شیر اور شیئر

جوقوم قیادت سے محروم ہووہ ہجوم بن جاتی ہے اورجہاں مدبرومخلص قائدابھرآ ئے وہاں منتشر عوام بھی متحد ہوجاتے ہیں، پاکستان میں ڈیل کر نیوالے" ڈیلر" توبہت ہیں" لیڈر" کوئی نہیں ۔حضرت یوسف ؑ کے دور میں اہل مصر کو سات سال بعد غذا کے قحط سے نجات مل گئی تھی لیکن پاکستان میں سات دہائیوں بعد بھی قیادت کاقحط ختم نہیں ہوا۔قیادت سے محروم ریاست کوقدم قدم پر بحرانوں کاسامنا اور خطرات کامقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے ملک میں سیاستدان ہوتے ہیں اور نہ سیاست ہوتی ہے کیونکہ سرمایہ داروں کے ہاتھوں ضمیروں کی تجارت کوسیاست کانام نہیں دیاجاسکتا۔پاکستان کی ہر جماعت کااپنااپنا جھنڈا اورایجنڈا ہے، ہرسال 14اگست کوسبزہلالی پرچم تو لہراتے ہوئے دیکھائی دیتے ہیں لیکن قائدؒ کی وفات کے بعد سے کسی نے قومی یکجہتی کاچہرہ نہیں دیکھا۔چندایک کے سوا باقی سیاستدان ملک بچانے کی بجائے ایک دوسرے کومار گرانے پرزور لگارہے ہیں ۔سیاستدان یادرکھیں عوام میں "زندان" کے مقابلے میں "ایوان" سے زیادہ اظہار بیزاری پایا جاتا ہے کیونکہ ایوان میں براجمان افرادعام آدمی کی بجائے اشرافیہ وبدمعاشیہ کے ترجمان اورنگہبان ہیں۔آدم خور"شیر"آٹا،گھی اورچینی بھی نگل گیا، اس نام نہاد جمہوری نظام میں ووٹ کی پرچی پرمہرثبت کرنے کے سوا جمہور کاکوئیـ" شیئر" نہیں۔ہماری ریاست میں رائج سیاست تنازعات،تضادات،تعصبات سمیت منافقانہ اور آمرانہ اقدامات سے عبارت ہے ،کوئی نظریہ ضرورت اورکوئی اپنے نجی مفادات کے تحت آئین کوموم کی ناک بناتا جبکہ اپنے اپنے مخالفین کو زندہ زمین میں گاڑتا رہا۔ہمارے فوجی اورسول آمروں نے ملک دشمن قوتوں کی بجائے اپنے اپنے سیاسی دشمنوں کاناطقہ بندکیا۔ فوجی آمروں کی نسبت سیاسی آمروں کے ادوارمیں سیاستدانوں کیخلاف ریکارڈ مقدمات درج رجسٹرڈ ہوئے۔نوازشریف اورآصف زرداری نے ایک دوسرے کوغدار ،چور اورسکیورٹی رسک قراردیااورپھر احتساب کے ڈر سے بھائی بھائی بن بیٹھے ۔ جس شہبازشریف نے بھارت کے انتہاپسندوزیراعظم اوربابری مسجد سمیت ہزاروں مسلمانوں کی شہادت کے مرکزی کردار نریندرمودی کومذاکرات کی دعوت د ی وہ پاکستان کی خاطر کپتان کے ساتھ ڈائیلاگ کیلئے تیار نہیں۔میں سمجھتا ہوں جومذاکرات لانگ مارچ کیخلاف حکومت کی مزاحمت کے نتیجہ میں جانی ومالی نقصان کے بعد ہونے ہیں وہ اب کیوں نہیں ہوسکتے۔وفاقی حکومت لانگ مارچ روکنے کیلئے عدالت عظمیٰ چلی گئی لیکن کسی نے کپتان کادروازہ نہیں کھٹکھٹایا، ماضی میں بھی اس" انا" نے بہت کچھ "فنا"کردیا تھا اب بھی انانے انہیں اندھا کردیا ہے۔