موربی میں ایک پُل ٹوٹ گیا اور ۱۴۱ لوگ لقمۂ اجل بن گئے۔
یہ حادثہ ایک ایسے وقت پر ہوا جب وزیر اعظم نریندر مودی اپنے آبائی صوبہ
گجرات کے دورے پر انتخاب میں ووٹ کی خاطر ریوڈیاں بانٹ رہے تھے ۔ اس قدر
سنگین واردات کے باوجودانہوں نے دوسرے دن صبح یومِ قومی اتحاد کی تقریب
منسوخ یا ملتوی نہیں کی۔ پہلے وزیر داخلہ ولبھ بھائی پٹیل کے دیوہیکل مجسمہ
پر پہنچ کر پریڈ اور سلامی وغیرہ سب کچھ حسب معمول ہوتا رہا جیسے کچھ ہوا
ہی نہیں ۔ وزیر اعظم کی طول طویل تقریر میں موربی کے لیے ایک پیرا گراف کا
اضافہ کردیا گیا ۔ انہوں نے اپنی گفتگو کے آغاز میں حادثے کے متاثرین کی
خاطر اپنے گہرے رنج وغم کا اظہار کیااور کہا کہ اگرچہ وہ کیوڈیا میں ہیں،
لیکن ان کا دل موربی حادثے کے متاثرین سے جڑا ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر دل
موربی میں ہے تو وہ گئے کیوں نہیں؟ ان کے پاس ہوائی جہاز ہے اور ہیلی کوپٹر
بھی ہے جس دو گھنٹے کے اندر موربی جایا جاسکتا تھا لیکن اس کے باوجود وزیر
اعظم نے یہ زحمت کیوں نہیں کی ؟
اس سنگدلی کا مظاہرے کا جواز خود وزیر اعظم نے اس طرح دیا کہ:’’ ایک طرف غم
سے لبریز دل ہے تو دوسری طرف عمل اور ادائے فرض کا راستہ ہے‘‘۔وہ بولے یہ
فرض اور ذمہ داری کا راستہ ہے جس نے انہیں راشٹریہ ایکتا دیوس(قومی اتحاد
دن ) میں پہنچایا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ فرض منصبی کیا ہے؟ وہ ہے اپنی پارٹی
کو ریاستی انتخاب میں کامیاب کرنا۔ یہی وزیر اعظم کے پیروں کی زنجیر بن گیا
اور اسی لیے انہوں حادثے میں جانیں گنوانے والے افراد کے تئیں گہری تعزیت
کا اظہار کرنے کے بعد متاثرین کے خاندانوں کو ہر طرح کے امداد کی یقین
دہانی پر اکتفاء کیا۔ ان چند نمائشی جملوں کے علاوہ متاثرین کے لیے وزیر
اعظم کے پاس کچھ نہیں تھا ۔ یہ تو وہ دہلی یا دنیا کے کسی بھی حصے میں بیٹھ
کر کہہ سکتے تھے ۔ ان کی گجرات میں موجودگی سے موربی کے متاثرین کا کوئی
فائدہ نہیں ہوا ۔ سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کا
ایک نادر موقع گنوا دیا ۔
اس سانحے کے پیش نظر یہ احسان ضرور کیا گیا کہ کیوڈیا کی تقریب کا ثقافتی
پروگرام منسوخ ہو گیا۔وزیر اعظم تین دن کے دورے پر تھے اگلے دودن انہیں
دیگر تقریبات میں بھی شرکت کرنی تھی ۔ دنیا بھر سے جب تعزیتی پیغامات آنے
لگے اور سعودی عرب سے لے کر روس تک نے اپنے رنج و غم کا اظہار کردیا تو اس
کے بعد وزیر اعظم کے احمد آباد کا روڈ شو اور پناّ پرمکھ سنیہ سمیلن کی
منسوخی کا اعلان کیا ۔ آگے چل کر احساس ہوا کہ یہ کافی نہیں ہے تو وزیر
اعظم نے کیمرے کے سامنے اپنا تعزیتی پیغام شوٹ کروایا اور اس میں جو اوور
ایکٹنگ کی وہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔ اس کلپ کو کسی فیچر فلم میں شامل
کردیا جائے تو آسکر ایوارڈ کے لیے وہ ایک منظر ہی کافی ہے۔ اے این آئی کے
ذریعہ جاری کردہ ویڈیو کی ٹویٹ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیا ایسے موقع
کوبھی پرچار کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔
اس گجراتی ویڈیو میں مودی جی نے نہایت غمزدہ لب و لہجے میں فرمایا:’’موربی
میں ایک بھیانک غمزدہ کرنے والی (طویل وقفہ) دل بہت بوجھل ہے۔میں تذبذب میں
