بھرت پور کی مہا بھارت - تیسری قسط

وشوناتھ کی صحبت میں جگو کے عقل کی کھڑکیاں کھلنے لگی تھیں روشنی کی ایک ہلکی سی کرن اندر داخل ہو چکی تھی جگو نے وشوناتھ سے پوچھا" اچھا یہ بتلائیں کہ آپ نے کیا اعتراض کیا تھا؟"
میں نے! میں نے تو صرف یہ کہا تھا کہ کہ مجھے اس تالاب کا پانی کچھ گدلا نظر آنے لگا ہے
بس اتنی سی بات ؟ اس میں تو برا لگنے والی کوئی بات ہی نہ تھی وہ کسی تجربہ گاہ سے اس کی تفتیش کرواکر حقیقت تک پہونچ سکتے تھے
وشوناتھ مسکرائے اور بولے تحقیق و تفتیش کی ضرورت تو اس وقت پیش آتی ہے جب حقائق پوشیدہ ہوں ۔ یہ تو ایک ایسا راز تھا جوسب پر عیاں تھا
اچھا تو انہوں نے کیا کہا؟ جگو نے سوال
وہ کیا کہتے؟انہوں نے پہلے تو میرا تمسخر اڑانے کی کوشش کی اور کہا وشوناتھ کی نظر کمزور ہو گئی اس کو اپنی عینک بدل لینی چاہئے ۔
میں نے جواب دیا یہ اس قدر عیاں حقیقت ہے کہ اس کا مشاہدہ کرنے کیلئے کسی عینک کی چنداں ضرورت نہیں اس کا مشاہدہ تو معمولی سی بینائی والا شخص بھی کر سکتا ہے
اگر ایسا ہے تو یہ گدلا پن صرف تمہیں کو کیوں نظر آتا ہے ؟ ہمیں کیوں دکھائی نہیں دیتا؟
یہ سوال تو آپ لوگوں کو اپنے آپ سے پوچھنا چاہئے ۔ممکن ہے آپ لوگوں نے اپنی آنکھوں پر کوئی ایسی پٹی باندھ رکھی ہو جواس مشاہدے میں مانع ہو رہی ہے یا کوئی اور وجہ بھی ہو سکتی ہے جس کا علم مجھے نہیں ہے ۔
میرے اس جواب پر ایک راج درباری آپے سے باہر ہو گیا اور کہنے لگا وشوناتھ تم اپنی حدود کو پھلانگ رہے ہو۔ تم راج پردھان بنا دئیے گئے اس کے معنیٰ یہ تو نہیں ہوتے کہ ہمیں عقل کا اندھا کہو؟ کیا تم نے ہمیں بالکل ہی بے وقوف سمجھ رکھا ہے ؟ہم اس طرح کی توہین ہر گز برداشت نہیں کریں گے؟
اس اوٹ پٹانگ الزام کے جواب میں میں نے مسکرا کر فیض کا یہ شعر پڑھ دیا
" وہ بات سارے فسانے میں جس ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے"
راج پروہت نے اس موقع پر مداخلت کی اور کہا پانی میں دراصل آسمان کا رنگ نظر آتا ہے اور آجکل افق پر کچھ نئے رنگ رونما ہو رہے ہیں جو اس سے پہلے کبھی بھی دیکھے نہ گئے تھے ۔ راج تال کاگدلا پن آسمان کا دھندلا سا عکس ہے ۔
میں راج پروہت کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں اس حقیقت کو کم از کم تسلیم تو کر ہی لیا کہ راج تال فی الحال پہلے کی مانند صاف و شفاف نہیں ہے لیکن ان کی وجہ جواز سے اختلاف کرتے ہوئے کہا جناب راج تال کے اس گدلے پن کیلئے آسمان کو موردِ الزام ٹھہرانا درست معلوم نہیں ہو تا ۔ آسمان سے برسنے والی برسات تو اسے کسی قدر بہتر بنا دیتی ہے ۔ مجھے تویہ زمین والوں کا کارنامہ لگتا ہے ۔
