گجرات اسمبلی انتخاب کی مہم میں اروند کیجریوال نے بی جے
پی کی حالت خراب کررکھی ہے۔ کرنسی نوٹ پر لکشمی اور گنیش کی تصاویر کے
مطالبے نے کیجریوال کو نریندر مودی سے بڑا ہندو ثابت کردیا ہے۔ الیکشن
کمیشن یکم نومبر کو انتخابی تاریخوں کا اعلان کرسکتا ہے اس لیے جاتے بی جے
پی کی صوبائی حکومت نے مرتا کیا نہ کرتا کی مصداق یکساں سیول کوڈ کا پتاّ
پھینک دیا۔ بی جے پی کے ذریعہ انتخاب میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے غرض سے
یہ ایک بڑی پیش قدمی ہے۔ بی جے پی چاہتی تو یہ تھی کہ بلقیس بانو مقدمہ کے
مجرمین کو مدعا بنا کر انتخاب جیتے مگر اس پر اتنی تھو تھو ہوئی کہ وہ اس
کا ذکر کرنے کی بھی جرأت نہیں کرسکی۔ ایسے میں گجرات کابینہ کی نشست کے
بعد ریاستی وزیر داخلہ ہرش سنگھوی کا اعلان کہ ’’وزیر اعظم نریندر مودی اور
مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ سے ترغیب لیتے ہوئے وزیر اعلیٰ بھوپیندر پٹیل نے
کابینہ میٹنگ میں ریاست کے اندر یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنے کے لیے ایک
کمیٹی تشکیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ ہندو رائے دہندگان کو بیوقوف بناکر ووٹ
ٹھگنے کا نہایت گھٹیا حربہ ہے۔
یکساں سیول کوڈ کے نفاذ میں بی جے پی کا دوغلا پن اس کے ترجمان اشونی کمار
کے مقدمات اور ان پر مرکزی حکومت کے جواب سے واضح ہوتا ہے۔ بی جے پی رہنما
اشونی کمار نے سپریم کورٹ میں ( اگست 2020 ) آئین اور بین الاقوامی
کنونشنوں کی روح کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام شہریوں کے لیے "طلاق کی یکساں
بنیاد" فراہم کرنے کے لیے درخواست دائر کی تھی ۔ انہوں نے آئین اور بین
الاقوامی اصولوں کے مطابق تمام شہریوں کے لیے "جنسی اور مذہب سے غیر
جانبدار" یکساں بنیادوں کے قانون کا مطالبہ بھی کیا تھا۔اپنی عرضی میں
اشونی کمار نے حکومت سے تمام مذاہب اور فرقوں کے رسم و رواج، ترقی یافتہ
ممالک کےعائلی قوانین اور بین الاقوامی روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے آئین
کے آرٹیکل 44 کے تحت تین مہینے کے اندر یو سی سی کا مسودہ تیار کرنے کے لئے
ایک لا کمیشن یا اعلیٰ سطحی ماہرین کی کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت جاری کرنے
کی اپیل کی تھی۔
کانگریس راج میں اگر کوئی بی جے پی رہنما ان مطالبات کی خاطر عدالت سے رجوع
کرتا تب تو ٹھیک تھا لیکن خود اپنی حکومت سے براہِ راست مطالبہ کرنے کے
بجائےیہ نوٹنکی مضحکہ خیز تھی۔ دیکھتے دیکھتے اس طرح کے مقدمات میں اضافہ
ہونے لگا اور فی الحال یو سی سی کو نافذ کرنے کی خاطر چھ مفادِ عامہ کے
مقدمات زیر سماعت ہیں- ان میں سے چار تو اکیلے اشونی اپادھیائے کی مرہونِ
منت ہیں ۔ ان کے علاوہ، لبنیٰ قریشی نامی مسلم خاتون اور ڈورس مارٹن نے بھی
عرضی دے رکھی ہے ۔ اس طرح گویا یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہ
ہندو فرقہ پرستی کا معاملہ نہیں بلکہ سارے طبقات کی مشترکہ مانگ ہے۔ عرضی