ریاست مدینہ کے داعی کپتان کی طرف سے لانگ مارچ کیلئے جمعتہ المبارک کاانتخاب ہرگز درست نہیں ، ہزاروں مسلمانوں کا نمازجمعہ سے محروم رہنا گناہ میں شمار ہوگا ۔لانگ مارچ کوبلڈوز کرنے کیلئے فیصل واوڈاکی کسی ڈکٹیشن پرکی گئی پریس کانفرنس اوراس پروفاقی وزیرراناثناء اﷲ خاں کے ری ایکشن سے یہ بیک فائرکرگئی اورقدرت نے کپتان کوایک بڑی سازش سے بچالیا ۔تعجب ہوتا ہے فیصل واوڈا ،ذوالفقار بخاری اورعثمان بزدار سے لوگ کپتان کے مقرب اورمحبوب تھے ، اس طرح کے محسن کش سیاسی بونوں سے اورکیا امید کی جاسکتی ہے۔عمران خان پھر اقتدار مانگ رہا ہے لیکن موصوف اپنی پرانی ٹیم کے ساتھ نیا پاکستان نہیں بناسکتا۔کپتان دستیاب وقت کافائدہ اٹھاتے ہوئے میاں ثاقب نثار،مظہر برلاس،ہمایوں اختر خان ،حامدخان،بابر اعوان،میاں اسلم اقبال اورخرم شہزادورک سے بردبارحضرات کی ٹیم بنائے کیونکہ اس باراقتدارملنے پراسے ہرصورت ڈیلیور کرناہوگا۔

ملک میں پیداہونیوالے سیاسی تنازعات سے نجات کاراز ملک میں فوری اورشفاف انتخابات کے انعقاد میں پنہاں ہے۔کیونکہ اگرمتحدہ حکمرانوں کومزید مہلت ملی تویہ مقدمات میں کلین چٹ تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ یہ" گروہ" اپنے "گرو"سمیت اپنے آپ کو" کلیئر" کرنے کیلئے صادق وامین بھی" ڈکلیئر" کرسکتا ہے۔حالیہ ڈیل کے بعد لندن والے بابوکی خالی" پلیٹیں" پوری نہیں ہوئیں بلکہ پاکستان میں کئی" چمچے" بھی باہرنکل آئے ہیں،انا کے اسیر عمران خان کی سیاسی غلطیوں نے نوازشریف کی سیاست کوپھر سے زندہ کردیا،دوسری طرف پرویزرشید کی صحبت اورتربیت کے اثرات مریم نواز کے منفی بیانات سے جھلک رہے ہیں۔مریم نواز نے اپنے خاندان کوپرویزمشرف سے کئی گنازیادہ نقصان پہنچایا۔اُدھر عمران خان کے قصر میں ایک "نقاب پوش"کردار اس کامشیر نہیں بلکہ نادان دوست کے روپ میں سب سے بڑا دشمن ہے۔ جس کسی نے توہم پرستی کے بل پر عثمان بزدار کو پنجاب پرمسلط کر نے کیلئے کپتان کومجبورکیاتھا اس نے پی ٹی آئی کی سیاست اورشہرت پرشب خون مارا ۔یادرکھیں توہم پرستی اوربت پرستی میں کچھ زیادہ فرق نہیں، سیاسی فیصلے استخاروں اورعارضی سہاروں کی بنیادپرنہیں ہواکرتے ۔عمران خان اپنے نجی فیصلے شوق سے زنان خانہ میں کیا کریں لیکن انہیں سیاسی امور صرف اورصرف" بیٹھک "میں اپنے حامی سیاستدانوں یعنی" بردباروں" کی مشاورت سے طے کرناہوں گے ،وہ " بزداروں" کی دسترس سے دوررہے ورنہ ہیوی مینڈیٹ نہیں ملے گا۔