زمین والوں سے تمہاری مرادکیا ہم لوگ ہیں؟ ایک اور درباری بولاوشوناتھ آج تمہیں یہ کیا ہو گیا ہے ؟
اس سے پہلے کہ میں اس کا جواب دیتا ایک معمر درباری رکن اپنی جگہ سے اٹھے اور کہا آپ لوگ بار بار وشوناتھ کی باتوں کو اپنے اوپر کیوں اوڑھ لیتے ہوئے ۔ اس سے بلا وجہ چور کی داڑھی میں تنکا معلوم ہونے لگتا ہے ۔ یہ راج تال ساری قوم کا ہے اور اس کی خوبی اور خرابی میں ساراملک برابر کا شریک ہیں اس لئے میں اپنےفاضل دوست سے یہی کہوں گا
"وفا کے نام پے تم کیوں سنبھل کے بیٹھ گئے؟
تمہاری بات نہیں بات ہے زمانے کی "
میں نے وضاحت طلب کی سب سے مراد کیا ہے ؟ وہ لوگ جو یہاں دربار کے اندر بیٹھے ہیں یا عوام جو اس کے باہر رہتے ہیں ۔
سوالات کا شکنجہ تنگ سے تنگ تر ہوتا جارہا تھا اور راج پروہت کو اسکی گھٹن محسوس ہو نے لگی تھی ۔ اس نے کہا سب سے مرادتمام لوگ ہیں۔ وہ بھی جو اندر ہیں اور وہ لوگ بھی جو باہر ہیں۔ اس قوم کا ہرہر فرد یکساں طور پر اس کیلئے ذمہ دار ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس ملک کے سارے تالاب جو بظاہر ایک دوسرے سے جدا جدا نظر آتے ہیں اندر سے آپس میں ملے ہوئے ہیں ۔
اگر یہ بات درست بھی ہو تو ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ان کے درمیان بہنے والے پانی کا رخ کس طرف ہے ؟وشوناتھ ایک نیا مسئلہ چھیڑ دیا
راجہ نے پہلی مرتبہ بحث میں شامل ہوتے ہوئے کہا یہ تو بڑا معمولی سوال ہے ۔ راج تال ہماراسب سے بڑا تالاب ہے اور یقیناً یہی سارے ندی نالوں اور تالابوں کو سیراب کرتا ہے ۔
وشوناتھ بولا مہاراج ممکن ہے ایسا کسی زمانے میں رہا ہو لیکن آجکل مجھے لگتا ہے کہ صورتحال یکسر بدل گئی ہے
کیوں ؟ سب نے ایک زبان ہو کر سوال کیا
اگر پانی راج تال سے دوسروں کا جاتاہوتا تو دوسروں سے قبل راج تال خالی ہو جاتا لیکن اس کے بر عکس ہورہا ہے دوسرے ذخائر ِ آب خالی ہوتے جارہے ہیں اور اس کے برخلاف راج تال کے سطحِ آب میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے اس کے معنیٰ یہی ہیں کہ جو کچھ آرہا ہے اس کے مقابلے بہت کم جا رہا ہے ۔
لیکن یہ جو پائپ لائن دکھلائی دیتی ہے اس کا کیا؟راج پروہت نے پوچھا
جی ہاں مہاراج پائپ لائن تو موجود ہے لیکن اس کا بھی اندرہی اندر گلا گھٹ چکا ہے ۔جو پائپ ہماری کوٹھیوں کو جاتی ہیں ان کی مرمت اور دیکھ بھال ہوتی رہتی ہے اس لئے ان کے اندر سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے لیکن غریب بستیوں کو جانے والے پائپ میں پانی بہتا نہیں بلکہ رکا رہتا ہے بلکہ اب تو شایدسڑاند پیدا کرنے لگا ہے ۔
