پاکستان میں عمران نواز صحافی ارشد شریف کا کینیا میں قتل ۰۰۰ذمہ دار کون ؟

پاکستان کے نامور صحافی ارشد شریف کے قتل کامعاملہ طول پکڑتا جارہا ہے۔ ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کرنے والوں کے متضاد دعوے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ انہیں ایک سونچے سمجھے منصوبے کے تحت قتل کیا گیا ہے۔ذرائع کے مطابق بتایا جاتا ہیکہ ارشد شریف کو ایک ایسی سنسان جگہ پر لے جاکر فائرنگ کے ذریعہ قتل کیا گیا جہاں کینیا کا عام آدمی بھی رات کے اوقات جانے سے ڈرتا ہے ۔ کینیا کے انڈی پینڈنٹ پولیس اوور سائٹ اتھارٹی کی چیئر پرسن این ماکوری نے صحافی ارشد شریف کے قتل کے معاملے پر24؍ اکٹوبر کو اپنی ابتدائی تحقیقات کا باضابطہ اعلان کیا تھا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق این ماکوری پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ کجیاڈو کاؤنٹی میں ایک پاکستانی کو مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا۔ رپیڈ رسپونس ٹیم جائے حادثے پر بھیج دی گئی ہے۔ بتایا گیا تھا کہ صحافی ارشد کے قتل سے متعلق اتھارٹی کی تحقیقات شفاف ہونگی، نیشنل پولیس سروس ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کررہی ہے۔23؍ اکٹوبر کی اتور کی رات ارشد شریف کو کینیا میں گولیاں مارکر قتل کردیا گیا تھا ،بتایا جاتا ہے کہ یہ واقعہ نیروبی سے دو سو کلو میٹر دور ہائی وے پر پیش آیا۔ کینیا کے میڈیا کا کہنا ہیکہ ارشد شریف کی گاڑی کو ناکے پر روکنے کا اشارہ کیا گیا تھا لیکن ڈرائیور کی جانب سے مبینہ طور پرگاڑی نہیں روکی گئی جس پر گاڑی کا پیچھا کیا گیا اور فائرنگ کے دوران ارشد شریف کے سر پر گولی لگی جس سے ان کی موت ہوگئی۔ کینیا میڈیا کے مطابق پولیس کو ایک اطلاع موصول ہوئی تھی جس میں ایک گاڑی کا حلیہ بتایا گیا جو کہ ارشد شریف کی گاڑی سے ملتی جلتی تھی، غلط فہمی کی بنیاد پر ارشد شریف کو قتل کیا گیا۔اب ایک اور رپورٹ ارشد شریف کے قتل کی سامنے آئی ہے۔ کینیا میڈیا پولیس کے حوالے سے نئی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ صحافی ارشد شریف کی گاڑی سے فائرنگ ہوئی جس سے ایک کانسٹیبل زخمی ہوا ، پھر جوابی کارروائی کی گئی جس میں پاکستانی سینئر صحافی ارشد شریف اس سے جاں بحق ہوگئے۔جبکہ اس سے قبل کینیا پولیس کی جانب سے کہا گیا تھا کہ روڈ بلاک کی خلاف ورزی پر ارشد شریف کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی تھی، کینیا میڈیا کی جانب سے کہا جارہا تھا کہ جس گاڑی میں بچہ چوری کی اطلاع پر روڈ بلاک کی گئی تھی ، وہ گاڑی اور ارشد شریف کی گاڑی ملتی جلتی تھی۔ ان متضاد دعوؤں سے صاف ظاہر ہوتا ہیکہ کینیا کی پولیس اصل معاملہ کو چھپانا چاہتی ہے یا پھر کینیا پولیس کے ہی بعد عہدیداروں کی جانب سے بھاری رقم لے کر صحافی ارشد شریف کو قتل کیا گیا۔ارشد شریف کے جسد خاکی کو کینیا سے پاکستان لالیا گیا اور انکی میت کا دوبارہ پوسٹ مارٹم کیا گیا ۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ ارشد شریف پاکستان کے ان نامور صحافیوں میں شمار کئے جاتے تھے جو حق بات کہنے اور لکھنے سے پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔ انہوں نے سابق وزیر اعظم و چیرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی تائید میں جس طرح کھل کا اظہارِ خیال کیا تھا اور امریکہ کی پالیسی رجیم چینج پر تقاریر میں اظہار خیال کیا تھا اس سے ان کی زندگی کو خطرہ اُسی وقت سے شروع ہوچکا تھا۔ اس سلسلہ میں بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق بتایا جاتا ہیکہ پشاور میں انصاف لائرز کنونشن سے خطاب میں عمران خان نے کہا کہ ’ارشد شریف کو نامعلوم نمبروں سے دھمکیاں آئیں کہ رجیم چینج پر بات نہ کرو۔ میں نے ارشد شریف سے کہا کہ تم ملک سے باہر چلے جاؤ، تمہاری جان کو خطرہ ہے‘۔عمران خان نے کہا کہ لوگ جو مرضی کہیں مگر مجھے پتا ہے کہ یہ ٹارکٹ کلنگ کی گئی ہے، اور میں تمام صحافیوں کو کہنا چاہتا ہوں کہ شاید ہی میں نے کوئی اتنا دلیر ، بہادر اور محب وطن صحافی دیکھا ہو جو اپنے موقف سے بالکل پیچھے نہیں ہٹا۔
بتایا جاتا ہیکہ ارشد شریف نے رواں سال اپریل میں سابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعدیہ دعویٰ کیا تھاکہ انہیں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے ہراسانی کا سامنا ہے۔ بعد ازاں وہ ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے اور اطلاعات کے مطابق خود ساختہ جلا وطنی کے دوران وہ دبئی اور پھر کینیا میں مقیم رہے۔

ارشد شریف سے متعلق بتایا جاتا ہے کہ متعدد پاکستانی نیوز چینلز میں کلیدی عہدوں پر خدمات انجام دے چکے تھے ، خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرنے سے قبل وہ نجی نیوز چینل اے آر وائی سے منسلک تھے تاہم عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد انہیں نوکری سے فارغ کردیا گیا تھا۔موجودہ شہباز شریف حکومت سے انہیں خطرہ لاحق تھا اس سلسلہ میں ارشد شریف کے وکیل فیصل چودھری کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ اُن کے موکل (ارشد شریف) کو ذرائع سے معلوم ہوا ہیکہ موجودہ حکومت نے اُن کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا ہے اور ان کو گرفتار کیا جاسکتا ہے جس کی وجہ ارشد شریف کی رپورٹنگ اور حکومت پر تنقید بتائی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ درخواست کے مطابق ارشد شریف ذرائع سے ملنے والی ان معلومات کے بعد ڈرے ہوئے تھے کیونکہ ’سول کپڑوں میں ملبوس افراد اُس کے گھر اور خاندان کی نگرانی کررہے ہیں۔‘ اس سے قبل مئی کے اواخر میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی دارالحکومت کی پولیس کے سربراہ اور ڈپٹی کمشنر کو حکم دیا تھاکہ صحافیوں کے خلاف ملک کے مختلف صوبوں میں درج ہونے والے مقدمات میں ان صحافیوں کو عدالت کی اجازت کے بغیر مقامی پولیس کے حوالے نہ کیا جائے۔ عدالت نے یہ حکم مرحوم صحافی ارشد شریف ، سمیع ابراہیم اور اینکر پرسن معید پیرزادہ کی طرف سے دائر کی جانے والی درخواستوں پر دیا تھا۔

پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ ارشد شریف کی موت پر اعلیٰ سطح کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ انکاکہنا ہیکہ ’’یہ تحقیقات صرف ان ہی حالات کی نہیں ہونی چاہیے کہ وہاں (کینیا میں ) کیا ہوا بلکہ ان حالات کی بھی ہونی چاہیے کہ ارشد شریف کو پاکستان سے جانا کیوں پڑا، کس نے انہیں یہاں سے جانے پر مجبور کیا۔ اور وہ کیسے گئے اور کہاں پر گئے۔ اس واقعے کے پس منظر میں کیا حالات تھے۔ جنرل بابر افتخار کا مزید کہنا تھا کہ ’سب کو ارشد شریف کی ناگہانی وفات پر افسوس ہے، وہ بہت پروفیشنل صحافی تھے۔ ارشد شریف کے قتل کے بعد صحافتی برادری کی جانب سے اس واقعے کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ پاکستان کی وفاقی حکومت نے کینیا میں صحافی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کیلئے مشترکہ تحقیقاتی دو رکنی ٹیم کی تشکیل نو کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ اس سے ایک روز قبل جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن میں تین رکنی ٹیم تشکیل دی گئی تھی جس میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ایک کرنل بھی شامل تھے تاہم چہارشنبہ کے دن وزارت داخلہ کی جانب سے جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن میں آئی ایس آئی افسر کو شامل نہیں کیا گیا اور حکومت کی جانب سے اس تبدیلی کی وجہ نہیں بتائی گئی۔ موجودہ دو رکنی ٹیم میں ایف آئی اے کے ڈائریکٹر اطہر وحید اور آئی بی کے ڈپٹی ڈی جی عمر شاہد حامد پر مشتمل ہے۔اب دیکھنا ہیکہ پاکستان میں دوبارہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں کیا انکشافات ہوتے ہیں جبکہ کینیا پولیس کی جانب سے ارشد شریف پر کی گئی فائرنگ اور انکے قتل کا ذمہ دار کسی کو ٹھہرایا جاتا ہے یا پھر ارشد شریف کو ہی بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بے باک ، حق و صداقت کو پیش کرنے والے صحافی جو اپنے ملک کی حکومت کے خوف سے دوسرے ممالک جاکر جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں ان حالات میں ان پر قاتلانہ حملہ یا قتل کردیا جانا معمولی بات نہیں ۰۰۰ اس کے پیچھے کون ذمہ دار ہیں اس کی تہہ تک پہنچا اشد ضروری ہے۔ اقوام متحدہ نے ان حالات کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے جن میں سینئر پاکستانی صحافی ارشد شریف کو کینیا میں گولی مارکر ہلاک کردیا گیا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن ڈوجارک نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم نے اس واقعے کے بارے میں افسوسناک رپورٹس دیکھی ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ کینیا کے حکام اس واقعے کی شفاف انداز میں تحقیقات کو یقینی بنائیں۔جمعرات کے روز بعد نماز ظہر ارشد شریف کی نماز جنازہ فیصل مسجد میں ادا کی گئی ،خطیب فیصل مسجد نے امامت فرمائی۔ انکی تدفین ایچ الیون قبرستان میں کی گئی۔پاکستان کے مختلف شہروں بشمول لاہور، اسلام آباد، کراچی میں بھی انکی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی گئی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق پاک فوج کی جانب سے انہیں سلامی دی گئی۔

ولیعہد محمد بن سلمان کی صدارت میں پہلا کابینی اجلاس
سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان نے شاہی فرمان کے مطابق وزیر اعظم مقرر کئے جانے کے بعد منگل 25؍ اکٹوبر کو ریاض کے قصر یمامہ میں پہلی مرتبہ سعودی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کی۔اس موقع پر کابینہ نے صنعتی اداروں کی کارروائی کیلئے وزارت صحت اور متعلقہ اداروں کے درمیان تعاون کیلئے ضوابط کی منظوری دی۔ کابینہ نے نومبر میں مصر میں ہونے والی گرین مشرق وسطیٰ انشیٹو سربراہ کانفرنس اور گرین سعودی عرب انشیٹو فورم کے دورے ایڈیشن کو اس بات کی علامت قرار دیا کہ سعودی عرب خطے سمیت دنیا بھر کو درپیش موسمیاتی اور ماحولیاتی چیلنجوں سے نمٹنے کے سلسلے میں مشترکہ کوششوں کا پابند ہے۔سعودی کابینہ نے بین الاقوامی سپلائی چین کے نیشنل انشیٹو کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد سعودی عرب کی پوزیشن مضبوط بنانا ہے۔ اس اقدام سے ابتدائی دو برسوں کے دوران چالیس ارب ریال مالیت کی سرمایہ کاری آئے گی۔کابینہ نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ متعدد ملکوں میں پولیو اور چیچک کے انسداد اور اس سے بچاؤ کیلئے یونیسیف اور عالمی ادارہ صحت کے ساتھ شاہ سلمان مرکز برائے امداد و انسانی خدمات نے جو معاہدے کئے ہیں ان سے اس وبا کے خاتمے کیلئے کی جانے والی کوششوں میں مدد ملے گی۔ اس طرح دیگر اہم امور پر شہزادہ محمد بن سلمان کی صدارت میں کابینہ نے مزید فیصلے کئے ۔

عمران خان کا لانگ مارچ کا اعلان
سابق وزیر اعظم و چیرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے جمعہ کو لاہور سے پُر امن لانگ مارچ شروع کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق عمران خان نے بتایا کہ اس مارچ کی قیادت وہ خود کرینگے ۔مارچ کا آغاز 11بجے دن لبرٹی چوک میں جمع ہونے سے شروع ہوگا ، وہاں سے اسلام آباد روانہ ہونگے اور 4؍ نومبر کو اسلام آباد پہنچے گااس دوران مارچ کو راستے میں جہاں رات آئے گی وہیں قیام کیا جائے گا۔عمران خان نے کہا کہ یہ الیکشن نہیں کرائینگے اس لئے لانگ مارچ کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ لانگ مارچ کوئی سیاست نہیں پاکستان کے مستقبل کی جنگ لڑرہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے چیرمین نے اسے چوروں سے آزادی کی جنگ بتاتے ہوئے اسے جہاد قرار دیا اور کہا کہ یہجہاد فیصلہ کرے گا کہ پاکستان کیا چوروں کی غلامی یا خود مختاد پاکستان بنے گا۔ انکا کہنا ہیکہ نامور ڈاکو اپنے اپنے کیسز معاف کرارہے ہیں ، کبھی اسمبلی میں ایسا نہیں ہوا جس طرح کی ترامیم کی جارہی ہیں۔ انہو ں نے کہاکہ آج ملک دوراہے پر کھڑا ہے ، ایک طرف وہ چور اور لٹیرے ہیں جن کی کرپشن کے خلاف میں 26سال سے جدوجہد کررہا ہوں وہ اکٹھے ہیں جن کے ساتھ میڈیا ہاؤسز اور نامعلوم افراد بھی ملے ہوئے ہیں۔ لانگ مارچ کے اعلان کے بعد بتایا جاتا ہیکہ اسٹاک مارکیٹ پاکستان میں شدید مندی کے رجحان کے ساتھ ہوا اور کاروبار کے پہلے دیڑھ گھنٹے میں انڈیکس 650پوائنٹس سے زیادہ گرگیا ہے۔عمران خان نے کہا کہ اسلام آباد میں تحریک انصاف کا لانگ مارچ کوئی قانون نہیں توڑے گا اور نہ ہی ریڈ زون میں داخل ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے خلاف حکومت اور پولیس کچھ نہیں کرسکیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر علی زیدی نے کہا ہے کہ ارشد شریف کی والدہ نے کہا ہیکہ خون رائیگاں نہیں جانے دینا۔
***********
 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 358 Articles with 255786 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.