وفاقی حکومت کی طرف سے پی ٹی آئی پرسیاسی حملے قابل فہم ہیں لیکن کپتان کے اپنی سیاست پرخودکش حملے سے زیادہ تباہی آتی ہے۔اس کے باوجود پاکستان میں سیاسی طاقت کاتوازن برقراررکھنا ہوگا،اگرمنفی ہتھکنڈوں کے بل پرکپتان کوکارنر کیا گیا تواس صورت میں مخصوص مافیازکا مزید منہ زور ہونا اٹل ہے ۔تاہم جواندرونی وبیرونی قوتیں عمران خان کیخلاف سازش میں شریک ہیں وہ آسانی سے اسے دوبارہ اقتدارمیں نہیں آنے دیں گی ۔اگرکپتان نے جذباتیت کی بجائے بصیرت اورمصلحت سے کام لیا تواس کیلئے بندگلی سے راستہ نکل سکتا ہے ،اسے تولنا اورپھر بولنا ہوگا۔ پی ٹی آئی کے عمائدین قومی چوروں اوراداروں میں فرق کرنا سیکھیں ۔ کپتان کو متعدد محاذوں میں سے کچھ محاذ فوری اورمستقل بنیادوں پر بندکرناہوں گے ۔اسے اداروں کومفاہمت اورنیک ارادو ں کاپیغام دینا ہوگا۔وہ راقم سمیت سنجیدہ پاکستانیوں کی طرح امریکا کودوستی کے قابل نہیں سمجھتا تواس کی مرضی لیکن سردست واشنگٹن کو دشمن کی طرح للکارنا بھی مناسب نہیں۔

امریکا ہمارے ملک میں اپنے نمک خواروں، وفاداروں اورتنخواہ داروں کی مدد سے" مقبول" اور"معقول "سیاسی قیادت کوتخت سے تختہ دار تک پہنچاتا رہا ہے۔وائٹ ہاؤس کے مقیم کی ہمدردیاں بیک وقتHunterاورRabbit دونوں کے ساتھ ہوتی ہیں ۔امریکا اور پاکستان میں اس کے حواریوں نے ذوالفقار علی بھٹو کواسلامیت اورپاکستانیت کی سزا دی اوراب وہ عمران خان کے ساتھ ساتھ ہمارے جوہری ہتھیاروں کیخلاف انتہائی خطرناک سازش پرکام کررہے ہیں۔میں یہ بات2014ء سے جانتا ہوں جوممتازصحافی اورماہرمعدنیات میاں محمدسعید کھوکھر کی بیٹھک میں ذوالفقاراحمدراحت اور مجھ سمیت ہم تینوں کے درمیان ڈنر کے دوران زیربحث آئی تھی ، 2014ء میں ہونیوالی بحث کے اہم نکات پیش خدمت ہیں،امریکا اپنے شیطانی ایجنڈے کے تحت پاکستان کے اندرافواج پاکستان اورعوام کے درمیان فاصلے پیداکرکے ہمارے جوہری ہتھیارہتھیانا چاہتا ہے۔اورنج ٹرین اور میٹروبس سمیت دوسرے فضول منصوبوں کی آڑ میں پاکستان کومقروض اوراس کی معیشت کواس قدرمفلوج کردیاجائے گا جس سے دفاعی اداروں کے پاس اہلکاروں کوتنخواہ دینے کیلئے رقم نہیں ہوگی اور وہ کام چھوڑدیں گے جس سے ملک میں بدترین عدم استحکام پیداہوجائے گااوراس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکا ہمارے جوہری ہتھیاروں پر قبضہ جمانے میں کامیاب ہوسکتا ہے ۔لہٰذاء ازلی و فطری دشمن کامقابلہ بلکہ اسے ملیا میٹ کرنے کیلئے اہل پاکستا ن اورافواج پاکستان کے درمیان 1965ء والی پرجوش عقیدت ومحبت جبکہ سیسہ پلائی دیوار کی صورت بھرپورمزاحمت ناگزیر ہے۔ محمدارشد شریف شہید کی رگ رگ میں پاکستان اورافواج پاکستان کے ساتھ والہانہ محبت خون بن کردوڑتی اوردھڑکتی تھی۔ پاک فوج کے دوشہیدوں کے وارث نے خود بھی راہ حق میں جام شہادت نوش کرلیا ،وہ پاک فوج کے خاندان کاایک فرد تھا،میں وثوق کے ساتھ کہتا ہوں اس کی شہادت میں دور دور تک بھی اسٹیبلشمنٹ کاکوئی کردار نہیں ہوسکتا ،سوشل میڈیا پرمنفی اوربیہودہ مہم بندکی جائے۔

راقم کے نزدیک شہبازشریف سے بلاول زرداری تک دونوں میں سے کوئی بیرونی دباؤکامقابلہ کرنے کی سکت اورصلاحیت نہیں رکھتاکیونکہ ان کی ترجیحات عوام نے دیکھ لی ہیں ، بریت کیلئے عجلت نے انہیں ایکسپوز کردیا۔ حالیہ ضمنی الیکشن میں دوحلقوں سے کامیابی کے بعدبلاول زرداری نے کہا ''بھٹو زندہ ہے'' ، توپھرجیالے ہرسال چاراپریل کویوم سیاہ کیوں مناتے ہیں۔سندھ سیلاب میں ڈوب گیا ،وہاں ہربرس زمینی وآسمانی آفات ا ورسانحات کے نتیجہ میں ہزاروں نادارومفلس عوا م مرتے ہیں لیکن بلاول زرداری کانانا بھٹو آج بھی زندہ ہے ۔ تھر سمیت سندھ بھر میں جہاں نادارومفلس عوام بھوک اورپیاس سے مرتے ہوں وہاں غیور ذوالفقار علی بھٹوزندہ نہیں رہ سکتا۔اس جنرل ضیاء الحق نے جس کوکمزور اور"تابعدار" سمجھا گیا اس نے بھٹو کے اقتدار پرشب خون مارنے کے بعد انہیں تختہ دار پرلٹکادیا ،نوازشریف بھی اپنے حسن انتخاب پرویزمشرف کے ہاتھوں اقتدار سے محروم ہواتوپھر کیوں نہ "پک اینڈ چوز"کاباب جبکہ "اتھارٹی "کیلئے "سنیارٹی "کااصول اپنا لیا جبکہ ٹینشن سے بھرپور ایکسٹینشن کاآپشن مستقل طورپر بندکردیا جائے۔ضیائی آمریت کے دوران صدرمملکت ضیاء الحق نے جنرل ضیاء الحق کو ایکسٹینشن دی ،بعدازاں ڈکٹیٹر ضیاء الحق نے پاکستان کوتختہ مشق بناتے ہوئے نوازشریف کاراستہ ہموار کیا لیکن آج نوازشریف اوراعجازالحق کی راہیں جدا جداہیں ۔جس طرح صدر ضیاء الحق نے جنرل ضیاء الحق کوایکسٹینشن دی اس طرح وزیراعظم شہبازشریف نے ملزم شہبازشریف کوکلین چٹ دے دی لہٰذاء اس کی کوئی اخلاقی حیثیت نہیں۔عوامی عدالت نے این آراو 2 کے نتیجہ میں شریف خاندان کے تین افراد کی بریت اورعمران خان کی متنازعہ نااہلی کومسترد کردیا ہے۔ پاکستا ن کے روشن مستقبل کیلئے بے رحم احتساب کے ساتھ ساتھ شفاف انتخاب کی ضرورت اور اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
 

Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 140 Articles with 90432 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.