تھا۔ ترقی کے کام ہیں ۔ بناس کانٹھا میں پانی کی کیا اہمیت ہے ،میں جانتا
ہوں۔ پروگرام کروں یا نہ کروں ؟ لیکن آپ کی محبت اور میرے تئیں جذبۂ خدمت
، فرض سے متعلق میری تربیت ، اسی وجہ سے دل مضبوط کرکے تمہارے درمیان آیا
ہوں۔ بنا س کا نٹھا اور شمالی گجرات میں پانی کے مسائل حل کرنے کی خاطر
آٹھ ہزار کروڈ کے پروجیکٹس لے کر آیا ہوں ۔ یعنی تعزیت میں بھی اپنی
تعریف انتخابی خطاب ۔ اس کو الیکشن کا جنون کہتے ہیں۔ اب یہ اعلان ہوا ہے
کہ حادثے کے تیسرے دن وزیر اعظم موربی کا دورہ کریں گے ۔ اس دن کیا کچھ
ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ ویسے وزیر اعظم کے دورے سے قبل
گجرات کا انتظامیہ ۹ ؍ لوگوں کو گرفتار کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کررہا ہے
کہ سارے مجرمین گرفتار ہوچکے ہیں حالانکہ وہ بیچارے تو معمولی لوگ ہیں
جنھیں بلی کا بکرا بنایا جارہا ہے ۔ بڑی بڑی مچھلیوں کی جانب کوئی ہاتھ
نہیں بڑھاتا ۔ کوئی وزیر جھوٹے منہ بھی اپنا استعفیٰ پیش نہیں کرتا کیونکہ
یہ بی جے پی کی روایت کے خلاف ہے۔
وزیر اعظم مودی اس بار کافی رنجیدہ نظر آرہے ہیں کیونکہ یہ ان کا اپنے
صوبے کا معاملہ ہے ۔ وہاں پچھلے 27؍ سال سے ان کی جماعت برسرِ اقتدار ہے ۔
یہ سانحہ اگر بہار میں رونما ہوجاتا تو ابھی تک صدر راج نافذ کرکے نتیش
کمار کو گھر بھیج دیا جاتا۔ راجستھان کے اندر سڑک اور پُل کے وزیر پر سی بی
آئی کا چھاپہ پڑ جاتا اور ٹھیکےدار کے ساتھ اس تعلقات پر بڑی بڑی کہانیاں
ذرائع ابلاغ میں گردش کررہی ہوتیں حالانکہ کرناٹک میں بی جے پی وزیر
ایشورپا پر رشوت کا الزام لگا کر ایک ٹھیکے دار خودکشی کر چکا ہے۔ آگے چل
کر اس نے استعفیٰ بھی دیا لیکن سی بی آئی یا ای ڈی نے اس کے دروازے پر
دستک دینے کی جرأت نہیں کی ۔ مغربی بنگال میں کوئی پُل ٹوٹ جائے تو ممتا
بنرجی پر قیامت ٹوٹ پڑے ۔ ان کے وزراء سمیت سرکاری افسران کو بھی جیل کی
سلاخوں کے پیچھے پہنچا یا جاسکتا ہے ۔
موربی کے سانحہ نے 2016کی مغربی بنگال میں وزیر اعظم کے ایک خطاب کی یاد
تازہ کردی ۔ 31 مارچ 2016 کو کولکاتہ میں وویکانند فلائی اوور منہدم ہو گیا
۔ اس فلائی اوور کی تعمیر کرنے والی کمپنی آئی وی آر سی ایل کےپانچ
اہلکاروں کو گرفتار ی عمل میں آئی۔ اپنے ملازمین کو کلین چٹ دیتے
ہوئےکمپنی کے ایک سینئر افسر نے اپنی کمیوں کو چھپاتے ہوئے اسے خداکی
مرضی(Act of God) قرار دے دیا۔ اس زیر تعمیر فلائی اوور کے انہدام سے 26
لوگ ہلاک اور 88 دیگر افراد زخمی ہو گئے تھے۔ اس سانحہ کے بعد 7؍اپریل 2016
کو وزیر اعظم انتخابی مہم کے لیے مغربی بنگال گئے اور وزیر اعلیٰ ممتا
بنرجی پر خوب برسے ۔ انہوں نے کہا کم ازکم مرنے والوں کا احترام کیا جائے
لیکن دیدی(ممتابنرجی) کی نظر میں مرنے والے افراد نہیں بلکہ کرسی ہی سب کچھ
ہے ۔ آج یہی الفاظ وزیر اعظم مودی کی جانب لوٹ آئے ہیں ۔
وزیر اعظم اپنے خطاب میں یہیں نہیں رکے بلکہ بہت آگے نکل گئے ۔ مودی جی نے
دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے کمپنی انجنیئر کا جملہ ٹی ایم سی کے سرمنڈھ دیا
اور کہا ’’وہ لوگ کہہ رہے ہیں یہ ’ایکٹ آف گاڈ ہے ‘ جبکہ دراصل یہ ’ایکٹ
آف فراڈ ‘ ہے‘‘۔ ذرائع ابلاغ میں وزیر اعظم کا یہ جملہ خوب گونجا اور وہ
