ایک طرف عمران خان کا لانگ مارچ شہر اقتدار کی طرف
رواں دواں ہے تو دوسری طرف حکومتی وزیر بھی بڑھکیں مار رہے ہیں ان دونوں
معاملات کے دوران سب سے اہم اور خطرناک بات یہ ہے کہ حکومت مخالف صحافیوں
کو ملک چھوڑ کر جانا پڑ رہا ہے معید پیرزادہ کو تو یہاں تک کہنا پڑا کہ میں
ملک بدل بدل کر رہ رہاہوں فلحال کینیا میں نہیں ہوں جبکہ پاکستان کے
ہردلعزیز تجزیہ نگا ارشاد بھٹی بھی بچوں سمیت ناروے شفٹ ہوچکے ہیں ارشد
شریف کے ساتھ جو ہوا وہ حکومت مخالف صحافیوں کے لیے ایک سبق ہے کہ باز
آجائیں ورنہ دنیا کا کوئی ملک بھی محفوظ نہیں ملک میں ایک عجیب طرح کی
افراتفری ہے اور بڑے چاہیں تو چند لمحوں میں اس صورتحال سے نکل سکتے ہیں
مگر کوئی بھی کچھ کرنے کو تیار نہیں حکومت میں بیٹھے افراد بڑی مشکل سے
آئیں ہیں وہ تو چھوڑیں گے نہیں اور دوسری بات بھی طے ہے کہ عمران خان انہیں
چھوڑنے کے موڈ میں نہیں ہے پاکستان کے حالات پہلے بھی کوئی اتنے اچھے نہیں
تھے اور اب تو بلکل ہی خطرناک ہوتے جارہے ہیں یہاں تک کے بے ضرر اور معصوم
صحافی بھی مقدمات سے ڈرتے ہوئے بیرون ملک جارہے ہیں ارشد شریف اور عمران
ریاض پر جس طرح مقدمات کی بارش ہوئی اور تھانہ کچہری میں پھرایا گیا اور
اوپر سے شہباز گل کے سات ہونے والی زیادتی کے بعد کوئی بھی شریف النفس
انسان یہاں رہ کر ذلیل و رسوا نہیں ہوسکتا کیونکہ مقدمات قائم کرنا اور پھر
سرے راہ موت سے ہمکنار کرنا ان کے لیے کوئی مشکل نہیں اگر کسی کو نہیں یقین
تو وہ عابد باکسر کا انٹرویو دیکھ لے ساری حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی اس
وقت ملک کو اگر کوئی بحران سے بچا سکتا ہے تو وہ ہماری اسٹبلشمنٹ کے کردہ
دھرتا افراد ہی کی بدولت ہوسکتا ہے حکمرانوں سے یوں ڈر کر صحافیوں کا ملک
سے جانا انٹرنیشنل سطح پر بھی ہماری بدنامی کا باعث بن رہا ہے ویسے تو ہم
میڈیا کے آزادی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں مگر ہماری صحافت آزاد اتنی سی ہے کہ
وہ حکمرانوں کی مرضی کے بغیر چل نہیں سکتی اس وقت میڈیا پر سنسر شپ لگی
ہوئی ہے عمران خان کا جلسہ دکھانا بند کیا ہوا ہے اور جو چینل دکھا رہے ہیں
انہیں بھی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ہمارے معاشی حالات تو پہلے سے
ہی خراب تھے اب سماجی حالات بھی ڈوبتے جارہے ہیں گیارہ جماعتی اتحاد نے ملک
کو معاشی بحران سے نکالنے کے بڑے بڑے دعوے اور وعدے کیے تھے جو ابھی تک تو
الٹ ہی ہو رہے ہیں انہوں نے کہا تھا کہ ہم آکر ڈالر کی قیمت نیچے لائیں گے
،پیٹرول کی قیمتیں کم کرینگے ،بجلی کا بم نہیں گرائیں گے بلکہ عوام کیلیے
آسانیاں پیدا کی جائیں گی مگر جیسے ہی 11جماعتی اتحاد حکمران بنا تو سب سے
پہلے انہوں نے پیٹرول اور بجلی کی قیمتیں بڑھاکر اربوں روپے اکھٹے کیے اسکے
بعد اسحاق ڈار جو وزیر اعظم کے طیارے میں بٹھ کر فرار ہوئے تھے اور واپسی
بھی وزیر اعظم کے طیارے میں ہوئی کے بڑے بڑے دعوے بھی خاک میں مل گئے
مہنگائی بڑھت بڑھتے اتنی بڑھ گئی کہ اب غریب کا بچنا مشکل نظر آرہا ہے اور
اس وقت ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والا فرد شدید بحرانی کیفیت سے گزر رہا
ہے ملک معیشت تباہی کے دھانے پر ہے ایسے حالات میں وطن عزیز مزید کسی بھی
جانی ومالی نقصان کا متحمل نہیں حکومت مارچ کے شرکا کی پکڑ دھکڑ اور ریاستی