گزار یہ اعتراف کرتا ہے کہ یو سی سی کو ہمیشہ مذہبی خوشنودی کا تماشہ سمجھا
گیا ۔ اس کے خیال میں سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ حکومت سے یکساں سیول کوڈ کے
لیے آئین کے آرٹیکل 44 کو نافذ کرنے کے لیے نہیں کہہ سکتےلیکن کم ازکم مرکز
کو اس کی تیاری کرنے کا حکم تو دے ہی سکتے ہیں ۔ اس لیے مسودہ کمیٹی تشکیل
دینے کی ہدایت جاری کرنے کا مطالبہ کیا گیا ۔
اشونی کمارچاہتے ہیں کہ یوسی سی پر وسیع عوامی بحث کروائی جائے۔ اس پر رد
عمل طلب کرنے کے لئے مسودہ کو کم از کم 60 دنوں تک سرکاری ویب سائٹ پر شائع
کرنے کی ہدایت جاری کی جائے ۔ دہلی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں تو یو سی
سی کا مطالبہ کرنے والی مختلف درخواستیں زیر التوا ہیں لیکن پچھلے سال
نومبر میں اچانک جوش میں آکر الہ آباد ہائی کورٹ نے مرکزی حکومت سے کہہ
دیا کہ وہ یکساں سیول کوڈ کے عمل کا آغاز کرے اور اس میں تیزی لائے۔ الہ
باد ہائی کورٹ کے مطابق یہ عصرِ حاضر کی ایک حاجت ہی نہیں بلکہ لازمی ضرورت
ہے۔ مفادِ عامہ کی ان درخواستوں کو یکسر مسترد کرنے کے بجائے عدالتِ عالیہ
اور سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے درخواستوں کے ایک بیچ( جن میں سرکار کو
دیوانی معاملات کے لیے مذہب اور صنفی غیرجانبدار قوانین وضع کرنے کی ہدایت
کی درخواست کی گئی تھی) جامع جواب طلب کرلیا ۔ اس کے باوجود تین طلاق کے
معاملے میں عدالت کےمعمولی تبصرے کا بہانہ بناکر حرکت میں آجانے والی مودی
سرکار اس موقع کا فائدہ کر یکساں سیول کوڈ کے نفاذ میں پیش رفت نہیں کرسکی۔
31 مئی 2019کو اس معاملہ میں ہائی کورٹ نے پہلا نوٹس جاری کیا تھا اس کو
ڈھائی سال کا وقفہ گزر گیا ہے مگر حکومت ہنوز ٹال مٹول کررہی ہے۔ اس کی وجہ
یہ ہے کہ ملک میں موجود تمام فرقوں کے لوگوں کے لئے یکساں قانون لاگو
کرناکوئی آسان کام نہیں ہے۔ ہندوستان میں خاندانی معاملات مثلاًشادی، طلاق
اور میراث کے حوالہ سے الگ الگ مذہبی طبقات کے اندر ان کے مذہبی اور سماجی
عقائد کے مطابق قوانین رائج ہیں۔ انہیں پرسنل لاء کہا جاتا ہے۔ آزادی کے
بعد سے دائیں بازو کی جماعتوں کے طرف سے ملک میں خاندانی معاملات کے لئے
بھی فوجداری اور تعذیری قوانین کی مانند یکساں سیول کوڈ کا مطالبہ تو ہوتا
رہا ہے ۔ عدالت کے اندر سرکار موقف اس رحجان کی تائید کرتا ہے کہ یہ آسان
نہیں ہے ۔ یکساں سیول کوڈ کی مسلمان پر زور مخالفت کرتے ہیں کیونکہ ان کے
نزدیک آر ایس ایس کی جانب سے یہ مطالبہ دراصل پرسنل لاء کے خلاف سازش ہے۔
شریعت میں چونکہ شادی طلاق اور میراث کے حوالہ سے واضح احکامات موجود ہیں
اس لیےمسلمان نئے قوانین کی مخالفت کرتے ہیں ۔
جولائی 2019میں ایسی خبریں ذرائع ابلاغ میں گردش کر رہی تھیں کہ مرکزی
حکومت نے ملک کے شہریوں کے لیے یکساں سیول کوڈ قانون لانے کی تیاری شروع کر
دی ہےاور اس حوالے سے کسی بھی وقت پارلیمنٹ میں بل پیش ہو سکتا ہے۔ صوبائی
سطح پر اس کا تجربہ کرنے کے لیے اتراکھنڈ کا انتخاب کیا گیا اور وہاں کے