تقریر اب بھی یو ٹیوب پر موجود ہے ۔ اس کے اندر حزن و ملال کا شائبہ تک
نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو ہمدردی وزیر اعظم کو گجرات کے لوگوں سے ہے وہ
مغربی بنگال کے عوام سے کیوں نہیں ہے؟ جس تعاون کی یقین دہانی انہوں نے
بھوپیندر پٹیل کو کرائی وہ ممتا بنرجی کے لیے کیوں نہیں تھی ؟؟ کیا وہ حزب
اختلاف کے لوگوں کو اپنے ملک باشندہ یا وفادار نہیں سمجھتے جبکہ موربی کے
سانحہ پر تو غیر ملکی سربراہان نے بھی رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم
کو اس سے سبق سیکھنا چاہیے۔
وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں پہلے تو اس سانحہ کے ’ایکٹ آف گاڈ‘ ہونے کا
انکار کیا مگر اس کے فوراً بعد اپنی ہی تردید کردی ۔ انہوں نے کہا یہ اس
معنیٰ میں ’ایکٹ آف گاڈ ‘ ہے کہ انتخاب کے دوران وقوع پذیر ہوا تاکہ عوام
کو پتہ چلے وہ (یعنی ممتا بنرجی) کس طرح سے حکومت چلارہی ہیں۔ خدا نے عوام
کو یہ پیغام بھیجا ہےکہ آج ایک پُل منہدم ہوا ہے کل پورا مغربی بنگال (ڈھے
)جائے گا۔ اس کے بعد وزیر اعظم نے عوام سے مغربی بنگال میں بی جے پی کو ایک
موقع دینے کی درخواست کی جسے لوگوں نے بجا طور پر ٹھکرا دیا۔ کوئی سربراہِ
مملکت انتخابی فائدے کے لیے اگر اتنا نیچے گر جائے تو بھلا لوگ اس کو اپنے
کندھوں پر کیسے اٹھا سکتے ہیں ؟ مشیت انتقام لیتی ہے اور جو شخص جس قدر
متکبر ہوتا ہے اس کی رسوائی کا سامان بھی اتنا ہی بڑا ہوتا ہے۔ موربی سانحہ
کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی کا وہ گھٹیا خطاب پھر ایک بار ذرائع ابلاغ
میں چل پڑا ہے۔ اس کے بعد تو مودی جی کے لیے چلو بھر پانی میں ڈوبنے کی
نوبت آگئی ہے۔ آج وہ سوچ رہے ہوں گے کہ کاش انہوں نے اپنی زبان کو قابو
میں رکھا ہوتا تو اس رسوائی سے بچ جاتے۔ ملک کی سیاست فی الحال اصول و
نظریات یا خدمت و کارکردگی پر نہیں چلتی۔ذرائع ابلاغ کی مدد سے ایک جعلی
تاثر پیدا کیا جاتا ہے اور عوام کو بیوقوف بناکر ان کے ووٹ ٹھگ لیے جاتے
ہیں۔ اس کام میں وزیر اعظم اور ان کی جماعت کو مہارت حاصل ہے ۔
مودی جی جب وزیر اعلیٰ تھے انہوں نے ایک نقلی گجرات ماڈل ملک کے سامنے پیش
کیا ۔ اس تیز طرار (وائبرنٹ) گجرات کی تصویر کے پیچھے چھپ کر وہ ملک کے
وزیر اعظم بن گئے لیکن موربی کے پُل نے اس شبیہ کو مسمار کردیا ہے۔ گجرات
کا انتخاب محض ایک ماہ کے فاصلے پر ہے ۔ اس دوران اگر گجرات کے عوام اس
واقعہ کو پیش نظر رکھیں تو بی جے پی کے خوابوں کا محل ڈھے سکتا ہے۔ سیاست
سے قطع نظر اے بی پی کے ترجمان جب موربی پہنچے تو وہاں ان کی ملاقات حسین
محبوب پٹھان سے ہوئی ۔ اس نوجوان نے اپنی جان پر کھیل کر تقریباًپچاس لوگوں
کی جان بچائی کیونکہ حادثے کے وقت تقریباً پانچ سو لوگ پل پر تھے۔ موربی
میں صرف پندرہ فیصد مسلمان ہیں اس کے باوجود حسین محبوب پٹھان نے جو عظیم
خدمت انجام دی اور اس کے ساتھی صدام وغیرہ نے جس طرح متاثرین کی مدد کی اس
سے گجرات جیسی ریاست میں امت مسلمہ کا سر فخر سے اونچا ہوگیا ہے۔ موربی کے
سانحہ سے مودی سرکار تو زیرو ہوگئی مگر حسین محبوب ہیرو ہوگیا۔ سچ تو یہ ہے
ناموری کا تعلق تعداد سے نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے عزت عطا
فرماتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلیل کردیتا ہے۔
|