یہ سب تم تو کہہ رہے ہو اگر واقعی ایسا ہے توشکایت عوام کی جانب سے آنی چاہئے وہ کیوں خاموش ہیں ؟ مجھے تو مدعی سست اور گواہ چست کی سی صورتحال دکھلائی دیتی ہے ۔ درباریوں میں سے ایک نے فقرہ کسا
ایسا نہیں ہے عوام کا ایک طبقہ نے اپنی تقدیر کو کوس کراپنے آپ کو مطمئن کر لیا ہے ۔اور باقی لوگ ہم سے مایوس ہو چلے ہیں یہ اچھی صورتحال نہیں ہے وشوناتھ نے کہا
وشوناتھ کے انتباہ کا الٹا مطلب نکال کر ایک درباری اٹھا اور اس نے کہا اگر یہی بات ہے تو دیر کس بات کی ہے عوام کو پکڑ کر اس کام میں لگا دیا جائے وہ پہلے تالاب کو صاف کریں اور پھر اپنی پائپ لائن کی درستگی کا کام کریں ۔
وشوناتھ کو اس پر غصہ آگیا بہت خوب وہ تالاب کوصاف کریں اور ہم ا سے گدلا کرتے رہیں گے یہ خوب سوداگری ہے جس میں دینے والے کو کچھ نہیں ملتا کیوں کہ لینے والا کچھ بھی نہیں لوٹاتا ۔وشوناتھ نے ترکی بہ ترکی جواب دیاوہ جو باہر ہیں ان کا اس میں کوئی قصورنہیں ہے وہ تو نہ ہی اس تالاب سے استفادہ کرتے ہیں اور نہ ہی اسے زہر آلود کرتے ہیں اس لئے ان کو درمیان میں گھسیٹنا کسی پہلو سے درست نہیں ہے۔
اس بات پر دربار میں ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا ۔ ہر کوئی بول رہا تھا کوئی کسی کی سن نہیں رہا تھا ۔لوگ وشوناتھ کو زندہ چبا جانا چاہتے تھے اس لئے کہ اس نے ان کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا ۔اس صورتحال سے پریشان ہو کر راجہ نے راج پردھان کی جانب دیکھا تو راج پردھان نے مداخلت کی اور کہا آج یہ آپ سب کو کیا ہوگیا ہے ؟ آپ لوگ تو سڑک پر چلنے والی گنوارجنتا سے بھی زیادہ بدنظمی کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔وشوناتھ نے ایک سوال کیا ہے ہمیں اس پر ہنگامہ کرنے کے بجائے اس کا جواب دینے کی کوشش کرنا چاہئے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس تالاب میں رونما ہونے والی آلودگی کیلئے اگرچہ بالواسطہ طور پر عوام ذمہ دار نہیں ہیں تب بھی بلاواسطہ اصل ذمہ داری انہیں کے سر جاتی ہے۔ہم لوگ یہاں پر جو کچھ بھی کرتے ہیں یہ انہیں کی توثیق سے ہورہا ہے ۔ ان لوگوں نے جن کو اپنی حمایت سے راج دربار میں روانہ کیا ان درباریوں کی حرکات کے لئے اگر وہ ذمہ دار نہیں ہیں تو آخر ذمہ دار کون ہے ؟
وشوناتھ نے کہا راج پروہت کی یہ دلیل اسی صورت میں درست ہوگی جبکہ عوام نے ہمیں اس تالاب کو گدلا کرنے کی غرض سے یہاں روانہ کیا ہو یا کم از کم ہم نے ان کے سامنے یہ واضح کردیا ہو کہ یہاں آنے کے بعد ہم یہ حرکت کرنے والے ہیں اور اس حقیقت کو جاننے کے باوجود انہوں نے ہماری حمایت کی ہو ۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ نہ ہی انہوں نے ہم کو یہ کام سونپا اور نہ ہی ہم نے انہیں یہ بتلایا کہ ہم کیا کرنے جارہے ہیں ایسے میں ان کو مجرم کے کٹہرے میں کھڑا کرنا مجھے سراسر زیادتی معلوم ہوتا ہے ۔