وزیر اعلیٰ سے کئی بار یہ بات کہلوائی گئی۔ یہ خبر بھی آئی کہ اتراکھنڈ
میں تشکیل شدہ کمیٹی کے رہنما خطوط کا مسودہ مرکزی وزارت قانون نے فراہم
کیا تھا۔ اس سے یہ قیاس آرائی کی گئی کہ قانون کا مسودہ مرکزی حکومت کے
پاس موجود ہے۔ صوبائی کمیٹی کا فارمیٹ لا کمیشن جیسا تھا ۔ اس میں سپریم
کورٹ کی سابق جج جسٹس رنجنا دیسائی، دہلی ہائی کورٹ کے سابق جج پرمود
کوہلی، سابق آئی اے ایس شتروگھن سنگھ اور دون یونیورسٹی کی وی سی سریکھا
ڈنگوال شامل تھے ۔ اس وقت یہ کہا جارہا تھا کہ ایسی کمیٹی دیگر ریاستوں
مثلاً مدھیہ پردیش، ہماچل پردیش، اتر پردیش میں بھی بنائی جا سکتی ہےکیونکہ
بی جے پی کے تحت چلنے والی یہ ریاستیں پہلے ہی یکساں سیول کوڈ پر رضامند ہو
چکی ہیں۔
ایک طرف گجرات حکومت کا تازہ فیصلے کے تناظر میں حیرت کی بات یہ ہے کہ اسی
ماہ کے اوائل میں مرکزی حکومت نے یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کو لے کر سپریم
کورٹ میں حلف نامہ داخل کیا تھا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ مرکزی حکومت
پارلیمنٹ کو یکساں سول کوڈ پر کوئی قانون بنانے یا اسے نافذ کرنے کی ہدایت
نہیں دے سکتا ہے۔ یونیفارم سیول کوڈ یعنی یکساں سول کوڈ کا مطلب الگ الگ
مذاہب کی کتابوں اور رسوم و رواج پر مبنی پرسنل لاء کی جگہ ملک میں ہر ایک
شہریوں پر نافذ ہونے والا یکساں شہری قانون ہے۔ اگر عام زبان میں اس قانون
کو سمجھیں تو یونیفارم یکساں سیول کوڈ کا سیدھا مطلب ہے ملک کے ہر شہری کے
لیے ایک جیسا قانون۔ اس کے معنیٰ تمام مذاہب کے پرسنل لا کا خاتمہ ہے اور
یہ مرکزی حکومت کے لیے ناممکن ہے لیکن پھر اس کو اچھال کر بی جے پی عوام کو
بیوقوف بناتی ہے اور اس کا انتخابی فائدہ اٹھاتی ہے۔
گجرات سرکار یا اشونی کمار جیسے لوگ یونیفارم سیول کوڈ کے سارے حامی آئین
کی دفعہ 44 کی دہائی تو خوب دیتے ہیں اور اس کو بھائی چارے، یکجہتی اور
قومی انضمام کے لئے لازمی قرار دیتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ اس کی
حیثیت صرف رہنما خطوط کی ہے ۔ باب چہارم میں درج ہدایات حیثیت رہنما خطوط
سے زیادہ نہیں ہے اس لیے ابذریعہ عدالت قابل اطلاق نہیں ہیں ۔ ان کا نفاذ
عدلیہ کے دائرۂ اختیار سے باہر ہے اور کوئی شہری ان کے نفاذکا از روئے
قانونی حق تقاضہ نہیں کر سکتا۔ اس کے برعکس ملک کے دستور میں دفعہ 25 بھی
موجود ہے ۔ اس کے تحت شہریوں کے اپنے مذہب کی پیروی،تلقین،ترویج اور تبلیغ
کی مکمل اور مساوی آزادی کو تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ آئین کے باب چہارم میں
حکومت کے لئے سیاسی حکمت عملی کے بعض اصول ہدایہ نہیں بلکہ بنیادی حقوق
ہیں۔ دنیا کی کسی سرکار کو اسے سلب کرنے اختیار نہیں ہے اور اگر کوئی ایسا
کرے تووہ اپنے اختیارات میں تجاوز کا مرتکب ہوتا ہے۔بہر حال سپریم کورٹ میں
تو اس بابت حکومت کو اپنی محدودیت کا اندازہ ہوگیا ہے لیکن گجرات کے اندر
انتخابی ضرورت کے تحت اسے اچھال کر بی جے پی کا ڈوبتا جہاز تنکے کے سہارے
تیرنے کی کوشش کررہا ہے۔
|