تشدد سے پرہیز کرتے ہوئے مارچ کے راستوں میں بلا جواز رکاوٹوں سے گریز کرے
کیونکہ احتجاج سیاسی جماعتوں کا جمہوری حق ہے لانگ مارچ کے شرکا بھی جلاؤ
گھیراؤ کی سیاست سے باز اور پر امن رہیں ملکی املاک کو نقصان اور ملکی
اداروں کے خلاف نعرے بازی سے گریز کریں موجودہ ملکی صورتحال میں حکومت کو
حزب اختلاف تحریک انصاف اور تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے
آئندہ عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دینا چاہیے کیونکہ اس وقت سیلاب
کی تباہ کاریوں اور شدید مہنگائی کی وجہ سے ملک معاشی عدم استحکام کا شکار
ہے سیاسی عدم استحکام سے مزید بگاڑ پیدا ہو گا کیونکہ سیلاب کی وجہ سے
پنجاب کے غریب لوگ اپنا سب پانی کی نذر کربیٹھے ہیں انکے پاس پہننے کو کپڑے
اور کھانے کو راشن نہیں ہے وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے سیلاب متاثرین
کی بحالی و آبادکاری کیلئے مجموعی طورپر 12ارب روپے کے فنڈز کی منظوری دیتے
ہوئے 9ارب روپے جاری کردیے ہیں پنجاب حکومت نے سیلاب متاثرین کے گھروں اور
لائیوسٹاک کے نقصانات کے ازالے کے لئے 10ارب روپے جبکہ فصلیں تباہ ہونے
والے کاشتکاروں کی مالی معاونت کے لئے 2ارب روپے مختص کئے ہیں اسکے ساتھ
ساتھ ساڑھے12ایکڑسے کم اراضی رکھنے والے کاشتکاروں کو فی ایکڑ 5ہزار روپے
دیئے جائیں گے کچے مکانات گرنے والوں کو 2لاکھ روپے اور پکے مکانات کے
مالکان کو 4لاکھ روپے مالی امداد دی بھی جائے گی ایک بات جو بڑی اہم ہے کہ
پنجاب میں سیلاب متاثرین کو وفاقی حکومت سے کچھ نہیں ملا سوائے تسلیوں کے
صرف پنجاب حکومت اپنے وسائل اور وزیراعلیٰ فلڈ ریلیف فنڈ سے سیلاب متاثرین
کی بحالی کا کام کررہی ہے وفاقی حکومت کی طرف سے پنجاب کے سیلاب متاثرین کو
امداد نہ دینا افسوسناک او رقابل مذمت ہے پنجاب کے دل لاہور سے تعلق رکھنے
والے وزیراعظم میاں شہباز شریف نے اپنے صوبے پنجاب کے سیلاب متاثرین کوتنہا
چھوڑارکھا ہے جہاں وہ تین بار وزیر اعلی رہ چکے ہیں وفاقی حکومت کایہ رویہ
پنجاب کے سیلاب متاثرین کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے حالات بتا رہے ہیں کہ
آنے والے دن بہت خطرناک ہوسکتے ہیں اس لیے موجودہ ملکی سیاسی صورتحال اور
معاشی ابتری سے نکلنے کیلئے فورا قومی حکومت قائم کی جائے جس میں سیاسی
جماعتوں، عدلیہ، فوج، میڈیا، علماء،تھینک ٹینکس، تاجر صنعتکار، کسانوں اور
مزدوروں کے نمائندے اور تمام عوامی طبقات کو شامل کیا جائے تاکہ اداروں کے
درمیان تناؤ،رسہ کشی اور اختیار کی جنگ ختم ہو سکے اس وقت ہمارے ہاں کفن
اور انسانی جانوں کی جو سیاست چل رہی ہے وہ ملک کیلئے انتہائی خطرناک
ہوسکتی ہے اس لیے ادارے مل کر سیاسی عدم استحکام سے ملک کو نکالیں جتنی دیر
کریں گے ملک کے سیاسی، گروہی اور معاشی حالات ابتر ہوتے جائیں گے پریس
کانفرنسز اور ایک دوسرے پر الزام تراشی سے مسائل مزید الجھیں گے سیاسی
جماعتوں کو دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انا، ذاتی مفادات اور بقاء کی جنگ
کو ایک طرف رکھنا ہوگا بڑی سیاسی جماعتوں کو ظرف اور برداشت بھی زیادہ
رکھنا ہوگااس وقت ذاتیات سے ہٹ کر فیصلے کئے جائیں ملک میں ایمرجنسی یا
انتشار کی کیفیت سب کیلئے نقصان دہ ہوگی جس سے بیرونی اور اندرونی دشمن
فائدہ اٹھائیں گے ۔
|