور ہروہ شخص جو بچوں کے مستقبل کے لیے فکر مند آدمی ہے کو پریشان کررہا
ہے؟
حیدرآباد کے چندانگر علاقے کی نویں جماعت میں زیر تعلیم لڑکی نے اپنے ماں
سے پیٹ میں درد کی شکایت کی تو اسے دواخانے لے جایا گیا۔ڈاکٹر نے جب بتایا
کہ لڑکی حمل سے ہے تووالدین کے اوسان خطا ہوگئے۔صدمے سے دوچار والدین کو
آخر کار سمجھ میں آ یا کہ ان کا بیٹا جو انٹر سال دوم(بارہویں ) میں پڑھ
رہاتھا ، اپنی چھوٹی بہن(متاثرہ لڑکی) کے ساتھ ایک ہی کمرے میں سورہا
تھا۔بڑے بھائی اور چھوٹی بہن کے درمیان جنسی تعلق قائم ہوگیا۔کھوکھلی لذت
کے حصول میں متعددبے راہ رویوں کا شکار ہوکر بچے جنسی تعلقات قائم کرنے سے
بھی اعراض نہیں کررہے ہیں۔انٹر نیٹ و شوشل میڈیا کی دنیا میں برائیوں کو
فخریہ پیش کرنے کا رجحان بچوں میں کسی مہلک متعدی بیماری کی طرح تیزی سے
پھیل رہا ہے۔موبائل فون کس قدر مفید اور کس درجہ خطرناک ہے یہ جانے بغیرہم
اسے بڑے چاؤ و یقین سے اپنے بچوں کے ہاتھ میں تھما رہے کہ یہ ان کے کام آئے
گا۔ ہم یہ کہتے نہیں تھکتے ہیں کہ ہمارے بچے بہت اچھے ہیں ۔ہم ان کی بہتر
پرورش کررہے ہیں۔کیا حقیقت میں ایسا ہورہا ہے؟۔کیا ہمارے بچوں میں اور
ہمارے افراد خاندان میں اتنی مہارت اور خود ضبطیپائی جاتی ہے کہ وہ آن لائن
دنیا کی برائی اور فحاشی کی سونامی سے خود کو بچا سکیں۔نیکی و بدی کا فرق
سمجھتے ہوئے خو د کو بہتر بنانے والے نئے نظریات ،مفید و تعمیری علوم سیکھ
سکیں۔ کیا آپ نے کبھی اس جانب توجہ دی کی اس وقت آپ کے بچوں کے موبائل میں
کیا چل رہاہے؟اگر آپ کو اپنے بچوں پر اتنا اعتمادہے توپھران کے موبائل فونز
ان کے فیس بک اکاونٹ،واٹس ایپ،انسٹا گرام ،اسکائیپ ،اسناپ چاٹ ،ای میل
اکاونٹس وغیرہ کو ایکٹیویٹ کرتے ہوئے ایک ہفتے تک اپنے پاس رکھیں ۔اﷲ آپ کے
یقین کو خراب نہ کرے۔آپ کوخیر و شر کا علم ہوجائے گا۔سروسے کے چونکا دینے
والے اعداد و شمار کے ہر دن ملک میں مفت موبائل ڈیٹا پرفحش موادجنسی ویڈیوز
دیکھنے والوں کی اوسط تعداد68%ہے۔ جن میں 21 فیصد مردجب کہ 47% خواتین اور
بچے بھی شامل ہیں۔ہر 22 منٹ میں ایک عورت کی عصمت لوٹی جاتی ہے۔ 99.1%عصمت
دری کے واقعات پردۂ اخفاء ہی میں رہتے ہیں(ون انڈیا ڈاٹ کام)۔نیشنل کرائم
ریکارڈ بیورو کے مطابق 2021 میں بھارت میں ریپ کے 31677 واقعات رپورٹ ہوئے
ہیں(دی ہندو 31اگست 2022)۔والدین کو ان حالات میں بہت محتاط رہنے کی ضرورت
ہے۔ماں باپ اپنے بچوں کے سامنے محبت کے اظہار،اشارات ،ذومعنیٰ الفاظ کے
استعمال ، کسی جنسی حرکت و فعل سے بازرہیں تاکہ اخلاقی ومعاشرتی اقدار
برقرار رہیں۔
بچے بڑے معصوم ،بے ضرر اور نرم خو ہوتے ہیں لیکن سیل فونس بچوں کو چائلڈ
مونسٹر بنارہے ہیں۔اپنے بچوں کو موبائل فون کی لت سے بچائیے۔ والدین
،اساتذہ ،اسکول انتظامیہ اور بچوں کی فلاح و بہبود اور تعلیمی کاز سے
وابستہ افراد کی یہ اجتماعی ذمہ داری ہے۔اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو پھر
بچے جرائم کا ارتکا ب کریں گے ۔ پھرکوئی ماں، باپ، استاداور کوئی بچہ محفوظ
نہیں رہے گا۔ پھر تو تباہی یقینی ہے۔
|