راجہ نے کہا تمہاری دلیل درست ہے وشوناتھ لیکن اس کے باوجودیہ حقیقت ہے کہ سالانہ جشن کے دن عوام درباریوں کا انتخاب کرنے کیلئے راج تال پر آتے ہیں اور چونکہ یہ سارا کھیل ان کی مرضی سے ہوتا ہے اس لئے ان کو مکمل طور پر بری الزمہ قرار نہیں دیا جاسکتا
وشوناتھ بولا جہاں پناہ اگر جان کی امان پاوں تو عرض کروں کہ وہ آتے کب ہیں؟مجھے تو لگتا ہے کہ وہ بیچارے لائے جاتے ہیں
کیا مطلب ؟ کیا ہم انہیں زبردستی کر کے یہاں لاتے ہیں؟ یہ تو بہتان ہے ہم پر۔ایک درباری بولا
ویسے باقائدہ زبردستی تو نہیں ہوتی لیکن جس طرح کا ماحول بنایا جاتا ہے ۔ ان کے اندر جس قسم کی مختلف عصبیتوں کو بھڑکایا جاتا ہے ۔ جو سبز باغ دکھلائے جاتے ہیں اگر وہ سب نہ کیا جائے تو کون آئے؟ مجھے یقین ہے کہ اگر اس سال لوگوں کو بتلا دیا جائے کہ آئندہ سال کی پہلی تاریخ کو انہیں راج تال پر آنا ہے اور جترا کا ہنگامہ نہ کھڑا کیا جائے تو شاید ہمارے قریبی اعزہ و اقارب بھی ازخود یہاں نہ پھٹکیں
بات کافی پھیل گئی تھی اس لئے اسے سمیٹنے کیلئے ایک اور درباری نے مفاہمت کی صورت نکالتے ہوئے کہا کہ اب جو ہوا سو ہوا ۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ یہ پتہ چلایا جائے کہ راج تال کی درگت کیلئے ذمہ دار کون ہے؟ بلکہ اس سوال پر غور کیا جائے کہ اس کی کو پاک وصاف کرنے کیلئے کیا کیا جائے؟
دیگر درباریوں کے گلے سے یہ تجویز بھی نہیں اتری انہوں نے اعتراض کیا ہم آج یہ کون سا فضول کا دکھڑا لے کر بیٹھ گئے ؟کیا ہم لوگ راج دربار میں صاف صفائی کرنے کیلئے آتے ہیں کیا حکمرانوں کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ کسی صفائی مہم میں جٹ جائیں ؟قوم کے عظیم تر مسائل پر گفت و شنید کرنے کے بجائے ہمیں اپنا قیمتی وقت اس فضول بحث میں نہیں صرف کرنا چاہئے
وشوناتھ نے کہا میں تو سمجھتا ہوں کہ ہم راج تال کے امانتدار ہیں قوم نے ہم پر اعتماد کیا ہے۔ اس لئے اب یہ ہمارےبنیادی فرائض میں شامل ہے کہ ہم اس کو پاک صاف رکھیں اور اگر ایسا کرنے میں ناکامی ہوتی ہے تو اسکی صفائی ستھرائی کا اہتمام کریں ۔ اگر کسی صورت ہم خود اپنے اس فرض منصبی کو ادا کر نے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو ہمیں بلا جھجک عوام کا تعاون لے کر اس کام کو کرنا چاہئے ۔
درباریوں کو محسوس ہوا کہ کسی طور یہ بلا اب ان کے سر سے ٹل رہی ہے اس لئےوشوناتھ کی اس تجویز پر انہوں نے چین کا سانس لیا لیکن راج پروہت نے اس سے اختلاف کیا اس نے کہایہ نازک معاملہ ہے اس میں ہمیں احتیاط سے کام لیتے ہوئے سوچ سمجھ کر اقدام کرنا ہوگا ورنہ فائدے کے بجائے بہت بڑا نقصان ہو سکتا ہے ۔
نقصان ؟ کیسا نقصان ؟؟
راج پروہت بولے دراصل یہ سارا نظام اس تالاب کے تقدس پر قائم ہے اگر کل کو عوام کو یہ پتہ چل جائے کہ اس کا پانی ناپاک ہو چکا ہے تو اس کا تقدس پامال ہوجائے گا اوریہ نظام بکھر کر ریززہ ریزہ ہو جائیگا جس کے نتیجے میں ہماری لٹیا اس تالاب کے گدلے پانی میں ڈوب جائیگی ہم کہیں کے نہیں رہیں گے ۔ ہمارے ستارے گردش میں آجائیں گے۔جیسا کہ وشوناتھ نے پہلے کہا تھا عوام کا اعتماد ویسے ہی اس ناٹک سے دن بدن اٹھتا جارہا ہے ۔ ہر سال جترا میں ان کی شمولیت میں کمی واقع ہورہی ہے ۔اس کے باوجود کسی طرح انہیں بہلا پھسلا کر یہاں لانے میں ہم کامیاب ہو رہے ہیں لیکن اس حقیقت کے عیاں ہوجانے کے بعد تو یہ ناممکن ہو جائےگا۔
راج پروہت کے انتباہ پر ایک نوجوان راج درباری جس کا خاندان کئی نسلوں سے راج دربار میں موجود رہاتھا اور جس نے یہیں آنکھیں کھولیں تھی جوش میں اٹھا اوربولا اگر عوام کا اعتماد ختم ہوتا ہے تو ہوجائے اپنی بلا سے ۔ اگر عوام ہماری حمایت نہیں کرتے تو نہ کریں ہمیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے ہم اسی طرح راج درباری بنے رہیں گےاور راج پاٹ چلاتے رہیں گے ویسے مجھے تو اس جترا کا کوئی خاص فائدہ نظر نہیں آتا ۔
تمہارا دماغ خراب ہے راج پروہت نے چڑ کر کہا ۔ اس ڈرامے سے عوام کا تو کوئی خاص فائدہ نہیں ہے لیکن ہمارا بڑا فائدہ ہے ۔ چونکہ ہم ان کی حمایت سے یہاں آتے ہیں وہ بلا وجہ ہماری حرکات کیلئے خود کو موردِ الزام ٹھہرا کر احساس جرم کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پھر جب ان کا غم و غصہ قابو سے باہر ہو جاتا ہے تو جترا کی گہما گہمی امید کا ایسا چراغ روشن کر دیتی جس سے معاملہ اپنے آپ رفع دفع ہو جاتا ہے ۔ اسی جترا کی مدد سے عوامی بغاوت کو ٹالنے میں ہم کامیاب رہے ہیں ۔دراصل عوام کے استحصال کا اس سے زیادہ موثر نسخہ ہمارے پاس کوئی اور نہیں ہے ۔
سارا دربار راج پروہت کے دلائل سے متفق ہو گیا اور چہار جانب خاموشی پھیل گئی ۔ وشوناتھ نے پوچھا لیکن اب اس مسئلہ کو حل کیسے کیا جائے؟ اس لئے کہ اگر راج تال کی آلودگی میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہا تو جلد یا بدیر وہ سارے لوگوں کو پتہ چل ہی جائیگا اور وہ اندیشے سچ ہو جائیں گے جن اظہار ابھی راج پروہت نے کیا ہے۔
راج پروہت نے کہا میری تجویز یہ ہے کہ ہم سب آئندہ تین دنوں تک اس پر غوروخوض کریں اور پھر راج دربار کے خصوصی اجلاس میں اس پر گفت و شنید ہو تاکہ مشترکہ لائحہ عمل تیار کیا جاسکے
راج پروہت کی تجویز سے سبھی نے اتفاق کیااور راجہ نے آئندہ اجلاس کی تاریخ کا اعلان کر دیا
جگو بولا یہ تو نہایت معقول فیصلہ تھا تو پھر اس کے بعد کیا ہوا؟
وشوناتھ مسکرا کر بولے جگو میں نے بھی یہی سمجھا تھا جو تم سمجھ رہے ہو اور میں بھی اسی طرح خوش ہوا تھا جیسا کہ تم ہو رہے ہو لیکن افسوس کہ وہ میری خوش فہمی تھی
اچھا وہ کیسے؟
دراصل راج پروہت نے میرے خلاف سازش کرنے کیلئے بڑی صفائی سے تین دن کا وقت حاصل کر لیا تھا ان تین دنوں میں اصل مسئلے پر کوئی کام نہ ہوا بلکہ سب سے پہلے تو جو پرپرانتی{خارجی} میری حمایت کررہے تھے انہیں حاصل مراعات کے چھن جانے کا خوف دلا کرمیرے خلاف کر دیا گیا اور پھر میری اپنی جاتی کے لوگوں کو دولت کا لالچ دے کر خرید لیا گیا۔ اگلے اجلاس میں کسی سنجیدہ گفتگو کے بجائے میرے خلاف عدم اعتماد کی تجویز پیش کرکے اسے پاس کرا دیا گیا اور ایک ہنگامی جترا کے اہتمام کا اعلان ہوگیا ۔اس کے بعد سب کچھ میری سمجھ میں آگیا اور بد دل ہوکر میں نے سیاست سے سنیاس لینے کا فیصلہ کر لیا اور میں اب بھی اس پر قائم ہوں
جگو نے پوچھا اگر گستاخی معاف ہو تو ایک سوال کروں؟
جی ہاں کیوں نہیں بلاتکلف پوچھو وشوناتھ بولے
کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ یہ سنیاس ایک راہ فرار ہے؟
شاید کہ ایسا ہی ہو۔ جب میرے سارے ساتھیوں نے ایک ایک کر کے میرا ساتھ چھوڑ دیا تو میرے حوصلے پست ہوگئےتھے ۔ کاش کہ اس وقت مجھے تم جیسے مخلص اور بے غرض نوجوان میسر آتے لیکن ایسا نہ ہوا اور اب تو بیماری اوردرازی عمر نے مجھے اس قدر نحیف و لاغر کر دیا ہے کہ اگر چاہوں بھی تو کچھ نہیں کر سکتا
لیکن میں تو صحتمند بھی ہوں اور میرا حوصلہ بلند ہے ایسے میں میرے لئے کیا آدیش ہے
میں تمہارے لئے دعا کرتا ہوں اور میرا مشورہ یہ ہے تم جاکر ہری دوار کے یوگی بابا کا ساتھ دو وہ فی الحال اس نام کو درست کرنے کی مہم چلا رہے ہیں ۔
جگو نے کہا مجھے نہ جانے کیوں یوگیوں اور باباوں سے الجھن ہوتی ہے اس لئے کیا کوئی اور صورت ممکن نہیں ہے ؟
وشوناتھ نے مسکرا کر کہا اگر ایسا ہے تم جنوب میں وندیا چل کی جانب کوچ کرو ۔وہاں پر ایک انا ہزارے سرگرم عمل ہے اس کے ساتھ لگ جاو مجھے یقین ہے کہ تم کوئی بڑا کام کرو گے
جگو نے اٹھ کر احترام و عقیدت کے ساتھ وشوناتھ کے چرن چھوئے اور اپنی اگلی منزل کی جانب نکل کھڑا ہوا
[باقی آئندہ انشااللہ]
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1455555 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.